1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ٹیکے لگانے والے ڈاکٹر سیاستدان اور 18کروڑ عوام

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏20 جنوری 2014۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بابا ۔ کیا انکل نواز شریف ڈاکٹر ہیں؟
    کالم نگار | مطلوب وڑائچ
    [​IMG]

    میں اپنے گھر کینیڈا میں بچوں کے ساتھ ایک نیوز چینل پر ایک ٹاک شو واچ کر رہا تھا۔ ایک نجی ٹی وی پر اینکر صاحب نے ایک معروف سیاستدان کو تبصرے اور تجزیے کیلئے مدعو کیا ہُوا تھا (ویسے تو پاکستان دنیا کے 216 ممالک کی فہرست میں اس لحاظ سے نمبر ون ہے کہ یہاں انٹرٹینمنٹ چینلز کی تعداد نیوز چینلز کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے) ٹاک شو میں تجزیہ نگار بتا رہے تھے کہ 1978ء میں جب سابق صدر ضیأالحق نے اتفاق فونڈری شریف برادران کو واپس کی تو انہیں بغیر کسی ٹینڈر کے یہ انڈسٹری دے دی گئی جبکہ ہزاروں اور بھی مالکان تھے جن کو پرائیوٹائزیشن کے بعد ضیاء دور یا اب تک اصل ادارے واپس نہ کئے گئے جیسے حبیب بینک لمیٹڈ وغیرہ، وہ صاحب فرما رہے تھے کہ کس طرح شریف برادران نے مسلم کمرشل بینک جس کی نجکاری میں بولی 69 ارب روپے کی لگی اس کو صرف 11 ارب روپے میں ایک سرمایہ دار کو فروخت کر دیا گیا اس طرح نواز شریف صاحب نے 1990ء میں اپنے اقتدار میں آنے کے صرف ایک مہینے بعد 60 ارب کا ٹیکہ حکومت کو لگا دیا ۔
    خیر حکومتوں کو ٹیکے لگانے کی روایت بہت پرانی ہے مگر میرے کمسن بیٹے جو میرے ساتھ ٹی وی واچ کر رہے تھے میں سے چھوٹا بیٹا جلال بولا بابا کیا انکل نواز شریف ڈاکٹر ہیں؟ ذرا سمجھ آئی تو میں نے کہا نہیں بیٹے وہ ڈاکٹر نہیں ہیں، تو بیٹا بولا وہ پھر ٹیکے کیوں لگاتے ہیں؟ اب میں جواں عمر بیٹے کو کیا بتاتا مگر آج کل کی نسل کو مطمئن کرنا بھی بہت ضروری ہے میں نے اسے سمجھایا کہ بیٹا جس طرح ڈاکٹرز کیلئے پریکٹس سے پہلے ایم بی بی ایس کی ڈگری/ لائسنس لینا ضروری ہے اس طرح ملک کے 20 کروڑ عوام کو ٹیکہ لگانے کے لائسنس اس ملک پاکستان کے 22 سرمایہ دار خاندانوں نے حاصل کر رکھے ہیں۔ ان لائسنس ہولڈروں کی تعداد قیام پاکستان سے مسلسل بڑھ رہی ہے شاید آج ان کی تعداد 500 سے بھی زیادہ ہو گئی ہے مگر غربت کی حالت یہ ہے کہ آج پاکستان کی 70 فیصد آبادی سطح غربت کی انتہائی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ تعلیم جس کے بغیر آج کے آئی ٹی کے دور میں زندگی گزارنے کا تصور بھی محال ہے اس دور میں ہماری گذشتہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں 11 سو ممبران میں سے 800 سے زیادہ نے جعلی ڈگریوں پر بی اے کی سند حاصل کی تھی۔ یعنی پورے پاکستان میں گریجوایٹس مرد و خواتین کی تعداد ایک فیصد بھی نہیں ہے جبکہ سرکاری طور پر بھی تعلیم یافتہ افراد کی شرح 23 سے زیادہ ہے یعنی یہ وہ فیصد تعداد ہے جس کی تعلیم میٹرک یا اس سے کم ہے۔
    میں اپنے بچوں کو کیا بتائوں اگر ٹیکے لگانے والے انکل نہ ہوتے تو :
    آج آپ سب بہن بھائی وطن میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے۔
    آج اوورسیز پاکستانی دیارِ غیر میں امیگرینٹس کی زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔
    آج ہمیں مشرق وسطیٰ و عرب میں عجمی اور رفیق کے گھٹیا لقب سے نہ پکارا جا رہا ہوتا۔
    آج ہمیں برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں بلیڈی فارنر اور ’’پاکی‘‘ کے القابوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
    آج میرے وطن کے ہزاروں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز یورپ میں ٹیکسیاں نہ چلا رہے ہوتے اور
    آج میرے وطن کے انجینئرز اور سکیلڈ(Skilled) لیبر عربوں کی گالیاں سُن کر بھی مسکرانے پر مجبور ہیں۔
    آج میرے ملک کے نوجوانوں کو غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلے کیلئے باپ دادا کی زمینیں نہ بیچنا پڑتی۔ اور
    آج میرے وطن عزیز کی حوا کی بیٹیوں کو دوبئی اور یورپ کے کلبوں اور نائٹ کلبوں کی زینت نہ بننا پڑتا۔
    آج میرے وطن کے کمسن پھول نما بچوں کو عرب شیوخ اونٹ دور کیلئے استعمال نہ کرتے۔
    آج پاکستان کے ہر گائوں ہر شہر میں ان نوجوانوں کی نعشیں ہر روز آنا معمول نہ بنیں جو روز یورپ کا بارڈر کراس کرتے ہوئے اپنی جانوں تک کی بازی لگا دیتے ہیں اور بہت سے تو کنٹینروں میں سانس گھٹ کر مر جاتے ہیں۔
    میرے بچو! آج میرا ملک جو 1947ء کو حاصل کیا گیا تھا ہم سے آدھا حصہ جُدا نہ کر دیا گیا ہوتا۔ آج ہمار ے ملک کے بادشاہ کو آدھی رات کو اُٹھا کر فون پر دھمکیاں نہ دی جاتیں کہ لائن کے اس طرف یا ہماری طرف فیصلہ کرو۔ آج ملک کی فضا بارود سے بھری پڑی ہے اس نوزائیدہ مملکت پر آج تک پانچ جنگیں تھوپی گئی پھر بھی بین الاقوامی برادری ہم کو ہی جارح قرار دیتی ہے۔ ہمارا پڑوسی سیاچن، کارگل، کشمیر، حیدرآباد دکن پر غاصبانہ قبضہ کرے مگر عالمی برادری کی نظر میں جارحیت کا الزام ہم پر ہی لگے۔ ہمارے ملک کے سرمایہ داروں نے ملک سے انڈسٹری اٹھا کر اپنے پسند اور فیورٹ ملکوں میں لے گئے ہیں۔ دوبئی کوالالمپور، سنگاپور اور یورپ کے بیشتر ممالک ہمارے بھگوڑے سرمایہ داروں کے دم سے آباد ہیں۔ 90 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں جبکہ دنیا بھر کے مالیاتی اداروں اور بینکوں میں پاکستانی سرمایہ داروں کا سرمائے کا حجم ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہے مگر میرے بچے اس کے باوجود تم سمیت ہر پیدا ہونے والا بچہ پیدا ہوتے ہی اوسطاً ایک لاکھ روپے کا مقروض کیوں ہو جاتا ہے؟ میرے ملک کے طول و عرض میں ایک لاکھ سے زیادہ گھوسٹ سکول اور 50 ہزار سے زیادہ گھوسٹ ہسپتال، لاکھوں کلومیٹر سڑکیں، ہزاروں کھیل کے میدان اور سٹیڈیم گھوسٹ طریقے سے تو کاغذات میں موجود ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو فرضی روزگار اور جاب فراہم کر کے ان کی تنخواہیں اس ملک کے بیوروکریٹس ہڑپ کر رہے ہیں۔ جس ملک کا ایک ایڈمرل اور کئی جنرلز کرپشن کی لت میں مبتلا ہوں، جس ملک کا ہر سیاستدان کمیشن لینا اپنا حق سمجھتا ہو اور باقاعدہ سسٹم کے تحت ایس ڈی او سے لے کر چیف سیکرٹری، وزیر اعلیٰ، وزیراعظم اور صدر مملکت کا ریٹ مقرر ہو اور کمیشن مقرر ہو۔ ملک کے ایک سابق صدر نے صرف پانچ سال کے قلیل عرصہ میں ملک کے خزانے کو 60 ارب ڈالر کا ٹیکہ لگایا۔ 2 وزرائے اعظم اور سینکڑوں وفاقی اور صوبائی وزیروں کے طرف سے لگائے جانے والے ٹیکوں کا حساب اس کے علاوہ ہے جبکہ موجودہ حکومت کے سبھی سمدھی، عزیز، اقربائ، وزراء اور تجارتی برادری بھی اس کارِ خیر میں اپنے پیش روئوں سے مختلف نہیں ہیں۔
    آج اس ملک کے 63 بڑے اداروں کی نجکاری کر کے قوم کو ایسا ٹیکہ لگانے کا پروگرام ترتیب دے دیا گیا ہے کہ اس ٹیکے کے اثر سے مدتوں تک یہ قوم ہوش میں نہ آئے گی اور اگر کبھی اردگرد کے شور شرابے کی وجہ سے ہوش میں آ بھی گئے تو بقول شاعر ’’سب کچھ لُٹا کر ہوش میں آئے تو کیا ہُوا‘‘
    میں اپنے بچوں کو سب کچھ بتانا چاہتا ہوں وہ سب کچھ بھی جو ٹی وی اینکرز نہیں جانتے جو میرے ملک کے کالم نگار بھی نہیں جانتے، وہ سب کچھ جو میرے سینے میں دفن ہے کہ اس ملک کے خیر خواہوں نے اس ملک کو کس طرح لوٹا، کس منظم آرگنائزڈ طریقے سے ان پاسبانوں نے آنے والی نسلوں تک کا خون بیچ دیا ہے، کس طرح اس ملک کا ہر بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی مقروض پیدا ہو گا۔ یہ خون پینے والا مافیا پاکستان تو بس اپنی باری لینے آتا ہے ٹیکہ لگانے کی۔
    95 فیصد سیاستدانوں، بیوروکریٹس، اسٹیبلشمنٹ، سرمایہ د اروں، جاگیر داروں، وڈیروں، مخدوموں، نوابوں، پیروں، چوہدریوں کی اولادیں یورپ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں لوٹنے اور خون چوسنے کا علم حاصل کر کے اس ملک کے عوام کو ٹیکہ لگانے آ جاتے ہیں۔ میں اپنے بچوں کو انکل نواز شریف کے علاوہ بہت سے دوسرے ڈاکٹروں کا بھی بتانا چاہتا ہوں پھر سوچتا ہوں یہ سب سُن کر میرے بچے کہیں پاکستان سے نفرت نہ شروع کر دیں کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں کے رہبر اور رہزن میں کوئی فرق نہیں؟ یہ میری وطن سے محبت ہے یا کہ میری ہیپوکریسی کہ میں بچوں کے سامنے بیان کرنے سے کترا رہا ہوں مگر ایک بات طے ہے کہ میرا ذکر آج پاکستان کے لوگ ٹیکہ نہ لگانے والوں میں کرتے ہیں اور یہی میری کمائی ہے اور یہی میرا غرور اور یہی میرا سرمایہ۔

    بشکریہ ۔ نوائے وقت ادارتی صفحہ
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں