1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پی ڈی ایم کا مؤقف کمزور ہو چکا ۔۔۔۔ خاور گھمن

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏16 جنوری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    پی ڈی ایم کا مؤقف کمزور ہو چکا ۔۔۔۔ خاور گھمن

    پیپلزپارٹی کے بعد اب (ن) لیگ نے بھی باضابطہ طور پر ضمنی انتخابات اور مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کا ا علان کردیا ہے۔ پی ڈی ایم کی 2بڑی جماعتوں کے اس اعلان کے بعد اگر دیکھا جائے تو پی ڈی ایم لانگ مارچ تک عضو معطل کے طور پر موجود رہے گی ۔
    پی ڈی ایم کی جانب سے پہلے دسمبر، پھر جنوری اور اب مارچ کی ڈیڈ لائن سامنے آئی ہے ، تحریک کا اگلا لائحہ عمل جس میں اسمبلیوں سے استعفے دینا اور لانگ مارچ کا انعقاد شامل ہے ، اس سے متعلق حتمی فیصلے اب یکم فروری کو کئے جائیں گے، مطلب آر یا پا رکا مرحلہ اب سینیٹ الیکشن کے بعد ہی آئے گا۔

    اپوزیشن کی جانب سے ہر بار نئی تاریخیں دینے سے سیاسی طور پر جو ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو رہی تھی وہ کافی حدتک ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم والے بنیادی طور پر موجودہ اسمبلیوں کو غیر قانونی کہتے ہوئے تحریک انصاف حکومت کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں،لہٰذا جب وہ انہی اسمبلیوں اور سینیٹ کا حصہ بننے جارہے ہیں تو اس کا عام فہم معنی یہی ہے کہ اعتراضات کے باوجود وہ اس نظام کو قبول کرتے ہوئے اس کا حصہ بنے پر تیا رہیں۔ ضمنی انتخابات بھی وہی الیکشن کمیشن کروائے گا جس کو وہ جانبدار یا پھر نا اہل سمجھتے ہیں۔ اس سے پہلے اپوزیشن گلگت بلتستان میں بھی انتخابی نتائج کو قبول کرتے ہوئے اسمبلی میں موجود ہے۔ ایسے میں پی ڈی ایم اور خاص کر مولانا فضل الرحمن کا مؤقف کافی کمزور ہو چکاہے۔

    ایک وفاقی وزیر کے مطابق سیاسی شعور رکھنے والے لوگوں کا پہلے دن سے ہی یہی خیال تھا کہ پی ڈی ایم خاص طور پر پیپلزپارٹی کسی صورت اسمبلیاں نہیں چھوڑے گی لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں جو اس وقت کسی نہ کسی صورت میں نظام کا حصہ ہیں، ایک ہی وقت میں استعفے دیتی ہیں تو حکومت کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے لیکن اس کیلئے پیپلز پارٹی کو سندھ میں حکومت کی قربانی دینی ہوگی جو ممکن نظر نہیں آ رہا۔اگر کسی موقع پر پیپلزپارٹی سندھ حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کرتی بھی ہے تو وفاقی حکومت سندھ میں گورنر راج لگا کر صوبے کے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لی گی اور اس کا سب سے زیادہ نقصان پیپلزپارٹی کو ہی ہوگا۔ دوسرا نتیجہ اس عمل کا یہ ہو سکتا ہے کہ پی ڈی ایم جب تمام سسٹم سے باہر نکلے گی تو اس کی پوری کوشش ہو گی وہ موجودہ حکومت کو کسی صورت چلنے نہ دے۔ اگر ایساہوتا ہے تو پھر معاملات کسی کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے۔

    دوسری جانب جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا تعلق ہے وہ بیان بازی کرتے رہیں گے لیکن جب تک (ن )لیگ اور پیپلزپارٹی کسی فیصلے پر اکٹھی نہیں ہوں گی اس وقت تک مولانا صاحب بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ پی ڈی ایم کے مستقبل کے حوالے سے جب اپوزیشن رہنمائوں سے بات ہوئی تو ان کا کہناتھا کہ یہ ایک طویل جدوجہد ہے جس میں کافی اتار چڑھائو آئیں گے، لیکن تمام سیاسی جماعتیں اختلافات کے باوجود حکومت کیخلاف ابھی تک اکٹھی ہیں جو ایک بڑی کامیابی ہے، ہم حکومت کو گرا پائیں گے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ہم ہر طرح سے دبائوجاری رکھیں گے۔

    ا س ساری صورتحال میں اسلام آباد میں موجود باخبر لوگوں کی اکثریت کا بھی کہناہے کہ ابھی تک پی ڈی ایم کی طرف سے جو جلسے جلوس کئے گئے ہیں ان سے نہیں لگتا کہ حکومت مخالف ایک بھرپور تحریک جنم لے چکی ہے۔ پی ڈی ایم تحریک کو بڑا نقصان پیپلزپارٹی اور(ن )لیگ کی جانب سے ا نتخابی عمل کا حصہ بننے کے فیصلے سے پہنچا ہے ا ور اس اعلان کے بعد تحریک کا ساراٹیمپو ہی ٹوٹ گیا ہے۔ کمزور اور ڈھیلی ڈھالی اپوزیشن سے سر دست حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور سینیٹ الیکشن کے بعد حکومت مزید مضبوط ہو گی۔ سینیٹ میں اکثریت حاصل ہونے کے بعد ناجانے وزیر اعظم کس طرح کی قانون سازی کر جائیں کہ اپوزیشن جماعتوں کی مستقبل کی سیاست ہی دائوپر لگ جائے۔

    سیاسی محاذ آرائی اور دائوپیچ اپنی جگہ ، حکومت کو اپنے ا صل محاذ پر بھی کارکردگی دکھانا ہوگی۔وزیر اعظم کو ترجمانوں کے اجلاسوں پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے وزراء سے باز پرس کرنی ہوگی۔ اگر وزراء کی کارکردگی تسلی بخش ہوگی تو ترجمانوں کا کام بھی آسان ہو جائے گا ورنہ انہیں وزراء کی نالائقیوں کا بھی غیر ضروری دفاع کرنا پڑیگا جس کا عوام میں بھی منفی تاثر جاتاہے۔ زیادہ نہیں لیکن تھورا بہت معیشت کا پہیہ بھی چل پڑا ہے ،اب وزیر اعظم کو مہنگائی میں کمی کیساتھ پولیس ا صلاحات پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ آئندہ 2سال میں اگر وزیر اعظم مہنگائی پر قابو کیساتھ ادارہ جاتی اصلاحات کرپاتے ہیں خا ص طور پر پنجاب پولیس میں تو اپوزیشن کے پاس الیکشن میں کچھ نہیں ہوگا،کیونکہ اب تک مشکل ترین حالات کے باوجود بھی عوام کو یہ یقین ہے کہ وزیر اعظم دیانتدار حکمران ہیں اور عوامی مسائل حل کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن اڑھائی سال گزرنے کے بعد ان کوششوں کے آثار زمین پر ضرور نظر آنے چاہئیں۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں