1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب شکایت سیل کے ساتھ ایک دن

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از گوہر, ‏11 ستمبر 2009۔

  1. گوہر
    آف لائن

    گوہر ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2009
    پیغامات:
    56
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    تحریر : محمد الطاف گوہر
    mrgohar@yahoo.com
    انسانیت کا دشمن صرف وہی نہیں جو کسی دوسرے کا حق مارتا ہے بلکہ ہر وہ فرد بھی اس زمرے میں آتا ہے جو اپنے مفاد کو دوسروں پر ترجیح دے ۔ اگر ایک طرف مافیا نے لوگوں کا سکون غارت کیا ہوا ہے تو دوسری طرف انصاف کی خاطر در در کی ٹھوکریں بھی کھانی پڑتی ہیں ۔ سائل کسی بھی قیمت پر اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے مگر بعض اوقات معاملات زندگی میں کچھ ایسے بھی مقام آتے ہیں کہ حالات کے گرداب کے سامنے انسان بے بس نظر آتا ہے ۔ البتہ اگر ارباب اختیار انصاف کا بول بالا رکھیں تو سائل کیلئے امید کی ایک کرن ضرور روشن ہو جاتی ہے ۔مسائل میں گھرے ہو ئے لوگوں کی داد رسی کرنا ارباب اختیار کا نہ صرف اولیں فرض ہے بلکہ ایک کار خیر بھی ہے ۔ طرح طرح کے حالات کے مارے پریشان حال لوگ تھانوں ، کچہریوں اور عدالتوں اور دیگر سرکاری اداروں کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں ، بعض تو اپنوں کے ہی ستائے ہوئے ہوتے ہیں اور بعض مافیا کے ڈ سے ہوئے ، اگر انکو انصاف کی خاطر روشنی کی ہلکی سی بھی کرن نظر آئے تو انکی امید باندھ جاتی ہے ۔ ورنہ اسی ڈگر پر چلتے سالوں پہ محیط سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔

    البتہ ایسی بات نہیں کہ ان پریشانیوں میں گھرے لوگوں کو اپنے مسائل کا حل معلوم نہ ہو بلکہ انکو وسائل کے کمی ساتھ ساتھ ارباب اختیار تک کی رسائی میں دشواری کا سامنا رہتا ہے ۔ ہر حاجت مند کی خواہش ہوتی ہے کہ اسکے معاملہ کوئی ذمہ دار اور دیانتدار فرد نبٹا ئے ، اور اکثر اوقات خواہش ہوتی ہے کہ انکی شنوائی اعلیٰ عہدہ داران تک ہو۔ ا س طرح کے واقعات کم و بیش نظر آئے ہیں ارباب اختیار نے ضرورت مند اور مظلوم کی داد رسی کا مناسب اہتمام کیا ہو ، کیونکہ ان سارے معاملات کو نبٹا نے کیلئے ادارے موجود ہیں مگر پھر بھی کچھ معاملات ماوراء ہوتے ہیں، یا پھر کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں جنکا حل ضروری ہے ۔ اور ایسے عوامل کا تدارک بھی اسی صورت ممکن ہے کہ ارباب اختیار نے اپنے دروازے عوام کیلئے کھلے رکھے ہوں، جہاں بے سروسامانی کا شکار سائل اپنے معاملات کا حل پا سکے ،جبکہ یہیں مثالی پن کی ایک جھلک نظر آتی ہے ۔

    آج وزیراعلیٰ پنجاب کے قائم کردہ شکایت سیل میں بیٹھے ، پورے پنجاب کے مختلف علاقوں کے سے آئے ہوئے حاجت مندوں کا ایک جم غفیر دیکھا۔ ہر آنے والے کی داد رسی کا فوری اہتمام ہوتا نظر آیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب، جناب میاں شہباز شریف صاحب نے3 -کلب روڈ پر جو عوام کی شکایات کیلئے شکایت سیل قائم کیا ہے اس میں مسائل کے فوری حل کیلئے تقریباً پنجاب کے ہر شہر سے آئے ہوئے لوگوں کا ایک مجمع سا لگا ہوا تھا ۔ کچھ لوگ کرسیوں پر براجمان تھے اور کچھ اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہاتھ میں درخواست پکڑے آہستہ آہستہ ڈائریکٹر پبلک افیر، جناب شاہد قادر صاحب کے میز کیطرف بڑھ رہے تھے ، لوڈ شیڈنگ کے باعث کبھی کبھی گرمی کا ماحول بھی ہو جاتا اور اسکے ساتھ ساتھ روزہ داری بھی مگر مجھے شاہد قادر صاحب کے ماتھے پر کوئی ناگواری یا شکن کے آثار نظر نہ آئی جبکہ شکایات کا ایک انبار موجود تھا ۔ ہر فرد کی خواہش تھی کہ اپنی شکایت کی درخواست لیکر شاہد قادر صاحب کی میز کی طرف جائے اور اپنا مسلہ خود بیان کرے۔ جبکہ شاہد قادر صاحب اپنی ذمہ داری بڑی تندہی سے سرانجام دے رہے تھے،اور یہ واضع لگ رہا تھا کہ وہ ایک اعلیٰ عہدہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ معاملہ فہم بھی ہیں جو ساتھ ساتھ معاملات کو بخوبی نپٹا رہے تھے ۔ چندے کچھ تفتیش کے ساتھ فورا معاملہ نوعیت بھانپ لیتے اور کچھ ضروری سوالات کرنے کے بعد فوری حل کیلئے درخواست متعلقہ لوگوں کیطرف بجھوا دیتے، جبکہ ہر نئے والے درخواست گزار سے تفصیلات پہلے سے ہی لی جارہی تھیں تا کہ معاملات جلدی نبٹا ئے جا سکیں ۔

    میرے اک سوال پر بتلانے لگے کہ ہم ہر شکایت لیکر آنے والے کیلئے ایک جیسا معاملہ رکھتے ہیں اور کو شش کرتے ہیں کہ پریشان حال سائل جو کہ دور دور سے آئے ہوئے ہیں ا نکو بار بار چکر نہ لگانے پڑیں ۔ لہذا کوشش یہی کی جاتی ہے کہ معاملات فوری سلجھانے کا اہتمام ہو۔ انکے ہر آنے والے کو خندہ پیشانی سے ملنے پر مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ اکثر لوگ اپنی بات منوانے کیلئے بضد بھی ہوجاتے مگر انکے رویے میں ترشی دیکھنے میں نہ آئی۔ ایک صاحب فرما رہے تھے کہ میں صرف جناب شہباز شریف صاحب سے ملنا چاہتا ہوں ، ایس پی تک تو میں مل چکا ہوں مگر کوئی شنوائی نہیں ،اگر آئی جی صاحب تک میرا مسلہ پہنچ جائے تو پھر بات بنتی نظر آتی ہے، ابھی وہ صاحب بات کر ہی رہے تھے کہ اسی اثنا میں انکی درخواست کے بارے میں ،متعلقہ بات، آئی جی صاحب ہو رہی تھی ، اس سائل نے جناب شہباز شریف صاحب سے ملنے کا اصرار تر ک کردیا حالانکہ انکو کہا گیا کہ اگر وہ پھر بھی ملنا چاہیں تو کوئی پابندی نہیں ۔ یعنی ایک طرف فون بج رہے تھے تو دوسری طرف سائل کی خواہش کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے معاملات بھی نبٹا ئے جا رہا تھے۔ ایک صاحب جو کسی بیماری کی وجہ چلنے سے معذور تھے انکو دو لوگ اپنے کندھوں کے سہارے لیکر آئے ہوئے تھے انکا معاملہ یہ تھا کہ انکا گھر کوئی ہتھیانا چاہتا ہے لہذا اسکے لئے بھی فوری حکم نامہ جاری کیا گیا، اور اسی طرح ایک صاحب جو کہ غالباً جھنگ سے آئے ہوئے تھے انکو بھی شدید پریشانیوں کا سامنا تھا اور اسکا بھی فوری حل نکالا گیا جسکے باعث آنے والوں کے چہروں پر اطمینان کے آثار نظر آ رہے تھے۔

    میں یہی سوچ رہا تھا کہ لگتا ہے کہ وہی لوگ یہاں آتے ہونگے جو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں یا جنکو تھانے، کچہریوں اور دیگر سرکاری اداروں کی معلومات نہیں ، مگر یہ میری ایک خام خیالی تھی کیونکہ اکثر افراد کے معاملات ، کچھ اداروں ، اور تھانوں میں اور اکثر کے احباب میں الجھے ہوئے نظر آئے ۔ ایک خاتون جو کافی تعلیم یافتہ لگ رہی تھیں ، انہوں نے اپنے بارے میں بتلاتے ہوئے حیران کر دیا کہ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی علاوہ ایک سرکاری ہسپتال میں اچھے عہدے پر اپنے فرائض سر انجام دے چکی ہیں ، یعنی وہ ایک ڈاکٹر ہے جبکہ اسکے میاں بھی ایک ڈاکٹر ہیں جنہوں نے ایک گھریلو نجی جھگڑے کی بنیاد پر خود ہی استعفیٰ لکھ کر فارغ کروا دیا اور اس وقت ان محترمہ کو معلوم ہوا جبکہ انکو ہسپتال سے فار غ کر دیا گیا تھا ، اور جواز یہ کہ انکے شوہر نے انکا استعفیٰ داخل دفتر کروایا ،لہذا وہ محترمہ اسکے باعث پریشانی کا شکار ہیں جبکہ انکو دو پچوں کی کفالت بھی خود کو کرنی پڑتی ہے ۔ انکے معاملہ کو بھی افہام و تفہیم سے فریقین کے مابین حل کرنے کی کاوش نظر آئی۔

    مسائل تو بے شمار ہیں اور راستے دکھانے والے بہت ہیں مگر جب حل کیلئے نکلو تو پتا چلتا ہے کہ یہ کتنا تکلیف دہ امر ہے۔ اگر پریشان حال اور مجبوریوں کے مارے کسی چیز کی تلاش میں ہیں تو وہ یہی ہے کہ عملی طور پر ان لوگوں کی داد رسی کی جائے ۔ کیونکہ تسلی دینا اور وعدے کرنا تو آسان نظر آتا ہے مگر کسی کی تکلیف کو دور کرنا واقعی ایک معنی رکھتا ہے ۔ عوام جب بھی کسی نمائندے کو اپنے لئے منتخب کرتے ہیں تو انکی یہ امید ہوتی ہے انکے یہ نمائندے ایوانوں میں جا کر ملکی سالمیت کی کوششوں کے ساتھ ساتھ نہ صر ف اپنی عوام کی فلاح و بہبود کا اہتمام کریں گے بلکہ اپنے عوام کی ہر پریشانی میں انکے اسی طرح ساتھ ہوں گے ،جیسے الیکشن کے دنوں میں ایک رویہ کا اظہار کر چکے ہیں۔ عوام کو جب سرکاری اداروں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور شنوائی نظر نہیں آتی تو انکو ایک آسرے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اب وہ اپنے منتخب نمائندوں کی مدد لیں ۔ اس عمل میں اگر داد رسی کا اہتمام ہوتو یہ ایک عوامی خدمت کا شاندار نظارہ پیش کرتا ہے ، اس کاوش کی جھلک مجھے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کے قائم کردہ شکایات کے سیل میں نظر آئی جہاں اقربا ء پروری سے بالاتر ہو کر ہر سائل کی پریشانیوں کے حل کیلئے نہ صرف خوش مزاج لوگ موجود ہیں بلکہ دور دراز سے آئے ہوئے پریشان حال لوگوں کے معاملات کو فوری حل کرنے کا اہتمام بھی موجود ہے ۔جبکہ یہ مثالی سلسلہ نہ صرف اپنی کامیابی کے نقش بھی چھوڑ رہا ہے بلکہ حقائق کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔​
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    گوہر جی شکریہ اس شئیرنگ کے لئے
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم گوہر بھائی ۔
    ہماری معلومات میں اضافہ فرمانے کے لیے شکریہ ۔

    دعا ہے کہ اللہ تعالی شریف برادران کو اپنے سابقہ کوتاہیوں پر توبہ کرکے اسکی تلافی کرکے عوام کو پہنچائے ہوئے دکھوں کا مداوا کرنے کی توفیق دے۔ آمین

    ورنہ سیاستدانوں‌کی عوام سے ظاہری ہمدردیوں پر تو کتابوں پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ :hasna:
     
  4. محمداسد
    آف لائن

    محمداسد ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2009
    پیغامات:
    43
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بہت عمدہ موضوع اور اندازہ تحریر۔ الطاف گوہر صاحب! پہلے کی طرح اس بار بھی آپ نے ایک اہم اور توجہ طلب عنوان کا انتخاب کیا اور ہم تک اپنے خیالات پہنچائے، جس کا بہت شکریہ۔

    پنجاب میں حکومتی سطح پر ہونے والی اصلاحات دیگر صوبوں کے لیے قابل تقلید ہے۔ سستی روٹی کی فراہمی کا معاملہ ہو یا کرپشن سے متعلق واقعات، چینی کی ذکیرہ اندوزہ کی بات کی جائے یا انصاف کی جلد فراہمی کی کوششوں کی، پنجاب حکومت دیگر صوبوں میں قائم اتحادی حکومتوں سے نا صرف بہتر کارکردگی دکھا رہی ہے، بلکہ عوام کی جانب سے دئیے جانے والے مینڈیٹ کو بھرپور طریقہ سے استعمال بھی کررہی ہے۔

    اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دیگر صوبوں میں قائم حکومتیں بھی 'کرکٹ میچ' کھیلنے کے بجائے عوامی مسائل پر توجہ دیں اور حقیقی معنی میں صوبائی خود مختاری کا درست استعمال کریں۔ آمین
     
  5. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    وزیر اعلٰٰی پنجاب اگرچہ کافی محنت کرتے ہیں لیکن وہ ہوش کی بجائے جوش سے کام لیتے ہیں۔ انہیں ہوش میں آنا چاہئے اپنی عمر کے اعتبار سے۔
    سستابازار، یوٹیلٹی سٹورز، سبسڈائز آٹا وچینی، دو روپے کی روٹی یہ سب عوام کو بھکاری بنائیں گی نا کہ اپنے پاؤں پر کھڑاکرسکیں گی اور یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب راشد بھائی ۔ انقلابی اور تعمیری سوچ پر مبنی رائے ہے آپکی۔
    ورنہ تو سب پراپیگنڈہ اور پانی پر بلبلہ کی مانند ہے۔

    اب مستقل اور دیرپا حل کے لیے جب ان سےکہا جائے گا تو وہ کہہ دیں گے یہ مرکزی حکومت کا کام ہے۔ صوبائی اختیارات میں نہیں آتا ۔ اور مرکز کی حکومت پہلے ہی خود کو آٹا ، روٹی ، چینی ، بجلی کے مسائل سے مبرا قرار دے کر اسے صوبائی معاملہ قرار دے چکی ہے۔

    یعنی پِسنا عوام کو ہی ہے۔ چکی کوئی بھی ہو۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں