1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ن لیگ اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے؟

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏11 جون 2013۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    کالم نگار محمد یسین وٹو
    انتخابی مہم کے دوران ہر پارٹی عوام کی تقدیر بدلنے اور ملک کو ترقی خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کرنے کے بلند وبانگ دعوے کرتی اور نعرے لگاتی رہی۔ تحریک انصاف نیا پاکستان بنانے اور مسلم لیگ ن پاکستان کو بدلنے کا عزم بالجزم ظاہر کرتی رہی ۔ عوام کی اکثریت نے مسلم لیگ ن کے وعدے دعووںاور نعروں پر اعتبار کرتے ہوئے اسے بغیر کسی پارٹی کی محتاجی کے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا۔آج جب اپنے وعدوں پر عمل کا موقع آیا ہے تو نئے حکمران اپنے وعدوں پر عمل کے بر عکس عوام کو پندو نصائح پر ٹرخا رہے ہیں اور اپنے بیانات سے مایوسیوں کے سائے پھیلا رہے ہیں ۔ خود میاں نواز شریف نے وزیر اعظم ہاﺅس میں قیام نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کو پزیرائی نہیں بخشی گئی ۔ بلکہ ایک کے بجائے دو وزیر اعظم ہاﺅس بنا دیئے گئے ۔جاتی امرا کی رہائش گا ہ کو بھی وزیر اعظم ہاﺅس کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔شہباز شریف لوڈشیڈنگ بالترتیب چھ ماہ ، دوسال اور تین سال میں مکمل طور پر ختم کرنے کے پُرجوش نعرے لگا کر جلسوں کو گرماتے رہے ،اقتدار ہتھیلی پر آیا تومیاں نوا ز شریف نے وضاحت فرمائی کہ وہ جوش اور جذبات میں ایسی باتیں کر جاتے ہیں۔61سال کی عمر میں بھی ہوش کا دامن نہیں تھاما تو کب تھامیں گے؟ کیا قوم تین سال میں بھی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات کی توقع نہ رکھے؟۔مسلم لیگ ن کے وزراءکو بھی شاید حلف اٹھانے کے بعد ہی ہوش آیا ہے۔اب وہ بھی انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں پر عمل کے بجائے لاروں اور جھانسوں کی ڈفلی بجا رہے ہیں۔
    وزیر خزانہ اسحٰق ڈار دبے لفظوں میں عوام کوڈرا رہے ہیں۔سنگین معاشی چیلنجز کا سامنا کی بات کرتے ہیں۔خزانہ خالی ہونے کا واویلا کیا جارہا ہے ۔لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی راہ میں پانچ سو ارب سے زائد گردشی قرضوں کو رکاوٹ قرار دیتے ہیں ۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے قوم اور مسلم لیگ ن دونوں ہی آگاہ تھے۔اب اپنی مشکلات باور کرانے کا نہیں عوام کو مشکلات سے نجات دلانے کا وقت ہے ۔ وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف جوش خطابت میں اپنی حکومت کو بھی لوڈشیڈنگ کا بلا واسطہ ذمہ دار ٹھہرا گئے۔ فرماتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے میں ہفتے یا مہینے نہیں بلکہ کئی سال لگیںگے۔ لوڈشیڈنگ 13 یا 14سال کا ملبہ ہے، فوراً ختم نہیں ہو سکتا۔ 14سال قبل ان کی پارٹی کی حکومت تھی ۔پیپلز پارٹی تو برملا الزام لگاتی ہے کی اس کے 24ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار کے معاہدے مسلم لیگ ن نے ختم کر دئیے تھے ۔کیا خواجہ آ صف ان معاہدوں کی منسوخی کو بھی لوڈ شیڈنگ کا ملبہ سمجھتے ہیں؟۔آ خر ان کو لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے کتنے سال چاہئیں؟ ان برسوں میں انہوں نے کیا کرنا ہے ؟آپ کے پاس تو پہلے ہی ملکی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے ۔ ضرورت صرف اس صلاحیت کو بروئے کا لانے کی ہے ۔اس کے لئے کئی سال نہیں بلکہ اس سرمائے کی ضرورت ہے جسے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے گردشی قرضہ قرار دیا ۔وزیر پانی اور بجلی گردشی قرضوں سے جان چھڑا لیں تو تما م پاور پلانٹ مختصر مدت میں چالو ہو کر بجلی کی قلت کو ختم کر سکتے ہیں ۔ آپ لوگو ں کو مایوس کرنے کے بجائے اپنے وزیر خزانہ سے مطلوبہ رقم کی فراہمی کا مطالبہ کریں جو اتنی رقم کی فراہمی کا بندوبست کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔اپنے بارے میں ایسا تاثر نہ دیں کہ یہ خواجہ اور راجہ کی پالیسیاں ان کے نامو ںکی طرح ملتی جلتی ہیں۔خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ ملک میں یکساں لوڈشیڈنگ ہوگی،کسی کے ساتھ تفریق نہیں کی جائے گی۔ایسا ہی حکم سپریم کورٹ نے بھی دیا ہے ۔جس پر نگرانوں نے عمل نہیں کیا ۔نگران نحوست تو ختم ہوچکی ہے۔ آپ کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے ؟ صرف یکساں لوڈشیڈنگ کی ایک مینجمنٹ سے کم از کم دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ میں افاقہ ہوسکتا ہے ۔ ایسا تو اب تک ہو جانا چاہیے تھا۔
    میاںنواز شریف نے ڈرون حملے بند کرانے کا بار بار عزم ظاہر کیا ان کی حکمرانی میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے اس پر بھی روائتی ردعمل دیکھنے کو ملا۔ایسے ردعمل سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے۔امریکہ نے کہا کہ نواز شریف بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینا چاہتے ہیں اس کی تردید نہ کرنے کا مطلب اس کی تائید ہے۔ایسا کرنا شریف برادران جیسے کاروباری لوگوں کے لئے تو سود مند ہو سکتا ہے لیکن اس سے کشمیر کاز کو ناقابل تلافی ضعف پہنچے گا۔مسلم لیگ ن اپنے وعدوں مُکر تو نہیں رہی؟
    گزشتہ حکومت کی بے رحمانہ پالیسیوں سے جھلسے ہوئے عوام اپنے منتخب کردہ حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کی زندگیوں سے تاریکیاں ختم کر کے روشنیوں کی نوید دیں گے۔اگر ایسا نہ ہوسکا تو یقینی بات ہے کہ نئے حکمران بھی سابقون کی طرح عوام کے غیظ وغضب اوربدترین انتقام کا نشانہ بنیں گے اور پھر ہو سکتا ہے کہ ہمیشہ کے لئے سیاست کے پردہ سکرین سے غائب ہو جائیں۔
    نوٹ : - مراسلہ نگار کا کالم نگار سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں