1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نیو دسمبر ۔۔۔

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ 2, ‏11 دسمبر 2018۔

  1. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    یہ موسم اداسیوں کا
    دسمبر تلخ یادوں کا ھے
    #حنا_شیخ
    stock-photo-ts8wq.jpeg
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر


    محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا
    بہت آساں نہیں ہوتا جدائی مانگتے رہنا

    ذرا سا عشق کر لینا،ذرا سی آنکھ بھر لینا
    عوض اِس کے مگر ساری خدائی مانگتے رہنا
     
    حنا شیخ 2 اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    تری یاد اور برف باری کا موسم
    سلگتا رہا دل کے اندر اکیلے

    ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر
    گزرتا نہیں ایک دسمبر اکیلے ​
     
    حنا شیخ 2 اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    کلامِ دسمبر کی ایسی کی تیسی
    اور اس کے سخن ور کی ایسی کی تیسی
    دوبارہ یہ چخ چخ اگر میں نے سن لی
    تو قندِ مکرر کی ایسی کی تیسی
    اسی ماہ محبوبہ بھاگی سبھی کی
    تمھارے مقدر کی ایسی کی تیسی

    راحیلؔ فاروق
     
    حنا شیخ 2 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    ہاہاہاہا ،،
     
  6. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    سندھ کے دیہات کی ایک ثقافت ھے کی مہان جب چائے کا کپ سوسئر میں الٹا نا رکھ دے وہ چائے ڈالتے رہتے ھیں ۔۔ اس مناسبت سے
    محبوب کے گھر کی چائے ۔۔

    چائےکا کپ نا لٹا میں نے
    دسمبر کی رات کو
    اک طلب تھی اس کو
    دیکھنے کی چاہ میں
    کتنے ہی کپ پی لیے
    دسمبر کی رات کو
    #حناشیخ
    1tea.jpg
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    اور اگلا پورا دن پھر ہسپتال کے بستر پر گزرا ۔ ۔ ۔
     
    حنا شیخ 2 نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    اہل عرب کی بھی یہ ثقافت ہے ، یہاں مردوں اور عورتیں کی حجرے الگ ہوتے ہیں مرد مہمان گھر سے ملحق حجرے (اہل عرب اسے دیوان یا دیوانیہ کہتے ہیں ) بیٹھتے ہیں اور خواتین مہمان گھر میں موجود بیٹھک (جسے اہل عرب جلوس نساء ) کہتے ہیں میں بیٹھ کر گپ شپ لگاتی ہیں اس دوران دیوانیہ میں ملازم اور گھرم مین ملازمہ مسلسل چائے یا قہوہ کی کیتلی لیے موجود رہتی ہیں جو کہ چھوٹے چھوٹے کپس میں چائے یا قہوہ سرو کرتے ہیں ، آپ جب تک اپنی پیالی الٹتے نہیں ملازم یا ملازمہ اسے خالی ہوتے ہی پھر بھر دیتے ہیں ۔ ۔ ۔
     
  9. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    جی بلکل صیح ،،، عرب اور سندھ کی بہت سی بات ، ملتی ہیں ، سندھ میں مردوں کی جہاں بیٹھک جمتی ھو اس کو اوطاق کہا جاتا ہے ادھر بھی عورتوں کی الگ محفل ہوتی ہیں ،،، جدہ میں ہم آپکا جانا کورنش ہو تو آپ دیکھیں گے کے زیادہ تر مرد الگ فیملی سے ہٹ کر بٹھے ہوتے ہیں ور عورتیں الگ اپنی محفل جمتی ہیں ، یہاں بھی شیشہ کا رواج ہے اور اس کو برا نہیں سمجھ جاتا اور اندروں سندھ بھی حقہ بہت چلتا ہے اور اس کو برائی میں نہیں لیا جاتا پہلے اور عورتیں بھی سندھ کی پیتی ہیں اپنے گھروں میں ،،،،
     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    دسمبر کی ٹھنڈی رات میں ٹھنڈے یخہ ہاتھ
    آج بھی ڈھونڈتے ہیں تیرے ہاتھوں کو میرے ہاتھ
    #حنّاشیخ
    2140.jpg
     
  11. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    ایسی ہونی چاہیے دسمبر کی شاعری
    تم کون ہو
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    کیسے بتاؤں میں تمہیں
    میرے لیے تُم کون ہو
    تم آس ہو تم پاس ہو
    میرے لیے کچھ خاص ہو
    کیسے بتاؤں میں تمہیں
    تم سردیوں کی دھوپ ہو
    تم چائے ہو یا سُوپ ہو
    میرے لیے گیزر ہو تم
    کوئلہ ہو تم، ہیٹر ہو تم
    تم لکڑیوں کا ٹال ہو
    تم نرم گرم سی شال ہو
    کیسے بتاؤں میں تمہیں
    لیدر کی اک جیکٹ تم ہی
    پِستے کا اک پیکٹ تم ہی
    تم برینڈ بھی، لنڈا بھی تم
    اُبلا ہوا انڈا بھی تم
    انڈے کی زردی ہو تم ہی
    زردی کی وردی ہو تم ہی
    گاجر کا حلوہ تم ہی ہو
    میووں کا جلوہ تم ہی ہو
    کیسے بتاؤں میں تمہیں
    میرے لیے تم کون ہو
    کاجُو بھی تم، چلغوزے تم
    مفلر، سویٹر، موزے تم
    جرسی ، جرابیں ہائی نیک
    لوشن، کریموں کی مہک
    اک گرم سا کن ٹوپ ہو
    پاجامہ ہو، تم کوٹ ہو
    کمبل رضائی ہو تم ہی
    قہوہ،ملائی ہو تم ہی
    تم ریوڑھی تم مونگ پھلی
    سردی میں لگتی ہو بھلی
    خاموش سے، چُپ چاپ بھی
    تم منہ سے نکلی بھاپ بھی
    تم چائے کا تھرماس ہو
    میرے لیے تم خاص ہو
    کیسے بتاؤں میں تمہیں
    میرے لیے تم کون ہو
     
    حنا شیخ 2 نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    ہاہاہا ،،،، واقعی تم خاص ہو
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    آخری چند دن دسمبر کے
    ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
    خواہشوں کے نگار خانے میں
    کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
    رفتگاں کےبکھرتے سالوں کی
    ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
    فون کی ڈائری کے صفحوں سے
    کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
    جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
    اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
    کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
    رینگتی بدنما لکیریں سی
    میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
    دوریاں دائرے بناتی ہیں
    دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
    مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
    ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
    حادثے کے مقام پر جیسے
    خون کے سوکھے نشانوں پر
    چاک کی لائنیں لگاتے ہیں
    ہر دسمبر کے آخری دن میں
    ہر برس کی طرح اب بھی
    ڈائری ایک سوال کرتی ہے
    کیا خبر اس برس کے آخر تک
    میرے ان بے چراغ صفحوں سے
    کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
    کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
    گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے
    خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
    کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے
    ہردسمبر میں سوچتا ہوں میں
    ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
    رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
    اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
    ڈائری ،دوست دیکھتے ہونگے
    ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
    ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
    اور کچھ بے نشاں صفحوں سے
    نام میرا بھی کٹ گیا ہوگا
    [​IMG]
     
  14. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    در و دیوار پر سایہ پڑا ہے
    ہواؤں میں نمی کا ذائقہ ہے

    کوئی طوفان ہے کچا گھڑا ہے
    نگاہ شوق منزل آشنا ہے

    وہی کنج قفس ہے اور ہم ہیں
    وہی امید کا جلتا دیا ہے

    میں آئینے میں خود کو کھوجتا ہوں
    یہ گاؤں کب کا خالی ہو چکا ہے

    دسمبر کی کہانی اور کچھ تھی
    مرے دل کا اجڑنا حادثہ ہے


    غم عقبیٰ غم دوراں غم دل
    ہمیں کتنا بنایا جا رہا ہے

    یہاں انسان بوئے جا رہے ہیں
    یہ جنگل اس لیے کاٹا گیا ہے

    قبیلہ قافلہ قیدی قطاریں
    یہ منظر شام تک پھیلا ہوا ہے

    یہ رستہ دور تک جاتا ہے راحلؔ
    ہمیں پیچھے بھی مڑ کر دیکھنا ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں