1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وطن عزیز کا کینسر ۔اور ہمارا قومی وطیرہ ۔

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏16 مئی 2013۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    السلام علیکم۔

    ہر کوئی جانتا ہے مرض کے علاج کے تین اہم ترین مرحلے ہوتے ہیں۔
    پہلا ۔ تشخیص
    دوسرا ۔پرہیز
    تیسرا ۔ علاج
    منزل ۔ شفایابی
    ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ مریض نظر آتا ہے۔ مگر کبھی اس کا مرض سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ یا اگر مرض سمجھ لیا تو پھر معالج کی تلاش میں خطا کھا بیٹھتے ہیں ۔

    مرض کی اقسام ہوتی ہیں۔ابتدائی قسم کے ہلکے پھلکے امرض سردرد۔ ہلکا بخار ۔ نزلہ ، ایکسیڈنٹ کی صورت میں خراشیں وغیرہ ۔ ایسے امراض کے لیے بعض اوقات ڈاکٹر کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ۔ ہلکی پھلکی دوا ، اسپرین و ڈسپرین ، مرہم وغیرہ سے ہی شفا یابی ہوجاتی ہے۔
    دوسری قسم شدید امراض ۔ ٹائیفائیڈ ۔ گہرے زخم ۔ہڈی وغیرہ ٹوٹ جانا۔ ایسے امراض کے لیے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع لازم ہوجاتا ہے۔ اسکے بتائے ہوئے طریقے سے علاج ہوتا ہے۔
    تیسری قسم جان لیوا امراض کی ہوتی ہے۔ کینسر ۔ ہارٹ اٹیک ، برین ہیمریج وغیرہ۔ ایسے امراض کے لیے عام فزیشن کی بجائے متعلقہ مرض کا ماہر ڈاکٹر یا سرجن درکار ہوتا ہے۔ جو سرجری کرتا ہے۔ علاج کرتا ہے اور ساتھ ساتھ پرہیز بھی بتاتا ہے۔

    ایک نکتے پر کم و بیش پوری قوم متفق ہے کہ پاکستان کو بہت سے امراض لاحق ہیں۔ اور مختلف امراض مل کر ایک کینسر کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ جو کہ کسی ماہر معالج سے بروقت، بھرپور علاج نہ کروانے کی صورت میں جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

    ہمارے بعض سادہ لوح لوگ چھوٹے موٹے ڈسپنسروں کو اس مہلک مرض کا معالج سمجھ کر ان سے الیکشن کی ڈسپرین یا اسپرین کو کل علاج سمجھ لیتے ہیں۔
    ایک طبقہ شاید ان امراض کو ٹائفائیڈ وغیرہ سمجھ کر عام فزیشن (جہاں اکثر جایا جاتا ہے) جیسے آزمودہ سیاستدانوں کو ہی بار بار علاج کے لیے بلا لیتے ہیں۔
    جبکہ بہترین باشعور طبقہ یہ جان چکا ہے کہ وطن عزیز کو کرپشن، دہشت گردی، معاشی استحصال، جہالت، فرقہ واریت جیسے وہ کینسر دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں جو کسی بھی وقت جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور اسکا علاج نہ کوئی ڈسپنسر کرسکتا ہے۔ نہ کوئی فزیشن کرسکتا ہے۔ بلکہ اس کے لیے ہمیں ایک یا ایک سے زیادہ انتہائی ماہر معالجوں کی ٹیم درکار ہے۔ جو ایک بھرپور سرجری کے ذریعے سب سے پہلے کینسر پیدا کرنے والے عناصر کو وطن عزیز کے پاک بدن سے نکال پھینکیں۔ کیونکہ انکا مکروہ وجود (عملی کردار) جب تک اس وطن میں موجود رہے گا۔ اس کینسر کا علاج ممکن نہیں ۔

    یہاں اکثر ہم وطن یہی سوال کرتے ہیں۔ جب بھی انقلاب کی بات کی جائے۔ جب بھی تبدیلی کی بات کی جائے۔ نظام بدلنے کی بات کی جائے ۔
    فورا سوال داغا جاتا ہے۔ انقلاب کے بعد کیا ہوگا؟ متبادل نظام کیا ہے ؟
    اگر ہمارا کوئی مریض کینسر یا برین ہیمبرج میں مبتلا ہو تو کبھی ہم نے اسکو سرجن کے پاس لے جانے سے پہلے سرجن سے یہ بحث کی ہے کہ آپ کے پاس کونسے آلات ہیں ؟ آپ علاج کیسے کریں گے؟ کونسی کونسی غدود کاٹیں گے؟ کتنا خون لگائیں گے؟ کس کس سرجن یا کس کس شعبے کے ڈاکٹر سے مزید رائے لیں گے ؟؟؟
    نہیں نا ؟؟؟ یقینا نہیں ۔۔۔ کیونکہ آپ کو پتہ ہے اس سرجن پر اعتماد کرنا ہی ہمارے مریض کے حق میں بہتر ہے۔ ہاں اس سرجن کی تعلیم، کوالیفیکیشن، تجربہ اور رپوٹیشن ضرور دیکھی گے۔
    قوموں کی زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم 18 کروڑ بذات خود چند سو خاندانوں کی غلامی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن جب قیادت تلاش کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو ہم سب "ماہر سرجن " بن جاتے ہیں اور قیادت یعنی سرجن سے علاج کروانے کی بجائے ہم اسی کو سٹریچر پر ڈال کر پہلے اس کا آپریشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    آج سے چند ماہ پہلے تک ہر کوئی یہی دعائیں کرتا نظر آتا تھا ۔۔ یا اللہ کوئی نجات دہندہ بھیج دے۔ کوئی قیادت دستیاب ہوجائے۔ جو ہمیں اس بھنور سے نکال سکے۔
    ایک قائد آیا۔ جو نہ صرف قرآن و سنت پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے بلکہ ماہرِ قوانینِ عالم بھی ہے۔
    دنیا بھر میں سب سے زیادہ (ایک ہزار) کتب کا مصنف، 6/7 ہزار لیکچرز کا خطیب۔
    جس نے 1992 میں سود سے پاک اسلامی بنکاری و معاشی نظام کر بڑ ے بڑے معیشت دانوں سے داد وصول کی ۔
    جس کی کتب سے ڈاکٹر مہاتیر محمد نے استفادہ کرکے ملائیشا کو دنیا بھر میں معاشی استحکام دلوایا۔
    جس کی کتب کو عراق، شام، دمشق و مصر سمیت عرب و عجم کی درجنوں یونیورسٹی میں بطور نصاب شامل کیا گیا۔
    واحد عالمی شخصیت جس پر دنیا بھر میں 20 یونیورسٹیز میں اسکی زندگی میں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں۔
    دنیا بھر میں سب سے بڑی اسلامی تنظیم و تحریک کا آرگنائزر،
    دنیا بھر میں سب سے زیادہ اسلامک سنٹرز،
    دنیا بھر میں امن کے پیامبر کی پہچان رکھنے والا۔
    حکومت سے باہر رہ کر 500 یتیم بچوں کی باوقار پناہ گاہ آغوش۔ اور 500 لاوارث و بےسہارا بچیوں کی پناہ گاہ بیت الزاہرا کا بانی ۔
    640 سکولز کے ذریعے قوم کو تعلیم دینے والا۔

    وہ جب آیا ۔۔ تو ہم نے اسے رب کریم کا تحفہ سمجھ کر اس سے رہنمائی لینے کی بجائے اسکو آپریشن تھیٹر میں ڈال دیا۔ اسی کا آپریشن شروع کردیا۔
    گویا ہم اللہ سے دعا یہ کررہے تھے کہ مولا کریم ! نجات دہندہ تو بھیج لیکن وہ انسانی شکل میں نہ ہو۔ بلکہ کوئی قدسی مخلوق ہو کہ ہمیں گھروں سے نکلنے کی زحمت بھی نہ ہو۔ ہم بنی اسرائیل کی قوم کی طرح پیغمبر موسی علیہ اسلام کو صرف یہ کہہ دیں۔ موسی تو جا ۔ تیرا رب جاکر فرعونوں سے جنگ کرے۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ وہاں تو بڑے بڑے جابرو ظالم ہیں۔ (القرآن)۔
    ہم خود نوکریاں کریں۔ ہم بزنس کے ذریعے نوٹ کمائیں۔
    لاالہ الااللہ کے نام پر بننے والے پاکستان میں ایک دینی مگر انتہائی جدید علوم سے مزین رہنما کی عملی حمایت تو دور کی بات ۔ ہم اخلاقی حمایت بھی نہ کریں۔ اور حمایت تو کجا الٹا طعن و تشنیع کی بوچھاڑ کرتے ہوئے "جمہوری حق" کا خوب استعمال کریں۔
    اور وہ معالج چیختا رہ جائے۔۔ کہ وطن عزیز کو ہلکا پھلکا سردر د نہیں۔ ہلکا پھلکا بخار نہیں۔ جو اسپرین ڈسپرین سے ٹھیک ہوگا۔۔ بلکہ کینسر لاحق ہے۔ خدارا اس ظالمانہ نظام کے کینسر کا علاج ضروری ہے۔ خدا کے لیے اس ظالمانہ و غیر منصفانہ نظام کی سرجری کرنی ہوگی ۔
    اگر ایسا نہ ہوا۔۔ اسی کینسر زدہ نظام میں الیکشن کروائے گئے۔ تو کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ کوئی علاج نہیں ہوگا۔ مرض جوں کا توں برقرار رہے گا۔ بلکہ اور بڑھتا جائے گا۔ ۔۔ اور ملک میں نفرتیں ، کدورتیں اور عداوتیں بڑھ جانے کی وجہ سے ملک خدانخواستہ ٹوٹنے کا خدشہ لاحق ہوسکتا ہے۔
    لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی ۔
    بلکہ اسی کینسر زدہ نظام میں ہی اسپرین ڈسپرین اور انہی پرانے ڈسپنسروں اور ڈاکٹروں کے ہاتھ میں پھر سے مریض دے دیا۔
    جس کے نتائج فوری طور پر سامنے آنا شروع ہوگئے۔
    پورا ملک بےچین ہے۔ نوجوان اور محب وطن سڑکوں پر کئی دنوں سے بیٹھے ہیں۔
    ایک طرف "کراچی کو علیحدہ " کردو کے نعرے گونج رہے ہیں۔
    دوسری طرف کچھ مولانا دیگر پارٹیوں کا مینڈیٹ تسلیم نے کرتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
    طالبان کسی بھی وقت کسی بھی علاقے کو یرغمال بنانے کو درپے ہیں۔
    بلوچستان میں "ووٹ نہیں آزادی " کی مہم کی شنید ہے۔
    تبدیلی کے چیمپین ۔۔ جس پارٹی پر وطن دشمنی کے بم گولے برسا برسا کر ووٹ اکٹھے کرتے رہے۔ انہیں سے دوستی کرکے ایک دوسرے کو اسمبلی کی سیٹیں جیتنے پر مبارکبادیں اور ملک جل کر کرپٹ نظام کو جاری رکھنے کے عہد و پیمان کررہے ہیں۔
    ظلم و ستم اور ناانصافی کا شکار معصوم کارکن سڑکوں پر گلے پھاڑ پھاڑ کرنعرے لگا رہے ہیں۔ آنکھوں میں آنسو ہیں۔ دل بجھتے جارہے ہیں۔ ایک بار پھر سے وہی مایوسی ۔
    انصاف کی نام نہاد کشتی پر سوار ہوکر بھی ناانصافیوں کی دلدل عبور نہ ہوسکی۔


    کیا اب بھی وقت نہیں کہ ہم سب کروڑوں عوام خود معالج بننے کی بجائے، خود پروفیسر بننے کی بجائے ، خود سرجن بننے کی بجائے اپنے مریض یعنی پیارے پاکستان کو کسی اہل معالج کے ہاتھوں دینے کے لیے عزم کرلیں۔ جس کو اللہ نے دین کا علم، فہم ، بصیرت ، تنظیم، تحریک، تقریر، تحریر، تحرک، ذہانت اور دوراندیشی جیسی لازوال نعمتوں سے نواز کر ہمارے اندر بھیجا ہے ؟؟؟؟

    ذرا تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر ایک سچا مسلمان اور سچا پاکستان بن کر ڈاکٹر طاہرالقادری کی زندگی اور خدمات کا گہرا مطالعہ کیجئے۔ سب کچھ عیاں ہوجائے گا اور قیادت بھی نظر آجائے گی ۔
     
    پاکستانی55، تانیہ اور ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں