ورکنگ لیڈی“ نہ چُوڑی کی کَھن کَھن ، نہ پائل کی چَھن چَھن نہ گجرا ، نہ مہندی ، نہ سُرمہ ، نہ اُبٹن میں خود کو نہ جانے ، کہاں بُھول آئی ؟؟ جو ڈیوڑھی سے نکلی تو بچے کی چیخیں وہ چُولھا ، وہ کپڑے، وہ برتن ، وہ فیڈر وہ ماسی کی دیری، وہ جلدی میں بَڑ بَڑ نہ دیکھا تھا خود کو، نہ تُم کو سُنا تھا بس اسٹاپ پر اب کھڑی سوچتی ھُوں کسے ساتھ رکھا ، کسے چھوڑ آئی میں خود کو نہ جانے کہاں بُھول آئی ؟؟ وہ چُبھتی نگاھیں ، وہ آفس کی دیری سیاھی کے دھبوں میں رَنگی ھتھیلی وہ باتوں کی ھیبت ، جو سانسوں نے جھیلی وہ زَھری رویے ، وہ اُلجھی پہیلی مری مُٹھیوں میں سُلگتی دوپہری میں کی بورڈ پر انگلیاں چھوڑ آئی میں خود کو نہ جانے کہاں بُھول آئی ؟؟ جلی شام ! پر سرمئی رُت کدھر ھے ؟؟ تھکی ماندی آنکھوں میں لمبا سفر ھے یہ دھلیز ، آنگن مگر سکھ کدھر ھے ؟؟ ادھورے کئی کام رکھے ھیں، گھر ھے ھر اک سانس اب وقت کی دھار پر ھے وہ آسودہ لمحے کہاں چھوڑ آئی ؟؟ میں خود کو نہ جانے کہاں بُھول آئی ؟؟ تھکن بستروں پر پڑی اونگھتی ھے نگاھوں کی گرمی تلک سو چکی ھے ھر اِک پل ھمیں اگلے دن کی پڑی ھے مجھے یہ تسلی کہ خود جی سکوں گی تمھیں یہ سہارا , کہ ثروت بہت ھے وہ فرصت کے دن میں کہاں چھوڑ آئی ؟؟ میں خود کو نہ جانے ، کہاں بُھول آئی؟؟ ”ثروت زھرہ