1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

چرچل اور روزویلٹ کی فلورکراسنگ ....صہیب مرغوب

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏17 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    چرچل اور روزویلٹ کی فلورکراسنگ ....صہیب مرغوب

    ہمارے ہاں سینٹ کے انتخابات کا وقت شروع ہو چکا ہے ۔ مارچ میں نصف سینیٹر زریٹائر ہونے والے ہیں ، ملک بھر میں ارکان اسمبلی کے کروڑ پتی بننے کی باتیں زبان زدعام ہیں ،ایک وڈیو کے منظر عام پر آنے سے ایک وزیرکی سیاست کا ''دی اینڈ‘‘ ہو چکاہے۔سیاسی خریداروں کے مشن کو ناکام بنانے کے لئے ''شو آ ف ہینڈز ‘‘ کی دیرینہ تجاویز پر پڑی گرد صاف کرنے کے بعد انہیں نافذ کر دیا گیا ہے۔گمان کیا جا تا ہے کہ ''شو آف ہینڈز ‘‘ کے طریقے سے ووٹنگ میں پائی جانے والی ''ہاتھ کی صفائی‘‘ کا صفایا ہو جائے گا۔ شو آف ہینڈز کی حمایت اور مخالفت میں بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔سیاسی گرماگرمی کے اس ماحول میں ہم نے سوچا کہ کیوں نہ مغرب سے کچھ سیکھ لیا جائے۔
    جونہی ہم نے مغرب کی جانب رخ کیا، امریکہ اور برطانیہ سے فلور کراسنگ کی ایک ایک'' شاندار‘‘ مثال ہمارے سامنے تھی، برطانیہ میں وہاں کے سابق وزیر اعظم چرچل نے دو مرتبہ فلور کراسنگ کر کے اس اعلیٰ سطح پر پارٹی بدلنے کا عالمی ریکارڈ قائم کر لیا جبکہ امریکہ میں دو مرتبہ صدر بننے والے فرینکلن ڈی روزویلٹ نے تیسری مرتبہ نامزدگی نہ ملنے پر برہم ہو کر پارٹی کو نہ صرف چھوڑ دیا بلکہ الگ پارٹی بناکر بعض ریاستوں کی گورنر شپ بھی چھین لی۔یہ جماعت آٹھ برس چلی۔ آئیے پڑھتے ہیں کہ یہ دونوں عالمگیر رہنما میدان سیاست میں کیا گل کھلاتے رہے ہیں۔
    ونسٹن چرچل 1901ء سے 1904تک کنزرویٹیو پارٹی،1904ء سے 1924تک لبرل پارٹی اور بعد ازاں کنزرویٹیو پارٹی میں شامل رہے ۔
    پہلی مرتبہ کنزور ویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر 1899ء میں لنکا شائر میں ہونے والے ضمنی انتخاب ہارنے کے بعد انہوں نے اپنا امیج بہتر بنانے کے لئے جنگ کے حالات پر مضامین لکھنا شرو ع کر دیئے جن سے وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے اور 1900ء میں ہونے والے عام انتخابات میں رکن پارلیمنٹ کا انتخاب ان کے لئے حلوہ ثابت ہوا۔فوج کی مقبولیت کے باعث ان انتخابات کو ''خاکی انتخابات ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔وہ اجلاس میں شمولیت کی بجائے امریکہ کے دورے پر روانہ ہو گئے،یہ بھی ساکھ بہتر بنانے کا ایک طریقہ تھا۔انہوں نے پہلی مرتبہ فروری 1901میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی۔ وہ کنزرویٹیو پارٹی کے ساتھ صرف 4 سال چل سکے۔ان کے پاس سیاسی اننگز کھیلنے کے لئے لمبی عمر پڑی تھی۔یہ عمر کسی پٹی ہوئی پارٹی میں رہ کر ضائع کرنے سے بہتر تھا کہ کسی ابھرتی ہوئی جماعت میں چھلانگ لگا کرترقی حاصل کر لی جائے۔ 1904ء میں برٹش سلطنت کی تجارتی پالیسیوں سے نالاں چرچل فلور کراس کرتے ہوئے لیبر پارٹی کے بینچوں پر جا بیٹھے۔ لبرل پارٹی کے ٹکٹ پرمانچسٹر نارتھ ویسٹ سے رکن منتخب ہونے کے بعد انڈر سیکریٹری آف سٹیٹ برائے کالونیزمقرر ہوئے۔بعد ازاں وزیر داخلہ، صدر بورڈ آف ٹریڈاور فرسٹ لارڈ آف ایڈمرلٹی بھی بنے۔ انہوں نے یہ تمام عہدے40برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی حاصل کر لئے ۔دوسری جنگ عظیم میں ان کی شہرت کو پہلا بڑا دھچکا اس وقت لگا جب پہلی جنگ عظیم کے دوران ان کا حمایت یافتہ جنگی مشن ''ڈارڈلس مہم‘‘ (Dardanelles Campaign) میں بری طرح شکست ہوئی۔ان کا امیج داغدار ہو گیا۔
    پہلی بار فلور کراسنگ : 31مئی1904کو وہ ہائوس آف کامنز میں فلور کراس کرتے ہوئے کنزرویٹیو پارٹی چھوڑ کر لبرل پارٹی کی نشست پر بیٹھ گئے،یہ ان کی پہلی فلور کراسنگ تھی۔ان کے کزن آئیور بھی ان کے ساتھ لبرل پارٹی میں شامل ہو گئے۔وہ کئی رہنمائوں سے کہتے ، ''ہاں میں لبرل ہوں بلکہ پیدائشی لبرل ہوں‘‘۔ 1906ء میں ہونے والے انتخابات میں وہ مانچسٹر نارتھ ویسٹ سے منتخب ہوئے۔دور اندیش ونسٹن چرچل نے بیک بینچوں پر بیٹھنا مناسب سمجھا، اور سیاسی شہرت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لئے جنگ کا ''ویسٹرن فرنٹ ‘‘ سنبھال لیا۔ 1922ء میں ڈیوڈ لائیڈ جارج کے مستعفی ہونے کے بعد ایچ ایچ ایسکوئتھ (H. H. Asquith) نے وزرات عظمیٰ سنبھالی چرچل نے موقع غنیمت جانتے ہوئے دوبارہ میدان سیاست میں قدم رکھا اور ایسکوئتھ کابینہ میں وزیر بارود ، وزیر جنگ، وزیر ہوا بازی (Minister for Air) اور وزیر برائے کالونیز کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔1922ء میں مخلوط حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی چرچل کی وزارتوں کا دور بھی اختتام پذیر ہوا۔انہوں نے اپنی ماں کو لکھے گئے خطوط میں بھی کنزرویٹیو پارٹی کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ ان خطوط کے منظر عام پر آنے سے بھی کنزور ویٹیو پارٹی میںان کی مخالفت بڑھنے لگی۔ 1922ء میں وہ 2 نشستوں پر آزاد حیثیت سے کھڑے ہوئے مگر دونوں ہی نشستوں پر ہار گئے۔اپنڈکس کے علاج کی غرض سے ہسپتال میں داخل ہونے کے باعث 15مئی کو ہونے والے ضمنی انتخابات کی مہم چلانے کا موقع ہی نہیں ملاتھا۔
    کنزرویٹیو پارٹی میں واپسی :ـ ونسٹن چرچل نے 1924ء میں ایک بار پھر پرانی جماعت کنزرویٹیو پارٹی سے رجوع کیااور اپنے پرانے ساتھیوں کی حمایت سے 1924ء میں ایپنگ (Epping) سے سیٹ جیتنے میں کامیاب رہے۔کامیابی کے ایک برس بعد چرچل نے دوبارہ کنزر ویٹیو پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔پارٹی میں شمولیت کے ساتھ ہی ''چانسلر آف ایکسچیکر ‘‘ (وزیر خزانہ) کا عہدہ ان کی جھولی میں آن گرا۔
    کنزر ویٹیو پارٹی کے باغی گروپ سے رابطے : 1929ء میں کنزرویٹیو پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی کابینہ کے دروازے چرچل پر بند ہو گئے۔وہ اپوزیشن میں خود کو تنگ اور کمزور محسوس کرنے لگے ۔اسی عرصے میں انہوں نے انڈیا کی آزادی کی شدید مخالفت کا بیڑا اٹھا لیا۔جرمنی کے پس منظر میں چرچل نے اسلحہ جمع کرنے سے متعلق غیر مقبول پالیسی کی بھی حمایت شروع کر دی۔وہ کنگ ایڈورڈ VIII کے بڑے حامیوں میں شامل تھے۔1939ء میں انہیں کابینہ سے دور رہتے ہوئے دس برس ہو چکے تھے۔چنانچہ چرچل نے لارڈ ہف سیچل (Hugh Cecil)کی قیادت میں بننے والے کنزرویٹیو پارٹی میں بننے والے ''باغی ‘‘ گروپ سے رابطے قائم کر لئے۔جو خود کو ''Hughligans‘‘ کہتا تھا۔چرچل نے ایوان میں اپنی ہی جماعت کی مخالفت میں دھواں دار تقاریر شروع کر دیں،جس سے ان کا گراف اور اوپر چلا گیا۔اس دوران چرچل نے مخلوط حکومت کی ساتھی جماعت لبرل یونینسٹ کے رہنما جوزف چیمبرلین پربھی تنقید کے نشتر برسائے۔یونیورسٹی آف مشی گن میں باتیں کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں چرچل نے چین کو تقسیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریر کے دوران ایک مرتبہ ان ہی کی جماعت کے رہنمائوں نے واک آئوٹ کر کے اپنی ناراضی بھی دکھائی تھی۔
    سابق صدر روزویلٹ کی فلور کراسنگ :تھیوڈور روزویلٹ (27اکتوبر 1858ء تا 6جنوری 1919ء )کو ٹیڈی روز ویلٹ بھی کہا جاتا ہے۔وہ ددو مرتبہ 1901ء سے 1909ء تک امریکہ کے صدر رہے۔ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار کے طور پر دو مرتبہ صدر منتخب ہونے والے تھیوڈور کو جب ری پبلیکن پارٹی نے تیسری مرتبہ صدارت کا امیدوار نامزد کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے اپنی الگ پارٹی بنا لی۔ جیسا کہ اس وقت بھی سابق صدر ٹرمپ کے حوالے سے سن رہے ہیں کہ یا تو وہ اپنی جماعت بنانے والے ہیں یا پھر ری پبلیکن پارٹی کے اہم رہنما اس جماعت سے الگ ہونے والے ہیں۔
    انہوں نے تیسری مرتبہ 1912ء میں رہی پبلیکن پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ٹکٹ ولیم ہاورڈ ٹفٹ کو مل گیا ،انہوں نے شکاگو میں کنونشن بلاکر نئی جماعت ''پروگریسیو پارٹی‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا۔وہ ری پبلیکن پارٹی کے کافی رہنما توڑنے میں کامیاب رہے۔تاہم 1912میں ہونے والے انتخابات میں پروگریسیو جماعت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔چنانچہ 1918ء تک مسلسل زوال پذیر ہونے کے باعث تھیوڈور کی 1920میں تقریباََ تمام ممبران کی ری پبلیکن پارٹی میں واپسی کے بعد یہ جماعت عملاََ ختم ہو گئی۔ تاہم وہٹمل مارٹن واحد ممبر کانگریس تھے جو ری پبلیکن پارٹی میں واپس جانے کی بجائے ڈیموکریٹک پارٹی کا حصہ بن گئے۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں