1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وہ ہم میں سے نہیں ۔۔۔!

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نذر حافی, ‏11 اپریل 2013۔

  1. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    وہ ہم میں سے نہیں ۔۔۔!
    نذر حافی
    ظلم سے نفرت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔لاشوں کے ڈھیر ،جلے ہوئے گھر اور کٹے ہوئے سر دیکھ کر ہر انسان کا دل لرز جاتاہے اور بدن کانپ اٹھتاہے۔کوئی بھی انسان جتنا عظیم اور باشعورہوتاہے وہ اتناہی ظالموں کامخالف اور مظلوموں کا حامی ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کے سب سے عظیم انسان ختم النبیّین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنی ساری زندگی ظالموں کی مخالفت اور مظلوموں کی حمایت میں بسر کردی۔
    آپ ﷺ کی آمد سے پہلے انسانی جان کی کوئی قدرو قمیت نہ تھی،اگر کہیں پر بیٹیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا تو کہیں پر پانی کے گندے تالابوں اور جوہڑوں پر صدیوں تک لڑائیاں لڑی جاتی تھیں۔ ایک قوم دوسری قوم پر شب خون مارتی تھی،ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کے وجود کو برداشت نہیں کرتاتھا اور ایک انسان دوسرے انسان سے خوف و ہراس محسوس کرتاتھا۔ لوگ طاقت کی پوجا اور طاقتور کو سجدہ کرتے تھے گویاجس سے ڈرتے تھے وہی ان کا معبود تھا ۔
    پیغمبرِ گرامیﷺ نے بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد جتنی بھی جدوجہد کی اس کا ثمر یہ نکلا کہ مظلوم کو ظالم کے خلاف قیام کرنے کا حوصلہ ملا،غلاموں نے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائی اورمحکوموں نے اپنی گردنوں سے محکومی کے طوق اتار پھینکے ۔ مساوات کی باتیں ہونے لگیں،حبشی ،قریشی کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا،عربی اور عجمی کے جھگڑے مٹنے لگے۔جہالت اور اندھی تقلید کے بجائے علم کا چرچاہونے لگا،زبان بندی کے بجائے سوالات پوچھنے کی رسم شروع ہوگئی،ڈر اور خوف کی جگہ سوچ و بچار نے لے لی،عقل آزاد ہوگئی،زبان کے تالے کھل گئے،فکر پرواز کرنے لگی،بت ٹوٹنے لگے اور شراب گلیوں میں بہنے لگی۔
    پھر دیکھتے ہی دیکھتے قبائل آپس میں شیر و شکر ہوگئے اور نفرتیں مٹ گئیں،جب جہالت کی چکی میں پسے ہوئے ذہنون کو سیرت النبی ﷺ کے مرہم نے شفا بخش دی تو کائنات کی سب سے عظیم کتاب "قرآن مجید " نے اپنے پیروکاروں سے خطاب کیا۔قرآن مجید کے یہ پیروکار وہی لوگ ہیں جو کل تک بے شعور تھے،شراب پیتے تھے،مردار کھاتے تھے،بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے،قتل و غارت کے رسیا تھے لیکن اب یہ لوگ باشعور ہوچکے تھے،مسلمان ہوچکے تھے تو قران نے ان باشعور انسانوں کو مخاطب کر کے کہا خبردار: جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا گویا اس نے پورے عالم بشریت کو قتل کردیا اور جس نے ایک انسان کو بچا لیا گویا اس نے پورے عالم بشریت کو بچالیا۔ یہ نہیں کہا کہ جس نے ایک مسلمان کو ناحق قتل کیا بلکہ کہا جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا۔
    ایک انسانی جان کو اتنی عزّت اور عظمت عطا کرنے کے لئے پیغمبرِ اسلام ﷺ ساری زندگی اپنی جان کو ہتھیلی پر لئے پھرتے رہے،آپ نے ہجرت کی اس لئے کہ انسان کو ذلت و رسوائی سے نجات حاصل ہو،آپ نے طائف کی وادی میں پتھر کھائے اس لئے کہ انسان کو ہدایت مل جائے،آپ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے اس لئے کہ انسان ،انسان بن جائے۔ تاریخِ بشریّت کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ اگرانسان ،انسان بن جائے تو پھر وہ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کا عملی مصداق بن جاتاہے،پھر وہ نہ بتوں کو دیکھ کر کانپتاہے،نہ وڈیروں کو دیکھ کر لرزتاہے اور نہ ظالموں کو دیکھ کر جھکتاہے۔
    آج ہمارے ملک میں ایک مرتبہ پھر زمانہ جاہلیت کے گماشتے بے گناہ انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں ،وہی جو ۱۴ سو سال پہلے اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے انہی کی اولاد آج ہمارے ہاں بچیوں کے سکولوں کو دھماکوں سے اڑا دیتی ہے۔وہی جو پیغمبرِ اسلام ﷺ کو طعنے دیتے تھے،نعوذباللہ پاگل اور مجنوں کہتے تھے آج انہی کی باقیات ،پیغمبر اسلام ﷺ کی امت کو کافر کہہ رہی ہے۔وہی جو مردار کھاتے تھے اور قتل و غارت پر فخر کرتے تھے آج انہی کی اولاد امریکی ڈالر کھارہی ہے اور فخر کے ساتھ بے گناہ انسانوں کوقتل کررہی ہے۔وہی جنہوں نے پیغمبرِ گرامی کے دندانِ مبارک کو شہید کیا تھا انہی کی اولاد پیغمبر ﷺکی امّت کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔
    یہ ظلم اور درندگی قابلِ نفرت ہے لیکن اس سے بھی زیادہ قابلِ نفرت وہ لوگ ہیں جو قرآن و سنّت کا علم رکھنے کے باوجود خاموش ہیں،مصلحتوں کے شکار ہیں اور بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہی بے حسی جو ۶۱ ہجری میں عالمِ اسلام پر طاری تھی،نواسہ رسول ﷺ کو بے آب و گیاہ دشت میں ذبح کیا جارہا تھا ،رسول ﷺ کا گھر اجڑ رہاتھا لیکن لوگ اذانیں دینے اور نمازیں پڑھنے میں مشغول تھے۔
    آج امّت رسول ﷺ کا خون بہہ رہاہے،بے حسی کو چھوڑئیے،قبیلوں کے بتوں سے باہر نکلئے،موروثی سیاست کے مقابلے میں اٹھیے،وقت کی کربلا میں یزیدِ عصر کے منہ پر اپنے حصے کا طمانچہ مارئیے ۔ظالموں اور فاسقوں کو ہر گز ووٹ نہ دیجیے۔
    یاد رکھیے!وہ ایک طمانچہ جو وقت پر مارا جائے بے وقت کے ہزار طمانچوں سے بہترہے۔ابھی وقت ہے ان انتخابات میں اپنے ووٹ کو کاغذ کی پرچی کے بجائے طمانچہ بنائیے اور یزیدِ عصر کے منہ پر رسید کیجئے۔ ان انتخابات میں ثابت کیجئے کہ ہم مسلمان ہیں ،ہم نے پاکستان اسلام کے لئے حاصل کیا تھا،ہم سب متحد ہیں،ہم ایک دوسرے کے لئے خطرہ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے محافظ ہیں،ہم بھائی بھائی ہیں،ہمیں پنجابی اور سندھی میں بلوچی اور پٹھان میں ،مہاجر اور مقامی میں تقسیم کرکے لڑوانے والے ابو جاہلوں کی اولاد ہیں۔ہم سرور کونین ص کے امّتی ہیں، ہم با شعور ہیں،ہم پورے عالمِ بشریت کے محافظ ہیں۔ہم میں سے کوئی خونخوار اور درندہ نہیں اور جو خونخوار اور درندہ ہے وہ ہم میں سے نہیں۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    نذر حافی بھائی ۔ خوب لکھا !
    بلاشبہ آج ہماری ذلت و رسوائی کی بنیادی ترین وجہ :
    یا تو براہ راست دین سے انحراف ہے
    یا پھر جو مذہب کیطرف راغب ہیں انکا فرقہ پرستی میں مبتلا ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا ہے۔
    ہر دوصورت میں مسلمانوں کے لیے ذلت و خسارہ ہے۔
    ہم جتنا جلدی سمجھ لیں کہ دینِ اسلام اور اتحاد میں ہی ہماری بقا مضمر ہے ، اتنا جلدی ہم عزت و ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔
     
    پاکستانی55، نذر حافی اور ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عباس حسینی
    آف لائن

    عباس حسینی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2009
    پیغامات:
    392
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھے نذر بھائی۔۔۔۔
    یقینا اقبال نے کہا تھا
    ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
    چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
    لہذا زمانے کے بولہبوں کو مل کر شکست دینا ہے۔۔۔۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں