1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستانی ماہی گیری کی صنعت توجہ کی منتظر

'زراعت' میں موضوعات آغاز کردہ از سید محمد عابد, ‏3 اپریل 2012۔

  1. سید محمد عابد
    آف لائن

    سید محمد عابد ممبر

    شمولیت:
    ‏29 اپریل 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان کا ماہی گیری کا شعبہ ملکی معیشت میں اہم مقام رکھتا ہے، ملکی زرعی شعبے کا جی ڈی پی میں 22 فیصد حصہ ہے جس میں سے ایک فیصد حصہ ماہی گیری کا ہے۔ پاکستان کی ساحلی پٹی سندھ اور بلوچستان کے علاقوں پر مشتمل ہے اور یہ 814 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ پاکستان میں سمندری ماہی گیری سے سالانہ ساڑھے 6 لاکھ ٹن سے زائد مچھلی پکڑی جاتی ہے جس میں سے 12 ارب روپے مالیت کی مچھلی اور دیگر سمندری خوراک یورپی یونین اور خلیجی ریاستوں سمیت امریکہ، جاپان، سری لنکا اور سنگاپور وغیرہ کو برآمد کی جاتی ہے جبکہ پاکستانی ماہی گیری کی صنعت سے 40 لاکھ سے زائد افراد کا روزگار وابستہ ہے جن میں سے 25 لاکھ کاتعلق سندھ سے ہے۔ ان علاقوں سے پکڑی جانے والی مچھلیوں میں مہاشیر، روہو، ملی (لانچی یا سائمن)، کھگہ، الیمفرٹ، ٹراﺅٹ، ساول، بام اور جھینگا نسلیں شامل ہیں۔

    وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق جولائی تا جنوری 2011-12ء کے دوران مچھلی کی 17 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے زائد کی برآمدات ہوئیں جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے دوران پاکستان کی مچھلی کی برآمدات کا حجم 15 کروڑ 18 لاکھ ڈالر سے زائد تھا، رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ کے دوران 66 ہزار 448 میٹرک ٹن مچھلی برآمد کی گئی۔ اس کے علاوہ حال ہی میں سندھ بورڈ آف انویسٹمنٹ کے زیر اہتمام ایکسپو سینٹر کراچی میں ہونے والی لائیواسٹاک، ڈیری، فشریز اور زرعی نمائش 2012ء میں 50 ملین ڈالر سے زائد کے برآمدی سودے کئے گئے جو کہ پاکستانی مچھلی کی بین الاقوامی مانگ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

    ملک کے ساحلوں میں مچھلیوں اور جھینگوں کی پیداوار دنیا کے مختلف ممالک کے مقابلے میں 10 گنا اور بحیرہ ہند کے مقابلے میں 4 چار گنا زیادہ ہے۔ پاکستان مچھلی اور جھینگے کی پیداوار میں 28 ویں جبکہ برآمد کرنے والے ممالک میں 50 ویں نمبر پر ہے۔ کاروباری افراد اور کاشتکاروں کےلئے ماہی پروری ایک انتہائی نفع بخش کاروبار کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے ماہی گیری کی صنعت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ماہی گیروں کے معاشی حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ ٹھیکہ داری نظام، ضرورت سے زیادہ بننے والی کشتیوں، لانچوں اورڈیپ سی ٹرالروں اورنقصان دہ جالوں نے صدیوںسے اس پیشے سے وابستہ ماہی گیروں پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ ایک ڈیپ سی ٹرالر ایک کشتی کے مقابلے میں 52 فیصد زیادہ مچھلی پکڑتاہے جبکہ پاکستان میں وفاقی حکومت گزشتہ دو دہائیوں سے ڈیپ سی ٹرالروں کو مچھلی کے شکارکے لائسنس جاری کررہی ہے۔ ماہی گیروں کے مطابق زیادہ تر چین، ایران اور خلیجی ممالک کے ڈیپ سی ٹرالروں کو پاکستان نے سمندر میں مچھلی پکڑنے کا لائسنس دیا ہے جو مشینوں اور ممنوعہ جالوں کے ذریعے اپنی پسند کی مچھلی پکڑتے ہیں اور ناپسندیدہ مردہ مچھلی سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔

    پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل (پی اے آر سی) کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد کاکہنا ہے کہ ملکی زراعت کا اگلا انقلاب ماہی گیری کے شعبے میں پنہاں ہے اور مچھلیوں کی پیداوار بڑھانے کےلئے اچھی اقسام کی مچھلیوں کا انتخاب ہی بہتر نسل کےلئے انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مچھلیوں کے پونگ کی منیجمنٹ انتہائی ضروری عمل ہے، جس سے بہتر افزائش نسل ممکن ہوسکتی ہے، پاکستانی زراعت میں ماہی گیری کے حصے کو 10 فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

    حکومت پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر فش فورمنگ کو فروغ دیتے ہوئے نہ صرف قیمتی زرمبادلہ میں اضافہ بلکہ غربت اور بے روزگاری میں بھی کمی کر سکتی ہے۔ فش فورمنگ کے اعتبار سے سندھ میں ماہی گیروںکی بستیاں خصوصاً ریڑھی گوٹھ، چشمہ گوٹھ، ابراہیم حیدری، ہاکس بے، عبداللہ گوٹھ، عبدالرحمن گوٹھ، مبارک ویلج، شیریں جناح کالونی، گزری، کیماڑی، کھڈہ، لیاری اور دیہہ اللہ بنوں جبکہ بلوچستان میں نصیر آباد، جعفر آباد، سبی، کھپی اور لسبیلہ کی ساحلی پٹی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ ماہی گیری کی صنعت کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے وزارت زراعت وخوراک سے الگ کر کے علیحدہ وزارت بنانے کی ضرورت ہے۔ اس اہم اقدام کی بدولت نہ صرف ماہی گیری کی صنعت پر توجہ دی جائے گی بلکہ لاکھوں ماہی گیروں کی زندگیوں میں بھی بہتری آئے گی، ان کو ماہی گیری سے متعلق بہتر سہولیات میسر آسکیں گی۔ ماہی گیری کی علیحدہ وزارت بننے سے ملک میں مختلف اقسام کی مچھلیوں سے متعلق معلومات اور ان پر سائنسی تجربات میں تیزی آئے گی اور مچھلیوں کی تمام برآمد کنندہ مصنوعات کا بہتر ریکارڈ ممکن ہوگا۔

    حال ہی میں حکومت نے ماہی گیری کی صنعت پر توجہ ظاہر کرتے ہوئے امریکہ کی ایک بڑی نجی کمپنی ’امریکن سویابین ایسوسی ایشن‘ سے 20 لاکھ ڈالر مالیت کا معاہدے کیا ہے جس سے امید ظاہر کی جارہی ہے کہ ملک میں مچھلی کی پیدوار آئندہ دو سال میں چار سے پانچ گنا بڑھ جائے گی۔ اس منصوبے کے تحت فراہم کی جانے والی رقم کو استعمال میں لا کر پاکستان فشریز ڈویلپمنٹ بورڈ ابتدائی مرحلے میں پنجاب اور سندھ میں مچھلی کی افزائش اور پیداوار کے لیے منتخب (فش فورمز) تلابوں میں آزمائشی طور پر امریکہ کی طرف سے فراہم کی جانے والی خوراک کے استعمال کو فروغ دے گا۔ اس کے علاوہ امریکی ماہرین پاکستان میں ماہی پروری سے منسلک افراد کو تربیت بھی فراہم کریں گے تاکہ وہ جدید ٹیکنولوجی کو استعمال میں لا کر مچھلی برآمد بھی کرسکیں۔

    پاکستان فشریز ڈویلپمنٹ بورڈ کے سربراہ فیصل افتخار کا ماہی گیری سے متعلق کہنا ہے کہ پاکستان سالانہ 30 کروڑ ڈالر کی مچھلی برآمد کرتا ہے جبکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی برآمدات اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں مچھلی کی پیداوار میں کمی ایک بڑی وجہ ملک میں ماہی پروری کے فروغ کے لیے مناسب خوراک کی عدم دستیابی ہے جس کوبہتر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں فش فورمنگ کے کاروبار کو فروغ دے کر مچھلی کی برآمدات میں حیران کن اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

    پاکستان ماہی گیری کے شعبے کی بدولت زرعی کمائی کو دوگنا کر سکتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ کومت ماہی گیری کے شعبے پر توجہ دے۔

    تحریر: سید محمد عابد

    http://smabid.technologytimes.pk/?p=742#more-742

    http://www.technologytimes.pk/2012/04/02/پاکستانی-ماہی-گیری-کی-صنعت-توجہ-کی-منتظ/
     

اس صفحے کو مشتہر کریں