1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان معجزےکامنتظرہے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از آزاد, ‏27 اپریل 2009۔

  1. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    پاکستان معجزے کا منتظر ہے

    ایازا میر (روزنامہ جنگ)

    قومی اسمبلی کی چھت پر اللہ کے ننانوے اسم ہائے مبارکہ انتہائی خوبصورت خطاطی کے ذریعے کندہ کئے گئے ہیں۔ لیکن اس روز جب سوات شریعت ریگولیشن کا بل قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا تو اس میں اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے خوف کی چادر تنی ہوئی نظر آئی جسے ظاہری آنکھ سے بھی دیکھا جا سکتا تھا بلکہ محسوس کیا جا سکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی اسمبلی اس معاملے کے حوالے سے درست فیصلہ نہیں کر پائی۔بغیر کسی انتباہ کے قرارداد پیش کر دی گئی اور اے این پی کے ممبران (جو صوبہ سرحد میں بڑی حکمران جماعت کی حیثیت سے برسر اقتدار ہے) زور و شور سے چیخ پکار کرتے رہے کہ کوئی اس طرف توجہ نہیں دے رہا کہ فاٹا اور سوات میں پختونوں کا خون بہہ رہا ہے۔

    قومی اسمبلی میں چند مخالفانہ آوازیں سنائی دیں (ان میں ایم کیو ایم کے فاروق ستار کی زبردست تقریر بھی شامل ہے) لیکن اکثریت نے آنکھیں بند کر کے ہتھیار ڈالنے کے عمل کی پیروی کی۔اور اب معاہدہ سوات کو ہوئے بمشکل دس دن بھی نہیں گزرے کہ گھڑی کی سوئیاں الٹی طرف گھومنی شروع ہو گئی ہیں اور معاہدہ کے حوالے سے اعتراضات کی پٹاری کھل گئی ہے ۔ان اعتراضات کے پس پشت دو واقعات کا ظہور کارفرما ہے۔پہلا واقعہ تو یہ ہوا کہ مولانا صوفی محمد نے مینگورہ میں ایک بڑے عوامی اجتماع کے سامنے یہ اعلان فرمادیاکہ اسلام میں جمہوریت اور اعلیٰ عدالتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس اعلان نے تو گویا بھونچال بپا کر دیا، وہ صاحبان جو معاہدے کی شقوں کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے سر کان لپیٹے ہوئے تھے، انکے بھی کان کھڑے ہو گئے۔دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ طالبان نے سوات کے قریبی اضلاع پر بھی دھاوا بول دیا اور بونیر کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ جبکہ سوات معاہدے کے تحت یہ طے کر لیا گیا تھا کہ طالبان سوات تک ہی محدود رہیں گے اور مزید علاقوں کی طرف پیش قدمی سے گریز کریں گے۔ طالبان کی پیش قدمیوں کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ ملکی سطح پر آوازیں سنائی دیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہمیں بارہا متنبہ کیا گیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ پاکستان میں اگر ایسی کوئی آواز سنائی بھی دے جاتی تو اسے فورا سے پیشتر دبا دیا جاتا۔ لیکن مولانا کی فصاحت و بلاغت پر مبنی تقریر اور بونیر کی طرف پیش قدمی جیسے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو خواب غفلت سے جگا دیا گیا ہے اور طالبان کے حوالے سے قائم تردید کی فضامیں خطرات کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔

    سو اس وقت جو بھی صورتحال ہے، اس کے لئے ہمیں مولانا صوفی محمد کا مشکور ہونا پڑے گا۔ انہوں نے ہمارے ذہنوں کو جھنجھوڑا ہے اور ہمیں اس مسئلے کے حوالے سے اپنی توجہ مرتکز کرنے میں مدد دی ہے۔ پہلے جو چیز مبہم اور گو مگو کی کیفیت میں نظر آرہی تھی ، اب روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ دور ازکار مفروضے حقیقت کا روپ دھار گئے۔

    سوات کی صورتحال پاکستان کیلئے نجات کا باعث بھی ہوسکتی ہے، اگر ہم ایک لمحے کیلئے سنجیدہ ہو کر معاملات پر غور کریں۔ پاکستان کی بقا کو خطرات لاحق ہیں، اس حوالے سے ہمیں کسی بھی قسم کے مغالطے میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں، یہ ایک بین حقیقت ہے۔ بلوچستان میں غم و غصہ اپنے عروج پر ہے اور وہ باقی ملک سے کٹ کر رہ گیا ہے جبکہ فاٹا میں بھی ہمیں کوئی ریاستی عملداری دکھائی نہیں دیتی۔ اور پنجاب جسے ماضی قریب تک محفوظ و مامون خیال کیا جاتا تھا، وہاں بھی آنیوالے طوفانوں کے اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ان سبھی حقائق سے قطع نظر ایک حقیقت ہماری کمزور سیاسی قیادت ہے جبکہ فوج نے بھی فاٹا اور سوات میں کوئی حوصلہ افزا کارکردگی نہیں دکھائی۔ سو ہر طرف مایوسیوں کے بادل چھائے نظر آتے ہیں۔

    قیادت کا فقدان ہی ہمارا بنیادی مسئلہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ ہمیں اس سے قبل قیادت کی اس قدر اشد ضرورت کبھی بھی نہیں پڑی تھی۔ جو قوم کا بکھرا ہوا شیرازہ سمیٹ کر اسے یکجان و یکسو کرے اور اسے منزل کی طلب میں عمل پر آمادہ کرے۔شومئی قسمت کہ اس وقت ہمارا قومی منظر نامہ ایسی کسی بھی شخصیت کے وجود سے خالی ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی تقدیر کو کوستے رہیں اور روتے دھوتے رہیں، ہمیں اس وقت جو بھی قیادت میسر ہے، ہمیں اسی قیادت کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرنا ہے۔افسوس صد افسوس کہ آصف علی زرداری قیادت کے جوہر نہ دکھا پائے۔ شاید ان میں قیادت کا ہنر ہی نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر بہتر مشیروں کے انتخاب میں انہیں کونسا امر مانع ہے اور کسی بہتر تجویز یا مشورے پر عملدرآمد کرنے سے انہیں کون روکتا ہے؟ آخر وہ اپنے سابقہ امیج سے اوپر کیوں نہیں اٹھ آتے؟ پاکستان میں بھی ذہین و فطین افراد کی کمی نہیں۔ لیکن آخر یہ ذہین افراد ہمیں مشیروں کے عہدوں کے لئے کیوں نہیں دستیاب ہوتے؟

    اس سے قطع نظر کہ قصر صدارت اور وفاقی حکومت اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے اپنی کارکردگی میں بہتری لاتی ہے یا نہیں لیکن ایک بہت بڑی ذمہ داری نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کاندھوں پر بھی ہے۔ وہ ذمہ داری جو پاکستان پیپلز پارٹی پوری نہ کر پائی، وہ ذمہ داری پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اٹھانی ہے یہ جماعت نہ صرف یہ کہ پارٹی ان ویٹنگ ہے بلکہ یہ پنجاب میں بھی حکومت کر رہی ہے ۔لیکن جب ہم ویژن کی بات کرتے ہیں تو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) معاہدہ سوات کے حوالے سے اس وقت جو اعتراضات اٹھا رہی ہے، وہ معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل اٹھائے جاتے تو کوئی بات بھی تھی ، تاکہ پاکستان کے عوام کو فرق معلوم ہو جاتا کہ کیا تجویز کیا گیا تھا اور کیا ہونا چاہیئے تھا۔

    پاکستان مسلم لیگ (ن) کو دہشت گردی کے حوالے سے ایک واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈرون حملوں کی قطعی طور پر اجازت نہیں ہونی چاہیئے اور امریکیوں پر بھی یہ امر واضح کر دینا چاہیئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں کھل کر لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا اظہار کر دینا چاہیے اور ہاں اسکے لئے ہمیں مولانا صوفی محمد کا مشکور ہونا پڑیگا جنہوں نے ہمیں طالبان کی حقیقت سمجھنے میں مدد دی۔ قوم قیادت کی منتظر ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کی قیادت کا فریضہ انجام دے۔

    ہاں یہ سچ ہے کہ جمہوریت کے فروغ کے حوالے سے کچھ ایشوز تاحال لاینحل ہیں مثلا پرویز مشرف کی آئینی ترامیم ۔ پارٹی کو اس حوالے سے اپنا کام جاری رکھنا چاہیئے لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ جمہوریت اب پاکستان کا نمبر ون ایشو نہیں رہا۔ اس وقت نمبر ون ایشو دہشت گردی اور طالبان کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ ہے۔ فوج کو بھی ایک سمت اور ایک بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کا ویژن فوجی قیادت کے ویژن سے ذیادہ اعلیٰ و ارفع ہو۔ اگر ہم اپنا آغاز ہی فوج پر تنقید سے کرتے ہیں تو ہمارا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ ہم فوج کے مقابلے میں بہتر حکمت عملی پیش کریں۔لیکن سوال یہ ہے کہ سوات اور فاٹا میں معاملات حل کرنے کے لئے سیاسی قیادت اور فوج کو بلوچستان میں ہڑبونگ مچانے کی ضرورت نہیں۔ اگر فوج بہت سے محاذ کھولے گی تو پھر وہ طالبان کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نہیں نمٹ پائے گی۔ اہم معاملات کے حل کے حوالے سے اگر ہم مخلص ہیں تو پھر یہی تجویز کیا جاتا ہے کہ بلوچ عوام کے احساس محرومی کا ازالہ کیا جائے اور اس کے لئے ہمیں وفاقی حکومت کی جانب سے اچھی خاصی پیش رفت کی ضرورت ہے۔اگر ہمیں بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہے تو پھر ہمیں بلوچستان کی کسی قابل احترام شخصیت مثلا عطاء اللہ مینگل کو صدر پاکستان کے عہدے پر فائز کرنا ہوگا۔اگر ہم پاکستان میں ضائع شدہ مواقع کی بات کریں تو یقیننا یہ موقع بھی ہم نے گنوا دیا ہے۔ لیکن ہم ایک بار پھر عرض کرتے چلیں کہ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو ہمیں بلوچ عوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنا ہی ہوگا۔

    یہ سچ ہے کہ امریکی ہمارا درد سر بن گئے ہیں ،وہ بری طرح سے افغانستان میں پھنس گئے ہیں لیکن انکے اپنے ہی مقاصد ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہم اکثر و بیشتر اس تاثر کو تقویت دیتے نظر آتے ہیں کہ ہم امریکہ کے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح ہیں اور وہ جہاں چاہے ہماری مہاریں موڑ دیتا ہے اور ہم بعض اوقات امریکی مفادات کی خاطر اپنے مفادات کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ لیکن یہ سبھی امور قابل اصلاح ہیں اور ہم خود اپنی تقدیر کے مالک بن سکتے ہیں، اگر ہم اپنا قبلہ درست کر لیں اور اپنے قومی مفادات کا تعین فرما لیں۔صورتحال مزید کیا ابتر ہوگی۔ ہمیں اس وقت اٹھ کھڑے ہونے اور معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم طوفانی لہروں کے سنگ ہی بہتے چلے گئے تو صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرنے کے لئے بھی شاید ہم نہ بچ پائیں۔
     
  2. نیلو
    آف لائن

    نیلو ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2009
    پیغامات:
    1,399
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    چلو جی ۔ ایک بار پھر نواز شریف صاحب سے امیدیں وابستہ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔
    قربان جائیں ان صحافیوں کے ۔ یہ بھی لوٹوں کی قسم سے ہوتے ہیں۔ وقت کی دھار دیکھتے ہی اپنی زبان بدل لیتے ہیں۔
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔

    آخر یہ کالم نویس اور لکھاری لوگ کب تک قوم کو انہی دو نااہل جماعتوں کے درمیاں پھنسائے رکھیں گے
    جب کہ ہر عقل رکھنے والا جانتا ہے کہ یہ سب آزمائے ہوئے کارتوس ہیں۔ جب تک قوم کا ذہن بنانے والے ان صحافیوں اور لکھاریوں کے اپنے ذہن صاف نہیں ہوتے ۔ قوم کسی صحیح قیادت کو پہچاننے کے قابل نہیں ہوسکتی ۔ :no:

    والسلام
     
  4. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    ایازا میر صاحب صحافی ہونے کے ساتھ سیاست سے بھی تعلق رکھتےہیں اور موجودہ اسمبلی میں ایم این اے ہیں‌اور ضلع چکوال سے تعلق ہے۔۔۔۔مسلم لیگ ن سے وابستگی ہے۔۔۔۔۔مگر اس کے باوجود۔۔۔۔۔ایاز امیر صاحب اچھی شہرت کے مالک ہیں اور "پیلے صحافی" نہیں‌ہیں۔
     
  5. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ایاز امیر کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے اور چکوال سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے اور وہ بھی ایک بھاری مارجن سے۔

    محبوب بھائی کی یہ بات سچ ہے کہ ایاز امیر لفافہ ٹائپ صحافی نہیں لیکن وہ اس کالم میں ن لیگ کی طرفداری کررہے ہیں یہ غلط ہے۔

    بہرحال یہ آپ کو بتادیں کہ جب سوات معاہدہ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا تو سارے ایم این اے کو سانپ سونگھ گیا تھا تو ایازامیر نے کھڑے ہوکر اس معاہدے پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ اس چیز کی کیا ضمانت ہے کہ طالبان عسکری کاروائیاں دوسرے علاقوں میں‌کریں گے۔
     
  6. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    اسمبلی میں سوات معاہدے کے موقع پر نہ صرف ایاز امیر صاحب نے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ پیپلز پارٹی کے مستعفی ہونے والے وزیر محترمہ شیرین رحمان نے بھی کچھ اسی طرح اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔۔۔۔۔۔ان دونوں ممبرز کو اس لیے مزکور کیا ہے کہ انھوں نے اپنے پارٹی کے موقف پہ اپنے ضمیر کی آواز کو فوقیت دی۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ان کو اس معاہدے کے مخالفوں میں‌بھی شامل نہیں کیا جاسکتا ہے۔
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    شکریہ یہ معلومات شئیر کرنے کیلیے۔

    اگر ن سے انکا تعلق ہے تو پھر انکا جھکاؤ قابلِ سمجھ چیز ہے۔
     
  8. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    نعیم بھائی ضروری نہیں کہ صحافی کا تعلق جس جماعت سے ہو۔ اس کی حمایت میں کالم لکھتا رہے۔ میں نے عرفان صدیقی، جاوید چوہدری، ایاز امیر، عطاء الحق قاسمی کے کالم میں اکثر دیکھا ہے کہ یہ ن لیگ‌پر بھی تنقید کررہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر شاہد مسعود کا تعلق پی پی سے ہے لیکن اکثر وہ پی پی کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہے۔

    اچھا صحافی وہی ہوتا ہے جو غیر جانبدار ہو۔اس کی صحافت اپنی پارٹی کے لئے وقف نہ ہو۔

    لیکن میں نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ صحافی حضرات بھی عوام کی طرح بھولے بھالے ہیں۔‌حکومتی وعدوں پر بہت جلد یقین کرلیتے ہیں۔
     
  9. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    بہت خوب کہا نعیم بھائی ۔۔۔بالکل ٹھیک
    :yes:
     
  10. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    آج کل کالم نگاروں،‌صحافیوں کے درمیان بھی پلاٹوں کی سیاست شروع ہوگئی ہے۔

    یہ جنگ دراصل نذیر ناجی سے شروع ہوئی۔ حکومت کی طرف سے نذیر ناجی کو پلاٹ الاٹ کیا گیا جس پر دی نیوز کے ایک صحافی احمدنورانی نے ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ حکومت کی طرف سے پلاٹ لے رہے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ آپ آئندہ حکومت کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کریں گےجس پر نذیر ناجی نے احمد نورانی کو انتہائی غلیظ گالیاں دیں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ جس کی آڈیو بناکر احمد نورانی نے مختلف پاکستانی ویب سائٹس کو بھیج دیں کہ یہ دیکھو ہمارے ملک کی صحافت۔

    میرے پاس نذیر ناجی کی آڈیو موجود ہے۔ میں یہاں اخلاقیات سے گری اس آڈیو کو یہاں ‌پوسٹ کرنے سے قاصر ہوں۔ لیکن آپ یہ آڈیوpkpolitics.com پر سن سکتے ہیں۔

    دی نیوز کے ہی ایک صحافی انصار عباسی نے اپنا پلاٹ حکومت کو واپس کردیا ہے اور وہ آج کل پلاٹوں کی سیاست کی مخالفت پر کالم لکھ رہا ہے۔جبکہ صحافی پلاٹوں کے معاملے پر تقسیم ہوچکے ہیں۔
     
  11. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    پلاٹوں کی سیاست سے متعلق کل بروز بدھ ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے کالم "میرے مطابق" روزنامہ جنگ ۔۔۔۔میں‌بھی خوب لکھا ہے۔
     
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    مجھے پرانی بات یاد آگئی ۔ غالباً 1992 یا 1996 کے قومی انتخابات کے دنوں میں ٹی وی پر مختلف صحافی، مختلف لیڈروں سے انکے منشور وغیرہ پر بات کررہے تھے۔ میاں نواز شریف انٹرویو کے لیے آئے تو ان سے سوال و جواب کے لیے نذیر ناجی اور کوئی ایک اور صحافی بیٹھے تھے۔ میاں‌صاحب کافی اطمینان سے مسکرا مسکرا کر اپنے موقف بیان کررہے تھے۔
    اچانک دورانِ گفتگو نذیر ناجی نے میاں نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے کہا "جناب لگتا ہے کہ آپ اور بےنظیر اندر سے مل کر کھانے پر متفق ہیں اور صرف قوم کو دھوکہ دینے کے لیے محاذ آرائی کا ڈرامہ کرتے ہیں"
    میاں نواز شریف صاحب کے ہونٹ خشک ہوگئے اور ذرا تھرتھراتی ہوئی آواز میں نذیر ناجی کو دیکھا اور کہا
    " ناجی صاحب ! کم از کم آپ کو تو ایسا سوال نہیں‌ کرنا چاہیے تھا "
    اور آئیں بائیں شائیں کرکے بات ٹال دی ۔

    گویا ناجی صاحب کو ایسا سوال کرنے پر حیرت کا اطہار کرنا بذاتِ خود اس چیز کی گواہی تھی کہ ناجی صاحب کو نوازا جاتا تھا جبھی تو ان سے ایسے تنقیدی سوال کی توقع نہ تھی ۔
     
  13. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    وہی پتے ہوا دینے لگے ، ہاہاہاہا

    بہت خوب جناب نعیم صاحب۔
    :flor: :flor: :flor:
     
  14. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    بہت خوب :201:

    ناجی صاحب کو اس وقت دو پلاٹ الاٹ کئے گئے ہیں ایک لاہور میں اور دوسرا اسلام آباد

    پھڈا اصل میں ان دو پلاٹوں سے ہی شروع ہوا ہے کہ دوسرے صحافی کہتے ہو‌ں گے کہ ہمیں ایک ملا اور ناجی صاحب دو لے اُڑے
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    یہ تو گڑ اور میٹھا والا حساب ہے ۔
    جو جتنی زیادہ بےضمیری کرکے چاپلوسی کر لے گا۔ اتنا زیادہ پا لے گا۔ :nose:
     
  16. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    پاکستان کے جیسے حالات بظاہر نظر آ رہے ھیں ان کے پیش نظر تو سچ مچ کوئی معجزہ ہی ہمارے ملک کو بہتری کی طرف لے جا سکتا ھے
     
  17. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    خدا نے‌آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
     
  18. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    آپ لاہور میں ھیں کوشش کریں اس کے لئے ہمیں اپنے ساتھ ہی پائیں گے انشاءاللہ
     
  19. نیلو
    آف لائن

    نیلو ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2009
    پیغامات:
    1,399
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کا قیام خود بھی ایک معجزہ ہی تھا۔
     
  20. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    معجزہ تو کہہ نہیں سکتے۔ہم اگر قیام پاکستان کو معجزہ کہیں گے تو یہ قائداعظم کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
    ہر ملک کے بننے، ترقی کرنے یا ٹوٹنے کے پیچھے کچھ عناصر ہوتے ہیں۔

    چین کے پیچھے ماؤزے تنگ تھا۔
    سنگاپورکے پیچھے لی کوآن
    ملائیشیا کے پیچھے مہاتیر محمد

    اسی طرح پاکستان کے پیچھے قائداعظم محمد علی جناح

    جب ہندو مسلمانوں سے ہر شعبے میں سبقت لے جارہا تھا تو مسلمانوں میں احساس محرومی پائی گئی۔ یہ دراصل احساس محرومی نہیں بلکہ ہماری کوتاہی تھی کہ ہم تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے تھے اور ہماری علماء انگریزی کو کافروں کی زبان کہتے تھے جس کی وجہ سے ہماری تعلیم مدرسوں تک محدود ہوگئی۔ جبکہ ہندوؤں نے انگریزی تعلیم بھی حاصل کی اور اعلٰی سرکاری عہدے بھی حاصل کئے اور مسلمان ہندوستان میں امتیازی حیثیت نہ حاصل کرسکے اور ہندو مسلمانوں پر غالب ہوگئے،جس نے ایک احساس محرومی کو جنم دیا۔

    اس محرومی کو بھانپتے ہوئے علامہ اقبال میں ایک الگ مسلمان ریاست کا تصور پیش کیا جسے قائداعظم، چوہدری رحمت علی، مولانا محمدعلی جوہرجیسے لیڈروں نے عملی جامہ پہنایا اور پاکستان ایک نظریاتی ریاست کے طور پر دنیا میں‌وجود میں آیا۔ لیکن اسے بنتے ہی قائداعظم کی جیب کے کھوٹے سکوں نے ہائی جیک کرلیا اور آج تک ہائی جیک ہوتا چلا آرہا ہے۔
     
  21. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جو چیزیں ہائی جیک ہو جاتی ھیں ان کو پھر کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ھے
     
  22. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    معجزے روز روز نہیں ہوتے۔ یہ ملک اگر بچاہوا ہے تو چند اچھے انسانوں کی وجہ سے۔ چند اچھے لوگوں نے اس ملک کو سہارا دیا ہوا ہے۔

    آج بھی اس ملک کے لوگوں میں ہمدردی، محبت اور خداترسی موجود ہے جب تک یہ چیزیں موجود ہیں۔

    آج بھی یہ ملک اس امید پر قائم ہے کہ کوئی مسیحا آئے گاجو اس ملک کو بچائے گا۔میں سمجھتا ہوں کہ بے حسی، کرپشن، جرائم، لوٹ کھسوٹ کے باوجود اس ملک کا مستقبل تابناک ہے۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں جو میں‌کسی دن شئیرکروں گا۔
     
  23. نیلو
    آف لائن

    نیلو ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2009
    پیغامات:
    1,399
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    سلام عرض ہے۔
    میں نے معجزہ شریعت اسلام والا معجزہ نہیں بولا تھا ۔ اتنا مجھے بھی معلوم ہے کہ وہ معجزہ صرف نبی سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔
    میں نے معجزہ محاورتاً بولا تھا کیونکہ محض ایک نظریے کی بنیاد پر، جنگ و جدل کیے بغیر، محض مذاکرات اور سیاست کے ذریعے ایک آزاد ملک کا قیام پچھلی کئی صدیوں میں انوکھا واقعہ تھا ۔ یہ میں ہی نہیں ، بہت سے تاریخ دان بھی کہتے ہیں۔
    پھر ہمیں 14 اگست 1947 کو 27 رمضان لیلۃ القدر بھی نہیں بھولنا چاہیے جس میں پاکستان نے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے پہلی سانس لی۔ یہی نشانی ہمیں امید کی کرن بھی دکھاتی ہے کہ شاید اللہ تعالی کو اس ملک سے کوئی بڑا کام لینا مقصود ہے جبھی تو قدر والی رات برصغیر کے مسلمانوں‌کو علیحدہ ملک عطا کر دیا۔ :soch:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں