1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وطن سے محبت

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏28 دسمبر 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    انسان کیا حیوان بھی جس سر زمین میں پیدا ہوتا ہے، اُس سے محبت و اُنس اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔ چرند، پرند، درند حتیٰ کہ چیونٹی جیسی چھوٹی بڑی کسی چیز کو لے لیجئے، ہر ایک کے دل میں اپنے مسکن اور وطن سے بے پناہ اُنس ہوتا ہے۔ ہر جاندار صبح سویرے اٹھ کر روزی پانی کی تلاش میں زمین میں گھوم پھر کر شام ڈھلتے ہی اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتا ہے۔ ان بے عقل حیوانات کو کس نے بتایا کہ ان کا ایک گھر ہے، ماں باپ اور اولاد ہے، کوئی خاندان ہے؟ اپنے گھر کے در و دیوار، زمین اور ماحول سے صرف حضرتِ انسان کو ہی نہیں بلکہ حیوانات کو بھی اُلفت و محبت ہوجاتی ہے۔

    قرآن کریم اور سنّتِ مقدسہ میںاس حقیقت کو شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں ہم اِس حوالے سے چند نظائر پیش کرتے ہیں تاکہ نفسِ مسئلہ بخوبی واضح ہوسکے۔

    محبتِ وطن: قرآن کی روشنی میں:
    1۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنی مقبوضہ سرزمین میں داخل ہونے اور قابض ظالموں سے اپنا وطن آزاد کروانے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

    يٰـقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ کَتَبَ اﷲُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَo

    (المائدة، 5: 21)

    اے میری قوم! (ملک شام یا بیت المقدس کی) اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اﷲ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پشت پر (پیچھے) نہ پلٹنا ورنہ تم نقصان اٹھانے والے بن کر پلٹو گے۔

    2۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شہر مکہ کو امن کا گہوارہ بنانے کی دعا کرنا درحقیقت اس حرمت والے شہر سے محبت کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے:

    وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَo

    (إبراهيم، 14: 35)

    اور (یاد کیجیے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس (بات) سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔

    3۔ اپنی اولاد کو مکہ مکرمہ میں چھوڑنے کا مقصد بھی اپنے محبوب شہر کی آبادکاری تھا۔ انہوں نے بارگاهِ اِلٰہ میں عرض کیا:

    رَبَّنَآ اِنِّيْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِکَ الْمُحَرَّمِلا رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْيُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّيُمْ يَشْکُرُوْنَo

    (إبراهيم، 14: 37)

    اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں۔

    4۔ سورہ توبہ کی درج ذیل آیت میں مَسٰکِن سے مراد مکانات بھی ہیں اور وطن بھی ہے:

    قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِيْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی يَاْتِيَ اﷲُ بِاَمْرِهِط وَاﷲُ لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَo

    (التوبة، 9: 24)

    (اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔

    اﷲ تعالیٰ نے یہاں محبتِ وطن کی نفی نہیں فرمائی صرف وطن کی محبت کو اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جہاد پر ترجیح دینے سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا اِس آیت سے بھی وطن سے محبت کا شرعی جواز ملتا ہے۔

    5۔ اسی طرح درج ذیل آیت مبارکہ میں وطن سے ناحق نکالے جانے والوں کو دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے:

    اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاط وَاِنَّ اﷲَ عَلٰی نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُo نِالَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يََّقُوْلُوْا رَبُّنَا اﷲُ.

    (الحج، 22: 39-40)

    ان لوگوں کو (فتنہ و فساد اور اِستحصال کے خلاف دفاعی جنگ کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)۔

    6۔ اِسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل جب اپنی کرتوتوں کے باعث ذلت و غلامی کے طوق پہنے بے وطن ہوئے تو ٹھوکریں کھانے کے بعد اپنے نبی یوشع یا شمعون یا سموئیل علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمارے لئے کوئی حاکم یا کمانڈر مقرر کر دیں جس کے ماتحت ہو کے ہم اپنے دشمنوں سے جہاد کریں اور اپنا وطن آزاد کروائیں۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا: ایسا تو نہیں ہوگا کہ تم پر جہاد فرض کردیا جائے اور تم نہ لڑو؟ اِس پر وہ کہنے لگے:

    مَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَـآئِنَاط فَلَمَّا کُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَ لَّوْا اِلَّا قَلِيْلاً مِّنْهُمْط وَاﷲُ عَلِيْمٌم بِالظّٰلِمِيْنَo

    (البقرة، 2: 246)

    ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اﷲ کی راہ میں جنگ نہ کریں حالاں کہ ہمیں اپنے وطن اور اولاد سے جدا کر دیا گیا ہے، سو جب ان پر (ظلم و جارحیت کے خلاف) قتال فرض کر دیا گیا تو ان میں سے چند ایک کے سوا سب پھر گئے، اور اﷲ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔

    مذکورہ بالا آیت میں وطن اور اولاد کی جدائی کروانے والوں کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔

    7۔ اسی طرح درج ذیل آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کے ساتھ مسلمانوں کو آزاد وطن ملنے پر شکر بجا لانے کی ترغیب دلائی ہے:

    وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَيَّدَکُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo

    (الأنفال، 8: 26)

    اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے (یعنی اقلیّت میں) تھے ملک میں دبے ہوئے تھے (یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے) تم اس بات سے (بھی) خوفزدہ رہتے تھے کہ (طاقتور) لوگ تمہیں اچک لیں گے (یعنی سماجی طور پر بھی تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا) پس (ہجرت مدینہ کے بعد) اس (اللہ) نے تمہیں (آزاد اور محفوظ) ٹھکانا (وطن) عطا فرما دیا اور (اسلامی حکومت و اقتدار کی صورت میں) تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات، اموالِ غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے) تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرما دی تاکہ تم (اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے اس کا) شکر بجا لا سکو۔

    درج بالا میں مذکور سات آیاتِ قرآنیہ سے وطن کے ساتھ محبت کرنے، وطن کی خاطر ہجرت کرنے اور وطن کی خاطر قربان ہونے کا شرعی جواز ثابت ہوتا ہے۔
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محبتِ وطن: احادیث مبارکہ کی روشنی میں:
    احادیث مبارکہ میں بھی اپنے وطن سے محبت کی واضح نظائر ملتی ہیں، جن سے محبتِ وطن کی مشروعیت اور جواز کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔

    1۔ حدیث، تفسیر، سیرت اور تاریخ کی تقریبا ہر کتاب میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نزولِ وحی کی تفصیلات سن کر تین باتیں عرض کیں:

    1. آپ کی تکذیب کی جائے گی یعنی آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی
    2. آپ کو اذیت دی جائے گی اور
    3. آپ کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا۔
    اِس طرح ورقہ بن نوفل نے بتایا کہ اعلانِ نبوت کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قوم کی طرف سے کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    امام سہیلی نے الروض الأنف میں باقاعدہ یہ عنوان باندھا ہے: حُبُّ الرَّسُوْلِ صلی الله عليه وآله وسلم وَطْنَهُ (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن کے لیے محبت)۔ اس عنوان کے تحت امام سہیلی لکھتے ہیں کہ جب ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کی تکذیب کرے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی فرمائی۔ ثانیاً جب اس نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرے گی تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ نہ کہا۔ تیسری بات جب اس نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فورا فرمایا:

    أَوَ مُخْرِجِيَّ؟

    کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟

    یہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں:

    فَفِيْ هٰذَا دَلِيْلٌ عَلٰی حُبِّ الْوَطَنِ وَشِدَّةِ مُفَارَقَتِهِ عَلَی النَّفْسِ.

    اِس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتنی شاق تھی۔

    (الروض الأنف للسهيلی، 1: 413-414، طرح التثريب فی شرح التقريب للعراقی، 4: 185)

    اور وطن بھی وہ متبرک مقام کہ اﷲ تعالیٰ کا حرم اور اس کا گھر پڑوس ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محترم والد حضرت اسماعیل علیہ السلام کا شہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی دونوں باتوں پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں فرمایا لیکن جب وطن سے نکالے جانے کا تذکرہ آیا تو فورا فرمایا کہ کیا میرے دشمن مجھے یہاں سے نکال دیں گے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوال بھی بہت بلیغ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے الف اِستفہامیہ کے بعد واؤؔ کو ذکر فرمایا اور پھر نکالے جانے کو مختص فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ واؤؔ سابقہ کلام کو ردّ کرنے کے لیے آتی ہے اور مخاطب کو یہ شعور دلاتی ہے کہ یہ اِستفہام اِنکار کی جہت سے ہے یا اِس وجہ سے ہے کہ اُسے دکھ اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گویا اپنے وطن سے نکالے جانے کی خبر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے زیادہ شاق گزری تھی۔

    امام زین الدین العراقی نے بھی یہ سارا واقعہ اپنی کتاب ’طرح التثریب فی شرح التقریب (4: 185)‘ میں بیان کرتے ہوئے وطن سے محبت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔

    2۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

    مَا أَطْيَبَکِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّکِ إِلَيَّ، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُوْنِي مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَيْرَکِ.

    (سنن الترمذی، 5: 723، رقم: 3926، صحيح ابن حبان، 9: 23، رقم: 3709، المعجم الکبير للطبرانی، 10: 270، رقم: 10633)

    تُو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔

    یہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحتاً اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت کا ذکر فرمایا ہے۔

    3۔ اِسی طرح سفر سے واپسی پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے وطن میں داخل ہونے کے لئے سواری کو تیز کرنا بھی وطن سے محبت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وطن کی محبت میں اتنے سرشار ہوتے کہ اس میں داخل ہونے کے لیے جلدی فرماتے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

    إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَنَظَرَ إِلٰی جُدُرَاتِ الْمَدِيْنَةِ، أَوْضَعَ رَاحِلَتَهِ، وَإِنْ کَانَ عَلٰی دَابَّةٍ، حَرَّکَهَا مِنْ حُبِّهَا.

    (صحيح البخاري، 2: 666، رقم: 1787، مسند أحمد بن حنبل، 3: 159، رقم: 12644، سنن الترمذي، 5: 499، رقم: 3441)

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے، اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اُسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے تھے۔

    اِس حدیث مبارک میں صراحتاً مذکور ہے کہ اپنے وطن مدینہ منورہ کی محبت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سواری کی رفتار تیز کردیتے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:

    وَفِی الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلٰی فَضْلِ الْمَدِينَةِ، وَعَلٰی مَشْرُوعِيَةِ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِيْنِ إِلَيْهِ.

    (فتح الباری، 3: 621)

    یہ حدیث مبارک مدینہ منورہ کی فضیلت، وطن سے محبت کی مشروعیت و جواز اور اس کے لیے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    4۔ ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کرتا رہوں۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر سے واپس لوٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُحد پہاڑ نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

    هٰذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ.

    یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔

    اس کے بعد اپنے دستِ مبارک سے مدینہ منورہ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا:

    اللّٰهُمَّ! إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا کَتَحْرِيمِ إِبْرَاهِيمَ مَکَّةَ. اللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا.

    (صحيح البخاري، 3: 1058، رقم: 2732، صحيح مسلم، 2: 993، رقم: 1365)

    اے اللہ! میں اس کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان والی جگہ کو حرم بناتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا تھا۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے صاع اور ہمارے مُدّ میں برکت عطا فرما۔

    یہ اور اس جیسی متعدد احادیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے وطن مدینہ منورہ کی خیرو برکت کے لیے دعا کرتے جو اپنے وطن سے محبت کی واضح دلیل ہے۔

    5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ پہلا پھل دیکھتے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے قبول کرنے کے بعد دعا کرتے: اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما۔ ہمارے (وطن) مدینہ میں برکت عطا فرما۔ ہمارے صاع میں اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔ اور مزید عرض کرتے:

    اللّٰهُمَّّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُکَ وَخَلِيلُکَ وَنَبِيُکَ، وَإِنِّي عَبْدُکَ وَنَبِيُکَ وَإِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَإِنِّي أَدْعُوکَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ.

    (صحيح مسلم، 2: 1000، رقم: 1373)

    اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی۔ میں ان کی دعائوں کے برابر اور اس سے ایک مثل زائد مدینہ کے لیے دعا کرتا ہوں (یعنی مدینہ میں مکہ سے دوگنا برکتیں نازل فرما)۔

    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی چھوٹے بچے کو بلا کر وہ پھل دے دیتے۔

    6۔ وطن سے محبت کا ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرمa نے فرمایا کہ وطن کی مٹی بزرگوں کے لعاب اور رب تعالیٰ کے حکم سے بیماروں کو شفا دیتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:

    إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَقُولُ لِلْمَرِيضِ: بِسْمِ اﷲِ تُرْبَهُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا يُشْفٰی سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا.

    (صحيح البخاري، 5: 2168، رقم: 5413، صحيح مسلم، 4: 1724، رقم: 2194)

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مریض سے فرمایا کرتے تھے: اﷲ کے نام سے شروع، ہماری زمین (وطن) کی مٹی ہم میں سے بعض کے لعاب سے ہمارے بیمار کو، ہمارے رب کے حکم سے شفا دیتی ہے۔

    7۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ کوئی شخص مکہ مکرمہ سے آیا اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا کہ مکہ کے حالات کیسے ہیں؟ جواب میں اُس شخص نے مکہ مکرمہ کے فضائل بیان کرنا شروع کیے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ آنسؤوں سے تر ہوگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

    لَا تُشَوِّقْنَا يَا فُلَانُ.

    اے فلاں! ہمارا اِشتیاق نہ بڑھا۔

    جب کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا:

    دَعِ الْقُلُوْبَ تَقِرُّ.

    (شرح الزرقانی علی الموطا، 4: 288، السيرة الحلبية، 2: 283)

    دلوں کو اِستقرار پکڑنے دو (یعنی اِنہیں دوبارہ مکہ کی یاد دلا کر مضطرب نہ کرو)۔

    اِزالۂ اِشکال
    وطن سے محبت کے حوالے سے ایک اِشکال کا اِزالہ بھی اَز حد ضروری ہے۔ اِس ضمن میں بالعموم ایک روایت quote کی جاتی ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں:

    حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ.

    وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔

    حالاں کہ یہ حدیثِ نبوی نہیں ہے بلکہ من گھڑت (موضوع) روایت ہے۔

    1۔ امام صغانی نے اسے ’الموضوعات (ص:53، رقم:81)‘ میں درج کیا ہے۔

    2۔ امام سخاوی نے ’المقاصد الحسنۃ (ص:297)‘ میں لکھا ہے:

    لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ، وَمَعْنَاهُ صَحِيْحٌ.

    میں نے اس پر کوئی اطلاع نہیں پائی اگرچہ معناً یہ کلام درست ہے (کہ وطن سے محبت رکھنا جائز ہے)۔

    3۔ ملا علی القاری نے ’المصنوع (ص:91، رقم:106)‘ میں لکھا ہے کہ حفاظِ حدیث کے ہاں اِس قول کی کوئی اَصل نہیں ہے۔

    4۔ ملا علی القاری نے ہی اپنی دوسری کتاب ’الأسرار المرفوعۃ في أخبار الموضوعۃ (ص:180، رقم:164)‘ میں لکھا ہے:

    قَالَ الزَّرْکَشِيُّ: لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ.

    امام زرکشی کہتے ہیں: میں نے اِس پر کوئی اِطلاع نہیں پائی ہے۔

    وَقَالَ السَّيِّدُ مُعِيْنُ الدِّيْنِ الصَّفَوِيُّ: لَيْسَ بِثَابِتٍ.

    سید معین الدین صفوی کہتے ہیں: یہ ثابت نہیں ہے (یعنی بے بنیاد ہے)۔

    وَقِيْلَ: إِنَّهُ مِنْ کَلَامِ بَعْضِ السَّلَفِ.

    یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سلف صالحین میں سے بعضوں کا قول ہے۔

    5۔ اِسی لیے ملا علی القاری نے لکھا ہے:

    إِنَّ حُُبُّ الْوَطَنِ لَا يُنَافِيَ الْإِيْمَانَ.

    (الأسرار المرفوعة في أخبار الموضوعة:181، رقم:164)

    وطن سے محبت ایمان کی نفی نہیں کرتی (یعنی اپنے وطن کے ساتھ محبت رکھنے سے بندہ دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوجاتا)۔
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    6۔ علامہ زرقانی ’الموطا‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:

    وَأَخْرَجَ ابْنُ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّهْرِیِّ، عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: أَصَابَتِ الْحُمَّی الصَّحَابَةَ حَتّٰی جَهِدُوا مَرَضًا.

    ابن اِسحاق نے الزہری سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ بخار نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دبوچ لیا یہاں تک کہ وہ بیماری کے سبب بہت لاغر ہوگئے۔

    اس قول کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ زرقانی رقم طراز ہیں:

    قَالَ السُّهَيْلِيُّ: وَفِي هٰذَا الْخَبَرِ وَمَا ذُکِرَ مِنْ حَنِينِهِمْ إِلٰی مَکَّةَ مَا جُبِلَتْ عَلَيْهِ النُّفُوسُ مِنْ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِينِ إِلَيْهِ.

    (شرح الزرقانی علی الموطا، 4: 287-288)

    امام سہیلی فرماتے ہیں: اِس بیان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مکہ مکرمہ سے والہانہ محبت اور اشتیاق کی خبر ہے کہ وطن کی محبت اور اس کی جانب اِشتیاق اِنسانی طبائع اور فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے (اور اِسی جدائی کے سبب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیمار ہوئے تھے)۔

    7۔ قرآن حکیم کی سب سے معروف اور مسنتد لغت یعنی المفرادت کے مصنف امام راغب اصفہانی نے اپنی کتاب ’محاضرات الأدباء (2:652)‘ میں وطن کی محبت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کی گفت گو کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    لَولَا حُبُّ الْوَطَنِ لَخَرَبَتْ بِلَادُ السُّوْء. وَقِيْلَ: بِحُبِّ الْأَوْطَانِ عِمَارَةُ الْبُلْدَانِ.

    اگر وطن کی محبت نہ ہوتی تو پسماندہ ممالک تباہ و برباد ہوجاتے (کہ لوگ انہیں چھوڑ کر دیگر اچھے ممالک میں جابستے، اور نتیجتاً وہ ممالک ویرانیوں کی تصویر بن جاتے)۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اپنے وطنوں کی محبت سے ہی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی ہوتی ہے۔

    8۔ اس کے بعد امام راغب اصفہانی حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب ایک شخص نے اپنا رزق کم ہونے کی شکایت کی تو حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے فرمایا:

    لَوْ قَنَعَ النَّاسُ بِأَرْزَاقِهِمْ قُنُوْعَيُمْ بِأَوْطَانِهِمْ.

    کاش! لوگ اپنے رِزق پر بھی ایسے ہی قانع ہوتے جیسے اپنے اَوطان (یعنی آبائی ملکوں) پر قناعت اختیار کیے رکھتے ہیں۔

    9۔ اِسی طرح جب ایک دیہاتی شخص سے پوچھا گیا کہ وہ کس طرح دیہات کی سخت کوش اور جفاکشی و رِزق کی تنگی والی زندگی پر صبر کرلیتے ہیں تو اس نے جواب دیا:

    لَولَا أَنَّ اﷲَ تَعَالٰی أَقْنَعَ بَعْضَ الْعِبَادِ بِشَرِّ الْبِلَادِ، مَا وَسِعَ خَيْرُ الْبِلَادِ جَمِيْعَ الْعِبَادِ.

    اگر اﷲ تعالیٰ بعض لوگوں کو پسماندہ مقامات پر قائل نہ فرمائے تو ترقی یافتہ مقامات تمام لوگوں کے لیے تنگ پڑ جائیں۔

    یعنی اگر سارے مقامی باشندے اپنے آبائی علاقوں کی پسماندگی و جہالت اور غربت و محرومیوں کے باعث ترقی یافتہ علاقوں کی طر ف ہجرت کرتے رہیں تو ایک وقت آئے گا کہ ترقی یافتہ علاقے بھی گوناگوں مسائل کا شکار ہوجائیں گے اور اپنے رہائشیوں کے لیے تنگ پڑ جائیں گے۔

    10۔ اِس کے بعد امام راغب اصفہانی نے فَضْلُ مَحَبَّۃِ الْوَطَنِ (وطن سے محبت کی فضیلت) کے عنوان سے ایک الگ فصل قائم کرتے ہوئے لکھا ہے:

    حُبُّ الْوَطَنِ مِنْ طِيْبِ الْمَوْلِدِ.

    وطن کی محبت اچھی فطرت و جبلت کی نشانی ہے۔

    مراد یہ ہے کہ عمدہ فطرت والے لوگ ہی اپنے وطن سے محبت کرتے اور اس کی خدمت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے وطن کی نیک نامی اور اَقوامِ عالم میں عروج و ترقی کا باعث بنتے ہیں نہ کہ ملک کے لیے بدنامی خرید کر اس پر دھبہ لگاتے ہیں۔

    11۔ ابو عمرو بن العلاء نے کہا ہے:

    مِمَّا يَدُلُّ عَلٰی کَرَمِ الرَّجُلِ وَطِيْبِ غَرِيْزَتِهِ حَنِيْنُهُ إِلٰی أَوْطَانِهِ وَحُبُّهُ مُتَقَدِّمِي إِخْوَانِهِ وَبُکَاؤُهُ عَلٰی مَا مَضٰی مِنْ زَمَانِهِ.

    (محاضرات الأدباء للراغب الأصفهانی، 2: 652)

    آدمی کے معزز ہونے اور اس کی جبلت کے پاکیزہ ہونے پر جو شے دلالت کرتی ہے وہ اس کا اپنے وطن کے لیے مشتاق ہونا اور اپنے دیرینہ تعلق داروں (یعنی اعزاء و اقربا، رفقاء و دوست احباب اور پڑوسی وغیرہ) سے محبت کرنا اور اپنے سابقہ زمانے (کے گناہوں اور معصیات) پر آہ زاری کرنا (اور ان کی مغفرت طلب کرنا) ہے۔

    12۔ اِسی لیے بعض فلاسفہ کا کہنا ہے:

    فِطْرَةُ الرَّجُلِ مَعْجُوْنَةٌ بِحُبِّ الْوَطَنِ.

    (محاضرات الأدباء للراغب الأصفهانی، 2: 652)

    فطرتِ اِنسان کو وطن کی محبت سے گوندھا گیا ہے (یعنی وطن کی محبت انسانی خمیر میں رکھ دی گئی ہے)۔

    13۔ ابن خبیر الاشبیلی (م502ھ) نے ’الفھرسۃ (ص:343، رقم:1006)‘ میں لکھا ہے کہ دوسری تیسری صدی ہجری کے معروف امام ابو عثمان عمرو بن بحر الجاحظ (159-255ھ) نے وطن کی محبت پر ایک مکمل رسالہ لکھا ہے، جس کا نام ہے: کتاب حب الوطن۔ ابن خبیر الاشبیلی (م502ھ) نے ’الفھرسۃ (ص:343، رقم:1006)‘ میں اس رسالے کی پوری سند کو بیان کیا ہے۔ 1982ھ میں یہ رسالہ لبنان کے دار الکتاب العربی سے الحنین إلی الأوطان کے عنوان سے طبع ہوچکا ہے۔ گویا مسلم محققین اوائل اِسلام سے ہی وطن سے محبت کے موضوع پر لکھتے آرہے ہیں۔

    خلاصہ کلام
    قرآن و حدیث اور تاریخ اِسلام کے درج بالا صریح دلائل سے معلوم ہوا کہ وطن سے محبت ایک مشروع اور جائز عمل ہے کیونکہ یہ ایک فطری اور لازم امر ہے۔
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر 24

    اس آیت مبارکہ میں چھ طرح کی دنیاوی محبتوں کا بیان ہے: (1) اولاد کی والدین سے محبت (2) والدین کی اولاد سے محبت (3) بیوی کی محبت (4) رشتہ داروں کی محبت (5) نوکری، کاروبار اور تجارت کی محبت (6) گھروں اور وطن کی محبت۔ اگر یہ ساری محبتیں مل کر یعنی ان محبتوں کا total aggregate اور سب شدتیں مل کر اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جہاد کی محبت سے بڑھ جائیں، اﷲ کے دین کی محبت سے بڑھ جائیں تو پھر اپنے انجام کا انتظار کرنا چاہیے۔ یہ ایک categorical declaration ہے۔ لیکن اگر یہ تمام دنیاوی محبتیں اپنی limit میں ہیں اور غالب محبت اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی ہے تو یہ ساری محبتیں بھی اُسی لافانی محبت کے تابع ہوجاتی ہیں۔

    لہٰذا ہمیں جان لینا چاہیے کہ وطن سے محبت کے بغیر کوئی قوم آزادانہ طور پر عزت و وقار کی زندگی گزار سکتی ہے نہ اپنے وطن کو دشمن قوتوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ جس قوم کے دل میں وطن کی محبت نہیں رہتی پھر اُس کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے اور وہ قوم اور ملک پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ وطن سے محبت ہرگز خلافِ اِسلام نہیں ہے اور نہ ہی یہ ملتِ واحدہ کے تصور کے منافی ہے، کیونکہ ملتِ واحدہ کا تصور سرحدوں کا پابند نہیں ہے بلکہ یہ اَفکار و خیالات کی یک جہتی اور اِتحاد کا تقاضا کرتا ہے۔ مصورِ پاکستان نے کیا خوب فرمایا ہے:

    جہانِ تازہ کی اَفکارِ تازہ سے ہے نمود
    کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

    ہمیں اپنے وطنِ عزیز سے ٹوٹ کر محبت کرنی چاہیے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ وطن سے محبت صرف جذبات اور نعروں کی حد تک ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمارے گفتار اور کردار میں بھی اس کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ ہمیں ایسے عناصر کی بھی شناخت اور سرکوبی کے اقدامات کرنے چاہییں جو وطنِ عزیز کی بدنامی اور زوال کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے حکمرانوں سے بھی چھٹکارے کے لیے جد و جہد کرنی چاہیے جو وطنِ عزیز کو لوٹنے کے درپے ہیں اور آئے روز اس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسے حکمرانوں سے نجات دلانے کی سرگرمِ عمل ہونا چاہیے جو اپنے وطن سے زیادہ دوسروں کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں اور وطنِ عزیز کی سلامتی کے درپے رہتے ہیں۔ معاشرے کے اَمن کو غارت کرنے والے عناصر کو ناسور سمجھ کر کیفرِ کردار تک پہنچانے میں اپنا بھرپور قومی کردار ادا کرنا چاہیے۔ وطن کا وقار، تحفظ، سلامتی اور بقا اِسی میں ہے کہ لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوں۔ وطن کی ترقی اور خوش حالی اسی میں ہے کہ ہمیشہ ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دی جائے اور ہر سطح پر ہر طرح کی کرپشن اور بدعنوانی کا قلع قمع کیا جائے۔ معاشرے میں امن و امان کا راج ہو۔ ہر طرح کی ظلم و زیادتی سے خود کو بچائیں اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں


    ہمیں خود اِحتسابی کی اَشد ضرورت ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم نے اب تک اپنے وطنِ عزیز کے لیے کیا کیا ہے؟ اس کی ترقی میں کتنا حصہ لیا ہے؟ قوم کے لیے کیا کیا ہے؟ عوامی بہبود اور خدمتِ اِنسانیت کے لیے کیا کیا ہے؟ وطنِ عزیز کے غیر مسلم شہریوں کی خاطر کیا کام کیا ہے؟ ان کے تحفظ اور ترقی کے لیے کون سے اِقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ عوامی بیداری کی مہم میں کس حد تک حصہ لیا ہے؟ قوم کا شعور بیدار کرنے کی خاطر کیا قربانیاں دی ہیں؟ اِس ملک کو لوٹنے والوں کے خلاف کس حد تک جد و جہد کی ہے؟ پوری دنیا میں وطنِ عزیز کی جگ ہنسائی کرانے والے سیاست دانوں اور حکمرانوں کے خلاف عوام میں کس حد تک شعور بیدار کیا ہے؟ کہاں کہاں اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات کی خاطر قربان کیا ہے؟

    خدا کرے کہ مری اَرضِ پاک پر اُترے
    وہ فصلِ گل جسے اَندیشۂ زوال نہ ہو
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کی تمام باتیں دین اور قوم سے محبت کی دلیل تو بن سکتی ہیں مگر وطن سے نہیں
    یعنی اگر دین اور وطن میں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو ہمیں کس کو چنا چاہیے
    اور میں یہ ہی کہنا چاہ رہا ہوں
    رہی بات قوم سے محبت کی میں اس بات کا قائل ہوں قوم سے محبت جائز ہے
     
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جب ایک شخص جہاد کرتے ہوئے شہید ہوتا ہے تو اسے جنت نصیب ہوتی ہے جنت اسے اس لیے ملتی ہے کہ وہ جہاد کرتا ہے جہاد ظلم و ستم اور وطن کے لیے ہوتا ہے تو ہم وطن کی محبت کو کیسے دین سے الگ کر سکتے ہیں اگر وطن سے نکل جانے کے بعد کہیں بھی آباد ہونے سے فرق نہیں پڑتا تو پھر آقاﷺ نے مکہ معظمہ واپس کیوں تشریف لائے وہ بھی لشکر کے ساتھ؟ وطن سے محبت ایک فطری امر ہے ، بہت سی احادیث سے وطن کی محبت پر راہنمائی ملتی ہے ، ہجرت کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:مَا أَطْیَبَکِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّکِ إِلَیَّ، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِی أَخْرَجُوْنِی مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَیْرَکِ۔تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے ! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت کا ذکر فرمایا ہے ، اِسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: إِنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَنَظَرَ إِلٰی جُدُرَاتِ الْمَدِیْنَةِ، أَوْضَعَ رَاحِلَتَہِ، وَإِنْ کَانَ عَلٰی دَابَّةٍ، حَرَّکَہَا مِنْ حُبِّہَا۔ (بخاری) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اُسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے تھے ،اِس حدیث مبارک سے بھی وطن سے محبت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے ، حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے : وَفِی الْحَدِیثِ دَلَالَةٌ عَلٰی فَضْلِ الْمَدِینَةِ، وَعَلٰی مَشْرُوعِیَةِ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِیْنِ إِلَیْہِ۔(فتح الباری)

    آپ کی یہ بات تو بالکل درست ہے کہ وطن کو دین پر فوقیت نہیں دی جا سکتی بلکہ دین کی خاطر سب کچھ قربان کرنا ہی ایمان ہے
    لیکن وطن سے محبت کی یہ دلیل کیا کم ہے کہ اللَّهمَّ حبِّبْ إلينا المدينةَ كما حبَّبْتَ إلينا مكَّةَ وأشَد. اللَّهمَّ بارِكْ لنا في صاعِها ومُدِّها وانقُلْ وباءَها إلى مَهْيَعةَ. (وهي الجُحفةُ). (صحيح ابن حبان عن عائشة، الصفحة أو الرقم: 5600) ترجمہ: ہجرت کے بعد آپﷺ نے مدینہ منورہ کے لیے دعا فرمائی کہ اے اللہ! مدینہ کی محبت ہمارے دل میں مکہ کی محبت سے زیادہ فرمادے.

    محبت کے الفاظ ہی وطن سے محبت کی دلیل ہے لیکن دین اور وطن کی محبت کا ایک دوسرے سے موازنہ درست نہیں دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جبکہ محبتیں اس کے جزو ہیں دین پر اپنا سب کچھ قربان کرنا ہی ایمان ہے جس طرح والدین سے محبت فرض ہے مگر والدین کی محبت کو دین پر قربان کرنا ایمان ہے
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    جہاد ظلم و ستم { کے خلاف } اور وطن کے لیے ہوتا ہے
    غلط
    جہاد دین کی سربلندی اور اللہ کے لیے ہوتا ہے
    زمین کے لیے لڑائی کو جہاد نہیں فساد کہا جاسکتا ہے
    اور قرآن میں جن شہیدوں کو جنت کی بشارت دی ہے یا ہمیشہ زندہ رہنے والا کہا ہے ، وہ ہیں جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے
    زمین کے لیے لڑتے ہوئے مرنے والوں کو تو تقریبا ہر ملک کی حکومتیں شہید کا درجہ دیتی ہیں
    امریکن اپنے مرنے والے فوجیوں کو شہید کہتی ہے ، ہندوستان اپنے فوجیوں کو ، کشمیری حریت پسند اپنی تحریک میں جان قربان کرنے والوں کو شہید سمجھتی ہے
    پپلز پارٹی والے بھٹو کو شہید کہتے ہیں، سنی تحریک والے سلیم قادری کو
    مولانا لدھیانوی کو تبلیغی جماعت والے شہید سمجھتے ہیں
    مزے کی بات ہے ہم بھی اپنی تحریک میں مرنے والوں کو شہید کہتے ہیں اور ان کی مغفرت کی دعا بھی کرتے ہیں ، درجات کی بلندی کی دعا بھی کرتے ہیں ، یوم شہداء بھی مناتے ہیں
    ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ، شہیدوں کے لیے مغفرت کی دعا کیوں کرتے ہیں
    میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو جس مقصد کے لیے جان دیتا ہے تو وہ اس مقصد والوں کے لیے امر ہوجاتا ہے
    اور جب تک وہ مقصد قائم رہتا ہے تب تک وہ شہید کا نام باقی رہتا ہے
    جو اللہ کے لیے جان دیتا ہے اللہ اس کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھتا ہے اور انہیں کے لیے قرآن میں جنت کی بشارت ہے
    پھر آقا {ص} نے مکہ معظمہ واپس کیوں تشریف لائے وہ بھی لشکر کے ساتھ ؟
    یہ بات بھی غلط ہے
    نبی پاک {ص} فتح مکہ کے بعد مدینے واپس گئے ، وہیں ان کا انتقال ہوا اور ان کا روضہ بھی مدینے میں ہی ہے
    یہ بات میری تائید کرتی ہے کہ دین کے سامنے زمین کو فوقیت نہیں دی جاسکتی چاہے زمین کتنی ہی کیوں نا پیاری ہو
     
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جہاد کا حکم اللہ تعالیٰ نے صرف مسلمان کو دیا ہے جو اسلام کی سر بلندی کے لیے ہے
    یہودو نصاریٰ اور ہندوؤں کو شہادت کے درجے پر فائز نہیں کیا جا سکتا

    آپ نے فرمایا کہ "زمین کے لیے لڑائی کو جہاد نہیں فساد کہا جاسکتا ہے"
    تو بھائی ناحق کسی پر ظلم کر کے اور ان کو اپنے گھروں سے بے دخل کرنے کو فساد کہتے ہیں
    لیکن کسی کے ظلم کے خلاف لڑنے اور اپنے گھروں کی حفاظت کرنے کو جہاد کہتے ہیں


    جہاد کا حکم دو چیزوں پر دیا گیا :

    1. ظلم کے خلاف جہاد

    . أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا
    ’ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا

    2. زمین کے لیے جہاد جس سے ناحق نکالا گیا

    الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ
    (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے

    اَلْجِهَادُ فِي الإِْسْلَامِ هُوَ قِتَالُ مَنْ يَسْعَونَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا لِتَقْوِيْضِ دَعَائِمِ الأَمْنِ وَإِقْلَاقِ رَاحَةِ النَّاسِ وَهُمْ اٰمِنُونَ فِي دِيَارِهِمْ

    اِسلام میں جہاد کا مفہوم ان لوگوں کی سرکوبی کرنا ہے جو بناء اَمن کو تباہ و برباد کرنے، اِنسانوں کے آرام و سکون کو ختم کرنے اور اﷲ کی زمین میں فساد انگیزی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خصوصاً اُس وقت جب لوگ اپنے گھروں میں انتہائی پُرسکون زندگی بسر کر رہے ہوں

    أَوِ الَّذِيْنَ يُثِیرُوْنَ الْفِتَنَ مِنْ مَکَامِنِهَا إِمَّا بِإِِلْحَادٍ فِي الدِّيْنِ وَخُرُوْجٍ عَنِ الْجَمَاعَةِ وَشَقِّ عَصَا الطَّاعَةِ

    ان لوگوں کے خلاف جد و جہد کرنا جو پوشیدہ جگہوں اور خفیہ طریقوں سے (اَمنِ عالم کو تباہ کرنے کے لیے) فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتے ہیں، خواہ (یہ کاوش) کسی کو دین سے منحرف کرنے کی صورت میں ہو یا جماعت سے باغی کرنے اور اطاعت کی زندگی سے رُوگردانی کرنے کے لیے ہو

    أَوِ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ إِطْفَاءَ نُوْرِ اﷲِ وَيَنْاؤَوْنَ الْمُسْلِمِيْنَ الْعَدَاءَ وَيُخْرِجُوْنَهُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ ويَنْقُضُونَ الْعُهُوْدَ ويَخْفِرُوْنَ بِالذِّمَمِ

    ان لوگوں کے خلاف ہو جو اﷲ کے نور کو (ظلم و جبر سے) بجھانا چاہتے ہوں اور مسلمانوں کو جنہیں وہ اپنا دشمن قرار دیتے ہیں (اپنے وطن سے نکال کر) دور بھگانا چاہتے ہوں اور انہیں اپنے ہی گھروں سے بے گھر کرتے ہوں، عہد شکنی کرتے ہوں اور باہمی اَمن و سلامتی کے معاہدات کی پاس داری نہ کرتے ہوں

    شیخ علی احمد الجرجاوی اپنی کتاب ’حکمۃ التشریع وفلسفتہ (2 : 330) میں جو یہ اوپر تحریر شدہ تین باتیں کہیں ہیں یہ جہاد کے مفہوم اور مقصود کو واضح کرتی ہے

    اب میں آپ کے اس سوال کی طرف آتی ہوں آقاﷺ نے کفار ِ مکہ کے ظلم کے خلاف جہاد کیا اور اپنی زمین یعنی مکہ واپس لے کراسے امن کا گہوارہ بنایا تھا اور یہ حکم اللہ کاتھا.


    جہاد کا مقصد ملک و سلطنت کی توسیع نہیں ہے بلکہ اِسلامی ریاست قائم کرنا جو پُراَمن شہریوں کے جان، مال اور عزت و آبرو کی محافظ ہے۔ فتنہ و فساد، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خاتمہ، سرکشی و بغاوت کی سرکوبی، ظلم و بربریت، درندگی، ناانصافی، ناحق اِنسانی خونریزی، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے خلاف راست اقدام کرنا اِنسانی حقوق کے چارٹرکے مطابق نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ اﷲ کی زمین ہر قسم کے فتنہ و فساد سے پاک ہو، اَمن بحال ہو اور قیامِ عدل کے لیے راہ ہموار ہو جائے۔ معاشرے کو اَمن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے لیے جہاد یعنی قیامِ اَمن اور اقامتِ حق کے لیے جہدِ مسلسل اور عمل پیہم بجا لانا ہر مومن پر فرض ہے۔ جہاد محض جنگ یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں بلکہ اِسلام نے تصورِ جہاد کو بڑی وسعت اور جامعیت عطا کی ہے۔ اِنفرادی سطح سے لے کر اِجتماعی سطح تک اور قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اَمن و سلامتی، ترویج و اِقامتِ حق اور رضاء اِلٰہی کے حصول کے لیے مومن کا اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی و تخلیقی صلاحیتیں صرف کر دینا جہاد کہلاتا ہے۔
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    آپ نے جو نیلا رنگ سے مارکہ کیا ہے وہ سورۃ الحج کی آیات 39 اور 40 ہیں { حالانکہ 40 آیت نمبر کو آپ نے ادھورا کوڈ کیا ہے }
    اور سبر رنگ کے ساتھ شاید کسی مفتی صاحب کی جہاد پر تشریح ہے ( فی الحال میں اس کو چھوڑ رہا ہوں )
    سب سے پہلے میں آیت نمبر 40 کو مکمل کرتا ہوں
    جن سے کافر لڑتے ہیں انہیں بھی لڑنے کی اجازت دی گئی ہے اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیا ، اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ { 39 }
    وہ لوگ جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے صرف یہ کہنے پر کہ ہمارا رب اللہ ہے ، اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا تو تکیئے اور مدرسے اورعبادت خانے اور مسجدیں ڈھا دی جاتیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے ، اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا ، بے شک اللہ زبردست غالب ہے ۔ { 40 }

    پہلی آیت میں کہا گیا ہے چونکہ کافر پہلے لڑتے ہیں تو اس لیے انہیں بھی لڑنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ کافر پہل کرکے مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں
    جب کہ دوسری آیت میں لڑنے کا اس لئے حکم نہیں ملا کہ ان کو گھروں سے نکال دیا گیا بلکہ لڑو چونکہ وہ اللہ کے نام لیوا تھے اور عبادت گاہیں آباد رکھتے تھے
    یعنی صرف ان کی زمین کے لیے نہیں بلکہ دین کی سربلندی کے لیے لڑنا ہے
    نبی پاک {ص} کی مکہ سے محبت کے متعلق آپ پہلے بھی حدیث لکھ چکی ہیں
    مکہ کا فتح ہونا بھی ایک حقیقت ہے اور میں نے اس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا
    مگر میں آپ سے یہی تو کہہ رہا ہوں مکہ کو فتح کرنے کے بعد نبی پاک {ص} نے مکہ میں قیام کرنے کے بجائے مدینے میں رہنے کو ترجیح دی
    مکہ کو مشرکین سے پاک کرنا دین کی ضرورت تھی ، مکہ کی نہیں
    یعنی اصل چیز دین ہے ، دین کے سامنے زمین کی اہمیت نہیں
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    غالبا دو لڑیاں آپس میں الجھ رہی ہیں
    میں نے اپنی لڑی میں جو سوال اٹھایا تا وہ فقط یہ تھا
    " کیا مسلمان ہونے کے لیے پاکستان سے محبت لازم ہے ؟ "
     
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    یہ سورۃ الحج کی دو آیات ہیں 39-40

    أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ[39]
    [ترجمہ فتح محمد جالندھری]
    جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ اور خدا (ان کی مدد کرے گا وہ) یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے [39]۔

    تفسیر آیت/آیات، 39،

    حکم جہاد صادر ہوا ٭٭

    ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم مدینے سے بھی نکالے جانے لگے اور کفار مکے سے چڑھ دوڑے تب جہاد کی اجازت کی یہ آیت اتری۔ بہت سے سلف سے منقول ہے کہ جہاد کی یہ پہلی آیت ہے جو قرآن میں اتری۔ اسی سے بعض بزرگوں نے استدلال کیا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے۔

    جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے شریف سے ہجرت کی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زبان سے نکلا کہ ”افسوس ان کفار نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکالا یقیناً یہ تباہ ہوں گے۔‏‏‏‏“ پھر یہ آیت اتری تو صدیق رضی اللہ عنہ نے جان لیا کہ جنگ ہو کر رہے گی ۔
    [سنن ترمذي:3171،قال الشيخ الألباني:صحیح الاسناد] ‏‏‏‏

    اور آیت میں ہے «فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّـهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ» [47-محمد:4-6] ‏‏‏‏ ” اللہ اپنے مومن بندوں کی مدد پر قادر ہے۔ اگر چاہے تو بے لڑے بھڑے انہیں غالب کر دے لیکن وہ آزمانا چاہتا ہے اسی لیے حکم دیا کہ ان کفار کی گردنیں مارو “۔ الخ،

    اور آیت میں ہے فرمایا «قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّـهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ» [9-التوبہ:15،14] ‏‏‏‏ ” ان سے لڑو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سزا دے گا اور رسوا کرے اور ان پر تمہیں غالب کرے گا اور مومنوں کے حوصلے نکالنے کا موقع دے گا کہ ان کے کلیجے ٹھنڈے ہو جائیں ساتھ ہی جسے چاہے گا توفیق توبہ دے گا اللہ علم وحکمت والا ہے “۔

    اور آیت میں ہے «اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً وَاللّٰهُ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ» [9-التوبہ:16] ‏‏‏‏ یعنی ” کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ اب تک تو وہ کھل کر سامنے نہیں آئے جو مجاہد ہیں، اللہ، رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی سے دوستی اور یگانگت نہیں کرتے۔ سمجھ لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے “۔

    اور آیت میں ہے «حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّـهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ» [3-آل عمران:142] ‏‏‏‏ ” کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک مجاہدین اور صابرین دوسروں سے ممتاز نہیں ہوئے “۔

    اور آیت میں فرمایا ہے آیت «وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ» [47-محمد:31] ‏‏‏‏ ” ہم تمہیں یقیناً آزمائیں گے یہاں تک کہ تم میں سے غازی اور صبر کرنے والے ہمارے سامنے نمایاں ہو جائیں “۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔

    پھر فرمایا ” اللہ ان کی مدد پر قادر ہے “۔ اور یہی ہوا بھی کہ اللہ نے اپنے لشکر کو دنیا پر غالب کر دیا۔ جہاد کو شریعت نے جس وقت مشروع فرمایا وہ وقت بھی اس کے لیے بالکل مناسب اور نہایت ٹھیک تھا۔
    -----------------

    الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ[40]

    [ترجمہ فتح محمد جالندھری]

    یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے (انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار خدا ہے۔ اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں خدا کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں۔ اور جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے خدا اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بےشک خدا توانا اور غالب ہے [40]۔

    جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں رہے مسلمان بہت ہی کمزور تھے تعداد میں بھی دس کے مقابلے میں ایک بمشکل بیٹھتا۔

    چنانچہ جب لیلتہ العقبہ میں انصاریوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو انہوں نے کہا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اس وقت منیٰ میں جتنے مشرکین جمع ہیں ان پر شب خون ماریں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ابھی اس کا حکم نہیں دیا گیا ۔


    یہ یاد رہے کہ یہ بزرگ صرف اسی (‏‏‏‏٨٠)‏‏‏‏‏‏‏‏ سے کچھ اوپر تھے۔ جب مشرکوں کی بغاوت بڑھ گئی، جب وہ سرکشی میں حد سے گزر گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذائیں دیتے دیتے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کے درپے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلا وطن کرنے کے منصوبے گانٹھنے لگے۔

    اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیئے۔ بیک بینی و دوگوش وطن مال اسباب، اپنوں غیروں کو چھوڑ کر جہاں جس کا موقعہ بنا گھبرا کر چل دیا کچھ تو حبشہ پہنچے کچھ مدینے گئے۔ یہاں تک کہ خود آفتاب رسالت کا طلوع بھی مدینے شریف میں ہوا۔

    اہل مدینہ محمدی جھنڈے تلے جوش خروش سے جمع لشکری صورت مرتب ہو گئی۔ کچھ مسلمان ایک جھنڈے تلے دکھائی دینے لگے، قدم ٹکانے کی جگہ مل گئی۔ اب دشمنان دین سے جہاد کے احکام نازل ہوئے تو پس سب سے پہلے یہی آیت اتری۔

    اس میں بیان فرمایا گیا کہ ” یہ مسلمان مظلوم ہیں، ان کے گھربار ان سے چھین لیے گئے ہیں، بے وجہ گھر سے بے گھر کر دئیے گئے ہیں، مکے سے نکال دئیے گئے، مدینے میں بے سرو سامانی میں پہنچے۔ ان کا جرم بجز اس کے سوا نہ تھا کہ صرف اللہ کے پرستار تھے رب کو ایک مانتے تھے اپنے پروردگار صرف اللہ کو جانتے تھے۔ یہ استثنا منقطع ہے گو مشرکین کے نزدیک تو یہ امر اتنا بڑا جرم ہے جو ہرگز کسی صورت سے معافی کے قابل نہیں “۔

    فرمان ہے آیت «يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰهِ رَبِّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِيْ» [60-الممتحنة:1] ‏‏‏‏ ” تمہیں اور ہمارے رسول کو صرف اس بنا پر نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو جو تمہارا حقیقی پروردگار ہے “۔

    خندقوں والوں کے قصے میں فرمایا آیت «مَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ» [85-البروج:8] ‏‏‏‏ یعنی ” دراصل ان کا کوئی قصور نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ غالب، مہربان، ذی احسان پر ایمان لائے تھے “۔

    مسلمان صحابہ رضی اللہ عنہم خندق کھودتے ہوئے اپنے رجز میں کہہ رہے تھے، شعر «لَا هُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اِهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا» «فَأَنْزِلَن سَكِينَة عَلَيْنَا وَثَبِّتْ الْأَقْدَام إِنْ لَاقَيْنَا» «إِنَّ الْأُلَى قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَة أَبَيْنَا» خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی موافقت میں تھے اور قافیہ کا آخری حرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ ادا کرتے اور «‏‏‏‏أَبَيْنَا» ‏‏کہتے ہوئے خوب بلند آواز کرتے ۔ [صحیح بخاری:4106] ‏‏‏‏

    پھر فرماتا ہے ” اگر اللہ تعالیٰ ایک کا علاج دوسرے سے نہ کرتا اگر ہر سیر پر سوا سیر نہ ہوتا تو زمین میں شر فساد مچ جاتا، ہر قوی ہر کمزور کو نگل جاتا “۔

    اسلام پیار محبت سے پھیلا ہے
    نفاذ شریعت کے لیے زبردستی کا حکم نہیں ہوا
    اسلام کو زبردستی لاگو کرنے کا حکم نہیں ہوا

    جہاد کا حکم دین کی سربلندی کے لیے ہی ہوا ہے
    لیکن درج ذیل دو باتیں ہی جواز بنی

    1-ظلم کے خلاف جہاد کا حکم ہوا
    2-زمین واپس اپنے قبضے میں لینے کے لیے جہاد کا حکم ہوا
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کا سوال ہے " کیا مسلمان ہونے کے لیے پاکستان سے محبت لازم ہے ؟ "

    ایک پاکستانی کے لیے پاکستان سے محبت لازم ہے
    اگر وطن سے محبت کی وجہ اللہ کے دین کی سربلندی ہے جو آگے چل کر اللہ کی رضا ہی بنتی ہے تو پھر یہ محبت ہماری ایمانی محبت ہو گی
    اگر مسلمان کے لیے وطن سے محبت کی کوئی حیثیت نہ ہوتی تو اتنا بڑا اجر وطن قربان کرنے پر نہ ملتا
    مسلمان کے لیے وطن سے محبت ضروری ہے کیو نکہ وہ آزادی سے اپنےوطن میں اللہ کے احکامات پر عمل کر سکتا ہے اور دین اسلام کی خدمت کر سکتا ہے

    وطن سے فطرتاً ہر شخص کو محبت ہوتی ہے
    انسان تو کیا چرند پرند اور جانور بھی اپنی رہائش گاہوں سے محبت کرتے ہیں

    محض وطن کے لئے لڑنا واقعی عصبیت ہی ہے اور اس میں تو کافر اور مسلمان برابر ہی ہیں مگر جب وطن کے لئے لڑنا اس لئے ہو کہ اس وطن میں اسلام ہے یا اسلام کی حالت بہتر ہے جیسا کہ حبشہ میں مسلمانوں کی حالت بہتر تھی اگرچہ شریعت کا نظام غالب نہیں تھا تو وہ لڑائی بھی جہاد فی سبیل اللہ ہی ہو گی کیونکہ اللہ کے نبی ﷺ نے تو کافروں سے معاہدے کیے ہوئے تھے اور انکی وجہ سے لڑائیاں بھی کی جیسا کہ فتح مکہ اپنے حلیف قبیلہ کی حمایت میں ہی لڑائی ہوئی تھی تو اس میں مرنے والے شہید ہی تھے
    پس پاکستان ہم سب نے بہت قربانیوں سے حاصل کیا ہے اور وہ ساری قربانیاں اللہ کے راستے میں ہی تھیں اور آج بھی پاکستان کی بقا کا سوچنا اور اسکے لئے کوشش کرنا درست ہو گا کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اگرچہ یہاں نظام تو شریعت سے متصادم ہے اور کھلے عام شرک کی سرپرستی کرنے والا اور اللہ سے جنگ کرنے والا ہے مگر یہ نظام امریکہ اور انڈیا کی غلامی سے کہیں بہتر ہے آپ کشمیر میں مسلمانوں کی حالت انڈیا میں اور افغانستان میں مسلمانوں کی حالت یا عراق میں مسلمانوں کی حالت دیکھ سکتے ہیں پس پاکستان میں شرعی نظام نہ ہونے کے باوجود اسکے بچاو کے لئے کوشش کرنا شریعت کے تحت ہی ہو گا اور قتال فی سبیل اللہ ہو سکتا ہے جب کہ شریعت کے حکم کے خلاف والی کوئی بات اس میں نہ پائی جائے


    وطن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ اپنے دین کی خاطر وطن چھوڑنے پر اللہ قرآن میں کیا فرماتا ہے


    سورۃ النحل
    ترجمہ: اور جن لوگوں نے اللہ کی خاطر وطن چھوڑا، اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا، بلاشبہ ہم انھیں دنیا میں ضرور اچھا ٹھکانا دیں گے اور یقینا آخرت کا اجر سب سے بڑا ہے۔ کاش! وہ جانتے ہوتے۔ [41]
    وہ لوگ جنھوں نے صبر کیا اور اپنے رب ہی پر بھروسا کرتے ہیں۔ [42]

    جو لوگ اللہ کی راہ میں ترک وطن کرکے، دوست، احباب، رشتے دار، کنبے تجارت کو اللہ کے نام پر ترک کر کے دین ربانی کی پاسبانی میں ہجرت کر جاتے ہیں ان کے اجر بیان ہو رہے ہیں کہ ” دونوں جہان میں یہ اللہ کے ہاں معزز و محترم ہیں “۔

    اور وطن کی اہمیت یہ ہے کہ سورۃ آل عمران میں اللہ فرماتا ہے

    تو ان کے پرردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا تم ایک دوسرے کی جنس ہو تو جو لوگ میرے لیے وطن چھوڑ گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور لڑے اور قتل کیے گئے میں ان کے گناہ دور کردوں گا اور ان کو بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں (یہ) خدا کے ہاں سے بدلہ ہے اور خدا کے ہاں اچھا بدلہ ہے
    [آیت نمبر 195]۔

    قرآن میں ایک اور جگہ بھی راہ خدا میں وطن سے خارج ہونے پر جہاد کا حکم ملا تھا

    بھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا جس نے موسیٰ کے بعد اپنے پیغمبر سے کہا کہ آپ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردیں تاکہ ہم خدا کی راہ میں جہاد کریں۔ پیغمبر نے کہا کہ اگر تم کو جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں کہ لڑنے سے پہلو تہی کرو۔ وہ کہنے لگے ک
    ہ ہم راہ خدا میں کیوں نہ لڑیں گے جب کہ ہم وطن سے (خارج) اور بال بچوں سے جدا کردیئے گئے۔ لیکن جب ان کو جہاد کا حکم دیا گیا تو چند اشخاص کے سوا سب پھر گئے۔ اور خدا ظالموں سے خوب واقف ہے [ سورۃ البقرة 246]۔

    فقال له ورقة: هذا الناموس الذي نزله الله به على موسى، يا ليتني فيها جذع! ليتني أكون حياً إذ يخرجك قومك! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أو مخرجي هم؟ قال: نعم، لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك أنصرك نصراً مؤزراً. (صحيح البخاري، جزء: 1 صفحة: 4) قال السهيلي: يؤخذ منه شدة مفارقة الوطن على النفس؛ فإنه صلى الله عليه وسلم سمع قول ورقة: إنهم يؤذونه ويكذبونه، فلم يظهر منه انزعاج لذلك، فلما ذكر له الإخراج؛ تحركت نفسه لذلك؛ لحب الوطن والفته، فقال: "أو مخرجي هم؟" (فتح الباري لابن حجر، جزء 12، صفحة: 359)

    ترجمہ: جب آپ علیہ السلام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ علیہ السلام کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کو جھٹلائےگی اور آپ کو اذیت دےگی اور آپ علیہ السلام کو اس شہر سے نکالےگی، تو آپ علیہ السلام نے ان تمام باتوں میں سے قوم کی جانب سے جلاوطنی پر تعجب ودکھ کا اظہار فرمایا کہ باقی تکالیف سہہ لی جاتی ہیں، لیکن وطن کی جدائی سہنا مشکل ہے۔ فقط واللہ اعلم





     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ؛

    لو لا حب الوطن لخرب بلد السوء فبحب الاوطان عمرت البلدان۔
    اگر وطن کی محبت نہ ہوتی تو پسماندہ ممالک ختم ہو جاتے (کہ ان ممالک کے لوگ ترقی یافتہ ممالک کی طرف چلے جاتے) پس وطن کی محبت ہی وطنوں کو ترقی دیتی ہے۔

    (تفسیر حقی، روح البیان، سورۃ القصص، آیت نمبر: 85)
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحیح بخاری شریف کا مضمون ہے کہ؛
    ”ان النبی ﷺ کان اذا قدم من سفر، فنظر الی جدرات المدینۃ، اوضع راحلتہ، و ان کان علی دابۃ، حرکھا من حبھا“۔

    پیارے آقا کریم ﷺ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھ کر اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے اور اگر کسی اور جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ کی محبت میں اسے ایڑ مار کر تیز بھگاتے۔

    امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں لکھا ہے کہ ”و فی الحدیث دلالۃ علی فضل المدینۃ، و علی مشروعیۃ حب الوطن و الحنین الیہ“۔ یہ حدیث مبارکہ مدینہ منورہ کی فضیلت اور وطن سے محبت پر مشروع اور جائز ہونے پر اور اس کی طرف لگاؤ رکھنے پر دلالت کرتی ہے۔
    (فتح الباری شرح صحیح البخاری، باب من اسرع ناقتہ اذا بلغ المدینۃ، حدیث نمبر: 1802)
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ؛

    حب الوطن من طیب المولد۔

    وطن سے محبت رکھنا اچھی فطرت کی نشانی ہے۔

    ایک روایت جسے حدیث کہہ کر بیان کیا جاتا ہے کہ حب الوطن من الایمان۔ وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اس روایت کو آئمہ حدیث نے موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا ہے۔ یعنی اس روایت کے الفاظ کسی سند کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے مروی نہیں ہیں لیکن جہاں آئمہ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا، وہیں آئمہ نے اس روایت کے مفہوم کو صحیح کہا اور واضح کہا کہ یہ اسلاف ِ امت میں سے بعض کا قول ہے۔ آئمہ لکھتے ہیں کہ؛ حب الوطن من الایمان موضوع لکنہ مشروع۔یعنی وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے (روایت کے یہ الفاظ سند کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے تو مروی نہیں ہیں) لیکن یہ مشروع (یعنی شریعت کی روشنی میں جائز) ہے۔
     
  16. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    علماء نے محبت ِوطن کی چند صورتیں بیان کی ہیں، جن میں سے یہ اہم ہیں و ان قصد بہ العمل علی تحریرہ من ایدی معتصبیہ ان کا ن محتلا من الکفار فھو واجب اگر (وطن کی محبت کا) مقصد یہ ہو کہ کفار اور دشمنوں کے ہاتھ سے آزادی حاصل کرے جہاں انہوں نے قبضہ کر رکھا ہو تو یہ واجب ہے۔ یعنی وطن سے محبت اس مقصد سے کرنا کہ اسے کفار سے آزاد کروایا جا سکے یا آزاد وطن کی حفاظت اس مقصد سے کرنا کہ وہاں مسلمان آزاد رہیں، یہ محبت رکھنا واجب ہے۔
    و ان قصد بہ بر ابناء وطنہ باعتبارھم جیرانہ واقاربہ فھو مشروع اور اگر وہ وطن سے محبت اس لیے ہے کہ اس میں اس کے عزیز و اقارب، ہمسائے رہتے ہیں تو یہ محبت جائز ہے۔ اور تیسری اہم صورت یہ بیان کی کہ اگر کوئی شخص وطن سے اس لیے محبت کرتا ہے کہ وہ وہاں اپنی مرضی سے کوئی گناہ کر سکے، وہاں کے لوگوں پر اپنا تسلط قائم کر سکے، تو ایسی محبت گناہ ہے اور شریعت میں حرام ہے۔
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    یہ تو ثابت ہوا کہ اسلام میں اپنے وطن سے محبت رکھنا جائز ہے اور یہ محبت فطری ہوتی ہے۔ اور اگر وطن یا کوئی بھی اسلامی سلطنت ان حالات میں ہو کہ وہاں دشمن کا قبضہ ہو، وہاں مسلمانوں پر ظلم ہو، وہاں دشمن قدم جما رہا ہو، دشمن کی سازشیں ہوں تو ان حالات میں وطن سے محبت رکھنا واجب ہے اور نہ رکھنے والا گناہ گار ہے۔ آج کل عالم ِ اسلام کے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں، فلسطین، کشمیر، برما، شام، یمن، افغانستان کا رونا کیا روئیں، وطن ِ عزیز پاکستان ایٹمی طاقت ہو کر بھی پچھلے دو عشروں سے دہشت گردی کی پراکسی وار لڑ رہا ہے۔ دشمن کسی صورت ہمیں سکون سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ پاکستان کے خلاف سازشوں کا ایک لامحدود سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات میں اپنے وطن سے محبت رکھنا اور مسلمان ممالک سے محبت رکھنا کہ انہیں دشمن سے آزاد کروا کر ریاست مدینہ قائم کی جائے، یہ واجب ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم پہلے پاکستان کو دشمن کے چنگل اور سازشوں سے پاک کریں اور اپنے وطن کی محبت میں اس کو امن کا گہوارہ بنانے میں جان کی بازی لگا دیں۔ یہاں ضمناً یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ووٹ کاسٹ کر کے کسی کے حوالے اپنا ملک کرنا بھی ایک اہم ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھائیں۔ آج وطن عزیز کے ساتھ یہ عہد کریں کہ آئندہ کسی کو صرف علاقہ، زبان، برادری دیکھ کر ملک کی بھاگ دوڑ نہیں دیں گے۔ آپ تنہائی میں بیٹھ کر سامنے قرآن کریم رکھ کر اپنے ضمیر سے سوال کر لیں کہ آپ کے اہم ترین ووٹ کا حقدار کون ہے؟ پھر آپ کا ضمیر جو فیصلہ کرے اسے ووٹ دیں۔ اپنے وطن کی محبت کو کسی خاص مذہبی، سیاسی، سماجی پارٹی کے ساتھ مت جوڑیں۔ ہم سب سے پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں باقی مذہبی و سیاسی پارٹیاں بعد کی بات ہیں۔ آج تجدید ِ عہد کریں کہ آئندہ قدم اٹھاتے وقت سب سے پہلے پاکستان کو مدِنظر رکھیں گے۔ جس دن ہم قوم بن کر پارٹیوں، برادریوں، اپنے فائدوں سے آزاد ہو کر پاکستانی بن گئے اور پاکستان کا فائدہ سامنے رکھ لیا، یقین کریں ہم دنیا کی بہترین قوم بن جائیں گے اور پاکستان کو بہترین ملک بنا دیں گے۔ آئیں مل کر عہد کریں کہ آج سے ہر سیاسی و مذہبی پارٹی کی حمایت بعد میں پہلے پاکستان کی حمایت کریں گے۔

    اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ کریم عالم اسلام کی، مسلمانوں کی، وطن عزیز پاکستان کی حفاظت فرمائے، پاکستان کی افواج کی حفاظت فرمائے، پاکستان کے عشق میں سرشار گمنام سپاہیوں کی حفاظت فرمائے، پاکستان کی حفاظت پر معمور تمام اداروں کی حفاظت فرمائے، اللہ کریم ہم سب کو سب سے پہلے پاکستانی بن کر ایک قوم بنائے اور پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائے، پاکستان کو ترقی، خوشحالی عطا فرمائے۔ آمین!
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    میرا سوال ہے " کیا مسلمان ہونے کے لیے پاکستان سے محبت لازم ہے ؟ "
    اور آپ کا جواب
    ایک پاکستانی کے لیے پاکستان سے محبت لازم ہے
    یعنی میں سمجھوں آپ کہنا چاہتی ہیں ایک پاکستانی کے لیے تو لازم ہے مگر مسلمان کے لیے نہیں
    آپ نے جواب میں کئی بار لکھا وطن سے محبت فطری عمل ہے
    تو جناب یہ فطرت تو ہر انسان میں ہوتی ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اس کے لیے خالی مسلمان ہونا لازم نہیں
    اگر کوئی عیسائی ہو یہودی ہو یا مشرکین سے تعلق ہو اپنی زمین سے محبت تو رکھتا ہی ہے
    آپ نے اتنی ساری احادیث اور قرآنی آیات کا حوالہ لکھا ہے جو تمام کی تمام وطن سے محبت کو جائز تو کرتی ہیں مگر لازم نہیں کرتیں
    ہجرت کو ترجیح دی گئی ہے اور اس کا ثواب بھی بیان کیا گیا ہے ، پسند بھی کیا گیا ہے
    پہلے میں سمجھتا تھا آپ جواب اپنی سوچ اور اپنے مطالعے کی بنیاد پر لکھتی ہیں مگر آپ زیادہ تر کاپی پیسٹ سے کام لیتی ہیں اور میرے خیال سے دوبارہ اتارنے سے قبل پورا پڑھتی بھی نہیں
    آپ کے لکھے جوابات میں سے ایک پیراگراف کوڈ کرہا ہوں
    حب الوطن من طیب المولد۔
    وطن سے محبت رکھنا اچھی فطرت کی نشانی ہے۔
    ایک روایت جسے حدیث کہہ کر بیان کیا جاتا ہے کہ حب الوطن من الایمان ۔ وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اس روایت کو آئمہ حدیث نے موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا ہے ۔ یعنی اس روایت کے الفاظ کسی سند کے ساتھ رسول اللہ {ص} سے مروی نہیں ہیں لیکن جہاں آئمہ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ، وہیں آئمہ نے اس روایت کے مفہوم کو صحیح کہا اور واضح کہا کہ یہ اسلاف امت میں سے بعض کا قول ہے ۔ آئمہ لکھتے ہیں کہ حب الوطن من الایمان موضوع لکنہ مشروع ۔ یعنی وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ( روایت کے یہ الفاظ سند کے ساتھ رسول اللہ {ص} سے تو مروی نہیں ہیں ) لیکن یہ مشروع ( یعنی شریعت کی روشنی میں جائز ) ہے ۔

    اس پیراگراف کو غور سے پڑھیں اور سمجھیں
    پہلے حصے میں موصوف لکھتے ہیں " وطن سے محبت ایمان کا حصہ " یہ حدیث من گھڑت ہے ، پھر لکھتے ہیں سند کے ساتھ نبی پاک سے مروی نہیں ہیں مگر شریعت کی روشنی میں جائز ہے { مگر کیوں یہ نہیں پتا }
    حدیث میں آتا ہے
    " دین میں ہر نيا ايجاد کردہ کام بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے ، اور ہر گمراہی آگ ميں ہے "
    ایک اور حدیث ہے
    " دین میں نئے نئے امور ایجاد کرنے سے بچو کیونکہ دین میں ہر نیا کام جاری کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے "
    قرآن میں ہے
    " کیا ان کے اور شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ نکالا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ، اور اگر فیصلہ کا وعدہ نہ ہوا ہوتا تو ان کا دنیا ہی میں فیصلہ ہوگیا ہوتا ، اور بے شک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    میں اس نتیجے میں پہونچا ہوں زمین یا وطن یا قوم سے محبت ایک اچھی چیز ہے ، اسلام میں اس کی کوئی ممانعت نہیں
    مگر اسے اسلام کا حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی یہ مسلمان ہونے کے لیے لازم ہے
    اور اگر ہماری محبت ہمارے اور ہمارے دین کے درمیان حائل ہو تو اسے چھوڑ دینا ہی بہتر ہے
     
  19. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    میرے محترم بھائی
    سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جب انسان اپنے خیالات کااظہار کرتا ہے تو اسے درست ثابت کرنےکے لیے اور دوسرے کو مطمئن کرنے کے لیے حوالہ ضرور دیتا ہے
    تو ان حوالوں کو کاپی پیسٹ کرنے پر آپ کو اعتراض ہے ایک طرف آپ سوال اسلام اور پاکستان پر کرتے ہو تو قرآن اور حدیث کے حوالاجات تو دینے ہونگے نا؟

    دوسری بات آپ کا سوال کہ" کیا مسلمان ہونے کے لیے پاکستان سے محبت لازم ہے ؟ " کا جواب اگر میں دونگی تو مسلمان کے حوالے سے دونگی
    آپ سوال ہی غلط کر رہے ہیں آپ کا سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ کیا ایک پاکستانی کے لیے پاکستان سے محبت لازم ہے تو پھر میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کی بات کرتی لیکن آپ نے سوال صرف مسلمان کے حوالے سے پوچھا ہے یا آپ کا سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ کیا مسلمان کے لیے اپنے وطن سے محبت لازم ہے ؟

    آپ یہاں غیر مسلموں کی محبت کو فطری کہہ رہے ہیں درست ہے
    لیکن پاکستان کے لیے مسلمان کی محبت نا صرف فطری بلکہ ایمانی ہے اور اس حوالے سے اوپر والی پوسٹ پوری پڑھ لیجیے علماء کرام نے تو بعض حالات میں وطن کی محبت کو جائز بھی قرار دیا ہے اور واجب بھی قرار دیا ہے



    ---------------------------------------
    آپ نے اوپر جسے کوٹ کر کے اعترض کیا ہے اس کی تفصیل یہ ہے

    فتوی نمبر : 144004200499
    دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن


    سوال
    کیا اسلام نے وطن سے محبت کو ایمان کا جزو قرار دیا ہے؟ جواب صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیں۔

    جواب

    "حب الوطن من الإیمان" یعنی وطن سے محبت ایمان کا جز ہے، اس قسم کی بات عوام الناس میں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر مشہور ہے، جب کہ مذکورہ الفاظ کی نسبت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں، اس لیے کہ محدثین نے اس روایت کو موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا ہے،جیساکہ "موضوعات الصغاني" میں ہے:

    ١- حبُّ الوطنِ منَ الإيمانِ. (موضوعات الصغاني.الصفحة أو الرقم: 53)

    موضوع المقاصد الحسنةمیں ہے:

    ٢- حبِّ الوطنِ منَ الإيمانِ. ( المقاصد الحسنة للسخاوي، الصفحة أو الرقم: 218) قال السخاوي : لم أقف عليه.

    الدرر المنتثرةمیں ہے:

    ٣- حبُّ الوطنِ من الإيمانِ. ( الدرر المنتثرة للسيوطي، الصفحة أو الرقم: 65) قال السيوطي : لم أقف عليه.

    الأسرار المعروفةمیں ہے:

    ٤- حبُّ الوطنِ مِنَ الإيمانِ. ( الأسرار المرفوعة لملا علي القاري، الصفحة أو الرقم: 189) قال علي القاري: قيل: لا أصل له أو بأصله موضوع.

    البتہ محدثین میں سے علامہ سخاوی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کے معنی کو صحیح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ روایت اگرچہ صحیح نہیں، لیکن اس کا معنی درست ہے.

    وقال في المقاصد: لم أقف عليه، ومعناه صحيح.

    جب کہ دیگر محدثین نے علامہ سخاوی رحمہ اللہ کے اس قول کو قبول نہیں کیا اور ایمان اور وطن کی محبت کے تلازم کا انکار کیا ہے، اور ایمان کے جز ہونے کا انکار کیا ہے۔

    ورد القاري قوله: (ومعناه صحيح) بأنه عجيب، قال: إذ لا تلازم بين حب الوطن وبين الإيمان.

    پس مذکورہ بالا تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ وطن کی محبت کو ایمان کا جز قرار دینا اور اس کی نسبت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا صحیح نہیں، البتہ بعض دیگر کچھ روایات سے وطن کی محبت کا ممدوح ہونا معلوم ہوتا ہے، تاہم ان روایات میں سے کسی سے بھی محبتِ وطن کا ایمان کا جز ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

    ١۔ ما أطيبَكِ مِن بلدةٍ وأحَبَّك إليَّ، ولولا أنَّ قومي أخرَجوني منكِ ما سكَنْتُ غيرَكِ. (صحيح ابن حبان عن عبد الله بن عباس، الصفحة أو الرقم: 3709)

    ترجمہ: ہجرت کے موقعے پر مکہ کو مخاطب کرکے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے مکہ! تو کتنا پاکیزہ اور میرا محبوب شہر ہے، اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی میں کہیں اور نہ رہتا.

    ٢۔ اللَّهمَّ حبِّبْ إلينا المدينةَ كما حبَّبْتَ إلينا مكَّةَ وأشَد. اللَّهمَّ بارِكْ لنا في صاعِها ومُدِّها وانقُلْ وباءَها إلى مَهْيَعةَ. (وهي الجُحفةُ). (صحيح ابن حبان عن عائشة، الصفحة أو الرقم: 5600)

    ترجمہ: ہجرت کے بعد آپ علیہ السلام نے مدینہ منورہ کے لیے دعا فرمائی کہ اے اللہ! مدینہ کی محبت ہمارے دل میں مکہ کی محبت سے زیادہ فرمادے.

    ٣۔ قال الإمام البخاري رحمه الله تعالي في صحيحه: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَأَبْصَرَ دَرَجَاتِ المَدِينَةِ، أَوْضَعَ نَاقَتَهُ، وَإِنْ كَانَتْ دَابَّةً حَرَّكَهَا». قَالَ أَبُوعَبْدِاللَّهِ: زَادَ الحَارِثُ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ: حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا.

    ترجمہ: امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت نقل کی ہے کہ آپ علیہ السلام جب سفر سے واپسی پر مدینہ تشریف لاتے تو مدینہ کے راستے یا مکانات نظر آتے ہی آپ علیہ السلام اپنی سواری کو مدینہ کی محبت میں تیز کردیتے.

    وقال الحافظ ابن حجر رحمه الله تعالي في الفتح: فيه دلالة على فضل المدينة، وعلى مشروعية حب الوطن، والحنين إليه.

    ترجمہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مدینہ کی فضیلت کے ساتھ ساتھ وطن کی محبت کے جواز اور اس کی طرف شوق کا بھی پتا چلتا ہے.

    وقال الإمام ابن بطال المالكي رحمه الله تعالى في شرحه على صحيح البخاري: قوله: (من حبها) يعني؛ لأنها وطنه، وفيها أهله وولده الذين هم أحب الناس إليه، وقد جبل الله النفوس على حب الأوطان والحنين إليها، وفعل ذلك عليه السلام، وفيه أكرم الأسوة، وأمر أمته سرعة الرجوع إلى أهلهم عند انقضاء أسفاره.

    ترجمہ: ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مدینہ کی محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواری تیز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کا وطن ہے، اور اس میں آپ ﷺ کے اہل وعیال تھے جو آپ ﷺ کو لوگوں میں سب سے محبوب تھے، اور جہاں انسان کے گھر والے ہوتے ہیں اس وطن سے قدرتی طور پر محبت کا ہونا اور وہاں لوٹ کر آنے پر خوش ہونا فطری عمل ہے، اور آپ علیہ السلام کے اس عمل میں بہترین نمونہ ہے، اور آپ ﷺ نے امت کو سفر ختم ہونے کے بعد جلدی اپنے گھروالوں کی طرف لوٹنے کی تعلیم دی ہے.

    ٤۔ فقال له ورقة: هذا الناموس الذي نزله الله به على موسى، يا ليتني فيها جذع! ليتني أكون حياً إذ يخرجك قومك! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أو مخرجي هم؟ قال: نعم، لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك أنصرك نصراً مؤزراً. (صحيح البخاري، جزء: 1 صفحة: 4) قال السهيلي: يؤخذ منه شدة مفارقة الوطن على النفس؛ فإنه صلى الله عليه وسلم سمع قول ورقة: إنهم يؤذونه ويكذبونه، فلم يظهر منه انزعاج لذلك، فلما ذكر له الإخراج؛ تحركت نفسه لذلك؛ لحب الوطن والفته، فقال: "أو مخرجي هم؟" (فتح الباري لابن حجر، جزء 12، صفحة: 359)

    ترجمہ: جب آپ علیہ السلام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس تشریف لے گئے تو انہوںنے آپ علیہ السلام کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کو جھٹلائےگی اور آپ کو اذیت دےگی اور آپ علیہ السلام کو اس شہر سے نکالےگی، تو آپ علیہ السلام نے ان تمام باتوں میں سے قوم کی جانب سے جلاوطنی پر تعجب ودکھ کا اظہار فرمایا کہ باقی تکالیف سہہ لی جاتی ہیں، لیکن وطن کی جدائی سہنا مشکل ہے۔ فقط واللہ اعلم

    فتوی نمبر : 144004200499

    دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسیر ابن کثیر کا مطالعہ کر رہی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ ایک ایک آیت کی تفسیر کے دوران بہت سارے قرآنی آیات ، احادیث اور واقعات کے حوالے دیے جاتے ہیں تو کیا آپ اعتراض اٹھائیں گے کہ بس قرآ ن کا ترجمہ کر دیا پھر اتنے سارے واقعات کو کیوں کوٹ کیا جا رہا ہے اتنے حوالے کیوں دیے جا رہے ہیں؟

    آپ نے جو لڑی بنائی اس سے یہ انتشار پھیلنے کا خطرہ ہے کہ کچھ نادان اسے پڑھ کر یہ سمجھنے لگیں کہ وطن سے محبت مسلمان کے لیے لازمی نہیں ہے تو اپنے وطن سے محبت چھوڑ دی جائے اسی وجہ سے میں نے یہ لڑی بنائی کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ نہیں ہے مگر جائز ضرور ہے اور بعض اوقات میں واجب بھی ہے.

    اسلام میں اپنے وطن سے محبت رکھنا جائز ہے اور یہ محبت فطری ہوتی ہے لیکن ایک پاکستانی کے لیے یہ ایمانی بھی ہے۔ اور اگر وطن یا کوئی بھی اسلامی سلطنت ان حالات میں ہو کہ وہاں دشمن کا قبضہ ہو، وہاں مسلمانوں پر ظلم ہو، وہاں دشمن قدم جما رہا ہو، دشمن کی سازشیں ہوں تو ان حالات میں وطن سے محبت رکھنا واجب ہے اور نہ رکھنے والا گناہ گار ہے.

    آپ کا ایک سوال { مگر کیوں یہ نہیں پتا } کا جواب یہ ہے کہ
    آپ کے پڑوس میں ایک بچہ ہے جو روز آپ کو سلام کرتا ہے اور آپ اسے ٹافی کھلاتے ہیں
    اب آپ یہ سوال اٹھاتے ہو کہ کیا مسلمان کا اپنے پڑوسی کے بچے کو ٹافی کھلانا ضروری ہے ؟
    جواب خود سمجھ جائیے اگر میں قرآن اور حدیث سے حوالے کوٹ کرونگی بچوں سے شفقت کے بارے میں تو آپ کو پھر سے اعتراض ہوگا اسی لیے میرے اوپر والے جواب کو تشبیہ سے سمجھ جائیے

    وطن سے محبت ایک انسان کی فطرت میں داخل ہے اِسی لیے جو لوگ ملک سے غداری کرتے ہیں انہیں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیاجاتا، اِس کے برعکس جو لوگ ملک کے لئے قربانی دیتے ہیں ان کے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں وہ زندہ ہوتے ہیں ۔

    وطن سے محبت کے اس فطری جذبہ کا اسلام نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ ایسا پرامن ماحول فراہم کرتا ہے جس میں رہ کر انسان اپنے وطن کی اچھی خدمت کر سکے۔

    اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھئے جنہوں نے زندگی کے ہر مرحلے میں ہماری رہنمائی فرمادی، یہاں تک کہ وطن سے محبت کرکے بھی یہ پیغام دیا کہ مسلمان سب سے پہلے اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہوتا ہے ۔ سنئیے یہ الفاظ
    ”اے مکہ تو کتنی مقدس سرزمین ہے … کتنی پیاری دھرتی ہے میری نظر میں …. اگر میری قوم نے مجھے یہاں سے نہ نکالا ہوتا تو میں یہاں سے نہ نکلتا. “ ترمذی


    آپ کے سوال کا لب لباب یہ ہے کہ آپ وطن سے محبت یعنی حب الوطنی اور وطن پرستی کو ایک ہی ترازو میں تول رہے ہیں جو غلط ہے
    چوں کہ آپ کے سوالات حب الوطنی کے بارے میں تھے تو میں نے قرآن و حدیث کے حوالے اور علماء کی رائے پیش کی .
    اگر آپ وطن پرستی کے بارے میں سوال کرتے تو شاید آپ کو جواب مختلف ملتا.

    ایک مسلمان کی محبت سب سے زیادہ اپنے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ہوتی ہے جیسا کہ محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے تب تک کوئی مومن نہیں ہووسکتا جب تک میں اسے اس کے گھر والوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاوں۔
    پھر جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ سامنے آجائے تو تمام محبتیں اس کے سامنے چھوٹی پڑ جاتی ہیں۔
    بس یہی حب الوطنی اور وطن پرستی میں فرق ہے جسے اکثر لوگ کنفیوز کرتے ہیں یا جان بوجھ کر کر جاتے ہیں۔
    میں وطن پرست نہیں محب وطن ہوں
    اے اللہ پاکستان کو محبت امن اور اسلام کا گہوارا بنا دے اور اسلام کا قلعہ بنا دے اور امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بنا دے
     
    Last edited: ‏4 جنوری 2020
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    میں نے جس پیراگراف کو آپ سے غور سے پڑھنے کا کہا تھا ، شاید آپ نے پڑھا نہیں چلیں مل کر پڑھتے ہیں
    سب سے پہلے بنوری ٹاؤن والوں سے سوال کیا گیا
    "کیا اسلام نے وطن سے محبت کو ایمان کا جزو قرار دیا ہے ؟ جواب صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیں ۔ "
    پھر جواب دیا جارہا ہے
    " حب الوطن من الإیمان " مذکورہ الفاظ کی نسبت رسول اکرم {ص} کی طرف کرنا درست نہیں ، اس لیے کہ محدثین نے اس روایت کو موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا ہے
    ٹھیک ہے اب آگے پڑھتے ہیں
    اس کے بعد چار جملے عربی میں لکھے ہوئے ہیں اور اس کے بعد اردو میں جملہ آتا ہے جس میں علامہ سخاوی نامی ہستی کا جملہ آتا ہے
    " کہ روایت اگرچہ صحیح نہیں ، لیکن اس کا معنی درست ہے . "
    میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور پھر کہونگا علامہ صاحب نے ایسا کیوں کہا حدیث تو من گھڑت ہے مگر اس کے معنی اچھے ہیں لیکن انہوں نے بھی حدیث کو صحیح تسلیم نہیں کیا ہے
    اب مزید آگے بڑھتے ہیں
    اس کے بعد لکھا ہے
    جب کہ دیگر محدثین نے علامہ سخاوی کے اس قول کو قبول نہیں کیا اور ایمان اور وطن کی محبت کے تلازم کا انکار کیا ہے ، اور ایمان کے جز ہونے کا انکار کیا ہے
    { یعنی دیگر نے بھی مذکورہ حدیث کو نہ صرف من گھڑت مانا بلکہ علامہ صاحب کے اس قول کو " لیکن اس کا معنی درست ہے " کو بھی رد کیا "
    پھر اس کے بعد لکھا ہے تفصیلی فیصلہ ، چلیں اس کو بھی پڑھتے ہیں
    پس مذکورہ بالا تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ وطن کی محبت کو ایمان کا جز قرار دینا اور اس کی نسبت رسول اکرم {ص} کی طرف کرنا صحیح نہیں ، البتہ بعض دیگر کچھ روایات سے وطن کی محبت کا ممدوح ہونا معلوم ہوتا ہے ، تاہم ان روایات میں سے کسی سے بھی محبت وطن کا ایمان کا جز ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔
    اس فیصلے میں صاف صاف لکھا ہے وطن کی محبت باعث فخر ضرور ہے مگر اس کو کو ایمان کا حصہ قرار دینا جائز نہیں
    اس کے بعد لکھی ہے تفصیل نبی پاک {ص} کی مکہ اور مدینے سے محبت کی اور بس
    نبی پاک {ص} مکہ میں پیدا ہوئے وہیں نبوت کا اعلان کیا مگر مشرکین نے جب ستانا شروع کیا تو مدینے کی طرف ہجرت کی اس کے بعد مکہ فتح ہوا مگر پھر بھی مکہ واپس نہیں آئے مدینے میں قیام کیا اور وہیں انتقال ہوا
    مکہ کے فتح ہونے کے بعد مدینے کے انصارین کو گمان ہوا تھا کہ مکہ چونکہ نبی {ص} کی سرزمین ہے اور اب فتح ہونے کے بعد یہیں قیام کرینگے تو نبی پاک {ص} نے انصار سے فرمایا " اللہ کی پناہ ! اب زندگی اور موت تمہارے ساتھ ہے ۔ "
    خیر میری باتیں چھوڑیں اگے پڑھتے ہیں
    دو تحریروں میں میں سے ایک میں مکہ سے محبت اور دوسری میں مدینے سے محبت کا احوال ہے
    اس کے بعد امام بخاری کی روایت لکھی ہے
    اس کے بعد حافظ ابن حجر کی روایت لکھی ہے
    اس کے بعد ابن بطال کی تشریح لکھی ہے
    ان تینوں میں نبی {ص} کی مدینے سے محبت کو بیان کیا گیا ہے
    جبکہ آخری تحریر مکہ کے متعلق ہے جس میں نبوت ملنے کے بعد حضرت خدیجہ {رض} اور غالبا ان کے بھائی ورقہ بن نوفل کے حوالے ہیں اور اس تحریر میں آپ {ص} جس وطن کی جدائی کو سہنا مشکل قرار دے رہے ہیں وہ وطن مکہ ہے
    یعنی آخری تحریر میں مکہ سے محبت بیان کی گئی ہے اور نبی پاک {ص} کا فرمان لکھا ہے " باقی تکالیف سہہ لی جاتی ہیں ، لیکن وطن کی جدائی سہنا مشکل ہے "
    مگر دین کے خاطر ہجرت کرنے کے بعد ، مدینے میں قیام کرنا ، مکہ کو فتح ہوجانا اور اس کے باوجود مدینے میں ہی قیام کرنا اس بات کی دلیل ہے
    زمین ، وطن اور قوم سے محبت کرنے پر اسلام میں ممانعت نہیں یہ جائز ہے ، مگر نہ یہ دین کا حصہ ہے اور نہ ہی یہ فرض ہے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہ ہے آپ ہی کی تحریر کردہ پیراگراف کا خلاصہ
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    امید کرتا ہوں آپ نے بھی میرے ساتھ ساتھ اس پیراگراف کو اور میری تحریر کو مکمل پڑھا ہوگا
     
  22. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    میرے مختصر سے سوال " کیا مسلمان ہونے کے لیے پاکستان سے محبت لازم ہے ؟ " کا مختصر سا جواب ہے نہیں جیسے آپ کے سوال " کیا مسلمان کا اپنے پڑوسی کے بچے کو ٹافی کھلانا ضروری ہے ؟ " کا جواب ہے نہیں
    مگر
    میری نظر میں آپ کی کیا سوچ ہے میں نہیں جانتا
     
  23. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام میں وطن کی محبت اگر کوئی حیثیت نہ رکھتی تو وطن کے لیےجان کا نظرانہ پیش کرنے والے کو شہید نا کہا جاتا؟
    پہلے یہ سمجھا جائے کہ شہید کسے کہتے ہیں .اللہ کی راہ میں حصول ِشہادت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بڑھ کرکوئی چیز قیمتی نہیں ہو سکتی ، آدمی اپنے دین ، اپنے وطن اور اپنی عزت و ناموس کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان کو قربان کر دیتا ہے تاکہ وہ اللہ تعالی کے ہاں شہادت کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہو سکے ۔

    وطن سے محبت ہی وطن پر قربان ہونے کا ثبوت ہے اور وطن کی محبت میں شہید ہونے والے کے لیے اللہ کی طرف سے جنت کا انعام ہے.
    شہادت ایک ربانی عطیہ اور خداوندی انعام ہے جس سے اللہ کریم انبیاء اور صدیقین کے بعد اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین لوگوں کو نوازتا ہے ، ارشاد خداوندی ہے :
    {وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا} "اور جو بھی اللہ تعالی کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی فرمانبرداری کرے ، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ تعالی نے انعام کیا ہے ، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ ، یہ بہترین رفیق ہیں "۔
    اللہ تعالی کا کسی انسان کو شہادت کے مرتبہ پر فائز کرنے کے لئے منتخب کر لینا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی اس انسان سے راضی ہے ، اور اس مقام و مرتبہ سے بڑھ کر اور کون سا مقام و مرتبہ ہو سکتا ہے ، اللہ کریم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
    {وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ} "اور تم میں سے بعض کو شہادت کا درجہ عطا فرمائے "۔
    شہید اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اپنے وطن کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے، آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے اور اپنی تمام تر خواہشات اور آرزؤں کو قربان کرتے ہوئے دین اور وطن کی خاطر میدان جنگ میں کود پڑتا ہے

    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: {إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ} "بلاشبہ اللہ تعالی نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی ۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پس وہ قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں ، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں "

    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ؛

    لو لا حب الوطن لخرب بلد السوء فبحب الاوطان عمرت البلدان۔
    اگر وطن کی محبت نہ ہوتی تو پسماندہ ممالک ختم ہو جاتے (کہ ان ممالک کے لوگ ترقی یافتہ ممالک کی طرف چلے جاتے) پس وطن کی محبت ہی وطنوں کو ترقی دیتی ہے۔


    (تفسیر حقی، روح البیان، سورۃ القصص، آیت نمبر: 85)
    -------------------------------------------------------------------------------------------------------
    محترم شاید آپ نے میری یہ آخری تحریر نہیں پڑھی

    آپ نے جو لڑی بنائی اس سے یہ خطرہ ہے کہ کچھ نادان اسے پڑھ کر یہ سمجھنے لگیں کہ وطن سے محبت مسلمان کے لیے لازمی نہیں ہے تو اپنے وطن سے محبت چھوڑ دی جائے اسی وجہ سے میں نے یہ لڑی بنائی کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ نہیں ہے مگر جائز ضرور ہے اور بعض اوقات میں واجب بھی ہے.

    اسلام میں اپنے وطن سے محبت رکھنا جائز ہے اور یہ محبت فطری ہوتی ہے لیکن ایک پاکستانی کے لیے یہ ایمانی بھی ہے۔ اور اگر وطن یا کوئی بھی اسلامی سلطنت ان حالات میں ہو کہ وہاں دشمن کا قبضہ ہو، وہاں مسلمانوں پر ظلم ہو، وہاں دشمن قدم جما رہا ہو، دشمن کی سازشیں ہوں تو ان حالات میں وطن سے محبت رکھنا واجب ہے اور نہ رکھنے والا گناہ گار ہے.

    آپ کا ایک سوال { مگر کیوں یہ نہیں پتا } کا جواب یہ ہے کہ
    آپ کے پڑوس میں ایک بچہ ہے جو روز آپ کو سلام کرتا ہے اور آپ اسے ٹافی کھلاتے ہیں
    اب آپ یہ سوال اٹھاتے ہو کہ کیا مسلمان کا اپنے پڑوسی کے بچے کو ٹافی کھلانا ضروری ہے ؟
    جواب خود سمجھ جائیے اگر میں قرآن اور حدیث سے حوالے کوٹ کرونگی بچوں سے شفقت کے بارے میں تو آپ کو پھر سے اعتراض ہوگا اسی لیے میرے اوپر والے جواب کو تشبیہ سے سمجھ جائیے

    وطن سے محبت ایک انسان کی فطرت میں داخل ہے اِسی لیے جو لوگ ملک سے غداری کرتے ہیں انہیں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیاجاتا، اِس کے برعکس جو لوگ ملک کے لئے قربانی دیتے ہیں ان کے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں وہ زندہ ہوتے ہیں ۔

    وطن سے محبت کے اس فطری جذبہ کا اسلام نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ ایسا پرامن ماحول فراہم کرتا ہے جس میں رہ کر انسان اپنے وطن کی اچھی خدمت کر سکے۔

    اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھئے جنہوں نے زندگی کے ہر مرحلے میں ہماری رہنمائی فرمادی، یہاں تک کہ وطن سے محبت کرکے بھی یہ پیغام دیا کہ مسلمان سب سے پہلے اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہوتا ہے ۔ سنئیے یہ الفاظ
    ”اے مکہ تو کتنی مقدس سرزمین ہے … کتنی پیاری دھرتی ہے میری نظر میں …. اگر میری قوم نے مجھے یہاں سے نہ نکالا ہوتا تو میں یہاں سے نہ نکلتا. “ ترمذی

    آپ کے سوال کا لب لباب یہ ہے کہ آپ وطن سے محبت یعنی حب الوطنی اور وطن پرستی کو ایک ہی ترازو میں تول رہے ہیں جو غلط ہے
    چوں کہ آپ کے سوالات حب الوطنی کے بارے میں تھے تو میں نے قرآن و حدیث کے حوالے اور علماء کی رائے پیش کی .
    اگر آپ وطن پرستی کے بارے میں سوال کرتے تو شاید آپ کو جواب مختلف ملتا.
    ایک مسلمان کی محبت سب سے زیادہ اپنے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ہوتی ہے جیسا کہ محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے تب تک کوئی مومن نہیں ہووسکتا جب تک میں اسے اس کے گھر والوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاوں۔
    پھر جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ سامنے آجائے تو تمام محبتیں اس کے سامنے چھوٹی پڑ جاتی ہیں۔
    بس یہی حب الوطنی اور وطن پرستی میں فرق ہے جسے اکثر لوگ کنفیوز کرتے ہیں یا جان بوجھ کر کر جاتے ہیں۔
    میں وطن پرست نہیں محب وطن ہوں
    اے اللہ پاکستان کو محبت امن اور اسلام کا گہوارا بنا دے اور اسلام کا قلعہ بنا دے اور امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بنا دے
     
  24. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    آپ نے لکھا
    اسلام میں وطن کی محبت اگر کوئی حیثیت نہ رکھتی تو وطن کے لیےجان کا نظرانہ پیش کرنے والے کو شہید نا کہا جاتا ؟
    تو جناب یہ آپ نے کہاں سے اخذ کیا کہ وطن کے لیے جان دینے والا شہید ہوتا ہے ، کونسی قرآنی آیت سے کس حدیث سے ؟
    پھر لکھا
    وطن سے محبت ہی وطن پر قربان ہونے کا ثبوت ہے اور وطن کی محبت میں شہید ہونے والے کے لیے اللہ کی طرف سے جنت کا انعام ہے .
    حوالے میں لکھی سورۃ النسا کی آیت نمبر 69 جس کا ترجمہ ہے
    " اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا فرمانبردار ہو تو ایسے لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا جو نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحوں میں سے ہیں ، اور یہ رفیق کیسے اچھے ہیں ۔ "
    پھر حوالہ دیا سورۃ العمران کی آیت نمبر 140 { مختصر } جس کا مکمل ترجمہ ہے
    " اگر تمہیں زخم پہنچا ہے تو انہیں بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے ، اور ہم یہ دن لوگوں میں باری باری بدلتے رہتے ہیں ، اور تاکہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے بعضوں کو شہید کرے ، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔
    پھر لکھی سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 111 { یہ بھی ادھوری } جس کا مکمل ترجمہ ہے
    " بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کے لیے جنت ہے ، اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اور قتل بھی کیے جاتے ہیں، یہ سچا وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں ، اور اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے ، خوش رہو اس سودے سے جو تم نے اس سے کیا ہے ، اور یہ بڑی کامیابی ہے ۔ "
    یہ تینوں آیتیں بے شہیدوں کے انعام کا زکر کر رہی ہیں مگر یہ نہیں کہہ رہیں کہ وطن کے لیے مرنے والا شہید ہوتا ہے
    پہلی آیت میں اللہ اور اس کے رسول {ص} کے فرمانبرداروں کو مخاطب کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ کن کے ساتھ ہونگے
    دوسری آیت میں اللہ نے جن لوگوں کو شہادت کی نوید سنائی ہے ان کے لیے شرط صرف ایمان والے رکھا اور ساتھ میں مشرکین کو ناپسند کہا
    تیسری آیت میں اللہ ان لوگوں کو شہید ہونے کی خوشخبری سنا رہا ہے جو اللہ کے ساتھ سودا کرتے ہیں اپنی جان اور مال کے ساتھ ، یہاں بھی ذکر نہیں زمین کا
    پھر آپ نے لکھا حضرت عمر فاروق {رض} کا قول
    اگر وطن کی محبت نہ ہوتی تو پسماندہ ممالک ختم ہو جاتے پس وطن کی محبت ہی وطنوں کو ترقی دیتی ہے ۔
    مجھے نہیں پتا حضرت عمر فاروق {رض} نے یہ کس پس منظر میں کہا ، چونکہ حضرت عمر فاروق {رض} کی خلافت میں مسلمانوں کی فتوحات بہت زیادہ تھیں اور اسلامی ریاستوں کا جال دور دور تک پھیل گیا تھا ، ہوسکتا ہے بعض کم ترقی یافتہ علاقوں سے مسلمان نقل مکانی کرکے اچھے اور خوشحال علاقوں میں آنا چاہتے ہوں ان کے لیے انتظامی طور پر ایسا کہا ہو
    مگر خیر حضرت عمر فاروق {رض} کا یہ قول بھی کہیں یہ ثابت نہیں کرتا جو آپ کہہ رہی ہیں
    پھر آپ نے لکھا
    ( تفسیر حقی ، روح البیان، سورۃ القصص ، آیت نمبر : 85 )
    سورۃ القصص ، آیت نمبر : 85 کا ترجمہ ہے
    " جس نے تم پر قرآن فرض کیا وہ تمہیں لوٹنے کی جگہ پھیر لائے گا ، کہہ دو میرا رب خوب جانتا ہے کہ ہدایت کون لے کر آیا ہے اور کون صریح گمراہی میں پڑا ہوا ہے "
    مجھے نہیں پتا اس آیت اور حضرت عمر فاروق {رض} کے قول کے درمیان کیا ربط ہے ، پچھلی چند آیات بھی پڑھیں
    " اور وہ لوگ جو کل اس کے مرتبہ کی تمنا کرتے تھے آج صبح کو کہنے لگے کہ ہائے شامت ! اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ کر دیتا ہے ، اگر ہم پر اللہ کا احسان نہ ہوتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا، ہائے! کافر نجات نہیں پا سکتے ۔
    { سورۃ القصص ، آیت نمبر : 82 }
    " یہ آخرت کا گھر ہم انہیں کو دیتے ہیں جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارادہ نہیں رکھتے ، اور نیک انجام تو پرہیزگاروں ہی کا ہے ۔ "
    { سورۃ القصص ، آیت نمبر : 83 }
    " جو بھلائی لے کر آیا اسے اس سے بہتر ملے گا ، اور جو برائی لے کر آیا پس برائیاں کرنے والوں کو وہی سزا ملے گی جو کچھ وہ کرتے تھے ۔ "
    { سورۃ القصص ، آیت نمبر : 84 }
     
  25. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    میں نے جو بھی سوالات سوچے یا اٹھائے میں نے اسے اپنے ناقص علم کی روشنی میں پرکھا مگر آپ نے اپنے جوابات میں خود ایک فتوی
    { فتوی نمبر : 144004200499
    دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن }
    لکھا اور میں مستقل دو دن سے آپ کو یہ ہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں اس فتوی میں کسی سائل نے کھلے الفاط میں سوال کیا ہے اور جواب مانگا ہے صرف اور صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں
    سوال یہ تھا
    " کیا اسلام نے وطن سے محبت کو ایمان کا جزو قرار دیا ہے ؟ جواب صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیں ۔ "
    اور جواب یہ تھا
    " پس مذکورہ بالا تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ وطن کی محبت کو ایمان کا جز قرار دینا اور اس کی نسبت رسول اکرم {ص} کی طرف کرنا صحیح نہیں ، البتہ بعض دیگر کچھ روایات سے وطن کی محبت کا ممدوح ہونا معلوم ہوتا ہے ، تاہم ان روایات میں سے کسی سے بھی محبت وطن کا ایمان کا جز ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ "
    اس جواب کے بعد بات ختم ہوجانی چاہیے مگر نجانے کیوں آپ بضد ہیں
    اور اب آپ یہاں تک کہہ رہی ہیں کہ
    ان حالات میں وطن سے محبت رکھنا واجب ہے اور نہ رکھنے والا گناہ گار ہے
    یہ یاد رکھیے گا ہجرت کرنا نبی {ص} کی سنت ہے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    " اے نبی ! آپ کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے ، آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے " { سورۃ التحریم : آیت نمبر 1 }
    یعنی نبی کو بھی اختیار نہیں جسے اللہ حلال کردے اسے حرام کہیں
    " اے ایمان والو ! ان ستھری چیزوں کو حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں اور حد سے نہ بڑھو ، بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا " { سورۃ المائدہ آیت نمبر 87 }
    دوبارہ سوچئے
     
  26. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    بخاری کی حدیث ہے
    " سیدنا ابو موسی الاشعری {رض} روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ {ص} کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (ص) ایک آدمی مال غنیمت حاصل کرنے کیلئے لڑتا ہے اور ایک شخص اسلئے لڑتا ہے کہ اس کا چرچا ہو اور اس کی بہادری دیکھی جائے تو اللہ کے راستہ میں لڑنے والا کون ہے ؟ رسول اللہ {ص} نے ارشاد فرمایا " جو اس لئے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو وہ اللہ کے راستہ میں لڑنے والا ہے ۔ "
    مسلم کی حدیث ہے سیدنا ابوہریرہ {رض} نبی پاک {ص} کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ " قیامت کے دن لوگوں میں فیصلے کیلئے سب سے پہلے جس شخص کو بلایا جائے گا وہ شہید ہوگا ۔ اسے اللہ کی نعمتیں گنائی جائیں گی وہ پہچان لے گا اور اعتراف کرے گا پھر اللہ تعالی دریافت فرمائے گا کہ تم نے اس کا حق ادا کرنے کیلئے کیا کیا ؟ وہ کہے گا کہ میں نے تیرے راستہ میں جہاد کیا اور اپنی جان قربان کردی ۔ اللہ تعالی فرمائے گا کہ تم جھوٹ کہتے ہو، تمہارا مقصد تو یہ تھا کہ لوگ تم کو بہادر کہیں پس ، یہ مقصد تو پورا ہوگیا پھر اس کے بار ے میں حکم ہوگا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے "
     
  27. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کے سوال کا لب لباب یہ ہے کہ آپ وطن سے محبت یعنی حب الوطنی اور وطن پرستی کو ایک ہی ترازو میں تول رہے ہیں جو غلط ہے
    چوں کہ آپ کے سوالات حب الوطنی کے بارے میں تھے تو میں نے قرآن و حدیث کے حوالے اور علماء کی رائے پیش کی .
    اگر آپ وطن پرستی کے بارے میں سوال کرتے تو شاید آپ کو جواب مختلف ملتا.
    ایک مسلمان کی محبت سب سے زیادہ اپنے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ہوتی ہے جیسا کہ محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے تب تک کوئی مومن نہیں ہووسکتا جب تک میں اسے اس کے گھر والوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاوں۔
    پھر جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ سامنے آجائے تو تمام محبتیں اس کے سامنے چھوٹی پڑ جاتی ہیں۔
    بس یہی حب الوطنی اور وطن پرستی میں فرق ہے جسے اکثر لوگ کنفیوز کرتے ہیں یا جان بوجھ کر کر جاتے ہیں۔
    میں وطن پرست نہیں محب وطن ہوں
    اے اللہ پاکستان کو محبت امن اور اسلام کا گہوارا بنا دے اور اسلام کا قلعہ بنا دے اور امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بنا دے
     
  28. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    جناب میرا سوال وطن سے محبت پر ہی تھا حب الوطنی کا اردو ترجمہ وطن کی محبت ہی ہوگا
    فتوی میں سوال بھی وطن سے محبت پر ہی تھا ، وطن پرستی تو حب الوطنی سے ایک قدم آگے ہے ،
    وطن پرستی تو وہ کہلائے گی جب انسان وطن کی محبت میں اتنا آگے نکل جائے کہ اس میں وطن کی پرستش نظر آنے لگے
    میں وطن کی محبت کو کسی مسلمان کے لیے اس کے ایمان کا حصہ نہیں سمجھتا اور نہ لازم سمجھتا ہوں
    کیا آپ وطن کی محبت کو ایمان کا حصہ یا ایمان کے لیے لازم سمجھتی ہیں ؟
    آپ سیدھا سیدھا بتادیں ہاں یا نہیں
    کسی قسم کے دلائل دینے کی ضرورت نہیں
    آپ کے جواب کی وجہ نہیں جاننا چاہونگا صرف جواب چاہونگا ہاں یا نہیں
     
  29. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ کیونکہ اسے ہم مہاجرین و انصار کے اس مدینہ کی مثال کے طور پر سمجھیں جو آج سے ڈیڑہ ہزار سال پہلے انسان کامل ، رسول ِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا ۔ اور اس مدینہ کے تحفظ کے لیے آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں نے کتنی جنگیں لڑیں اور کس قدر جان فشانی کا مظاہرہ کیا ۔

    وطن سے محبت میرا ایمان ہے
    1. پاکستان ہمارا وطن ہے اور ہم ایک قوم ہیں اور قوم بھی مسلمان

    اے طن تیری قسم تیرے اجالوں کی قسم
    تری تاریخ کے تابندہ حوالوں کی قسم
    ترے شاعر کے درخشندہ خیالوں کی قسم
    مجھ کو ارواح ِ شہیداں کے سوالوں کی قسم
    مجھ سے جو ہوسکا تیرے لیے کرجاؤنگی
    تری ناموس پہ حرف آیا تو مرجاؤنگی

    پاکستان وہ ملک ہے جو کرئہ زمین کے نقشے پر پہلی نظریاتی ریاست کے طور پر ابھرا۔یہ ارتقائے انسانیت کا وہ ثبوت ہے جس کی تخلیق میں فقط شاہ ولی اللہ اور اقبال جیسے نامورفلسفیوں کے افکار ہی شامل نہیں بلکہ،

    تیری بنیاد میں قاسم کا لہو شامل ہے
    تیری تعمیر میںاسلام کی خُو شامل ہے
    تیری مٹی میں میرے خون کی بُو شامل ہے
    اس میں شامل ہوں میں جس لفظ میں تو شامل ہے
    اے وطن ہے تو حزیں حال مگر زندہ ہوں
    تجھ سے شرمندہ ہوں ، شرمندہ ہوں ، شرمندہ ہوں

    وطن کی محبت جزو ِ ایمان ہے صرف ایک موضوع ہی نہیں بلکہ میرے دِل کی آواز اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کیونکہ گزشتہ چند دہائیوں سے جس طرح پاکستانیت کو ہم وطنوں کے دلوں سے کھرچ کھرچ کر نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے اُسے محسوس کرکے میں خون کے آنسو روتی ہوں۔ آج پاک سرزمین شاد باد کہنے والے مفقود ہوچکے ہیں۔ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری کی صدائیں کہیں سنائی نہیں دیتیں۔ مغربی نظام ہائے تعلیم کے پروردہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے وفاق اور پاکستانی قومیت کا ناس مار دیا ہے۔ اس پر رہی سہی کسر نام نہاد جمہوریت نے پوری کردی۔

    وطن کی محبت جزو ِ ایمان ہے کیونکہ ایمان کی شرطِ اوّلین ہے اپنے آپ سے وفاداری اور اپنے آپ سے وفاداری تب تک ممکن نہیں جب تک اپنے گھر اور اپنے وطن کے ساتھ وفاداری نہ کی جائے۔

    رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جس، سب سے پہلی جنگ میں شرکت فرمائی تھی وہ وطن کے لیے لڑی گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان ِ نبوت سے بہت پہلے صرف بائیس سال کی عمر میں اہل ِ مکہ کی طرف سے ایک جنگ میں شریک ہوئے تھے اور روایات سے ثابت ہے کہ آپ نے تیراندازوں کو تیر اُٹھا اُٹھا کر دینے کے کام میں حصہ لیا تھا۔

    پھر اُس کے بعد جب یثرب کو اپنا وطن بنا لیا تو یثرب جو مدینۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم بن چکا تھا کی حفاظت کے لیے آپ نے اسلام کی ابتدائی مقدس جنگیں لڑیں۔ جن میں غزوئہ بدر، غزوئہ احد، غزئہ حنین اور غزوئہ خندق کے نام سر فہرست ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بدروحنین کے بغیر مدینۃالنبی کا باقی رہنا ممکن نہ تھا۔ اور اگر مدینہ باقی نہ رہتا تو اسلام باقی نہ رہتا۔

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خواب کا بنیادی حصہ تو یہی تھا کہ وہ علیحدہ ریاست جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں مدینہ کی مثال ہوگا۔ پھر کیوں نہ پاکستان کے بقا کو بھی مدینہ کی ہی مثال سمجھا جائے۔

    غرض وطن کی محبت محض جزو ِ ایمان ہی نہیں بلکہ عین ِ ایمان ہے۔ اور کیوں نہ ہم کہیں کہ:۔

    یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اِس کے
    یہ چمن ہمارا ہے ہم ہیں نغمہ خواں اِس کے

    ایک کہاوت ہے کہ اپنا وطن کشمیر ہوتاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنا وطن چاہے جیسا بھی ہو ہر بندے کے لیے کسی جنت سے کم نہیں ہوتا۔ جزوِ ایمان کیوں نہ ہو جب وطن کی سوندھی مٹی ہی محرابِ سجدہ اور سجدئہ محراب کی اکلوتی ضامن ہو۔ وطن کی محبت جزوِ ایمان کیوں نہ ہو جب سب کچھ ہی زندگی کے ہر ہر لمحہ میں قبلہ و کعبہ کی طرح مقدس اور پاک ہو۔

    ایک پاکستانی شہری کس حیثیت و اہمیت کا انسان ہے۔ ہم مسلم نشاۃ ثانیہ کے بانیوں میں سے ہیں۔ہم فقط پاکستانی ہی نہیں ہیں بلکہ اجتہادِ اسلامی کے ذمہ دار ہیں۔ آنے والی مسلم دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔ جو فیصلہ ہمارا ہوگا وہ پوری اسلامی دنیا کا ہوگا۔ اسلام کے ساتھ زندہ رہناہے یا اسلام کو چھوڑناہے۔ اس دہریت زدہ دور میں بھی یہ کام صرف پاکستان کی ذمہ داری ہے اور ذمہ داری پاکستان کے خالقین کا دیکھا ہوا خواب ہے۔

    میں وطن کی محبت اور اپنے پاک سر زمین کے جھنڈےاور قومی ترانہ کے احترام میں آج بھی کھڑی ہو جاتی ہوں
     
  30. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    یعنی آپ کا جواب ہاں ہے
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں