1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ڈاکٹر اسرار کے بیان کی مذمت ۔

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نوید, ‏20 جون 2008۔

  1. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    امید ہے کہ سب خیریت سے ہونگے


    میں یہ موضوع اس لیے بنا رہا ہوں‌کہ یہاں مختلف جماعتوں اور ان کے لیڈران کی جانب سے ڈاکٹر اسرار کے QTV والے بیان کے متعلق مذمتی بیان ارسال کیے جائیں ۔۔


    سب سے پہلے تحریک منہاج القرآن کا میرے پاس پہنچا ہے ۔ :horse:



    [marq=right:127f0eva][highlight=#FF0000:127f0eva]منہاج القرآن منہاج القرآن منہاج القرآن[/highlight:127f0eva][/marq:127f0eva]
    [highlight=#009900:127f0eva]ڈاکٹر اسرار احمد کی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی انتہائی قابل مذمت ہے : علامہ امداد اللہ نعیمی[/highlight:127f0eva]
    [align=right:127f0eva]جو واعظین علم حدیث کی ابجد سے واقف نہ ہوں انہیں حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے احتیاط کرنا چاہئے (منہاج القرآن علماء کونسل پنجاب کا ردعمل[/align:127f0eva]


    منہاج القرآن علماء کونسل پنجاب کے صدر علامہ امداد اللہ نعیمی نے ڈاکٹر اسرار احمد کے ایک ٹی وی چینل پر خطاب کے دوران سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کی جسارت کی پرزور مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واعظین جنہوں نے کسی مستند استاذ سے علم حدیث نہ سیکھا ہو اور جو فن حدیث کی ابجد اور باریکیوں سے بھی واقف نہ ہو اور اس سے لاعلم ہو کہ ائمہ حدیث کی کسی حدیث کے بارے میں کیا رائے ہے، انہیں اپنے خطابات میں احادیث مبارکہ کے حوالے سے احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل مبارکہ سے ہیں اور امیر المؤمنین اور امیر المسلمین ہیں۔ خارجی الذہن لوگوں کے علاوہ امت مسلمہ کا ہر فرد سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے محبت کو فرض عین سمجھتا ہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی سے امت مسلمہ کی دلآزاری ہوئی ہے۔


    حوالہ۔ http://www.Minhaj.org
    [marq=right:127f0eva][highlight=#FF0000:127f0eva]منہاج القرآن منہاج القرآن منہاج القرآن[/highlight:127f0eva][/marq:127f0eva]

    نوٹ‌۔ بیان کے ساتھ حوالہ بھی دینے کی کوشش کریں ۔


    خوش رہیں
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محترم نوید صاحب۔
    علامہ امداد اللہ صاحب سے عرض کریں کہ کسی اہل علم محدث صاحب سے ترمذی شریف کی اس حدیث کی سند و صحت پر روشنی ڈلوائیں۔ تاکہ پتہ چل سکے کہ اس حدیث پاک کا مقام کیا ہے ؟
    دوسروں کے بےاستاد ثابت کرکے بیان داغ دینا تو آسان ہے۔ لیکن اسکا علمی جواب بھی تو عوام کے سامنے لایا جائے۔
    شکریہ
    اگر حدیث واقعی صحیح ہے اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا ارادہ گستاخی کا نہیں بلکہ شراب کی حرمت حکم کے بتدریج اترنے کا بیان ہے۔ (کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ) کے ذکر کے فوراً بعد ویڈیو کلپ روک دیا گیا ہے۔ حالانکہ اسے پورا چلنا چاہیے تھا۔۔۔ تاکہ مکمل سیاق و سباق سے بات واضح ہوسکتی۔
    تو پھر ڈاکٹر صاحب کے بارے میں اتنی سخت زبان استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ممکن ہے چند روز تک وہ خود ہی اسکی وضاحت کردیں اور معاملہ ویسا نہ ہو جیسا سمجھا جارہا ہے۔

    والسلام
     
  3. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    السلام علیکم
    نعیم بھائی وضاحت تو ان کی آ چکی ہے اور وہ ابھی تک اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ یہ حدیث فلاں فلاں کتب میں موجود ہے اور اسے دور حاضر کے فلاں محدث اعظم اور فلاں مفسر اعظم نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ ان کی ویب سائٹ پر ان کی آفیشل سٹیٹمنٹ سنی جا سکتی ہے۔

    مگر اس کا کیا کہیں کہ شراب جن کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی وہ بھلا چھوڑے والے کب تھے اور اسی طرح حضرت علی (ع) کو حرمت شراب کی پہلی آیت نازل ہونے پر بھی منشاء قرآن کی سمجھ نہ لگی اور وہ بدستور پیتے رہے اور مالدار صحابہ کے شراب و کباب کی محفلیں گرم ہونے کا بیان ٹی وی پر لاکھوں کروڑوں عوام الناس کے سامنے لا کر موصوف اسلام کی کون سی خدمت سرانجام دینا چاہتے ہیں۔ کیا خدا نے کبھی ان کی گزری ہوئی زندگی کا اس تمسخرانہ انداز میں ذکر کیا؟ وہ تو ہمیشہ اپنے قرآن میں ان کی تعریفیں کرے اور امت کے سامنے انہیں بطور آئیڈیل پیش کرے اور آج کے ایک ایم بی بی ایس عالم آج کی بے راہ رو نسل کو ان کی عیاشیوں کی داستان سنا کر انہیں ذلیل کریں اور لوگوں کے احتجاج پر کج حجتی سے کام لیتے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار دے۔ استغفراللہ العظیم

    اگر آپ کو واقعی حدیث مذکوہ کی صحت و سند سے دلچسپی ہے تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا اس موضوع پر تسلی بخش خطاب ہو رہا ہے، جو چند دن بعد کیو ٹی وی پر نشر ہو گا۔ تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو
    viewtopic.php?f=15&t=4020&p=78387#p78387
     
  4. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

    امید ہے کہ خیریت سے ہونگے


    [highlight=#408000:3vtoita6][/highlight:3vtoita6]


    نوٹ ۔ نعیم بھائی اور منہاجین بھائی اس موضوع میں صرف مذمتی بیانات بھیجیں تو زیادہ مناسب ہے اس بارے میں بحث و مباحثہ کے لیے پہلے ہی ایک موضوع موجود ہے ۔۔۔
     
  5. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ڈاکٹر صاحب کی وضاحت دیکھنے کیلیئے
    http://www.tanzeem.org/broadcast/pressr ... efault.asp
    پر کلک کریں

    اس کے بعد کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ جو حق کا طالب ہے اس کے لیئے فرمان ربانی ہے

    والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا
     
  6. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    میں منتظم اعلیٰ سے اس لڑی کو بند کرنے کی درخواست کرتا ہوں ۔
    اور
    نوید کے تمام بے بنیاد الزامات / بیانات کی مذمت کرتا ہوں‌۔اس کو ایک شوشہ مل گیا ہے اسی کو بار بار لکھ کر خوش ہو رہا ہے۔

    اس کی تحریرکے کچھ اقتباسات اوپر اسی لڑی سے
    ":نعیم بھائی اور منہاجین بھائی اس موضوع میں صرف مذمتی بیانات بھیجیں تو زیادہ مناسب ہے"
    بیان کے ساتھ حوالہ بھی دینے کی کوشش کریں ۔

    "خوش رہیں"
    اس سے خوشی سنبھل نہیں پارہی ۔یو ٹیوب کے لنک دو دو دفعہ دے گیا ہے

    فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں۔
     
  7. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    بہت خوب !
    یعنی کیا اندھی عقیدت ہے کہ بات کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے اپنے آئیڈیل مولانا ڈاکٹر صاحب کا بیان سن کر ہی "کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی" جیسا بیان جھاڑ دیا۔
    حالانکہ بیان کردہ حدیث ضعیف، اور اسکے ایک راوی اپنی کمزور یادداشت کے باعث محدثین کرام کے ہاں ناقابل اعتبار گردانے جاتے ہیں۔ مولانا ڈاکٹرصاحب کو یہ کہنے کی توفیق تو نہیں ہوئی کہ میں نے ضعیف روایت بیان کی ہے اس پر معذرت خواہ ہوں۔
    بلکہ اپنے موقف پر ڈھٹائی سے قائم رہتے ہوئے صرف کسی کی دل آزاری پر "معذرت" کر لی ہے۔

    ویسے عرفان بھائی ۔ اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر جواب دیجئے گا۔
    کیا آپ کا ضمیر اور ایمان بھی آپ کو یہی کہتا ہے کہ خلیفہ راشد حضرت علی :rda: سمیت دیگر کئی عظیم صحابہ کرام رضوان اللہ علی کلھم شراب کے بارے میں اللہ تعالی کی وارننگ اتر آنے کے باوجود بھی حضور نبی اکرم :saw: کے بغیر اکیلے اکیلے جا کر دعوتیں اڑاتے تھے اور شرابیں پیتے تھے اور بقول ڈاکٹر مولانا صاحب "شراب ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی" ؟؟؟
    اگر آپ پوچھیں کہ "حضور نبی اکرم :saw: کے بغیر دعوتیں اڑانے والی بات کہاں سے نکلی" تو سیدھی سی بات ہے بھائی کہ ظاہر ہے حضور نبی اکرم :saw: اس دعوت میں شریک نہ تھے جبھی تو حضرت علی :rda: کو جماعت کے لیے آگے کیا گیا (بمطابق آپکے مولانا ڈاکٹر کی بیان کردہ ضعیف و ناقابل اعتبار روایت کے)

    بحث اور دفاعِ سرکار ڈاکٹر مولانا صاحب کو چھوڑ کر۔۔ صرف اپنا ایمان بتلا دیجئے۔
    عین نوازش ہوگی ۔ شکریہ
     
  8. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    سرکار "عقرب" صاحب

    جیسا کہ وضاحت میں‌کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ شراب کی حرمت سے پہلے کا ہے اور شراب کے حرام ہونے والی آیا ت ابھی نازل نہیں ہوئی تھیں۔ " فھل انتم منتھون"

    تو قارئین خود ہی دیکھ لیں
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    روایت انتہائی ضعیف اور راوی ناقابل اعتبار ہیں۔
    ضعیف روایت کو احکامات کے زمرے میں تو بالکل بھی معتبر قرار نہیں دیا جاتا۔
    اور پھر ویسے بھی الفاظ کے تعین میں بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ ذرا سی بےادبی بھی انسان کا ایمان غارت کر سکتی ہے۔ مثلاً ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے فرمایا
    " اتنا حکم سننے کے بعد کہ "شراب اور جوئے میں کچھ نفع ہے لیکن اس میں‌گناہ کم ہے " کچھ لوگوں نے تو چھوڑ دی
    لیکن جن کی گھٹی میں شراب پڑی ہوئی تھی وہ اتنی جلدی کہاں‌چھوڑنے والے تھے۔ "
    فرما کر گویا یہ سمجھا رہے تھے کہ چند عام صحابہ کو تو اللہ کے حکم کی پہلی بار ہی سمجھ آ گئی اور انہوں نے شراب سے توبہ کر لی جبکہ خلیفہ راشد ، دامادِ رسول ، شہرِ علمِ نبوت کا دروازہ ، حضرت علی :rda: اور عبدالرحمن بن عوف جیسے عظیم اصحاب کو ہی سمجھ نہ آ سکی۔ (معاذ اللہ)
    نیز ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے الفاظ سے یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ وہ بتانا چاہ رہے تھے کہ معاذ اللہ حضرت علی :rda: اور اکثریت صحابہ کرام اس پرلے درجے کے شرابی تھے کہ "شراب ان کی گھٹی میں‌پڑی ہوئی تھی" (استغفر اللہ من ذالک)

    ایسا درس سن کر کسی بھی مسلمان کے قلب و ذہن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی عظمت کم ہوگی یا بڑھے گی ؟
    بہت سی دیگر روایات کی رو سے یہ واقعہ بھی کتب احادیث میں موجود ہے کہ اس موقع پر حضرت علی :rda: نے جماعت نہیں‌کروائی تھی ۔
    پھر جان بوجھ کر ایک اسی ضعیف روایت کو کیوں بیان کیا گیا اور وہ بھی بنا بتلائے کہ یہ روایت ضعیف ہے ؟
    بعد میں معافی نامہ میں بھی ضعفِ روایت کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔
    کیا اس سے محترم ڈاکٹر صاحب کا یہ عقیدہ مراد لیا جائے کہ ان کی نظر میں سیدنا علی المرتضیٰ سمیت دیگر عظیم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا ادب و تعظیم صرف اسی درجے کا ہے ؟ اور وہ ان صحابہ کرام اور اہلبیت اطہار کی عظمت و فضیلت کی ہزاروں روایات سے صرفِ نظر کرکے اپنے اسی عقیدے کا پرچار کرنا چاہتے ہیں ؟
    یا اللہ ! اھدناالصراط المستقیم ۔ صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین۔ آمین بحق خاتم النبین :saw:
     
  10. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اللہم ! اھدناالصراط المستقیم ۔
    صراط الذین انعمت علیھم۔
    غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین۔
    آمین بحق خاتم النبین

    اگر عربی عبارت لکھنا ہو تو "یا اللہ " کی بجائے اللہم لکھا کریں کیونکہ" یا اللہ " عربی لفظ نہیں ہے۔

    بھرحال سورۃ فاتحہ کے ان الفاظ کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
     
  11. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    یہاں آپ کو مکمل بیان دینا چاہئے تھا تاکہ دوسرے بھی اس موقف سے آگاہ ہو سکیں۔
    سب سے پہلے تو یہ تحقیق ضروری تھی کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی شراب کی برائی آنے کے بعد لیکن حرمت شراب کا حتمی حکم آنے سے پہلے شراب پیتے رہے یا نہیں۔ اگر ان کے شراب پینے کا ثبوت نہ ملتا تو اس کے بعد ہی ڈاکٹر اسرار قابل مذمت ٹھہرتے۔

    کیا یہ بات غلط ہے کہ اگر شراب گھٹی میں پڑی ہو تو آسانی سے نہیں چھوٹتی لیکن آپ دیکھیں کہ حرمت شراب کا حکم آتے ہی پیالوں میں بھری ہوئی شراب تک بہا دی گئی۔ یہ تو عام صحابہ کرام کا عالم تھا تو پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی جیسے عظیم المرتبت صحابی، یکے از عشرہ مبشرہ، امیر المومنین اور برادر عم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلیم کا عالم کیا ہوگا۔

    ڈاکٹر اسرار نے تو حوالوں سے بات کی ہوگی پہلے تو ان کا رد ضروری ہے۔

    دنیا کا سب سے آسان کام دوسروں پر تنقید ہے اور یہ کام آپ سب بخوبی کر رہے ہیں۔

    یہاں پر میں نعیم بھائی کے بیان کی تائید بھی کروں گا اور ان کی ستائش بھی کہ انہوں نے بہت اچھی اور مناسب بات کی ہے۔ اگر سب دوست اسی اعلی ظرفی کا مظاہرہ کریں تو طرفین کے دلوں میں کدورت کی بجائے محبت بڑھے گی اور یہی مقصود ہونا چاہئے۔

    باقی آپ سب لوگ مجھ سے زیادہ صاحب علم اور قابلیت کے حامل ہیں۔ آپ بہتر جانتے ہیں کہ بات کس انداز میں کرنی چاہئے۔ ڈاکٹر اسرار احمد سے نظریاتی اختلاف بجا سہی لیکن ان کی بہر حال ایک علمی حیثیت ہے جس سے شاید کسی کو انکار نہ ہو گا۔
     
  12. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    میں سیف کی بات کی تائید کرتا ہوں
     
  13. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ شراب کی حرمت کا واقعہ اور اسکا شان نزول بیان کرنا اصل معاملہ نہیں ہے اصل معاملہ ڈاکٹر اسرار کے وہ الفاظ ہیں کہ جو انھوں نے مذکورہ واقعہ کی روشنی بطور تبصرہ ارشاد فرمائے ہیں یعنی ۔ ۔اگر آپکے ممدوح مذکورہ واقعہ کی وضاحت میں صرف تفسیر اور حدیث کے الفاظ تک ہی محدود رہتے تو ہم بھی کچھ تبصرہ نہ کرتے مگر جب انھوں حدیث اور تفسیر کے علاوہ اپنے الفاظ میں بھی تبصرہ فرمایا تو تب ان پر گرفت کی گئی ۔ اور یہ ہے وہ اصل معاملہ کی جس کی طرف کوئی بھی توجہ نہیں کررہا ۔ ۔ ک
    کوئی احادیث کی تحقیق کی بات کرتا ہے تو کوئی تفاسیر میں شان نزول کا ذکر کرتا ہے یہ سب باتیں اور ہمیں بھی تسلیم کہ تفسایر میں اور احادیث میں اس قسم کے واقعات بیان ہوئے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان واقعات کی فنی حیثیت کو بیان کیئے بغیر ان کے بنیاد بنا کر ایک اتنے بڑے عالم دین کا صحابہ کرام کے بارے میں اس طرح تبصرہ کرنا کہ صاف طور پر ان کے الفاظ کے ظاہر سے صحابہ کرام کی توہین کا پہلو نکلتا ہو کم از کم میری عقل سے تو باہر ہے کہ کیوں موصوف نے ایسا کیا؟ا اور وہ الفاظ درج زیل ہیں کہ جن کی وجہ سے اصل میں ڈاکٹر صاحب پر گرفت کی گئی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
    کہ جنکی طرف میں بار بار اشارہ کرچکا ہوں مگر نہ جانے کیوں آپ لوگوں فھم اس جانب متوجہ ہی نہیں ہوپاتا
    اثمھما اکبر من نفعھما ۔ ۔ یعنی اس میں گناہ کا پہلو جو ہے اس کے نفع اور فائدہ کے پہلو سے زیادہ ہے ، بس اتنا کہہ کہ چھوڑ دیا تو بہت سے لوگوں نے تو اسی وقت شراب ترک کردی اشارہ پا گئے
    لیکن یہ ہے کہ ظاہر بات اس پر جنکو ، جنکی گھٹی میں شراب پڑی ہوئی تھی صرف اتنی بات پر تو چھوڑنے والے نہیں تھے ۔ ۔ ۔
    اور خاص کر کے ڈاکٹر صاحب کہ یہ الفاظ کہ شراب جن کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی ۔۔۔
    یعنی انکے خیال میں حضرت علی اور دیگر عظیم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم معاذاللہ و استغفراللہ من ذالک
    ایسے شرابی تھے کہ جن کے لیے لفظ "گھٹی میں شراب پڑی ہونا " استعمال کرنا پڑا ۔ ۔ ۔


    ان الفاط کے بارے میں آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟ یعنی اگر چہ صحابہ کرام شراب کی حرمت سے پہلے شراب پیتے ہی ہوں تو کیا اتنے بڑے کبار صحابہ کی شان میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جائز ہوگا؟ مجھے اس سے غرض نہیں کہ مذکورہ واقعات کن احادیث یا تفاسیر میں بطور شان نزول آئے ہیں انکی وضاحت یا فنی حیثیت پر تو کوئی عالم دین ہی روشنی ڈالے گا مجھے صرف یہ بتایا جائے کہ ایک ایسا واقعہ جو کہ شراب کی حرمت سے پہلے کا واقعہ(بھلے وہ واقعہ صحیح احادیث سے چابت ہویا نہ ہو) ہے اس کو بطور استشہاد پیش کرکے صحابہ کرام کے بارے میں مندرجہ بالا الفاظ استعمال کرنا کون سے ایمان کاتقاضہ ہے ؟ ہمیں بتایا جائے کہ یہ الفاظ اور ان پر مبنی تبصرہ کس حدیث اور کس تفسیر میں آیا ہے اور اگر اب بھی بات آپ لوگوں کے ناقص فھم پر عیاں نہیں ہورہی تو پھر آپکو آپ کے ممدوح کی محبت مبارک ہمیں صحابہ کی ناموس سے کوئی بھی شئے عزیز تر نہیں اور میری یہ آخری رپلائی ہے اس لڑی میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
     
  14. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    سلام

    ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے خطاب کے ساتھ

    بات کو بتنگڑ بنانے والا معاملہ کیا جا رہا ہے​
    :takar:
     
  15. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    سلام
    جی ہاں واقعی اس لڑی کو بند کر دینا چاہیے

    اور عرفان بھائی :suno: نوید صاحب تو اپنے ہر پیغام کے نیچے خوش رہیں لکھتے ہیں :pagal:

    اللہ حافظ
     
  16. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    سلام


    اور میں بھی :hands:

    اللہ حافظ
     
  17. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    بہت اچھا تبصرہ ہے مگر حیرت ہے کہ کسی نے اسے قابل اعتناء ہی نہیں سمجھا۔

    عرفان بیٹا کیا آپ یہ بتانا پسند کرو گے کہ "یا اللہ" اگر عربی کا لفظ نہیں ہے تو اور کون سی زبان کا ہے؟ کم از کم یہ میری معلومات میں تو اضافہ ہو گا۔ میرے اس سوال سے شاید دوسرے بھی مستفید ہو سکیں۔
     
  18. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    "یا اللہ " لفظ پڑہنے میں "یلاہ " ہے۔ جیسے بسم اللہ میں میم کو لام سے ملایا جاتا ہے یا عبد اللہ میں دال میں لام سے ملایا جاتا ہے۔یہ عربی لفظ نہیں ۔ عربی لفظ اللٰھم ہے اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری دعاؤں میں یہی لفظ استعمال ہوا ہے ۔

    اس سے ثابت ہوتا ہے جن اذکار و ادعیہ یا اللہ وہ عجمی ہیں اور بعد کی پیداوار ہیں۔
     
  19. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    میرے سوال کا جواب نہیں ملے، میں نے یہ گزارش کی تھی:

    عرفان بیٹا کیا آپ یہ بتانا پسند کرو گے کہ "یا اللہ" اگر عربی کا لفظ نہیں ہے تو اور کون سی زبان کا ہے؟ کم از کم یہ میری معلومات میں تو اضافہ ہو گا۔ میرے اس سوال سے شاید دوسرے بھی مستفید ہو سکیں۔

    اور اگر آپ کو معلوم نہیں تو اتنے بڑے دعوے مت کرو۔ پہلے جا کر صرف و نحو پڑھو، منادیٰ کے احکام دیکھو، اس کے بعد آ کر ایسے فتوے دینا۔
     
  20. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ُامی
    میں عربی کا ایک طالب علم ہوں ۔
    یہ لفظ فارسی اور اردو میں مستعمل ہے۔
    باقی اگر آپ منادیٰ کے احکا م کے بارے میں‌ کچھ بیان فرمائیں گی تو میں آپ کا شکر گزار ہونگا ۔اور ایک طالب علم کی حیثیت سے میرے علم میں اضافہ ہوگا اور آپ کو بھی اس کا اجر ملے گا۔ یہ سیکھنے کا عمل ہے مجھے یہ لکھ کر کہ
    "یا اللہ " لفظ پڑہنے میں "یلاہ " ہے۔ جیسے بسم اللہ میں میم کو لام سے ملایا جاتا ہے یا عبد اللہ میں دال میں لام سے ملایا جاتا ہے۔یہ عربی لفظ نہیں ۔ عربی لفظ اللٰھم ہے اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری دعاؤں میں یہی لفظ استعمال ہوا ہے ۔

    اس سے ثابت ہوتا ہے جن اذکار و ادعیہ "یا اللہ" آتا ہے وہ عجمی ہیں اور بعد کی پیداوار ہیں۔"

    مجھے کوئی انعام ملنے والا نہیں
     
  21. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    امی جان

    اگر قرآن حکیم یا احادیث میں کہیں یہ لفظ ملے تو مجھے ضرور بتائیے گا

    آپکا تابع فرمان بیٹا
    عرفان
     
  22. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    عرفان بیٹا
    عربی میں چار حروف منادی ہوتے ہیں، جن میں سے ایک "یا" ہے۔ قرآن مجید میں حرف "یا" بے شمار مقامات پر آیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ بقرہ کی آیت نمبر 33 ملاحظہ ہو
    قَالَ يَا آدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَآئِهِمْ
    اب یہ تو میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر حرف "یا" عربی نہیں تو قرآن مجید میں کیسے اور کس عجمی دور میں شامل ہوا؟

    جواب میں آپ یقینا کہو گے کہ آپ کا اعتراض "یا" پر نہیں "یااللہ" پر ہے، تو بیٹا آپ خود ہی سوچو کہ جب حرف نداء "یا" عربی ہے اور لفظ "اللہ" بھی عربی ہے تو ان دونوں کو ملا کر بولنے سے یہ عجمی کیسے بن گیا۔ یہ یقینا کسی عجمی کی کارستانی ہے جو آپ کو ایسی عربی پڑھا رہا ہے ورنہ اہل عرب کے ہاں تو یہ مستعمل ہے۔

    رہی بات "یلاہ" کی، تو "یااللہ" کو کوئی بھی "یلاہ" نہیں پڑھتا، سب اسے (الف پر زبر کے ساتھ) "یااَللہ" ہی پڑھتے ہیں، اگر آپ کو "یااللہ" اور "یلاہ" میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تو آپ صرف اللھم پر ہی اکتفا کرو مگر جو لوگ اللھم اور یااللہ دونوں کو درست سمجھتے ہیں ان کے سر زبردستی الزام تو نہ دو کہ وہ "یا اللہ" کو "یلاہ" پڑھتے ہیں۔
     
  23. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    پیارے عرفان ! آپ نے فرمایا کہ آپ عربی کے طالب علم ہیں اور عربی حروف منادٰی میں لفظ یا کی آمیزش عجم کی پیدا وار ہے لہذا اس لفظ کو عربی ثابت کرنے کے لیے آپ کو قرآن یا حدیث کی کوئی مثال نقل کر کے دکھائی جائے تو آئے ہم آپکی یہ مشکل آسان کیے دیتے ہیں ہمارے اسی پیارے فورم پر ایک سیکشن ہے اسلامی تعلیمات کا سیکشن اس میں کچھ عرصہ پہلے محترم پیا جی نے ایک لڑی شروع کی تھی خوارج اور حروراء (گستاخان رسول )کو انتباہ کے نام سے اس میں دوسرے نمبر پر جو حدیث بیان کی گئی ہے اس کے عربی الفاظ میں سے میں صرف اتنا حصہ ہ نقل کروں گا جس سے آپکی تشفی ہوسکے الفاظ کچھ یوں ہیں ۔ ۔ ۔

    قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الجَبْهَةِ، کَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقُ الرَّأسِ،
    مُشَمَّرُ الإِزَارِ. فَقَالَ : يَارَسُولَ اﷲِ، اتَّقِ اﷲَ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں،


    یہ حدیث درج زیل کتب سے تخرین کی گئی ہے ۔ ۔الحديث رقم 1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : بعث علي بن أبي طالب و خالد بن الوليد رضي اﷲ عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم : 4094، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 742، الرقم : 1064، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 4، الرقم : 11021، و ابن خزيمة في الصحيح، 4 / 71، الرقم : 2373، و ابن حبان في الصحيح، 1 / 205، الرقم : 25، و أبو يعلي في المسند، 2 / 390، الرقم : 1163، و أبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 128، الرقم : 2375، و في حلية الأولياء، 5 / 71، و العسقلاني في فتح الباري، 8 / 68، الرقم : 4094، و حاشية ابن القيم، 13 / 16، و السيوطي في الديباج، 3 / 160، الرقم : 1064، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188، 192

    اب آپ فرمایئے کہ اگر لفظ یا عربی لغت میں اگر مستعمل نہیں تھا تو اس حدیث میں کیوں آیا ؟ ۔ ۔ ۔ یہ تو ابھی ایک روایت تھی میں اس پر آپ کو حدیث کے علاوہ تاریخ کی کتب سے بھی حوالاجات پیش کرسکتا ہوں کہ جس میں صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یارسول اللہ کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محترمہ بنتِ حوا صاحبہ اور محترم آبی صاحب۔
    مذکورہ مسئلہ میں قرآن و حدیث کی راہنمائی سے بات کو واضح کرنے پر بہت شکریہ ۔ اللہ تعالی دونوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
    اور خواہ مخواہ دین کو اشکالات و ابہامات کی نذر کرنے والے سخت مزاج دینی ملاّؤں کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین بحق سیدالانبیاء والمرسلین :saw:
     
  25. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    پیارے عرفان ! آپ نے فرمایا کہ آپ عربی کے طالب علم ہیں اور عربی حروف منادٰی میں لفظ یا کی آمیزش عجم کی پیدا وار ہے لہذا اس لفظ کو عربی ثابت کرنے کے لیے آپ کو قرآن یا حدیث کی کوئی مثال نقل کر کے دکھائی جائے تو آئے ہم آپکی یہ مشکل آسان کیے دیتے ہیں ہمارے اسی پیارے فورم پر ایک سیکشن ہے اسلامی تعلیمات کا سیکشن اس میں کچھ عرصہ پہلے محترم پیا جی نے ایک لڑی شروع کی تھی خوارج اور حروراء (گستاخان رسول )کو انتباہ کے نام سے اس میں دوسرے نمبر پر جو حدیث بیان کی گئی ہے اس کے عربی الفاظ میں سے میں صرف اتنا حصہ ہ نقل کروں گا جس سے آپکی تشفی ہوسکے الفاظ کچھ یوں ہیں ۔ ۔ ۔

    قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الجَبْهَةِ، کَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقُ الرَّأسِ،
    مُشَمَّرُ الإِزَارِ. فَقَالَ : يَارَسُولَ اﷲِ، اتَّقِ اﷲَ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں،


    یہ حدیث درج زیل کتب سے تخرین کی گئی ہے ۔ ۔الحديث رقم 1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : بعث علي بن أبي طالب و خالد بن الوليد رضي اﷲ عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم : 4094، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 742، الرقم : 1064، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 4، الرقم : 11021، و ابن خزيمة في الصحيح، 4 / 71، الرقم : 2373، و ابن حبان في الصحيح، 1 / 205، الرقم : 25، و أبو يعلي في المسند، 2 / 390، الرقم : 1163، و أبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 128، الرقم : 2375، و في حلية الأولياء، 5 / 71، و العسقلاني في فتح الباري، 8 / 68، الرقم : 4094، و حاشية ابن القيم، 13 / 16، و السيوطي في الديباج، 3 / 160، الرقم : 1064، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188، 192

    اب آپ فرمایئے کہ اگر لفظ یا عربی لغت میں اگر مستعمل نہیں تھا تو اس حدیث میں کیوں آیا ؟ ۔ ۔ ۔ یہ تو ابھی ایک روایت تھی میں اس پر آپ کو حدیث کے علاوہ تاریخ کی کتب سے بھی حوالاجات پیش کرسکتا ہوں کہ جس میں صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یارسول اللہ کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔[/quote:323zl2tv]

    بھائی لفظ "یا اللہ " کی بات ہورہی تھی ۔اب میں چیلنج کرتا ہوں کہ
    قرآن حکیم یا احادیث میں کہیں یہ لفظ ملے تو مجھے ضرور بتائیے
     
  26. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نعیم ھبائی خداکا خوف کھاؤ مجھے یہ بتاؤ کہ بنت حوا اور آبی نے اس مسئلہ میں قرآن و حدیث کی راہنمائی سے بات کو کیسے واضح کیا ہے۔
     
  27. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    اسلام و علیکم !
    آپ سب دوست کیسے ھیں۔میری سمجھ میں ایک چیز نہیں آ رہی۔اگر حضرت علی :rda: نے شراب پی تھی یا پیتے تھے تو یہ سب پہلے کا ھے۔جب حکم ھوا کہ شراب حرام ھے تو شراب کو نالیوں بہا دیا گیا۔آپ لوگ کیوں بات کا پتگڑ بنا رہے ھیں۔
    اور ڈاکڑ اسرار نے کیوں کوئی انہونی بات نہیں کہی۔ڈاکڑ اسرار نے اُس واقعہ کا زکر کیا ھے جو حدیث میں یا پھر تفسیر میں
    مہجود ھے۔لیکن ھم لوگ ایک دوسرے کی برائ تلاش کر رہے ھیں جو کہ قابل مذمت ھےآپ لوگ اپنے گربان میں جھانکے کہ ہر چیز کی خبر ھونے کئے باوجود غیبت کر رہے ھیں تو کیا یہ ھمارا عمل ٹھیک ھے؟
    اچھا کیا اسلام سے پہلے خانہ کعبہ میں بُت نہیں تھے؟خانہ کعبہ میں ایک سے زیادہ بُت تھے؟اسلام کے ظہور کے بعد بھی
    کئی سال بعد جب الللہ کی طرف سے حکم ھُوا تو بت توڑ دئیے گئے کیوں کہ اُس مسلمانوں کی تعداد بڑھ چکی تھی۔مسلم اکثریت میں تھے تو یہ آسانی سے ھو گیا۔
    الللہ کے بندوں تم باز آجائو ایک دوسرے پر کیچڑ ناں اُچھالو کیوں ھم لوگوں کو ایک دوسرے کی حرمت کا خیال رکھنا ھو گا۔یہ تو الللہ کے رسول صلی الللہ علی وسلم کا فرمان مبارک ھے۔ھم لوگ ایک دوسرے کی حرمت کا احساس کریں اور خیال رکھیں۔
    اخر میں یہی کہوں گا آپ لوگ دودھ کے دُھلے ھوئے ھیں۔غور تو کریں اپنے حال پر اور سب لوگ اپنے اپنے گریبان میں جھانکے۔
     
  28. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    پنل نے بالکل صحیھ بات کی۔ شاباش
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم پنل بھائی ، عرفان بھائی اور دیگر مدافعین حضرات !

    جتنے اچھے اچھے جملے آپ نے بولے ہیں۔ ماشاءاللہ آپ کی مثبت سوچ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی ۔
    میرا موقف بھی آپ والے جملوں والا ہے۔ لیکن صرف اتنی تبدیلی ہے کہ آپ نے یہ جملے محترم ڈاکٹر اسرار صاحب کے بےقصور ثابت کرنے کے لیے بولے ہیں ۔
    یہی جملے میری طرف سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے لیے سمجھ لیجئے۔

    اللہ تعالی قرآن مجید میں اور رسول اللہ اپنے فرامین میں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی اسلام لانے کے بعد والی کیفیت دکھانا چاہیں ۔ اسلام لا چکنے کے بعد انہیں جو بلند مرتبے عطا ہوئے انکا تذکرہ فرمائیں اور اہلبیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی شان و فضیلت دکھاتے چلے جائیں۔
    کہیں اہلبیت اطہار رضوان اللہ علیھم کو یطہرکم تطھیرا کا تاج پہنا کر ہر طرح کی آلودگی سے پاکی کا قرآنی اعلان ہو۔
    کہیں‌صحابہ کرام کے والذین معھم ، اشداء علی الکفار ، رحماء بینھم اور رکوع و سجود کی کثرت کا قرآنی ذکر ملے۔
    کہیں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم کو حضور اپنی سنت کے ساتھ جوڑتے نظر آئیں
    کہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کو ستاروں کی مانند قرار دے کر منبع ہدایت بنایا جائے
    کہیں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے احسانات نہ اتار چکنے کی ذکر فرما کر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی عظمت امت پر واضح کی جارہی ہو۔
    کہیں اہلبیت اطہار کی عزت و عظمت واضح کرتے ہوئے نبی اکرم کے بعد حضور کی آل و عترت و کتاب اللہ سے متمسک رہنے کا حکم دیا جائے
    کہیں حضور نبی اکرم اپنی ذات گرامی کا مومنین کا مولا ہونے کا اقرار لے کر مولا علی کا ہاتھ پکڑ کر امت کو بتائیں کہ من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ ۔ جس کا میں‌(محمد ) مولا ہوں اسکا علی مولا ہے۔
    کہیں سیدنا عمر کے سائے سے شیطان کا دور بھاگنا بیان ہورہا ہوں۔
    کہیں سیدنا عثمان غنی کے حیاء و غناء کے تذکرے کیے جائیں۔
    کہیں حضرت علی شیر خدا کو شہرِ علم نبوت کا دروازہ قرار دیا جارہا ہو۔

    اللہ تعالی اور اسکے پیارے رسول تو صحابہ کبار و اہلبیت اطہار رضوان اللہ علیھم کی شان و عظمت کا یہ پہلو دکھارہے ہوں
    اور خارجی فتنے سے متاثر دورِ حاضر کے مولانا، اپنی عقل و علم پر تکبر کرنے والے ، مفکر و دانشور ، ان عظیم اصحابِ رسول کے قبل از اسلام کی غریب و ضعیف روایات کہ جو محدثین کے نزدیک قابل قبول و قابل اعتبار ہی نہ ہوں ۔ اس امت کے سامنے بیان کرکرکے صحابہ کرام و اہلبیت اطہار رضوان اللہ علیھم کی شان میں تنقیصی انداز میں‌تقریریں کرکے دین اسلام کی کونسی عظیم خدمت سرانجام دے رہے ہیں ؟ اگر انہی اصحاب کبار و اہلبیت اطہار رضوان اللہ علیھم کی عظمت و فضیلت کی کوئی حدیث ان کے سامنے رکھ دیں تو روایت و ضعف حدیث کا بہانہ بنا کر فوراً اس سے پہلو تہی کرنے کی کوشش کریں گے۔ جبکہ کسی عظیم صحابی و دامادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں‌زبان درازی کرنے کے لیے ایسی ہی کسی ضعیف و غریب حدیث کو ٹی وی پر بیان کرتے چلے جائیں گے۔ اس رویہ کو کیا نام دیا جائے گا ؟

    اگر ایسے ایم بی بی ایس مفسرین قرآن کو انکی غلطی کا احساس نہ دلایا گیا تو کل کلاں کو یہ امت کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی بت پرستی کے دور کے واقعات سنا کر امت کے ذہنوں سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم جو دین اسلام کے ستارہ ہائے ہدایت ہیں انکا امیج ، انکی عظمت و فضیلت کے تصور کو بھی سبوتاژ کرنے کی جسارت کرسکتے ہیں۔

    اور پھر محترم ڈاکٹر اسرار صاحب کا لب ولہجہ اور اندازِ تقریر ملاحظہ کیا جائے۔ جس میں شہرِ علمِ نبوت کے دروازے یعنی سیدنا مولا علی جن کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ "قرآن اور علی کبھی آپس میں‌جدا نہیں " ان علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی نسبت فرماتے ہیں۔
    "پہلا حکم اترنے کے بعد کہ" شراب اور جوئے میں منافع کم اور نقصان زیادہ ہے" کچھ لوگ تو منشائے الہی کو پاگئے (یعنی عام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کو تو منشائے قرآنی سمجھ آ گیا کہ اللہ تعالی شراب کو ناپسند فرماتے ہیں)‌چنانچہ انہوں نے چھوڑ دی۔ ( ڈاکٹر اسرار صاحب کا یہ خیال ہے کہ معاذاللہ سیدنا علی ان "عام صحابہ کرام رضی اللہ علیھم" جتنی فہم و فراست اور فہمِ قرآنی نہ رکھتے تھے۔ اس لیے شراب پیتے رہے اور باز نہ آئے)
    اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی نسبت فرماتے ہیں
    "لیکن شراب جن کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی وہ اتنے حکم سے کہاں‌چھوڑنے والے تھے۔ چنانچہ شراب چلتی رہی"

    اب بتائیے کہ ایک بچہ جو 7 سال کی عمر میں نبی اکرم پرایمان لایا۔ حضور کو اپنا آئیڈیل بنا لیا، حضور کے پیچھے نمازیں پڑھنا شروع کردیں۔ اپنے گھر میں‌دعوتِ دین اسلام کے اجتماعات منعقد کرنا شروع کردیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چچازاد ہونے کی نسبت انکے شب و روز کا مشاہدہ بھی کرتا ہو۔ کیا وہ بچہ یا لڑکا حضور کے معمولاتِ حیات کو دیکھ کر انہیں اپناتا نہ ہوگا ؟ تو جب حضور نبی اکرم نے کبھی کوئی برائی نہیں کی۔ کیونکہ 40 سال کی عمر مبارک میں جب آپ نے بعثت کے بعد کفار و مشرکینِ مکہ کو دعوتِ توحید دی تو قرآن مجید نے دعوتِ توحید پر پہلی دلیل خود حیاتِ نبی کو بنایا تھا۔ فقد لبثت فیکم عمرا افلا تعقلون۔۔۔ حضور نبی اکرم نے فرمایا اے مشرکین مکہ ! میں نے تمھارے درمیان اپنی عمر گذاری ہے ۔ کیا تم اسے دیکھ کر عقل و سمجھ نہیں حاصل کرتے؟
    یعنی اگر میری زندگی پاک و صاف ہے تو پھر مان جاؤ کہ میری دعوتِ توحید بھی سچی ہے۔
    اب ایسے نبی اکرم کے زیرسایہ پرورش پانے والے سے ایک غریب و غیر معتبر حدیث کو پڑھ کر یہ توقع باندھنا اور لوگوں کے ذہنوں میں‌یہ تصور جمانے کی کوشش کرنا کہ وہ معاذاللہ اس پرلے درجے کے شرابی تھے کہ
    "جن کی گھٹی میں‌شراب پڑی ہوئی تھی ۔۔ وہ کہاں‌ چھوڑنے والے تھے" جیسے الفاظ استعمال کیے جائیں ؟
    ذرا اپنے گریبان میں جھانکیے ۔ اگر کوئی آپ کے والد کی پرانی گذری ہوئی ایسی برائی جس سے وہ توبہ کرچکے ہوں۔ کئی برسوں بعد اور بالخصوص انکی وفات کے بعد محلے کی مسجد کے منبر پر بیٹھ کر، بلکہ ٹی وی پر آکر بیان کرنا شروع کردے اور کہنا شروع کردے کہ وہ تو انکے توبہ سے پہلے کا بیان کررہا ہوں۔
    تو آپ کے دل پر کیا گذرے گی اور آپ کا ردِّ عمل کیا ہوگا ؟
    ڈاکٹر اسرار احمد کی عزت و حرمت کی اتنی پاسداری ہوگئی کہ سب لوگ "برداشت" و "اخوت" کا درس دینا شروع کردیں۔ تو کیا صحابہ کبار رضوان اللہ علیھم اور دامادِ رسول ، سیدۃ النساء اہل الجنہ سیدہ فاطمۃ الزاہرا رضی اللہ عنھا کے سر کے تاج اور سیدالشباب اہل الجنہ جنتیوں کے جوانوں کے سردار سیدنا حسنین کریمین رضوان اللہ عنھما کے والد گرامی مولا علی المرتضی شیرخدا اور دین اسلام کے لیے تن من دھن لٹا دینے والے عظیم صحابہ کرام بالخصوص حضرت عبدالرحمن بن عوف اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے عظمت کا اتنا سا بھی پاس نہیں کہ ایسے ڈاکٹر محترم کو انکی غلطی کا احساس ہی دلایا جاسکے اور ان کی اس جسارت پر احتسابی کلمہ ہی لکھا جاسکے ؟

    ذرا اپنے ایمان، اپنی عقیدت، اپنی محبت، اور اپنے ادب و احترام کے میزان پر ایک طرف اہلبیت اطہار و صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی عزت و ناموس اور دوسری طرف ڈاکٹر اسرار احمد اور ایسے دیگر مولانا، مفکرین و راہنماؤں کی عزت و ناموس کو رکھیے اور دیکھیے کہ ایمان کا جھکاؤ کس طرف ہے۔

    والسلام علیکم
     
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    :salam: عرفان بھائی ! محترم آپ نے میری ایک عرض کا جواب کافی دنوں سے نہیں دیا۔ براہ کرم توجہ فرمائیے۔

    کیونکہ ترمذی شریف ہی کی حدیث پاک ہے (لیکن یہ ضعیف نہیں ہے)

    یہ حدیث پاک بھی ترمذی شریف ہی کی ہے ۔۔۔

    عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم : رَحِمَ اﷲُ أَبَا بَکْرٍ زَوَّجَنِيَ ابْنَتَهُ، وَ حَمَلَنِيْ إِلٰي دَارِ الْهِجْرَةِ، وَ أَعْتَقَ بِلَالًا مِنْ مَالِہِ، رَحِمَ اﷲُ عُمَرَ، يَقُوْلُ الْحَقَّ وَ اِنْ کَانَ مُرًّا، تَرَکَہُ الْحَقُّ وَمَا لَہُ صَدِيْقٌ، رَحِمَ اﷲُ عُثْمَانَ، تَسْتَحِيْہِ الْمَلَائِکَۃُ، رَحِمَ اﷲُ عَلِيًّا، اللَّھُمَّ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ. رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ.

    ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دی اور مجھے دار الہجرۃ لے کر آئے اور بلال کو بھی انہوں نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔
    اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے یہ ہمیشہ حق بات کرتے ہیں اگرچہ وہ کڑوی ہو اسی لئے وہ اس حال میں ہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں۔
    اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے۔ اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
    اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق اس کے ساتھ رہے۔ اس حدیث کو امام ترمذي نے روایت کیا ہے۔‘‘

    الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن ابي طالب، 5 / 633، الحديث رقم : 3714،
    و الحاکم في المستدرک علي الصحييحين، 3 / 134، الحديث رقم : 4629،
    و الطبراني في المعجم الاوسط، 6 / 95، الحديث رقم : 5906

    اب ایک سوال اور کردیتا ہوں۔ یا سوال بھی نہیں بلکہ صرف سوچنے کے لیے ایک جہت دے رہا ہوں بری لگے تو پیشگی معذرت۔ کہ
    اگر خدانخواستہ کسی کے والد گرامی کسی وقت میں کوئی حرام کام کرتے تھے۔ بعد میں‌توبہ کرلی۔ اور جب وہ دنیا سے نظامِ الہی کے تحت رخصت ہوجائیں تو کوئی ڈاکٹر ، کوئی مولانا، کوئی مفکر، کوئی انقلابی راہنما ، اجتماعِ جمعہ میں، یا پھر اخبارات و میڈیا میں یا ٹی وی پر آکر ان صاحب کی توبہ سے پہلے کے ان حرام کاموں کی تفصیلات بتانا شروع کردے تو ان والد کی اولاد کے ضمیر پر کیا گذرے گی ؟ کیا محسوسات ہوں‌گے ؟ اور کیا ردّ عمل ہوگا ؟


    اے کاش کبھی ہم اکیلے میں رب تعالی کے حضور دو سجدے کر کے اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ آیا میرے دل میں اپنے والد کے ساتھ محبت و عقیدت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے ساتھ محبت و عقیدت کا توازن کیا ہے ؟ یا پھر اہلبیت اطہار، صحابہ کبار رضوان اللہ علیھم اور ہمارے انقلابی راہنما، ڈاکٹر صاحب، مفکر صاحب، پیرومرشد کے ساتھ عقیدتوں کا توازن کیا ہے۔ آپکے اوتار میں تو پہلے ہی ترازو ہے۔ ذرا دونوں پلڑوں میں محبتوں اور عقیدتوں کا ایمانی وزن تول کر دیکھیے کہ کونسا پلڑا بھاری ہے۔

    امید ہے ہمیں اپنے درجہء ایمان کا خود بخود ادراک ہوسکتا ہے۔

    عرفان بھائی ۔ اور دیگر مدافعین حضرات۔ اگر ہوسکے تو میری بات کا دوٹوک اور ٹو دی پوائینٹ جواب ضرور دیجئے گا۔ شکریہ
    والسلام علیکم[/quote]
     

اس صفحے کو مشتہر کریں