1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پل صراط کے پار - فاروق عالم انصاری

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از سید شاہد حسین کاظمی, ‏18 مارچ 2013۔

  1. سید شاہد حسین کاظمی
    آف لائن

    سید شاہد حسین کاظمی ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مارچ 2013
    پیغامات:
    1
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    news-1363550894-9326.jpg
    مولانا طاہرالقادری پاکستان واپس آ گئے ہیں لیکن وہ گئے ہی کب تھے؟آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ والا نعرہ مستانہ لگانے کے بعد وہ ہمارے سیاسی منظر نامہ سے ایک لمحہ کیلئے بھی اوجھل نہیں ہوئے۔ آپ انہیں آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے موجد بھی نہیں کہہ سکتے۔ ایجاد کچھ چیزے دیگر است۔ وہ ووٹروں کے لئے یہ حیرت انگیز اطلاع ضرور لائے کہ یہ آپ کا آئینی حق ہے کہ الیکشن میں امیدوار آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے تحت صادق اور امین ہوں۔ امیدوار کے صادق اور امین ہونے والا تصور آئین میں جنرل ضیاءالحق کے دور میں ڈالا گیا۔ یہ تصور تحریک نظام مصطفی میں ڈھالنے میں رفیق احمد باوجوہ کی خطابت کا بڑا عمل دخل ہے۔ دراز قد رفیق احمد باجوہ ایک اوسط درجہ کے فوجداری وکیل تھے۔ ایک خطیب کے طور پر وہ قومی اتحاد کے پلیٹ فارم پر پہلی مرتبہ نظر آئے اور پھر خطابت کے میدان میں اپنے تمام ہم عصروں کو بہت پیچھے چھوڑ گئے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 9 جماعتوں کے بنائے ہوئے اتحاد، پاکستان قومی اتحاد کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے تھے۔ انہوں نے بھٹو کے خلاف اس سیاسی جنگ کو اپنی خطابت کے زور سے کفر اور اسلام کی جنگ بنا دیا۔ ایک تقریر میں کہنے لگے کہ ہم بھٹو کے خلاف یہ ساری تحریک اس شرط پر ختم کرنے کو تیار ہیں کہ وہ ہمیں صرف ایک نماز پڑھ کر سنا دیں پھر اپنی بات مکمل کرتے ہوئے بولے کہ ہم ایک نماز نماز عشاءسنیں گے کہ اس میں دعائے قنوت بھی آتی ہے پھر سیاست میں اک قدم غلط پڑنے پر وہ منزل تو کیا سفر کی لذت سے بھی گئے۔ انہیں موت بھی گوشہ گمنامی ہی میں آئی۔ اخبارات میں ان کی موت کی خبر میں یہ خبر بھی تھی کہ وہ زندہ تھے۔ غیر جمہوری طریقے سے بھٹو کو ہٹا کر آنے والے فوجی جنرل ضیاءالحق نے تحریک نظام مصطفیٰ کی ساری نمبرداری سنبھال لی۔ جماعت اسلامی سمیت سبھی جماعتوں نے ضیاءالحق کی حکومت میں وزارتیں قبول کر لیں۔ ایک آمر اپنی ساری توانائی عوامی فلاح و بہبود کی بجائے محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنے میں صرف کر دیتا ہے۔ مجلس شوریٰ کے تجربہ کے بعد بڑی دقّت سے جنرل ضیاءالحق الیکشن پر تیار ہوئے۔ انہوں نے 1985ءمیں غیر جماعتی انتخاب کروایا۔ برادری ازم کا تصور جو 1970ءمیں دم توڑ گیا، پھر پوری طرح زندہ ہو گیا پھر ہم آج تک اس برادری ازم سے نجات نہیں پا سکے۔ آج کسی الیکشن میں کوئی سیاسی جماعت یہ بات قطعاً نظر انداز نہیں کر سکتی کہ اس حلقہ میںکس برادری کی اکثریت ہے اور اس کے جماعتی امیدوار کی برادری کونسی ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے عہد حکومت میں سارا زور اسلام کی ظاہر داری پر دیا گیا۔ مالی امور میں پاکیزگی کی بجائے نماز، روزہ، عمرہ، حج اور بس عبادات پر ہی سارا زور، انہی حالات میں ایک سید زادے شاعر عبدالحمید عدم نے اطلاع دی تھی....
    کس قدر بوجھ تھا گناہوں کا
    حاجیوں کا جہاز ڈوب گیا
    1985ءسے ہمارے سیاسی کلچر میں گن مین اور بڑی بڑی گاڑیاں در آئی ہیں۔ ”جتنا گڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہو گا“ سیاست میں نفع بھی بہت لیکن سرمایہ کاری بھی بہت زیادہ پھر ذوق شوق والے لوگ کہتے ہیں کہ یہ شوق بڑا مہنگا شوق ہے۔ میں سیالکوٹ سے ایک امیر زادے کو جانتا ہوں جو ابھی سے ہی دو تین کروڑ روپے خرچ کر چکا ہے۔ الیکشن میں تجوریوں کے منہ کھول دیئے جائیں گے۔ ووٹروں کے لئے اطلاع عام ہے۔ اس حبس میں جب لوگوں کی زبان پر لو کی دعا تھی، مولانا طاہر القادری کی باسٹھ تریسٹھ والی آواز ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی طرح خوشگوار محسوس ہوئی ہے۔ جوڈیشل ایکٹوازم کے شدید موسم میں سپریم کورٹ اور الیکشن کمشن نے آئین کے بھولے بسرے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کو سر آنکھوں پر بٹھا لیا پھر صاف شفاف الیکشن کروانا الیکشن کمشن کی ذمہ داری بھی ہے۔ اگر امام مقتدیوں کو وضو کے ارکان کی یاددہانی کروا دے تو آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟ لیکن ہماری پارلیمنٹ یہ بات نہیں مان رہی۔ اس مسئلہ پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں کے ارکان کا اتفاق رائے ہے۔ سنیٹر سعید غنی کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمشن اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے آئین کی من مانی تشریحات سے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اگر عوام جعلی ڈگریوں والوں کو دوبارہ منتخب کرنا چاہتے ہیں تو الیکشن کمشن کو بھلا اعتراض کیوں ہے؟ سنیٹر کاظم خاں دلیل میں پھولن دیوی کو لے آئے ہیں کہ اگر وہ ہندوستانی پارلیمنٹ کی ممبر منتخب ہو سکتی ہے تو پاکستان میں ....؟ شاید وہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں اب تک کوئی پھولن دیوی کے کینڈے کا بندہ نہیں پہنچ سکا۔ حفیظ جالندھری نے کہا تھا....
    گمان کیجئے کتنا برا زمانہ ہے
    حفیظ جی بھی بھلوں میں شمار ہوتے ہیں
    اور ادھر بھی ماجرا یوں ہے کہ ہمارے کئی ارکان پارلیمنٹ کا اعمال نامہ دیکھ کر ہمیں پھولن دیوی بھی کچھ کچھ بھلی مانس ہی دکھائی دیوے۔ الیکشن کمشن والے اپنی صاف شفاف الیکشن کروانے کی ذمہ داری سمجھتے ہوئے امیدواروں کی پوری جانچ پرتال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی ڈگریوں کے بارے میں سوالات ہیں، اپنے اور بیوی بچوں کے بیرونی سفر کے بارے میں اور اسی نوعیت کے چند دیگر سوالات لیکن پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں کے ارکان پارلیمنٹ اس ”جامہ تلاشی“ کو خلاف آئین سمجھے بیٹھے ہیں۔ اب سپریم کورٹ نے کاغذات نامزدگی فارم پر حکومت اور الیکشن کمشن کے درمیان اختلاف کا نوٹس لے لیا ہے۔ انہوں نے اپنے عبوری فیصلے میں کہا ہے کہ الیکشن کمشن کاغذات نامزدگی میں ترامیم کا اختیار رکھتا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے الیکشن کمشن کو ایک تھپکی آئی ہے کہ وہ خود کو کمزور نہ سمجھے، سپریم کورٹ ان کے پیچھے ہے۔ 18کروڑ عوام صاف شفاف الیکشن چاہتے ہیں۔ نئے فارموں میں بنک قرضوں کی معافی کی تفصیل بھی پوچھی گئی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے لوگ بنک قرضوں کی معافی کو قطعاً کوئی غلط کام نہیں سمجھتے۔ سو معافی کو تو عین کار ثواب سمجھا جاتا ہے۔ اسطرح سود پر سود پر قرضہ لینے کے گناہ کا کفارہ بھی ہو جاتا ہے۔ اس مرحلہ پر عمران خان کی فراست کی داد نہ دینا غلط ہو گا وہ کہہ رہے ہیں کہ پیسہ بنانے کیلئے کرپشن کرنے والوں اور نظام کی وجہ سے کرپٹ لوگوں میں فرق روا رکھا جائے گا۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ فرق الیکشن کمشن کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے۔ جناب مجیب الرحمن شامی فرما رہے ہیں کہ پاک ایران گیس معاہدے پر دستخط کر کے پاکستان نے پُل صراط پر سفر کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ پُل صراط پار کرنے میں پچارو اور گن مین نہیں، صرف نیک اعمال چاہئیں۔ اب ہمیں سیاستدان بھی صرف وہی چاہئیں جو آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے معیار پر پورے اترتے ہوں اور سلامتی کے ساتھ پل صراط پار کر سکیں۔
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کالم نگار فاروق انصاری صاحب ! افسوس صد افسوس کہ آئین کے 62، 63 آرٹیکل والا خواب کم از کم فی الحال موجودہ سیٹ اپ جس میں غیر آئینی (مک مکا) کے ذریعے تشکیل دیا گیا الیکشن کمیشن، اسکی پشت پناہی پر اعلی عدلیہ اور انکے سائے تلے کرپٹ پروفیشنل سیاسی گھوڑوں کی ایک کھیپ جس میں قرضہ خور، ٹیکس چور، لٹیرے ، قاتل، بدعنوان و بدقماش اور دہشت گرد اور دہشت گردوں کے سرپرست شامل ہیں وہ سارے "جمہوریت" کے جھنڈا اٹھائے قوم کی لاشوں پر رقص کناں نظر آرہے ہیں۔
    وہی اگلے 5 برس کے لیے اس ملک کی تقدیر پر قابض ہوں گے۔
    وہی غربت و مہنگائی کی آگ جلا کر اس میں عوام کو ڈال کر بھونا جائے گا۔
    وہی دلفریب نعروں سے عوام کو پھر خودکشیوں، خود کش بم دھماکوں اور نفرتوں میں جلتا ہوا پاکستان اگلے 5 سال کے لیے دیا جائے گا۔

    اگر عوام انہی کے ہاتھوں بےوقوف بننے اور ذلیل ہونے کے لیے تیار ہے تو بڑے شوق سے جا کر انہی کوووٹ اور سپورٹ دیتی رہے۔
    لیکن اگر عوام اپنا اور اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتی ہے تو اس عوام دشمن نظام کے خلاف بغاوت کرنا ہوگی۔ اپنے حقوق کے لیے ان غنڈوں، بدمعاشوں ، عوام دشمن سیاستدانوں سے ٹکرا نا ناگزیر ہے۔
    وگرنہ ایسے غیر منصفانہ نظام میں 100 الیکشن بھی کبھی عوام کو انکے حقوق نہیں دلائیں گے بلکہ انہی کرپٹ سیاستدانوں اور چند سوخاندانوں کے بچے اس ملک کی تقدیر پر قابض رہیں گے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں