ناکامی کچھ لوگوں کا حوصلہ بڑھا دیتی ہے۔ ایسی ہی ایک مثال ماریہ میر نامی ایک بچی جس نے پاکستان میں شروع ہونے والے موسیقی کے مقابلے کے پروگرام پاکستان آئڈل میں شامل ہونا چاہا تو آڈیشن میں ججز نے اسے ریجیکٹ کر دیا۔ ججز کی نا انصافی اور غلط رویے پر پہلے بھی کافی باتیں ہو رہی ہیں۔ ماریہ میر نے بعد میں ایک اور نوجوان گلوکار امانت علی جس نے انڈیا میں ہونے والے ایسے ہی ایک پروگرام میں جیت حاصل کی ، کے ساتھ مل کر ایک گانا گایا اور اپنی گلوکاری کو اپنی پیاری آواز سے ثابت کیا ۔ ماریہ میر کے آڈیشن کا کلپ اور اس کے گانے کی ویڈیو دیکھیں ۔
پاکستان کے دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح ہم نے پاکستان آئیڈل میں بھی ثابت کیا ہے کہ ہمارے ہاں " معیار " نام کی کوئی چیز نہیں۔ حدیقہ کیانی کسی حد تک معروف گلوکارہ کہلا سکتی ہے۔ لیکن علی عظمت جو بزعم خویش سنگر بن چکا ہے اور بڑی بی بشریٰ انصاری جس کو یہ زعم ہے کہ وہ شو بز سے متعلق ہر کام کر سکتی ہے۔ بہتر ہوتا کہ ججز کے لیے شفقت امانت علی خان، سجاد علی وغیرہ جیسے سچے سُچے فنکاروں کو موقع دیا جاتا ماریہ میر کی آواز اور انداز متاثر کن ہے۔
مختلف اشیاء سے پیدا شدہ صوتی لہروں کی اونچائی، گہرائی اور بہاو کے وقفے کو اس انداز سے ترتیب دینا جو کانوں میں رس گھول دیں، اسے موسیقی کا نام دیا جاتا ہے۔ بذات خود موسیقی میں کوئی برائی نہیں ہے مگر اس کے استعمال کنندہ اپنے رویوں اور برتاو سے اس کے اچھا ہونے یا برا ہونے کا باعث ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کو قرآت سے پڑھنے والے ہرکسی کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں اور اسی طرح اچھی اذان دینے والے کی آواز روح تک سرایت کرجاتی ہے۔۔۔۔ اگر گانے بجانے میں برائی ہوتی تو کوئی ترنم سے نعت نہ پڑھتا۔۔۔۔۔ پاکستانی آئیڈل میں ججز کو سنگیت سے جڑا ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بشرہ انصاری صاحبہ کہ پاکستان ٹی وی کے لئے بڑا رول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔