1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

چاہ بابل

'فروغِ علم و فن' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏21 اپریل 2015۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    دنیا کے قدیم ترین آثار میں چاہِ بابل بھی شامل ہے۔ اس کنویں کا ذکر قرآن مجید کے علاوہ بائبل میں بھی آیا ہے۔ اب جبکہ بابل شہر ہی نہیں رہا، اس کنویں کے وجود کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

    لیکن بابل کہاں ہے؟ بابل کا کنواں کس نوعیت کا تھا؟ ہاروت ماروت (جن کا نام چاہِ بابل کے ساتھ ساتھ لازم و ملزوم کی صورت رکھتا ہے) ان کے سحر کی کیفیت کیا تھی؟ اور خود سحر کیا ہے؟ چاہ بابل اور اس کے کوائف سمجھنے کے لیے اس قسم کے متعدد سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں۔

    قرآن مجید کا بیان
    ان تمام سوالوں کے جواب کے لیے ہم قرآن مجید کی سورۂ البقرہ کی طویل ترین آیت (۱۰۲) کا ترجمہ نقل کرتے ہیں جس میں ان بیشتر امور کا ذکر موجود ہے:
    ’’اور یہ لوگ اس علم کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کی بادشاہت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے۔ اور سلیمان نے کفر نہیں کیا۔ البتہ شیطان کفر کیا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو سحر کی تعلیم دیتے، اور وہ اس علم کے پیچھے لگ گئے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت ماروت پر اتارا گیا تھا۔ اور وہ دونوں کسی کو بھی نہیں بتلاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو بس ایک ذریعۂ امتحان ہیں۔ سو تم کفر اختیار نہ کر لینا۔ مگر ان دونوں سے وہ (سحر) سیکھتے‘ جس سے وہ خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالتے، حالانکہ وہ کسی کو بھی اس کے ذریعہ نقصان نہ پہنچا سکتے تھے، مگر ہاں ارادۂ الٰہی سے۔
    ’’اور یہ لوگ وہ چیز سیکھتے ہیں جو انھیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اور یہ خوب جانتے ہیں کہ جس نے اسے اختیار کیا،اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور بہت ہی بری ہے وہ چیز جس کے عوض انھوں نے اپنے آپ کو فروخت کر ڈالا ہے۔ کاش وہ جانتے۔‘‘

    بائبل کے حوالے
    بائبل کے مندرجہ ذیل مقامات میں ان امور کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں:
    ۱۔ کتاب۱، سلاطین ۱۱،۱۲
    ۲۔ کتاب۲، سلاطین باب ۱۷، آیت ۷۱،۱۹
    ۳۔ کتاب مکاشفہ باب۱۰ آیت ۴،۵۔ باب ۱۸ آیات ۲۳، ۲۴،۳۰۔
    بائبل کے تفصیلی بیان سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم صرف حوالہ جات پراکتفا کریں گے۔ البتہ ان کی روایات کا خلاصہ ’’نقل کفر، کفرنہ باشد‘‘ کے بمصداق پیش ہے۔ اس کی صحت کی ذمے داری لینا ہمارے بس سے باہر ہے اور شاید اس کے لیے خود یہود و نصاریٰ کے علما بھی تیار نہ ہوں۔ اسرائیلی روایات کا خلاصہ یہ ہے:
    ہاروت ماروت دو فرشتے تھے۔ انھوں نے اللہ کے سامنے انسانوں کے گناہوں کا مذاق اڑایا کہ تیری مخلوق ہرقسم کے انعام کے باوجود گناہ کرتی ہے۔ اللہ کو ان کا طنز پسند نہ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اگر تم دنیا کے ماحول میں ہوتے تو یہی کرتے۔ فرشتوں نے اپنی عصمت کا دعویٰ کیا، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں زمین پر بھیج دیا۔ یہاں ایک حسین عورت تھی، جس کا نام زہرہ تھا۔ فرشتے اس پر عاشق ہو گئے۔ اس عورت نے کہا: وصل کی شرط یہ ہے کہ تم شراب پیو، قتل کرو اور بتوں کو سجدہ کرو۔ ان پر عشق کا بھوت ایسا سوار ہوا کہ انھوں نے شراب پی، قتل کیا اور بت پرستی سے بھی گریز نہ کیا۔
    زہرہ نے پھر ہاروت ماروت سے آسمان پر جانے کا راز دریافت کیا‘ تو انھوں نے زہرہ کو ’’اسم اعظم‘‘ سکھا دیا۔ وہ اس کی مدد سے آسمان پر چلی گئی اور فرشتے راز الٰہی افشا کرنے کے جرم میں چاہ بابل میں قید کر دیے گئے۔ اس جرم میں وہ قیامت تک کنویں کے اندر لٹکے رہیں گے۔ ساری دنیا کا دھواں ان کی ناک کے ایک نتھنے سے داخل ہو کر دوسرے سے گزرتا رہے گا۔

    محاکمہ
    ہم درج بالا داستان کو حقیقت کے بجائے صرف ایک کہانی تصور کرتے ہیں۔ اس میں حقیقت کم ہے، اور افسانوی رنگ زیادہ جو عقل اور دین دونوں کے خلاف ہیں۔ بھلا فرشتوں کا عشق و سرمستی سے کیا تعلق؟ سب سے بڑی بات یہ کہ قرآن مجید نے فرشتوں کے بارے میں گواہی دی ہے: ’’وہ حکم الٰہی کی نافرمانی نہیں کرتے اور انھیں جو کچھ حکم دیا جاتا ہے وہی کرتے ہیں۔‘‘ (سورۂ التحریم ۶۶:۶)
    امام ابن کثیر نے اپنی مشہور تفسیر ابن کثیر میں درج بالا واقعات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ’’مسند امام احمد میں حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کی ایک روایت حضورﷺ سے منسوب ہے۔ قرین قیاس یہ ہے کہ وہ دراصل کعبِ احبار کا بیان ہے،رسول اللہﷺ کی حدیث نہیں ہے۔ اور کعب احبار نے صرف اسرائیلی قصوں سے نقل کر دیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر جلد، ص۱۴۱)
    امام فخر الدین رازی نے ان قصوں کو نقل کرنے کے بعد لکھا کہ یہ سب کچھ فاسد اور مردود ہے۔عرب عالم دین شہاب عراقی نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو شخص ان قصوں کو مانے وہ اللہ کا منکر ہے۔ وجہ یہی کہ فرشتے معصوم ہوتے ہیں اور قصے میں انھیں گنہگار بلکہ شیطان خصلت پیش کیا گیا ہے۔ قاضی عیاض کی رائے بھی یہی ہے۔
    ہاروت ماورت کون تھے؟

    چاہ بابل کے سلسلے میں سب سے اہم بحث ہاروت ماروت کے بارے میں ہے کہ وہ کون تھے؟ ان کے بارے میں یہود کے ہاں عجیب و غریب روایات مشہور ہیں۔
    آرمینیا کی مذہبی کتابوں میں ہاروت ماروت کو دیوتا بیان کیا گیا ہے۔ ان کا وطن جودی پہاڑی بتلایا گیا جسے عبرانی زبان میں اخری طاغ کہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل خط میخی میں لکھے ہوئے کچھ کتبات دستیاب ہوئے ہیں۔ ان کتبوں میں اس زمانے کے خیالات اور مشہور واقعات کی تفصیل موجود ہے لیکن ان میں ہاروت ماروت کا نام کلگمشن لکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ہاروت کا ہی بگڑا ہوا تلفظ ہو۔ (تلمود مدارش یدکوت باب۴۴)
    قرآن مجید میں انھیں ’’ملکین‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وما انزل علی الملکین ببابل ہاروت و ماروت (سورۂ البقرہ: ۲:۱۰۲)’’ملکین‘‘ کا واحد ’’ملک‘‘ ہے جس کے معنی ہیں فرشتہ۔ بہت سے مفسرین نے اس پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہاروت ماروت اصلاً فرشتے نہ تھے۔ انھیں محض مجازی طور پر مَلَک کہا گیا۔ وہ انسان اور اپنے زمانے کے بااقتدار بادشاہ تھے۔ (تفسیر بیضاوی) چناںچہ آج کل بھی ہمارے ہاں ’’مَلَک‘‘ کے نام سے ایک گوت (خاندان) موجود ہے۔ تمام ککے زئی اور بہت سے راجپوت بھی اپنے آپ کو ملک کہتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ نام کے ساتھ ملک لگ جانے سے وہ فرشتے نہیں بن جاتے۔

    شہربابل
    یہ شہر دریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔ اس پورے علاقے کو بھی بابل ہی کہتے تھے۔ اپنے زمانے میں یہ علاقہ تہذیب و تمدن کا مرکز تھا۔ بابل و نینوا کی تہذیب عالمی تاریخ میں بہت اونچا مقام رکھتی تھی۔ ان لوگوں کا رہن سہن دوسروں کے لیے نمونہ تھا۔ بخت نصر کا عہد اس تہذیب کے انتہائی عروج اور ترقی کا دور تھا۔ اس کے بعد یہاں کی تہذیب کو زوال آنا شروع ہو گیا۔

    جدید جغرافیہ میں بابل دنیا کے نقشے پر عراق عرب میں واقع ہے‘ لیکن صرف کھنڈروں کی صورت۔ کبھی یہ شہر میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ بابل کے گرد ۵۵ میل لمبی فصیل تعمیر کی گئی تھی۔ انھوں نے اسے ’’ہفت عجائبات عالم‘‘ میں شمار کیا ہے۔ کالڈ یا اور کلدانیہ اس کے پرانے نام تھے۔ انجیل مقدس میں اس شہر کا ذکر بار بار ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو: (کتاب دانیال۴:۲، کتاب مکاشفہ۱۰:۵،۱۷،۱۳،۱۸:۲۳ تا ۲۴)
    شہر بابل موجودہ بغداد سے قریباً ساٹھ میل دور جنوب کی سمت دریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔ اس کے کھنڈروںکے قریب ہی آج ہلّہ (حلّہ) کا شہر آباد ہے۔ ان کھنڈروں میں نہروں کے آثار، پانی کے نلکوں کے نشان، شاہی محلات کی بنیادیں اور مضبوط قلعوں کے نشانات اب بھی موجود اور اپنی تہذیب و تمدن کے کمال کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
    شہر بابل کی مشہور عمارات میں مندرجہ ذیل خاص اہمیت کی حامل تھیں:
    قصرِ سمیرا میس، بخت نصر کا محل، برج نمرود، معلق باغ جو کئی طبقات پر مشتمل تھا، ایک عالی شان رصد گاہ، لعبوس کا مقبرہ‘ شہر کی طویل و عریض سہ طرفہ حیرت

    انگیز فصیل اور برج بابل وغیرہ۔
    برج بابل کے متعلق مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس برج میں سات رنگ کے طبقے تھے۔ ان کا تعلق سات اجرام سماوی سے تھا: پہلا طبقہ سیاہ رنگ کا تھا: یہ زحل سے منسوب تھا۔ دوسرا طبقہ سفید رنگ کا تھا: یہ زہرہ سے نسبت رکھتا۔ تیسرا طبقہ نارنجی رنگ کا تھا: اس کی نسبت مشتری سے تھی۔ چوتھا طبقہ نیلے رنگ کا تھا: یہ عطارد سے میلان رکھتا۔ پانچواں طبقہ قرمزی رنگ کا تھا: اس کا مریخ سے میل تھا۔ چھٹا طبقہ نقریٔ تھا: اس کا تعلق چاند سے تھا۔ ساتواں طبقہ طلائی تھا: اس کی نسبت سورج سے تھی۔
    بابل کے لوگ معبودانِ باطل کے پرستار تھے۔ ان کے خیال میں یہ معبود آسمان کی فضائوں میں رہتے تھے۔ یہ لوگ اپنی قسمت ان سے وابستہ سمجھتے ۔ اسی لیے وہ نجوم شناسی اور علم افلاک میں بڑے ماہر تھے۔ ان کے بت کدوں میں ستاروں کی پرستش ہوتی تھی۔

    بابل کے کھنڈر اور چاہِ بابل
    جنگ عظیم دوم کے دوران ہمارے عزیز محترم‘ چودھری علی احمد سرور عراق گئے۔ انھوں نے بابل کے کھنڈر اور چاہ بابل کا بغور مشاہدہ کیا۔ ہم اس عنوان کے تحت انہی کے غیر مطبوعہ سفرنامہ کے اقتباسات شکریہ کے ساتھ نقل کر رہے ہیں:
    ’’آج یہ سب کھنڈر کے ڈھیر ‘ لیکن چشم بینا کے لیے سرمۂ بصیرت ہیں۔ ان پُرہول ڈھیروں میں عجیب ہیبت پنہاں ہے اور ساتھ ہی ایک اندوہناک اور نہایت حسرت آمیز درسِ عبرت بھی۔

    بابل بغداد سے شہر حلّہ کو جانے والی سڑک پر چون (۵۴) میل دور واقع ہے۔ اس سڑک کو ایک چھوٹی سی نہر کاٹتی ہے۔ یہیں سے بابل کی حدود شروع ہو جاتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شہرکی فصیل تھی۔ آدھ میل آگے چلیں، تو ایک چھوٹا سا عجائب گھر ہے اور اس کے متصل ایک ریسٹ ہائوس بنا ہوا ہے۔ یہ دونوں عمارتیں حکومت عراق کے محکمہ آثار قدیمہ نے تعمیر کرائی ہیں۔

    عجائب گھر میں بابل کے کچھ عجائبات، تصویر کشی اور نقاشی کے نادر نمونے اور قدیم شہر کا مٹی سے بنا ہوا ماڈل رکھا ہے۔ عجائب گھر کی پشت پر ایک ٹیلہ ہے جس پر نشان راہ کی تختیاں نصب ہیں۔ کچھ آگے شاہ بنو کدنصر (بخت نصر) کے جلوس کا راستہ ہے۔ مشرق کی سمت ’’نین ماخ‘‘ کا ایک چھوٹا سا معبد ہے۔ گزرگاہِ جلوس کے مغرب میں ایک عمارت ہے جو جنوبی محل کے نام سے مشہور ہے۔
     
    پاکستانی55 اور ثاقب عبید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    دوسری عمارت معلق باغ (Hanging Garden) کی ہے جسے ’’محل اعظم‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس سے تھوڑی دور آگے ایک تہ خانہ ہے۔ کہتے ہیں یہاں نمرود نے حضرت شعیب علیہ السلام کو شیر کے آگے ڈالا تھا۔ اس تہ خانہ کی دیواروں پر تصاویر بنی ہیں جو اس دور کے ماہرین فن کی فنکاری کا ایک بہترین نمونہ ہیں۔ جو اینٹیں یہاں استعمال ہوئیں‘ وہ اپنی شناخت اور مضبوطی کے اعتبار سے دور حاضر سے بہت بہتر ہیں۔ چند قدم آگے چل کر ایک کنواں آتا ہے جو اوپر سے مربع شکل کا ہے۔ اسی کنویں کو ’’چاہ بابل‘‘ کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔

    چاہ بابل کے قریب پتھر کا ایک بڑا مجسمہ ہے اور ساتھ ہی چند معبد ہیں، جن کو ’’نی نورتا‘‘ اور ’’گلا‘‘ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ ’’برج بابل‘‘ بھی اس کے قریب ہی واقع ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سکندر اعظم نے ہندوستان سے واپسی پر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔
    کھنڈروں سے دو تین میل کے فاصلے پر ایک مسجد کا گنبد نظر آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ مسجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تعمیر کرائی تھی۔اس کے گنبد اور در و دیوار پر نہایت نفیس نقش و نگار ہیں۔ انھیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کاریگر ابھی چند دن پہلے کام سے اٹھ کر گئے ہیں۔

    بابل کے حکمران
    بابل کے بانی کا نام نمرود بیان کیا گیا ہے۔ اس کا زمانہ قریباً چار ہزار سال قبل مسیحؑ پہلے آیا۔ اس کے باپ کا نام کوش اور دادا کا نام حام تھا۔ حضرت مسیح سے کوئی پونے چار ہزار سال قبل بنوعاد کے سامی قبیلے نے بابل پر قبضہ کر لیا۔ دو یا ڈھائی سو سال ان کی حکومت رہی۔
    سامیوں کے بعد اس پریلامی خاندان کا قبضہ ہو گیا۔ وہ نمرود اسی خاندان کا ایک حکمران تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ نمرود اس کا خاندانی لقب تھا، اس کا اصل نام ذوالامر بیان کیا گیا ہے۔ نمرود کا زمانہ ۲۳۰۰سال قبل مسیح میں آیا۔ اسی نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو زندہ آگ میں جلا دینے کا حکم دیا تھا۔
    اس خاندان کے بعد بابل کے بادشاہوں میں بنوکدنصر بہت مشہور ہوا۔ اسے بخت نصر بھی کہتے ہیں۔ اس نے بہت سے علاقے بزور شمشیر فتح کیے۔ اسی کے ہاتھوں فلسطین میں یہودیوں پر تباہی آئی اور بیت المقدس کا شہر اجڑا۔ اس نے کتاب مقدس کا ایک ایک نسخہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر جلا ڈالا۔ اس خاندان کا آخری تاجدار بیل شغر تھا۔
    حضرت مسیح سے ۵۳۸ (اور بعض روایات کے مطابق ۵۴۹) سال قبل فارس کے بادشاہ نے بابل پر حملہ کر دیا اور اس طرح یہ ملک ایران کا باج گزار بن گیا۔

    بابل کا جادو
    حضرت سلیمان علیہ السلام جب وفات پا گئے‘ تو بنی اسرائیل بالعموم سحر و طلسم میں مصروف رہنے لگے۔ انھوں نے حقیقت چھوڑ کر جادوگری، شعبدہ بازی، طلسم بندی کو اختیار کر لیا۔ بابل کے باشندے اس سلسلے میں سب سے آگے بڑھ گئے۔
    انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس کے فاضل محققین کا بیان ہے کہ اس شہر کے باشندے بہت بڑے جادوگر تھے۔ ان کی مذہبی اور دینیات کی کتابوں میں بھی جگہ جگہ جادو منتر ہی نظر آتے ہیں۔ گویا یہ لوگ سحر اور طلسم کو مذہب کا درجہ دے چکے تھے (ملاحظہ ہو کتاب مذکور جلد ۲صفحہ۱۱۶)
    مختصر یہ کہ بابل جادو منتر اور سفلی عملیات میں دور دور تک مشہور تھا۔ کالڈ یہ اس شہر کا پرانا نام تھا۔ اسی لیے انگریزی میں آج بھی جادوگر کو ’’کالڈین‘‘ کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ اس شہر کا باشندہ ہونا ہی جادوگر ہونے کی علامت تھی۔

    بشکریہ : حافظ نظر احمد
     
    عبدالمطلب، پاکستانی55، سید شہزاد ناصر اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    دلچسب اور معلوماتی
    شراکت کا شکریہ
    سلامت رہیں
     
    پاکستانی55 اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
  5. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    بہت زبردست جناب بہت شکریہ
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    اس سلسلے میں ایک تحریر ملی ہے

    ہاروت و ماروت کا تفصیلی قصہ

    ایک زمانے میں جس کی پوری تعیین میں کومحقیقانہ رائے اس وقت سامنے نہیں، دنیا میں اور خصوصاََ بابل میں جادو کا بہت چرچا تھا، اور اس کے عجیب اثرات کو دیکھ کر جاہلوں کو اس کی حقیقت اور انبیاء کرام کے معجزات کی حقیقت میں اختلاط و اشتباہ ہونے لگا، اور بعض لوگ جادو گروں کو مقدس اور قابلِ اتباع سمجھنے لگے، اور بعض لوگ جادو کو نیک کام سمجھ کر اس کے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے لگے، جیسا موجودہ دور میں مسمریزم کے ساتھ لوگوں کا معاملہ ہورہا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس اشتباہ اور غلطی کے رفع کرنے کے لئے بابل میں دوفرشتے ہاروت و ماروت نامی اس کام کے لئے بھیجے کہ لوگوں کو سحر کی حقیقت اور اس کے معبوں سے مطلع کردیں تاکہ اشتباہ جاتا رہے، اور چادوپر عمل کرنے نیز جادوگروں کے اتباع کرنے سے اجتناب کرسکیں، اور جس طرح انبیاء علیہم السلام کی نبوت کو معجزات و دلائل سے ثابت کردیا جاتا ہے، اسی طرح ہاروت و ماروت کے فرشتہ ہونے پر دلائل قائم کردئے گئے، تاکہ ان کے احکامات و ارشادات کی تعمیل و اطاعت ممکن ہو۔

    اور یہ کام انبیاء کرام سے اس لئے نہیں لیا گیا کہ اول تو انبیاء اور جادوگروں میں امتیاز و فصل کرنا مقصود تھا، ایک حیثیت سے گویا انبیاء کرام ایک فریق کا درجہ رکھتے تھے، اس لئے حکم فریقین کے علاوہ کوئی اور ثالث ہونا مناسب تھا۔

    دوسرے اس کام کی تکمیل بغیر جادو کے الفاظ کی نقل و حکایت کے عادۃ ہو نہ سکتی تھی، اگرچہ نقل کفر کفر نباشد کے عقلی و نقلی مسلمہ قاعدہ کے مطابق ایسا ہوسکتا تھا، مگر چونکہ حضرات انبیاء کرام مظہر ہدایت ہوتے تھے، اس لئے ان سے یہ کام لینا مناسب نہ سمجھا گیا، لہذا فرشتوں کو اس کام کے لئے تجویز کیا گیا، کیونکہ کارخانہ تکوین میں جو خیر و شر سب پر مشتمل ہوتا ہے، ان فرشتوں سے ایسے کام بھی لئے جاتے ہیں جو مجموعہ عالم کے اعتبار سے تو بوجہ مصالح عامہ خیر ہوں، لیکن لزوم مفسدہ کے سبب فی ذاتہ شر ہوں، جیسے کسی ظالم و جابر یا موذی جانور وغیرہ کی نشونما اور غورد بداخت! کہ تکوینی اعتبار سے تو درست و محمود ہے، اور تشریعی لحاظ سے نادرست و مذموم، بخلاف انبیاء کرام علیہم السلام کے کہ ان سے خاص تشریعیات کا کام ہی لیا جاتا ہے جو خصوصاََ و عموماََ خیر ہی خیر ہوتا ہے، اور گوکہ یہ نقل و حکایت مذکورہ غرض کے لحاظ سے ایک تشریعی کام تھا، لیکن پھر بھی بوجہ احتمال قریب اس امر کے کہ کہیں یہ نقل و حکایت بھی جادو پر عمل کا سبب نہ بن جائے، جیسا کہ واقع میں ہوا، تو حضرات انبیاء کو اس کا سبب بواسطہ نقل بنانا بھی پسند نہیں کیا گیا۔

    البتہ کلیات شرعیہ سےانبیاء علیہم السلام کے ذریعہ بھی اس مقصود کی تکمیل کردی گئی، ان کلیات کے جزئیات کی تفصیلات بوجہ احتمال فتنہ انبیاء کرام کے ذریعہ بیان نہیں کی گئیں، اس کی مثال ایسی ہے کہ مثلاََ انبیاء کرام نے یہ بتایا ہے کہ رشوت لینا حرام ہے، اور اس کی حقیقت بھی بتلادی، لیکن یہ جزئیات نہیں بتلائے، کہ ایک طریقہ رشورت کا یہ ہے کہ صاحبِ معاملہ سے یوں چال کر کے فلاں بات کہے، وغیرہ وغیرہ کیونکہ اس طرح کی تفصیلات بیان کرنے سے تو لوگ اور ترکیبیں سیکھ سکتے ہیں، یا مثلاََاقسام سحر ہی میں مثال فرض کیجئے کہ قواعد کلیہ سے یہ بتلادیا گیا ہے کہ دستِ غیب کا عمل جس میں تکیہ کے نیچے یا جیب میں رکھے ہوئے روپے مل جائیں ناجائز ہے، لیکن یہ نہیں بتلایا کہ فلاں عمل پڑھنے سے اس طرح روپے ملنے لگتے ہیں۔

    حاصل کلام یہ کہ فرشتوں نے بابل میں آکر اپنا کام شروع کر دیا، کہ سحر کے اصول و فروع ظاہر کر کے لوگوں کو اس کے عمل بد سے بچنے کی اور ساحرین سے نفرت و دوری رکھنے کی تنبیہ اور تائید کی، جیسے کوئی عالم دیکھے کہ جاہل لوگ اکثر نادانی سے کفریہ کلمات بک جاتے ہیں،اس لئے وہ تقریر یا تحریر کلمات کو جو اس وقت شایع ہیں جمع کر کے عوام کو مطلع کردے کہ دیکھو یہ کلمات بچنے کے لائق ہیں ان سے احتیاط رکھنا۔

    جب فرشتوں نے کام شروع کیا تو وقتاََ فوقتاََ مختلف لوگوں کی آمد و رفت ان کے پاس شروع ہوئی، اور وہ درخواست کرنے لگے کہ ہم کو بھی ان اصول و فروع سے مطلع کر دیجئے تاکہ ناواقفی سے کسی اعتقادی یا عملی فساد میں مبتلا نہ ہوجائیں، اس وقت فرشتوں نے بطور احتیاط و تبلیغ اور بنظر اصلاح یہ التزام کیا کہ اصول و فروع بتانے سے قبل یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ دیکھو ہمارے یہ بتانے کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی آزمائیش بھی مقصود ہے کہ دیکھیں ان چیزوں پر مطلع ہو کر کون شخص اپنے دین کی حفاظت و اصلاح کرتا ہے، کہ شر سے آگاہ ہو کر اس سے بچے، اور کون اپنا دین خراب کرتا ہے کہ اس شر پر مطلع ہو کر وہی شر خود اختیار کرلے، جس کا انجام کفر ہے، خواہ کفر عملی ہو یا اعتقادی، دیکھو ہم تم کو نصیحت کیے دیتے ہیں کہ اچھی نیت سے اطلاع حاصل کرنا اور پھر اسی نیت پر ثابت قدم رہنا، ایسا نہ ہو کہ ہم سے تو یہ کہہ کر سیکھ لو کہ میں بچنے کے لیے پو چھ رہا ہوں، اور پھر اس کی خرابی میں خود ہی مبتلا ہوجاؤ، اور ایمان برباد کرلو۔

    اب ظاہر ہے کہ وہ اس سے زیادہ خیر خواہی اور کیا کرسکتے تھے، غرض جو کوئی ان سے اس طرح عہد و پیماں کرلیتا وہ اس کے روبرو جادو کے سب اصول و فروع بیان کردیتے تھے، کیونکہ ان کا کام ہی یہ تھا، اب اگر کوئی عہد شکنی کر کے اپنے ارادہ و اختیار سے کافر و فاجر بنے وہ جانے۔ چنانچہ بعضے اس عہد پر قائم نہ رہے، اور اس جادو کو مخلوق کی ایذا رسانی کا ذریعہ بنالیا، جو فسق تو یقیناََ ہے، اور بعضے اس کے استعمال کے کفر بھی ہیں، اس طرح سے فاجر کافر بن گئے۔

    اس ارشاد اصلاحی اور پھر مخاطب کے خلاف کرنے کی مثال اس طرح ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص کسی جامع معقول و منقول، عالم با عمل کے پاس جائے کہ مجھ کو قدیم یا جدید فلسفہ پڑھا دیجئے، تاکہ خود بھی ان شبہات سے محفوظ رہوں جو فلسفہ میں اسلام کے خلاف بیان کئے جاتے ہیں،اور مخالفین کو بھی جواب دے سکوں، اور اس عالم کو یہ احتمال ہو کہ کہیں ایسا نہ ہوکہہ مجھ کو دھوکہ دے کر پڑھ لے، اور پھر خود ہی خلافِ شرع عقائد باطلہ کو تقویت دینے میں اس کو استعمال کرنے لگے، اس احتمال کی وجہ سے اس کو نصیحت کرے کہ ایسا مت کرنا اور وہ وعدہ کرلے، اور اس لئے اس کو بڑھا دیا جاوے، لیکن وہ شخص فلسفہ کے خلافِ اسلام نظریات و عقائید ہی کو صحیح سمجھنے لگے تو ظاہر ہے کہ اس کی اس حرکت سے اس معلم پر کوئی ملامت یا برائی عائد نہیں ہوسکتی، اسی طرح اس اطلاعِ سحر سے ان فرشتوں پر بھی نہ کسی شبہ کی گنجائش ہے نہ وسوسہ کی۔

    اور اس فرض کی تکمیل کے بعد غالباََ وہ فرشتے آسمان پر بلالئے گئے ہوں گے، واللہ اعلم بحقیقہ الحال (بیان القرآن)

    (معارف القرآن جلد 1 صفحہ 271، 274، سورہ بقرہ: آیت 103
     
    عبدالمطلب، پاکستانی55 اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    بہت زبردست مگر ابھی پورا نہیں پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    اچھا کیا
     
    عبدالمطلب نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    کافی لمبی چھوڑی تحریر ہے وقفے وقفے سے پڑھونگا
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں