1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ڈاکٹر اسرار صاحب کے بیان کی حیقیت ۔

Discussion in 'حالاتِ حاضرہ' started by Admin, Jul 25, 2008.

  1. Admin
    Offline

    Admin منتظم اعلیٰ Staff Member

    Joined:
    Aug 12, 2006
    Messages:
    687
    Likes Received:
    2
    ملک کا جھنڈا:
  2. جامی
    Offline

    جامی مبتدی

    Joined:
    Jul 24, 2008
    Messages:
    7
    Likes Received:
    0
    بہت مہربانی جناب آپ نے شئیر کیں باتیں میں آپ سے بلکل اتفاق کرتا ھوں یہ لوگ مسلمانوں کو لڑانے کی سازش میں مصروف ھیں تواتر سے ایک پروپیگنڈا کیا جا رہا ھے۔بیشک یہ ظالم لوگ ھے۔اور یہ لوگ گہنونی سازش میں مصروف ھے۔ان کے چہرے نور سے خالی ھے ان کے چہروں پر پھٹکار برس رہی ھے اور اﷲ سبحان تعالی کی طرف سے یہی ان کی سزا ھے۔
    باقی دلوں کے حال وہی جنتا ھے جو غیب کا علم رکھتا ھے بیشک میرا اﷲ
    ھر بات سے با خبر ھے۔
     
  3. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    ابن آدم بھائی

    ڈاکٹر اسرار کےادارے شے شائع ہونے والی اس وضاحت کے بعد ان پر عائد الزام جس طریقے سے باطل ثابت ہو رہا ہے اب کسی کو اس پر معترض ہونے کی جرات نہیں ہونی چاہیئے لیکن اگر کوئی پھر اپنی کسی اندرونی سازش کے تحت ایسا کرتا ہے تو پھر اسے پہلے ان محققین کو بھی ان ہی الزامات سے نوازنا پڑے گا جنہوں نے یہ روایات اپنی کتب میں درج کی ہیں۔

    ڈاکٹر اسرار کے خلاف سارے فساد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل بات کچھ اور تھی جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آڑ اور بہانے سے سامنے لایا گیا تھا کیونکہ جو لوگ 30 صحیح روایات کا مسلسل حوالہ دے رہے تھے کیا ان کے علم میں یہ سارے حوالے نہیں تھے اور اگر نہیں تھے تو جزوی علم کی بنا پر وہ کس طرح کسی کو ملزم ٹھہرا سکتے ہیں؟

    امید ہے کہ معترضین اپنے موقف پر غور فرمائیں گے اور سبائی سازشیوں کا آلہ کار بننے کی بجائے ان سازشوں کا قلع قمع کرنے کی طرف دھیان دیں گے۔
     
  4. فرخ
    Offline

    فرخ یک از خاصان

    Joined:
    Jul 12, 2008
    Messages:
    262
    Likes Received:
    0
    میں سیف بھائی سے بالکل اتفاق کرتا ہوں
    عابد بھائی سے ایک دوسرے فورم پر گفتگو کرتے ہوئے کچھ باتیں‌سامنے آئیں اور اس سے مجھے شک گزرا کہ یہ واقعی ایک سازش ہے:

    1۔ QTV کا تقریبآ 12 سال پہلے کی ڈاکٹر صاحب کی وڈیو نکالنا اور بغیر تحقیق کے نشر کر دینا۔ کیا QTV جیسے اسلامی چینل کی ٹیم جو اے آر ؤائی کے زیر اثر کام کرتی ہے، میں‌کوئی ایسے لوگ نہ تھے جو پہلے اس وڈیو کے مواد کا جائیزہ لیتے اور پھر نشر کرتے تاکہ ایسا کوئی فتنہ کھڑا نہ ہوتا؟ اور اگر انہوں‌نے ایسا جان بوجھ کر کیا اور جو لگ بھی رہا ہے، تو پھر مجھے ایسی روشن خیالی کے تحت آزادی کا دوسرا رخ مطلب سمجھ آیا شروع ہوچکا ہے
    2۔ QTV یا ARY کا ڈاکٹر طاہر القادری سے اس وڈیو کے جواب میں‌بیان کرنے کی درخواست کرنا اور بیان آ بھی جانا
    3۔ ڈاکٹر اسرار کے خلاف اہل تشیع اور بریلوی حضرات کے مظاہرے اور حد سے نکلے ہوئے شدید ردِعمل کا سامنے آنا

    اور اسی طرح کے دیگر واقعات کسی سازشی ٹولے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو ایسی سازشیں‌کر کے علماء کرام کے خلاف نفرت پھیلا رہا ہے تاکہ انتشار کو فروغ دیا جا سکے۔ اسی ضمن میں‌یہ بھی بتا دوں کہ خود ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف بھی اتنا مواد مہیا کیا جاچکا ہے کہ ان سے نفرت کرنے والوں‌میں‌بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

    اور اسی طرح ڈاکٹر ذاکر نائیک کے یزید کے لفظ کے ساتھ انگریزی میں‌یہ کہنے کو:
    May ALLAH BE PLEASED WITH HIM
    ان کے خلاف اٹھنے والے شدید ردِ عمل کو دیکھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ دشمن ہماری قوم کی ذھنیت سے پورا فائیدہ اٹھا رہا ہے جو کسی بھی عالم کی تمام علمی قابلیت اور خدمات کو ایک طرف رکھ کر کسی ایک معاملے کو پکڑ کر بات کو بگاڑنے کے ماہر ہیں۔

    حالانکہ علما اکرام کو نبیوں اور صحابہ کا وارث سمجھا جاتا ہے اور ان کی جو عظمت جو قرآن و سنت میں بیان ہوئی ہے وہ ان باتوں سے بہت بلند ہے۔

    لیکن یوں لگتا ہے، کچھ لوگ اوپر آنے کے لیئے علما کے خلاف اب ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگے ہیں۔ اسی ضمن میں مجھے قربِ قیامت سے متعلق یہ حدیث یاد آجاتی ہے:
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
    آخری زمانے میں "روبیضہ" گفتگو کیا کریں گے؟ صحابہ اکرام رضی اللہ عنم نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، یہ روبیضہ کیا ہے؟ آپ :saw: نے فرمایا، وہ احمق لوگ جو علم نہیں رکھتے ہونگے مگر لوگوں کے معاملات پر عالموں کی طرح گفتگو کرتے ہونگے اور دین کی تباہی کا باعث بنیں گے۔

    اور مجھے شدید طور پر احساس ہو رہا ہے، کہ روبیضہ اٹھنے کے لیئے زور لگا رہے ہیں۔

    اللہ تعالٰی ہمیں اور ہمارے علماء کو ہر طرح کے فتنوں‌سے محفوظ رکھے۔ آمین
     
  5. آبی ٹوکول
    Offline

    آبی ٹوکول ممبر

    Joined:
    Dec 15, 2007
    Messages:
    4,163
    Likes Received:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم فرخ بھائی !
    آپ لوگ جس بیان کہ سامنے آنے پر بہت شور مچارہے ہیں آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں یہ بیان خود ڈاکٹر اسرار احمد کی زبان اور پھر اسکے بعد ان کی تنظیم کی ویب سائٹ پر موجودہ شکل میں تفصیل کے ساتھ بہت پہلے ملاحظہ کرچکا ہوں اور اسکے بعد بھی میرا مطالبہ وہی ہے جو کہ میں نے کئی مرتبہ نقل کیا کہ ڈاکٹر صاحب معافی مانگیں ۔ ۔ ۔ ۔
    رہ گیا مذکورہ روایت کا 28 سے زیادہ کتب تفسیر میں ہونا اور اس پر آپ لوگوں کا خوش ہونا تو معاف کیجیئے گا یہ سب علم اصول حدیث اور اصول تفسیر سے ناواقفیت کی بنا پر ہے ترمذی کی جو روایت 28 تفاسیر میں آئی ہے ان سب تفاسیر کا اصل ماخذ خود ترمزی ہی ہے یعنی وہ ان سب تفاسیر میں بحوالہ ترمذی ہی آئی ہے لہذا وہ عددی اعتبار سے ایک ہی روایت کہلائے گی جبکہ اس کے مقابلے میں جو دیگر روایات ایسی آئی ہیں کہ جن میں حضرت علی کی امامت کا زکر نہیں وہ مختلف کتب میں سے مختلف اسناد و طرق سے آئی ہیں لہزا انھے عددی برتری کا حق حاصل ہوگا نہ کہ ترمزی کی غریب روایت کیونکہ وہ ایک ہی روایت ہے کہ جسے خود ترمزی بھی غریب گردانتے ہیں اور آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ غریب علم اصطلاح منفرد روایت کو کہتے ہیں [highlight=#FFFF80:lutqpnge]ایسا منفرد جو اپنے اقارب سے دور ہٹ جائے یعنی ایسی روایت جسے صرف ایک روای نقل کرے مزید سہولت کے بیان کردوں ہر وہ روایت غریب ہوگی جسے ایک شخص روایت کرتا ہو خواہ تمام طبقات میں یا چند طبقات میں[/highlight:lutqpnge]۔۔ ۔ جہاں تک ترمزی کی روایت کا 28 سے زائد تفاسیر میں ہونے کا ذکر ہے تو میرے بھائی عرض یہ ہے کہ یہ تو ابھی 28 کا زکر ہو ہوسکتا ہے ترمزی کی وہ روایت 28 سے بھی کہیں زائد کتب تفاسیر میں بحوالہ ترمزی ہی مذکور ہو کیونکہ تفاسیر تو سینکڑوں کی تعداد میں لکھی جاچکی ہیں مختلف زبانوں میں لہزا ہر تفسیر میں ترمزی کی اس روایت کے پائے جانے سے اسے عددی برتری نہیں حاصل ہوسکتی ۔ ۔ باقی آپ نے ایک مقام پر فرمایا کہ جب وہ روایت صحیح نہیں تھی تو اتنے لوگون نے کیوں اپنی تفسیر میں اسے جگہ دی تو اس اشکال پر ہم نے آپ سے عرض کی تھی تفاسیر میں مفسرین کا اپنا اپنا اسلوب ہوتا ہے مگر آپ کو ہماری بات سمجھ میں نہیں آئی اور آپ نے اختلاف کیا یہ کہہ کر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مفسرین ضعیف حدیث اپنی کتاب میں درج کریں تو بھائی یہ ایک حقیقت ہے بعض دفعہ کو مفسر کسی روایت کو صحیح سمجھ رہا ہوتا ہے جب کہ علم نقد و جرح کے حوالے سے وہ صحیح نہیں ہوتی اور اسی طرح کوئی مفسر کسی روایت کو ضعیف سمجھ رہا ہوتا ہے جبکہ علم اصول حدیث کےا عتبار سے وہ روایت صحیح ہوتی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی بھی روایت کی صحت اور ضعف کا مدار اس کا کسی بھی کتاب میں مزکور ہونا نہیں ہوتا بلکہ اس کا مدار علم نقد و جرح ہے ۔ ۔
    اور اگر آپ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا اس روایت(یعنی ترمزی والی) پر خطاب ایک بار غور سے سن لیں تو آپ پر ترمزی کی اس روایت کی نہ صرف غرابت واضح ہوجائے گی بلکہ سند اور متن کے اعتبار سے شدید ترین ضعف بھی عیاں ہوجائے گا علاوہ ازیں کے سند کے روایاں ہر جو جرح ہوئی ہے وہ الگ معاملہ ہے ۔کیونکہ اس خطاب میں ڈاکٹر صاحب نے علم حدیث کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ مزکورہ روایت کسی بھی حوالے سے لائق استدلال نہیں اسکی سند ایک تو غرابت کا شکار ہے پھر اس میں شدید اضطراب ہے اور پھر اسکے متن میں بھی شدید اضطراب ہے اور اسکے علاوہ سند کے روایان پر جرح الگ کی گئی ہے ۔ ۔ جبکہ اس کے مقابلے ان روایات کی تعداد کئی زیادہ ہے کہ جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کا زکر نہیں ۔ ۔ ۔

    فرخ بھائی جس فورم کی وجہ سے یہ سوال آپ کے زہن میں آئے وہاں پر میں ان سوالوں کا تفصیلی جواب بھی دے چکا ہوں اور یہ وہی سوال ہیں کہ جو وہاں پر ایک صاحب کے زہن میں آئے تھے لہذا میں وہی جواب یہاں بھی کاپی پیسٹ کرتا ہوں [highlight=#FFFFBF:lutqpnge]لیکن یاد رہے میرے جواب میں میرے مخاطب وہی صاحب ہیں کہ جن کو جواب دیتے ہوئے میں نے وہ الفاظ لکھے تھے[/highlight:lutqpnge]۔ ۔ ۔ ۔
    ہمارا جواب درج زیل ہے نوٹ ہوسکتا ہے اس میں بعض ایسےسوالات کا جواب بھی ہو جو کہ فرخ صاحب نے نہیں کیے ۔ ۔ ۔جوابات کچھ طویل ہیں اس لیے معزز قارئین سے انکی طبعی اکتاہٹ پر دلی معذرت ۔ ۔ ۔
    اسلام علیکم معزز قارئین کرام !
    میں ہرگز اس مضحکہ خیز پوسٹ کا جواب نہ دیتا اگر بالخصوص مجھے یہاں مخاطب نہ کیا گیا ہوتا ۔ کیونکہ میں عموما اس قسم کے لوگوں سے پرہیز ہی کرتا ہوں کہ جن کے پاس معاملہ فھمی کی اہلیت یا تو سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی یا پھر ان میں اتنی لیاقت نہیں ہوتی کہ کسی بھی معاملے کی نزاکت کو بھانپ سکیں ۔ ۔ ۔ اب حضرت کی اسی پوسٹ کی مضحکہ خیزی کا حال آپ سب کے سامنے ہے ۔ موصوف نے عنوان چنا ہے 11 سال بعد ۔ ۔ ۔اور یہ عنوان قائم کرکے اپنے تئیں حضرت بڑے دور کی کوڑی لائے ہیں اور اس پر نقطہ آفرینی فرما کر یوں خوش ہورہے ہیں کہ جیسے جو نقطہ موصوف نے پکڑا ہے وہ ان سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا([highlight=#FFFFBF:lutqpnge]ارے حضرت یہ تو آپکے ممدوح نے اپنے پہلے وضاحتی بیان میں ہی فرما دیا تھا کہ کیو ٹی وی پر انکے آج سے کوئی آٹھ دس سال قبل کے درس قرآن پر یہ تمام معاملہ ہوا)[/highlight:lutqpnge] لیکن آپ تو اس نقطہ آفرینی پر یوں بغلیں بجا رہے ہیں جیسے آپ نے کوئی ٹائم مشین ایجاد کرلی ہو ۔معزز قارئین کرام زرا موصوف کی سنجیدہ بزلہ سنجی کا ایک منظر آپ بھی پھر سے ملاحظہ فرمایئے ۔ ۔ ۔ حضرت فرماتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ سب سے پہلی بات جو کہ بنیادی بات ہے اور اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ یہ بیان جو کہ کیو ٹی وی نے نشر کیا تھا وہ اب کا نہیں ہے یعنی موجودہ نہیں ہے اور اب سب کو جان کر یقینا حیرت ہوگی (حالانکہ ہم نے ڈاکٹر صاحب کے ابتدائی وضاحتی بیان سے ہی یہ جان لیا تھا کہ یہ بہت پرانا خطاب ہے اور ہمیں کوئی حیرت نہ ہوئی) کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ بیان آج سے 11 سال پہلے کا ہے انھوں نے یہ بیان 11 سال پہلے 1997 میں اپنے درس قرآن میں دیا تھا جو کہ کیو ٹی وی والوں نے اب 11 سال بعد نشر کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر آگے جاکر کر موصوف نے اس سارے معاملے کو شیعہ سنی فساد کروانے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس کے ڈانڈے مینڈھے ملک دشمن بیرونی طاقتوں سے جا ملائے ہیں اور پھر اس سارے کے سارے معاملے کا سارا زمہ دار پرویز مشرف کو قرار دے دیا ہے [highlight=#FFFFFF:lutqpnge]اجی آپ کہہ سکتے ہیں اور ضرور کہہ سکتے ہیں اور اگر آپ یہ بھی فرما دیتے کہ وہ مبینہ درس قرآن بھی ڈاکٹر اسرار صاحب نہیں بلکہ خود پرویز مشرف صاحب نے دیا تھا تو تب بھی ہم آپکا کیا بگاڑ لیتے کیوں کہ ہوسکتا ہے کیو ٹی ویوالوں نے غیر ملکی طاقتوں کے زیر اثر پرویز مشرف کے دباؤ میں آکر پرویز مشرف صاحب کے بیان کو ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا بیان بنا دہا اور کمال خوبصورتی سے بنادیا یعنی فوٹو بھی اسرار احمد صاحب کی پیش منظر میں رہی اور لب بھی انہی کے ہلتے رہے مگر الفاظ اور بیان اصل میں پرویز مشرف صاحب کا تھا ہیں ناں ۔ ۔ ۔۔[/highlight:lutqpnge]اب قارئین کی تفریح طبع کی خاطر ان سوالات کے جوابات کی طرف آتا ہوں جو کہ موصوف نے قائم فرمائے ہیں وگرنہ ہمارے فھیم قارئین پر ان سوالات کی مضحکہ خیزی تو یقینا پہلے سے عیاں ہوگی ۔
    پہلا سوال موصوف نے اس صورت میں وراد کیا ہے کہ ۔ ۔ ۔ورنہ حب صحابہ اور عشق صحابہ کے نعرے لگانے والے یہ لوگ 11 سال پہلے کہاں تھے جب ڈاکٹر صاحب نے اسی وقت یہ واقعہ روایت کیا تھا اور یہ کہ کیو ٹی وی کہ جس کے پاس ہر عالم کا تقریبا ہر بیان محفوظ ہے ، نے 11 سال بعد اب ہی کیوں نشر کیا اور وہ بھی کاٹ کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جواب : قارئین کرام اصل میں اس ایک سوال میں تین سوال ہیں اور تینوں ہی موصوف کی معاملہ فھمی پر دال ہیں نمبر 1 یہ کہ ۔ ،۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ 11 سال پہلے کہاں تھے جب ڈاکٹر صاحب نے اسی وقت یہ واقعہ روایت کیا تھا ؟
    اس کا جواب حضرت صاحب آپکو معلوم ہونا چاہیے کہ ہر عالم دین کا ایک مخصوص حلقہ احباب و حلقہ اثر ہوتا ہے اور عمومی طور پر ہر عالم اپنے حلقہ حباب کے ذریعے سے ہی اپنے حلقہ اثر تک اپنی بات پہنچاتا ہے اور اس کے اس بات کو پہنچانے کے مختلف زرا ئع ہوتے ہیں کبھی کسی کے گھر دعوت میں درس قرآن کا کبھی کسی بہت بڑے اجتماع کی صورت میں کبھی کسی نجی تقریب یا سمینار میں وغیرہ وغیرہ اور جہاں جہاں اس قسم کے ایکٹویٹی کوئی بھی عالم انجام دیتا ہے اس کا باقاعدہ ریکارڑ عمومی طور پر انتظامیہ کی جانب سے رکھا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب چونکہ ایک جماعت کے بھی بانی ہیں لہزا بالخصوص جماعت کی انتظامیہ ان کے اس قسم تمام ریکارڈ کو محفوظ رکھتی ہوگی جہاں تک یہ بات ہے کہ آج 11 سال بعد ہم ان کے اس پرانے بیان پر کیوں شور مچا رہے ہیں تو عرض ہے کہ ہم ڈاکٹر صاحب کے بیان پر شور نیا یا پرانا ہونے کی بنا پر نہیں مچا رہے بلکہ ان کلمات کی وجہ سے مچا رہے ہیں جو کہ اس بیان میں تھے اور ظاہر سی بات ہے کہ جب ہمارے سامنے ایک چیز آئے گی تو تب ہی ہم اس پر اپنی کوئی رائے دے سکیں گے ناں اب یہ تو نہیں کہ ہمیں الہام ہوجائے کہ کل ڈاکٹر صاحب کیا کریں گے یا پھر پرسوں انھوں نے اپنے گھر پر کیا کیا تھا وغیرہ وغیرہ ہاں تو بات ہورہی تھی 11 سال بعد شور مچانے کی تو میرے عزیز عرض یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے مزکورہ درس قرآن یقینا اپنے مخصوص حلقہ احباب و اثر میں دیا ہوگا اور اسیے اجتماعات میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کہ مخالف نقطعہ نظر رکھتے ہوں اور ہو بھی سکتا ہے کہ جب انھوں یہ خطاب کیا ہو اس وقت اس مجمع کے افراد میں سے بعض نے اس موضوع پر اختلاف کیا ہو لیکن چونکہ معاملہ ایک مخصوص کمیونٹی تک محدود تھا اس لیے زیادہ شور نہ مچا ہو لیکن جب یہی بیان ایک بین الاقوامی(کیو ٹی وی) پلیٹ فارم سے پیش کیا کہ جہاں تک کروڑوں لوگوں کی بیک وقت رسائی ممکن ہے تو یہ معاملہ عامۃالناس کے سامنے آگیا تو اس ہر مکتبہ فکر کی جانب سے شدد رد عمل سامنے آیا ۔ ۔۔ لہزا آپ اس بات کی نزاکت کو سمجھئیے کہ کسی بھی عالم کا اپنی مخصوص کمیونٹی میں خطاب کرنا ایک الگ امر ہے اور جب وہی خطاب کسی بھی انٹرنیشنل میڈیا کی وساطت سے عوام کے سامنے*آئے گا تو اس کی ایک اور اہمیت ہوجائے گی ۔ ۔ ۔
    آپکا دوسرا سوال اس صورت میں ہے کہ ۔ ۔ ۔اور یہ کہ کیو ٹی وی کہ جس کے پاس ہر عالم کا تقریبا ہر بیان محفوظ ہے
    جواب : میرے بھائی آپ سے کس نے کہہ دیا کہ کیو ٹی وی والوں کے پاس تقریبا ہر عالم دین کے بیانات محفوظ ہیں ۔ ۔ ۔؟
    میرے بھائی باقی دیگر سینکڑوں علماء کرام تو رہے ایک طرف صرف وہ عالم دین جو کہ کیو ٹی وی پرباقاعدہ آتے ہیں انکے بھی تمام کے تمام بیانات کیو ٹی وی پر محفوظ نہیں ہیں بلکہ ہوتا یہ ہے کہ وہ بڑے بڑے علماء کرام کہ جن کو سننے والوں کی ایک بڑی تعداد ہو ان سے کوئی بھی اسلامک چینل والے باقاعدہ ایک معاہدہ کے تحت ان کے سابقہ بیانات کو ایک کسی ویڈیو سی ڈی یا ٹیپ کی صورت میں وصول کر لیتے ہیں اور پھر معاہدے کے مطابق جیسے جیسے وقت ملتا ہے چلاتے رہتے ہیں اس کو ایک مثال کے زریعے یوں واضح کروب کے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے 6000 ہزار سے بھی زیادہ موضوعات پر مختلف خطابات بقول ان کے ویب سائٹ کے موجود ہیں لیکن کیو ٹی وی پر صرف چند وہ چل سکے ہیں کہ جن کا باقاعدہ اجازت نامہ ان سے حاصل کیا گیا ہوگا کسی معاہدے کے تحت اسی طرح ڈاکٹر زاکر نائک اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے بھی تمام کے تمام خطابت کیو ٹی وی پر نہ تو چلے ہیں اور نہ ہی محفوظ ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    آپ کا تیسرا سوال ۔ ۔ کہ اس سوال میں بھی دو سوال ہیں ۔ ۔ ۔ کہ کیو ٹی وی ۔نے 11 سال بعد اب ہی کیوں نشر کیا اور وہ بھی کاٹ کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    جواب : تو میرے بھائی پہلے تو عرض ہے کہ . . . جب 11 سال پہلے کیو ٹی وی کا وجود ہی نہیں تھا اس وقت وہ ڈاکٹر صاحب کے بیانات کیسے نشر کرسکتا تھا حقیقت یہ ہے کہ کیو ٹی وی کا قیام 2004 میں عمل میں آیا ہے جب کہ ڈاکٹر صاحب کا مبینہ بیان آپکے بقول 1997 کا ہے تو اب آپ ہی بتایئے کہ میں آپ کہ اس سوال کی مضحکہ خیزی پر کیا جواب دوں آپکو ؟ یہ تو وہی بات ہوگئی کہ اس پر [highlight=#FFFFFF:lutqpnge]مجھے پنجابی کی ایک مشھور مثال یاد آگئی اس کا لب لباب اردو میں پیش کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
    ایک گاؤں میں ایک مرتبہ جٹ برادری نے ملکر پروگرام بنایا کہ کیوں نہ اس بار ہم اپنے کھیتوں میں گنے کی کاشت کریں جس پر ایک جٹ صاحب نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ ہماری زمین تو فلاں جگہ پر اور اسکے ساتھ ہی فلاں قوم کے غریب کسانوں کے گھر ہیں وہ تو روز گنے جوس چوس کر ہماری ساری فصل تباہ کردیں گے اس پر تمام کی تمام جٹ برادری نے ڈنڈے نکالے اور یہ کہتے ہوئے کہ اور چوپھو ساڈے گنے چڑ دوڑے بیچارے غریب کسانوں پر ان بیچاروں کا مار مار کر برا حشر کردیا وہ بیچارے پوچھتے ہی رہے کہ کیا ہوا ہم نے کیا کیا یہ فرمانے لگے تم نے ہمارے گنے چوری کرکے چوسے ہیں پوچھا کون سے گنے تو فرمایا وہ کہ جو ابھی ہم نے کاشت کرنے ہیں[/highlight:lutqpnge]۔ ۔ ۔ ۔
    رہ گئی بیان کاٹنے اور کو مکمل نہ چلانے کی بات تو میرے بھائی ڈاکٹر صاحب کے مزکورہ بیان اور اسکی عبارت اپنے مفھوم میں بالکل واضح اور مکمل ہیں ان میں کوئی قطع و برید نہیں کی گئی بلکہ سب کے سامنے ہیں نیز بیان کو مکمل کیا چلانا تھا؟ جیسے ہی معلوم پڑا کہ فلاں جگہ ہتک آمیز الفاظ آگئے ہیں اسے بند کردیا گیا نیز یہ بھی کہ خود ڈاکٹر صاحب نے بھی یہ اعتراض نہیں کیا کہ میرا بیان مکمل نہیں چلایا گیا تھا وگرنہ آگے چل کر میں نے اپنے الفاط سے رجوع کرلیا تھا بلکہ وہ تو اب بھی (معافی مانگنے کے باوجود )اس حدیث کو کہ جس کو انھوں نے اپنے رکیک الفاظ کی بنیاد بنایا تھا جسٹی فائی کر رہے ہیں کہ دیکھو فلاں فلاں کتاب میں آئی ہے
    جوابات کو دوسرا حصہ ۔

    ٹھیک ہے محترم ہمارے جوابات بچگانہ ہی سہی مگر آپ بھی تو ہمارے [highlight=#FFFF80:lutqpnge]صرف ایک سوال کا جواب اپنی فراستانہ شان سے فرمادیں کہ آپکے ممدوح حضرت مولانا ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے قرآن کی آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے ایک رکیک الفاظ استعمال کیئے ہیں وہ کس محدث کے ہیں یا کس مفسر کے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ موصوف کو وہ الفاظ کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی کیا موصوف صرف احادیث اور تفاسیرکے بیان تک خود کو محدود نہیں رکھ سکتے تھے کہ ساتھ میں اپنے رکیک الفاظ کا تبصرہ کیا اتنا ہی ضروری ہوگیا تھا کہ مسئلہ کی تفھیم ان الفاظ کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی[/highlight:lutqpnge]؟ یہ وہ ہمارا بنیادی سوال ہے کہ جس کو آپ اور ڈاکٹر اسرار کے دیگر تمام حواریین نے چھوا تک نہیں اور اسکا کوئی جواب نہیں دیا سوائے آئیں بائیں شائیں کے ۔ ۔ ۔ ایکی بات آپ تمام لوگوں پر واضح کردوں کہ ہم نے ابھی تک اس مسئلہ پر شروع سے لیکر آخر تک صرف انھی الفاظ کی جسٹی فیکیشن مانگی ہے آپ لوگوں سے اور آپ سب لوگوں کے توسط سے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سے مگر ہنوز کوئی جواب کسی کی طرف سے نہیں آیا ۔ ۔ ۔ نیز ہم نے ابھی تک اس تمام مسئلہ کو عقلی جدلی اور منطقی دلائل سے مبرہن کرنے کی کوشش کی ہے اس مسئلہ کے حقیقی دلائل(یعنی تفسیر اور اصول تفسیر ،حدیث اور اصول حدیث) کو ابھی تک ہم نے چھوا تک نہیں کیوں کہ وہ ہمارا موضوع نہیں لیکن اگر آپ میں سے کسی میں بھی ہمت ہے تو یہ میرا چیلنج (حالانکہ عممومی طور پر یہ میرا مزاج نہیں) ہے کہ ہمارے ساتھ اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں (عقلی ،نقلی ،جدلی ،منطقی اور حقیقی) سمیت گفتگو کرلے اور خاص طور پر آپ سفرد صاحب اور اگر آپ خود کو معذور سمجھیں تو اپنے کسی بھی عالم کو لے آئیے ۔ ۔ ۔ [highlight=#FFBFFF:lutqpnge]۔ہم بخوبی انکے ساتھ اس مسئلہ پر گفتگو کرنے کو تیار ہیں اور اگر اسکے نتیجے میں دلائل کی روشنی میں ہم پر ہماری غلطی اس معاملہ میں واضح ہوگئی تو بخدا ہم اپنی رائے سے رجوع کریں گے اور تمام فورم سے معافی مانگیں گے اور باقاعدہ ٹیلی فونک معذرت محترم جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سے بھی کریں گے کہ جب تک بندہ کے حق خود بندہ سے نہ بخشوالیے جائیں تب تک اللہ بھی نہیں بخشتا[/highlight:lutqpnge]۔ ۔ ۔ ۔
    اب آتا ہوں اپکی اس رپلائی کی طرف محترم آپ نے یہاں خلط مبحث کرکے بات کو کافی الجھا دیا ہے (لہزا مجبورا ہمیں بھی بات کی صحیح تفھیم کے لیے خلط مبحث کرنا پڑے گا) اور اصل مسئلہ کی بجائے آپ بار بار اس مسئلہ کو فرقہ ورانہ رنگ دینے کی ناکام کوشش کررہے ہیں جب کہ حقیقتا اس مسئلہ کہ یہاں بیان کرنے کا فرقہ ورانہ بحث سے کوئی تعلق ہی نہیں کہ میرے نزدیک اہلسنت ، دیوبندی،وہابی اہل حدیث اور اس کے علاوہ جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی سب کا الصحابۃ کلھم عدول پر اجماع ہے لہزا صحابہ کی بابت ان سب مکاتب فکر کی ایک ہی رائے ہے لہزا صحابہ کرام کے دفاع کو کسی ایک مسلک کی فرقہ ورانہ سوچ قرار دینا آپکی اس مخصوص مسئلہ سے جہالت کی غمازی کرتا ہے اور بہتر ہے کہ محترم یہاں میں نفس جہالت کی بھی مختصرا وضاحت کردوں کے کہیں مطلق لفظ جاہل دیکھ کر آپ بدک ہی نہ جائیں ۔ ۔ ۔ دیکھیے محترم کسی بھی مسئلہ میں کسی بات کی حقیقت کا علم نہ ہونا اس مسئلہ میں اس مخصوص حقیقت سے آدمی کے جاہل ہونے کی نشانی ہے ۔ ۔ ۔ لہزا یہ کوئی ضروری کہ ہر ادمی کو ہر ہر مسئلہ میں ہر ہر حقیقت کا حقیقی ادراک و فھم بھی بصورت علم حاصل ہو ۔ لہزا مطلقا جہالت دو طرح کی ہوتی ہے یعنی جہل کی دوقسمیں ہیں ایک ہوتا ہے
    جہل بسیط اور دوسرا جہل مرکب ۔ ۔۔
    جہل بسیط یہ کہ آدمی کا کسی شئے کے بارے میں علم نہ ہونا جہل بسیط کہلاتا ہے اور جو جہل مرکب ہوتا ہے اسکی تعریف یہ ہے کہ انسان کو کسی شئے کا علم نہ ہو مگر وہ علم کا
    دعوٰ ی کرئے اور اس قسم کا جہل مرکب ہوتا ہے دو طرح کی جہالت سے ایک تو یہ کہ وہ انسان اس چیز سے جاہل ہے کہ جس کہ بارے میں وہ دعوٰی کر رہا ہے کہ میں جانتا ہوں اور دوسرے وہ اپنی جہالت سے بھی جاہل ہے کہ اصل میں اس کو یہ معلوم ہی نہیں کہ جس چیز کے علم کا وہ دعوٰی کررہا ہے حقیقت میں وہ اس سے بھی وہ جاہل ہے اور اس سے جاہل ہونے کی وجہ سے اپنی جہالت سے بھی وہ جاہل ہے ۔ ۔۔ ۔امید کرتا ہوں بات آپکی سمجھ میں آگئی ہوگی ۔ ۔ اصل میں ہمیں اس ساری تمہید کی اس لیے بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ شروع سے لیکر اب تک آپ نے اس مسئلہ کو فقط فرقہ ورانہ سوچ پر منتج قرار دیا ہے جبکہ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اب یا تو آپ اس مسئلہ کی حققیت سے نابلد ہیں یا پھر جان بوجھ کر اس تمام مسئلہ کو مسلکی رنگ دے رہے ہیں تاکہ بحث کوئی اور رنگ اختیار کرلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    اب آتا ہوں اس طرف کہ جو آپ نے کیوٹی وی کے ساتھ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے دروس کی بابت معاہدوں کی وضاحت پیش کی ۔ ۔ ۔ اور آپ نے ہماری باتوں کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا ۔ ۔ ۔
    جی ہاں ہمیں بالکل اعتراف ہے کہ ہم نے وہ بات فرضیہ طور پر ہی کہی تھی تاکہ نفس مسئلہ کو سمجھا سکیں وگرنہ ہمیں اس کوئی سروکار نہیں کہ کیو ٹی وی اپنے معاملات لوگوں کے ساتھ کس کس طرح طے کرتا ہے ہم نے تو بس آپکی اُس بات کہ جو آپ نے کہا تھا کہ . . . کیو ٹی وی کے پاس تقریبا ہر ہر عالم کا ہر بیان محفؤظ ہے کی وضاحت کے طور پر ایک عمومی ضابطہ بیان کردیا تھا کہ کیو ٹی وی تو کیا کسی بھی ٹی وی چینل پر ہر ہر عالم کا ہر ہر بیان پہلے سے محفوظ نہیں ہوا کرتا یہاں تک کے متعلقہ عالم دین سے اس کی بابت ٹی وی والوں کا
    کوئی معاہدہ (بصورت اجازت نامہ)نہ ہوجائے چاہے تحریری طور پر یا پھر زبانی طور پر اور یہاں یہ بھی یاد رہے کہ کسی بھی معاہدے کے طے پاجانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ معاہدہ رقم کے لیے ہی کیا گیا ہو ۔ بس اسی ایک تصور کو سمجھانے کے لیے ہم نے ایک فرضیہ بات ہی کہی تھی کہ عموما ہر جگہ ایسا ہی ہوتا کہ دو لوگ آپس میں کسی بات کو طے کرلیتے ہیں اور پھر اس طے شدہ بات کے مطابق عمل ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ اب اس طے شدہ بات کو معاہدہ کہہ لیں اجازت نامہ کہ لیں یا کوئی اور نام دے لیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ۔ ۔
    اور اس کے بعد آپ نے کمال خوبصورتی سے کھسیانے بن کر اپنی اس غلطی کو چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے جوکہ فرت جذبات اور ڈاکٹر اسرار صاحب کے لیے آپ کی اندھی محبت سے مغلوب ہوکر آ پ سے سرزد ہوئی یعنی آپ کا یہ کہنا کہ کیو ٹی وی والوں نے اس درس کو 11 سال پہلے کیوں نہئیں چلایا ۔ ۔ ۔ ؟ اس پر آپ کھسیا کر اب یہ فرما رہے ہیں کہ چلو چار سال کا عرصہ بھی بڑا ہوتا اس دوران بھی انکو کیوں نہ یاد آیا ۔ ۔ ۔ ہاہاہاہاہاہاہا(میرے خیال میں پیغام انتظامیہ کو اپنے مزاحیہ ادب لطائف سیکشن کے لیے اس سے بہتر اور مزیدار لطیفہ میسر نہیں آسکتا لہزا متعلقہ سیکش کے موڈ پلیز اس یہان توجہ دیں) تو میرے بھائی آپکی اس کیوں کا جواب اولا تو آپکے ممدوح ڈاکٹر اسرار احمد خود اپنے اس وضاحتی بیان میں یہ کہہ کر دے رہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا یہ درس سلسلے وار تھا اور آجکل کیو ٹی وی پر چل رہا تھا کہ جس میں سورہ آلعمران جب ختم ہوئی تو سورہ النساء شروع ہوئی ۔ ۔ ۔ اور اسی سورہ نساء کی آیت نمبر 43 ہے وہ کہ جس پر ڈاکٹر اسرار احمد کا بیان متنازعہ حیثیت اختیار کرگیا ۔ ۔ ڈاکٹر صاحب کے وضاحتی بیان کا لنک درج زیل ہے ۔ ۔ http://www.youtube.com/watch?v=XzH8-rn22B8

    --------------------------------------------------------------------------------
    تو اب یقینا آپکی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ یہ پروگرام کیو ٹی وی والوں نے پہلے کیوں نہ چلا دیا ظاہر سی بات ہے کہ جیسے جیسے وقت ملا کیو ٹی وی والوں نے ڈاکٹر صاحب کے دروس کو سلسلہ وار نشر کردیا اب کوئی صاحب کل کلاں کو اٹھ کر یہ اعتراض کردے کہ فلاں درس کو فلاں دن اور فلاں تاریخ میں کیوں نشر کیا گیا ؟ توا س کا یہ اعتراض مضحکہ خیز نہ ہوگا تو اور کیا کہلائے گا؟۔پھر اسکے بعد اپ نے کیو ٹیوی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے خطابات کو نشر کرنے کے ضمن میں ہونے والے معاہدوں کی ایک مخصوص شکل بیان کی ہے جو کہ یقینا آپ کے علم میں ہوگئی اور آپکے پاس اس کا کوئی نہ کوئی ثبوت بھی ہوگا اب چونکہ آپ نے کیو ٹی وی کے ساتھ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے ہونے والے معاہدوں کو ایک مخصوص شکل میں ہونے کا دعوٰی کیا ہے تو مدعی پر اپنے دعوٰی کی دلیل ضروری ہے لہذاآپ سےگزارش ہے کہ آپ کیو ٹی وی اور ڈاکٹر اسرار احمد یا تنظیم اسلامی کے مابین ہونے والے کسی بھی معاہدے ہا اجازت نامے کا تحریری ثبوت یہاں پیش کریں اپنے دعوٰی کی دلیل کے بطور (اور اگر آپ دلیل پوسٹ کربھی دیں تو اس سے نفس مسئلہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا یہ تو ہم نے ذیلی مباحث کے نتیجے میں ایک بات کردی) ۔اس کے بعد اپ نے ہماری اس تمام گفتگو کو قیاس آرائیوں پر مبنی قرار دے دیا ہے لگتا ہے اب قیاس کا مفھوم بھی آپ کو سمجھانا پڑے گا میرے ہمدم میرے دوست ڈاکٹر اسرار احمد کا بیان اپنے مفھوم میں بڑا واضح ہے اور اس پر کوئی بھی حکم لگانے کے لیے کسی قیاس کی ضرورت نہیں بلکہ یہ امر واقعہ ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد کی زبان سے وہ رکیک الفاظ ادا ہوئے ہیں جو کہ تنازعہ کا باعث ہیں اس میں قیاس کو کیا دخل؟ قیاس تو تب ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے وہ الفاظ صریحا نہ فرمائے ہوتے اور ہم یہ کہتے کہ ان کا اس طرح سے کہنا چونکہ فلاں شکل میں کہنے کہ مترادف ہے لہذا ہماری یہ بات قیاس کے ضمرہ میں آتی ۔ ۔ جبکہ حقیقتا ایسا نہیں ہے کیونکہ قیاس کہتے ہیں کسی بھی شرعی مسئلہ میں اس کی کوئی بھی دلیل براہ راست قرآن و سنت اور پھر اجماع میں نہ ملنے کی صورت میں اُس مخصوص مسئلہ کو کسی ایسے مسئلہ میں جو کہ براہ راست قرآن وسنت میں مذکورہو ( دونوں مسئلوں میں پائی جانے والی کسی ایک خاص علت یعنی بیماری کے اشتراک کی وجہ سے وہی حکم لگانا )میں پائی جانے والی علت مشترکہ کے باعث وہی حکم لگانا جو کہ اس مسئلہ میں قرآن و سنت نے لگایا ہو ۔ جیسے شراب حرام ہے نشہ کی وجہ سے اب ہر وہ مشروب جو کہ نشہ پیدا کرے مگر اس کا براہ راست حکم قرآن و سنت میں موجود نہ ہو اسے شراب کی حرمت والی اس آیت کے حکم پر قیاس کرتے ہوئے اس پر بھی اس کا فقہی حکم صادر کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔
    امید کرتا بات واضح ہوگئی ہوگی ۔ ۔ ۔۔
    اس کے بعد آپ نے مجھ پر مخصوص مسلک ہی کی کتابیں پڑھنے کا حکم لگا کر ایک بار پھر اس مسئلہ کا رخ مسلکی جنگ کی طرف موڑنے کی کوشش کی ہے اور آپ نے ہمارے مطالعہ کو صرف تنقیدی نظر پر محمول کیا ہے جو کہ آپ کا ذاتی خیال ہے ۔ ۔ رہی یہ بات کے علماء کی فکر کس کو زیادہ ہے تو وہ اس تھریڈ کو پڑھنے والا ہر ادنٰی سمجھ رکھنے والا شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ کون شخصیت کا دفاع کررہا ہے اور کون حق بات کا دفاع کررہا ہے میرے نزدیک صحابہ کی حرمت کے خلاف بولنے والا کوئی شیعہ ہو یا دیو بندی ہو یا بریلوی ہو یا وہابی سب برابر ہیں اور ایک تھالی کے چٹے بٹے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔اب اپ نے چونکہ آپ نے مجھ پر دوسرے مسالک کے رائے کا احترام نہ کرنے کا حکم لگایا ہے لہذا میں اس مسئلہ کو تفصیل سے واضح کروں گا ۔ ۔ ۔
    سب سے پہلے تو اتنا عرض کردوں کہ الحمد اللہ میں پیدائشی طور پر حنفی سنی گھرانے میں پیدا ہوا اور ہم پر اللہ کا لاکھ لاکھ کرم ہوا کہ [highlight=#FFFF80:lutqpnge]والد صاحب قبلہ رحمہ اللہ علیہ کو دین سے خاصا شغف تھا اس ضمن میں انھون نے گھر میں ایک اسلامی لائبریری بنا رکھی تھی اور اسی لائبریری سے میں نے اپنے لڑکپن سے ہی استفادہ کرنا شروع کردیا تھا[/highlight:lutqpnge]میٹرک تک تعلیم کے بعد مجھے چند ایسی جگہوں پر ملازمت کا اتفاق ہوا کہ جہاں پر تمام مکاتب فکر کے لوگوں کا ہجوم تھا اور ان سب میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ اس ماحول میں دین کا غلبہ تھا یعنی اس ماحول میں مجھے تبلیغی جماعت ، جماعت اسلامی ، دعوت اسلامی ، منھاج القرآن لشکر طیبہ موجود جماعت الدعوۃ جیش محمد اور سپاہ صحابہ اور اہل تشیع حضرات کی بھی سنگت میسر آئی ۔ ۔ اس دوران میں نے دین کا تقابلی مطالعہ مسلکی اعتبار سے کیا اور اپنی حد تک کافی کیا اور میں نے اہلسنت والجماعت کو ہی حق پر پایا لہزا اب میں یہ بات فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میں پیدائشی طور پر تو سنی تھا ہی مگر مطالعاتی طور پر بھی اہل سنت ہی ہوں ۔
    اس تمام دورانیئے کے دوران بہت سی کتابیں خریدیں بہت سے اجتماعات میں شرکت کی اور بہت سی شب بیداریوں اور دروس قرآن میں شرکت کی
    اور جن اور بڑے بڑے علماء کرام کے ساتھ بالمشافہ ملاقاتیں کیں ان میں سے چیدہ چیدہ کے نام درج زیل ہیں ۔ ۔
    [highlight=#FFFF00:lutqpnge]خلیل الرحمٰن چشتی صاحب تعلق جماعت اسلامی
    حافظ سعید صاحب تعلق جماعت الدعوۃ
    ڈاکٹر طاہر القادری صاحب منھاج القرآن
    پروفیسر مفتی منیب الرحمٰن صاحب چئر مین روئت ہلال کمیٹی اہل سنت والجماعت
    علامہ مولانا غلام رسول سعیدی صاحب
    (ان سے ملاقات بذریعہ فون اور خط و کتابت رہی )
    باقی اور بہت سوں کو اجتماعات میں سنا اور خطوط بھی لکھے
    [/highlight:lutqpnge]۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    اس سب ضمن میں اتنا واضح کردوں کہ نظریاتی طور پر مسلک حق اہل سنت کو ہی حق پر سمجھتے ہوئے میں اس بات کا قائل ہوں کے تمام مکاتب فکر کے علماء کا احترام کرنا چاہیے اور جس جس بھی عالم سے اگر کوئی غلطی واقع ہوتی ہے تو اس سے اسکی بابت دریافت بھی کرنا چاہیے اور میرا یہ ایمان ہے کہ علماء کرام خواہ وہ کسی بھی مکاتب فکر سے ہوں ان سے غلطیوں کا امکان بحرحال رہتا ہے لہزا میں اس بات کو عملی طور پر بھی تسلیم کرتا ہوں[highlight=#FF80FF:lutqpnge]یہی وجہ ہے نظریاتی طور پر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا بہت بـڑا فین ہونے کے باوجود مجھے بہت سے مسائل میں انکی انفرادی رائے سے اختلاف ہے اور اپنے اس اختلاف کو میں نے بہت سے منھاجی دوستوں کے ساتھ ڈسکس بھی کیا ہے[/highlight:lutqpnge]۔ ۔
    اسی طرح ایک بار جماعۃ الدعوۃ کے ہفت روزہ غزوہ کے مطالعہ کے دوران مجھے ان کے مفتی صاحب نام اس وقت یاد نہیں آرہا کی گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آراء پڑھکر شدید اختلاف ہوا جسے پہلے میں نے اپنے ان اہل حدیث دوستوں کے ساتھ ڈسکس کیا اور ان میں سے بھی اکثریت نے میری حمایت کی تو ہم نے ادارے اور خود مفتی صاحب کو خط لکھا مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ ۔ اسی طرح ایک شب بیداری پر جماعت اسلامی کے خلیل الرحمٰن چشتی صاحب کے ساتھ میری مختصر گفتگو امام اعظم ابو حنیفہ علیہ رحمہ کی تابعیت کے موضوع پر ہوئی کیونکہ خلیل الرحمٰن صاحب نے اپنے کسی عالم گوہر رحمٰن صاحب کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے درس حدیث میں (کہ جس میں ہم بھی شامل تھے) امام اعظم کو تابعیت کے مرتبہ سے نیچے تبع تابعین کے مرتبہ میں سے قرار دیا تو ہم نے اس درس کے خاتنے کے بعد وہیں ان پر سوال کیا جس پر انھون ن ے حوالہ میں گوہر ر حمٰن صاحب کا حوالہ دیا تو ہم نے جوابا تاریخ طبری ، ابن کثیر اور طبقات ابن سعد کا حوالہ دیا جس پر ہو مولانا لاجواب ہوگئے اور جماعت اسلامی کے بعض دوستوں نے بیچ میں حائل ہوکر گفتگو کو ختم کروایا ۔ ۔ ۔
    اسی طرح علامہ غلام رسول سعیدی صاحب سے خود اہل سنت ہی کے بعض علماء کے اختلاف پر ان سے خط و کتابت کے زریعے اصل معاملات کی تحقیق کروائی اور حال ہی میں جب میں اسپین میں ہوں تو انکی ایک نئی کتاب شرح صحیح بخاری بنام نعمۃ الباری کی پہلی جلد آئی ہے جو کہ میں نے پاکستان سے منگوا کر اس کا مطالعہ ان دنوں شروع کر رکھا ہے ۔ ۔ اس کتاب میں ایک پرنٹنگ کی غلطی تھی کہ جس میں ایک حدیث کو دو جگہ مختلف رواۃ کے نام سے نقل کیا گیا تو ہم نے فورا بذریعہ ٹیلی فون علامہ صاحب سے اس طرف توجہ کرنے کو کہا جس پر انھوں نے ہماری تصحیح کی تصدیق فرمائی کہ یہ واقعی پرنٹنگ کی غلطی ہے ۔ ۔ ۔
    اور اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں کہ جو ہم صرف اس لیے بیان کررہے ہیں کہ آپ پر یہ ظاہر کرسکیں کہ جب ہم کسی بھی عالم دین کی کسی بات کو غلط سمجھتے ہیں تو جہاں تک ہوسکے ہم ان سے خود رابطہ کرکے اس غلطی کی بابت دریافت کرتے ہیں قطع نظر اس کے وہ عالم کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے ۔ ۔ ۔۔
    --------------------------------------------------------------------------------
    اسلام علیکم معزز قارئین کرام گو کہ اولا ہم نے سوچا تھا کہ اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کریں گے اور گفتگو کی تان وہیں سے جوڑیں گے کہ جہاں سے یہ تان ٹوتی تھی مگر اب ہم نے یہ سوچا ہے کہ اس بحث کو ختم ہی کردیا جائے تو بہتر ہے لہزا ہم اپنی اس رپلائی میں اس سارے کے سارے معاملے کا ایک اوور ویو پیش کرکے نیز مختلف طبقہائے فکر کی جانب سے اس واقعہ کا جو رد عمل آیا اس کو انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کرنے کے بعد آخر میں اپنا ایک زاتی مطالبہ محترم جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی خدمت میں رکھ کر اجازت چاہیں گے ۔ ۔ ۔
    بھئی دیکھئے سیدھی سی بات ہے کیو ٹی وی پر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا ایک بیان چلا جو کہ آج سے قریبا 12 سال پہلے کا تھا لیکن وہ کیو ٹی وی پر چلنے کی وجہ سے خواص کے بعد عوام میں بھی آگیا اور اس بیان میں ڈاکٹر صاحب سورہ نساء کی آیت نمبر 43 کی تشریح کرتے ہوئے اول تو ایک شدید ترین ضعیف روایت سے استدلال کیا اور پھر تمام صحابہ کی بالعموم اور حضرت علی کی بالخصوص توہین کی اور بڑے ہی دلخراش انداز میں چند نازیبا اور رکیک الفاظ بیان کیئے کہ جنکی وجہ سے امت مسلمہ میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔ ۔ ۔ اور بہت سے دل و دماغ کہ جن میں صحابہ کرام کی عزت و عظمت اور اللہ کے حضور انکی وجاہت کا عقیدہ راسخ تھا وہ دل و دماغ مجروح ہوئے اور ہر طبقہ فکر نے اس پر احتجاج کیا تو اسکے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے بیان پر دال آزاری کی معافی مانگ لی اور پھر اپنے بیان کی صداقت پر تصدیق کی مہر ثبت کرتے ہوئے ان کے حوالہ در حوالہ جات پیش کرنا شروع کردیئے ۔ ۔ ۔ ۔
    اب ظاہر سی بات کہ جو حرکت ڈاکٹر صاحب نے کی تھی اور جو اب تک وہ کررہے ہیں اس سے اچھی خاصی تعداد میں ایک طبقہ متاثر ہے لہذا اس کا ہر سطح پر رد عمل ہوا اور ہورہا ہے اور جہاں جہاں محبان صحابہ موجود ہیں انکا کا ایک مخصوص رد عمل سامنے آیا جو کہ ایک یقینی اور فطری رد عمل تھا اور `پھر اس کے نتیجے میں اول تو ڈاکٹر صاحب کے حواریین میدان عمل میں آئے اور پھر بعض وہ افراد جو کہ صلح کلیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے وہ بھی میدان کارزار میں دفاع اسرار کے پرزور اصرار کو لیکراٹھ کھڑے ہوئے نتیجتا یہ بحث طویل سے طویل تر ہوتی گئی وگرنہ اگر ہر کوئی آکر یہ کہہ دیتا کہ ڈاکٹر اسرار صاحب نے بہت غلط کیا انھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا تو ہرگز یہ بحث طوالت نہ پکڑتی اور پھر نہ کسی کو یہاں ڈاکٹر صاحب کے خلاف انتہائی درشت زبان استعمال کرنے پر اعتراض ہوتا اور نہ ہی اس بحث کے طویل ہونے پر ۔ ۔ اب ملاحظہ کیجیئے درج زیل میں مختلف طبقہائے فکر سے ڈاکٹر صاحب کے اس بیان پر رد عمل کی چند جھلکیاں ۔ ۔
    جرمنی میں ڈاکٹر اسرار کی شدید مذمت


    القمر لندن بیورو



    ایک کھلا خط ....وزیرِ ا عظم پاکستان و صدرِ پاکستان کے نام
    جناب محترم سیّدیوسف رضا گیلانی صاحب وزیرِ اعظم پاکستان
    جناب محترم سیّد پرویز مشرّف صاحب صدرِ پاکستان
    اصل ربط اور پورا خط پڑھنے کے لیے ملاحظہ فرمائے درج زیل ربط ۔ ۔
    http://www.alqamar.info/alqamarnews/new ... 07-01.html
    اور درج زیل میں ملاحظہ کیجیئے معروف کالم نگار خوشنود علی خان کا رد عمل
    گستاخی(خوشنود علی خان کا کالم ناقابل اشاعت)
    پیر جون 23, 2008
    قارئین کرام!حضرت علی مرتضیٰ اور حضرت عمر فاروق کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد نے جو کہا ہے۔ ۔ ۔ میں اسے یہاں دہرانانہیں چاہتا۔ ۔ ۔ کہ میرے ایمان اور عقیدے کے مطابق ڈاکٹر اسرار احمد کی بات کو دہرانا گستاخی مزید میں آتا ہے۔ ۔ ۔ ڈاکٹر اسرار احمد سے مجھے ایک دو بنیادی سوال کرنا ہیں۔(i)حضرت علی مرتضیٰ کے حوالے سے جو ڈاکٹر اسرار نے کہا ۔ ۔ ۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا مولودِ کعبہ سے ایسی غلطی ہو سکتی ہے۔
    (ii)جس شخص یا شخصیت کی پرورش، تربیت و سرپرستی حضور نبی کریم نے کی ہو کیا اس تربیت کے بعد ایسی لغزش کی امید کی جا سکتی ہے۔
    اصل ربط درج زیل ہے ۔ ۔
    http://www.dailyjinnah.com/?p=2916
    ملاحطہ کیجیئے دارالعلوم دیو بند کی طرف سے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تفسیر بیان القرآن کی سننے کی بابت ایک سوال کا جواب بصورت فتوٰی ۔ ۔ ۔
    کچھ عورتوں کے چہرے پر بال ہوتے ہیں (داڑھی، مونچھ، گھنی پلکیں) کیا وہ ان بالوں کو کاٹ سکتی ہیں؟

    (۲) ڈاکٹر اسرار کی تفسیر: بیان القرآن: جو سی ڈی اور ڈی وی ڈی کی شکل میں موجود ہے، کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟


    08 Jan, 2008 Answer: 2432

    فتوی: 984/ د= 934/ د



    (۱) صاف کرسکتی ہے۔ مقصد چہرے کی بدنمائی کو دور کرنا ہے تو جائز ہے قال الشامي: إذا نبت للمرأة لحیة أو شوارب فلا تحرم إزالتہ بل تستحب (شامي: ج۵، ص۲۶۴)

    (۲) تفسیر قرآن مستند اور معتبر علماء کی دیکھنی چاہیے جن علماء کی تفسیر کو مشاہیر علماء نے دیکھ کر معتبر و مستند قرار دیا ہے انھیں کا مطالعہ کرنا چاہیے، مثلاً معارف القرآن مصنفہ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ وغیرہ۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی تفسیر کا میں نے مطالعہ نہیں کیا ہے۔اصل لنک درج زیل ہے
    http://darulifta-deoband.org/urdu/viewf ... sp?ID=2432
    اور اب*آخر میں ملاحظہ البصیرہ کے چئرمین کا اطہار خیال جو کہ ڈاکٹر صاحب کو تحقیق اور احتیاط کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ ۔ ۔
    ڈاکٹر اسرار کو تحقیق اور احتیاط کی ضرورت ہے
    ڈاکٹر اسرار کو تحقیق اور احتیاط کی ضرورت ہے چئیرمین البصیرہ البصیرہ کے صدر نشین نے کیو ٹی وی پر ڈاکٹر اسرار احمد کے متنازعہ بیان کے حوالے سے کہا کہ انھیں روایات سے استفادہ کرنے سے پہلے ان کے بارے میں تحقیق کرلینا چاہیے، خاص طور پر جب روایات اسلام کی عظیم اور مقدس شخصیات کے بارے میں ہوں۔ انھوںنے کہا کہ روایات کی حیثیت قرآن حکیم جیسی نہیں۔ قرآن کی ہر آیت کا نبی کریم کے قلب مبارک پرنزول یقینی او ر مبنی برحق ہے جس کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیںجبکہ روایات کی کتابیں آنحضرت کی رحلت کے طویل عرصے کے بعد مرتب ہوئیں۔ ان میں صحابہ کرام و طلقاءکے فرق کے بغیر ہر طرح کے راویوں سے احادیث نقل کردی گئی ہیں۔ روایات کے اسی پس منظر کی وجہ سے انھیں جانچنے اور پرکھنے کے لئے اصول و قواعد مرتب کرنے کی ضرورت پڑی ہے۔علم رجال اور علم درایت اسی لئے معرض وجودمیں آیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ نبی کریم اور آپ کے اہل بیت کرام کے بارے میں ایسی روایات پر اعتماد نہیں کیا جانا چاہیے جو خوارج یا نواصب نے بیان کی ہےں۔ انھوںنے کہا کہ امیرالمومنین حضرت علی ؑ کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد نے جس روایت سے استفادہ کیا ہے اُسے اہل سنت کے حدیث کے بزرگ امام حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب مستدرک علی الصحیحین میں مستر د کردیا ہے اور اسے آپ کے مخالفین کی وضع کردہ قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں اہل سنت کے ایک بزرگ عالم شمس الحق صدیقی عظیم آبادی نے اپنی کتاب عون المعبود شرح سنن ابو داﺅد جلد۳ ، کتاب الاشربہ میں حاکم کی تائید کرتے ہوئے اس روایت کو جعلی قرار دیا ہے۔

    اور اب آخر میں ہم اپنا ایک مطالبہ جناب ڈاکٹر صاحب کے حواریین کے توسط سے ڈاکٹر اسرار احمد کی بارگاہ میں پیش کرکے اجازت چاہیں گے ۔ ۔ ۔
    [highlight=#FFBF00:lutqpnge]ہمارا مطالبہ آپ سب کے توسظ سے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سے یہ ہے کہ وہ (اگر وہ واقعی حقیقی اہل علم میں سے ہیں کہ علم تکبر نہیں عاجزی سکھاتا ہے) سب سے پہلے اس روایت کا ضعیف ہونا تسلیم کرتے ہوئے اپنے بیان میں اس سے (یعنی روایت سے) استدلال پر پہلے اللہ اور اسکے رسول اور پھر پوری امت مسلمہ سے معافی مانگیں یہ کہہ کر کہ ہم سے تحقیق میں کوتاہی واقع ہوئی یا ہم نے بغیر تحقیق کے اسے بیان کردیا اور ثانیا اس روایت کو بیان کرنے کے بعد جو رکیک الفاظ انھوں نے کہے ہیں (حالانکہ ان الفاظ کی بابت ڈاکٹر صاحب کی نیت کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے مگر الفاظ چونکہ ظاہر میں ادا ہوئے ہیں اس لیے) ان الفاظ پر ساری امت مسلمہ سے معافی مانگیں اور وہ الفاظ واپس لیں اور اقرار کریں کہ وہ الفاظ ہرگز لائق شان صحابہ کرام نہیں بس ہم سے جوش خطابت میں غلطی سے سرزد ہوگئے لہذا ہم اپنے ان الفاظ پر اللہ پاک کے حضور تہہ دل سے معافی کے خواستگار ہیں لہزا آج کے بعد جہاں جہاں بھی ہمارا وہ خطاب پیش کیا جائے اس میں سے ہمارے وہ الفاظ سننے والے حذف کردیں کہ ہم سے ان رجوع کرکے بری الذمہ ہوچکے ۔ ۔
    یہ ہے اصل طریقہ معافی مانگنے کا اور یہی ہمارا مطالبہ ہے جناب ڈاکٹر صاحب سے ۔ ۔ ۔۔[/highlight:lutqpnge]
     
  6. عرفان
    Offline

    عرفان ممبر

    Joined:
    Oct 16, 2006
    Messages:
    443
    Likes Received:
    0
    پھر وہی بحث اب پھر کچھ جواب دینا پڑے گا۔
     
  7. فرخ
    Offline

    فرخ یک از خاصان

    Joined:
    Jul 12, 2008
    Messages:
    262
    Likes Received:
    0
    السلام و علیکم عرفان بھائی
    میرا خیال ہے، یہ ڈاکٹر اسرار والی بحث اب ختم کی جائے۔ اب دونوں‌اطراف کے دلائل و حوالہ جات آچکے لہٰذا گیند اب پھر علماء اکرام کے کوٹ میں‌چلی گئ ہے اور ان سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے کو مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے طے کریں گا۔

    تو میری درخواست یہی ہے، کہ کسی بھی ایسے جواب سے پرہیز کیجئے گا جس سے بحث در بحث کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہو جائے۔
    جزاک اللہِ خیراً وَ کثیراً
     
  8. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    جیسا کہ دوسرے تھریڈ میں آبی ٹو کول بھائی نے تجویز فرمایا ہے کہ اب اس بحث کو بند کر دینا چاہیئے تو میرا بھی مشورہ ہے کہ اب جتنے دلائل اور گفتگو اس موضوع پر ہو چکی ہے کافی ہے اور دونوں طرف کا موقف سامنے ہے تو مزید کسی بحث کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
     
  9. عرفان
    Offline

    عرفان ممبر

    Joined:
    Oct 16, 2006
    Messages:
    443
    Likes Received:
    0
    ٹھیک ہے اس بحث کو ختم کر دیا جائے
     

Share This Page