1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ننگے پاﺅں کی چاپ

Discussion in 'آپ کے مضامین' started by احمدنور, May 23, 2011.

  1. احمدنور
    Offline

    احمدنور ممبر

    Joined:
    May 19, 2011
    Messages:
    280
    Likes Received:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    پرسے سے لوٹتی تائی کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ ڈنگوری کے سہارے بھی قدم انھائے نہ گئے۔ وہ نظریں نیچی کیے اپنے ننگے پاوں کی طرف دیکھتی قدم گھسیٹتی گئی۔ پھر ڈنگوری کے سہارے کھڑی ہوگئی۔ دوپہر کے سائے ڈھل رہے تھے۔ پھر اس نے موٹی بھاری عینک کے اوپر ہاتھ کا چھپر بناکر دیکھا ۔ چیت سنگھ تو دوچار قدم آگے نکل گیا تھا۔اس نے کچھ سوچا اور موٹی سفید چادر سے ڈھکی سفید، ریشمی چمکیلی بچی کھچی سرکی چمڑی سے چمٹی بالوں کی لٹوں پر ہاتھ پھیرا اور سفید چادر کو ٹھیک کرتے ہوئے ماتھے تک کھینچ لیا۔
    دھلے ہوئے سانولے ماس پر عمر بھرکے گھسے پٹے ماتھے پر سفےد دودھ سی بھنوﺅں کے پاس چادر کے سائے کی ایک لکیر سی کھنچ گئی۔چیت سنگھ کی جھکی ہوئی کمر کانپتے سر ، ڈگمگاتے قدم اور سوئی کی ٹک ٹک کو کھڑی ہوکر وہ سنتی بھی رہی اور کچھ سوچتی بھی رہی۔ نہر کے کنارے کنارے اونچا نیچا راستہ، روندی ہوئی گھاس، گھاس کے تنکوں پر پڑتے ہوئے قدموں سے گھسی ہوئی پگڈنڈی اور تائی کے ننگے پاﺅں ۔ ان ننگے پاﺅں کو تو اب پتھریلی نوکوں ، کانٹوں اور کنکروں کی چبھن کی عادت پڑگئی تھی۔اب تو کسی بھی چبھن سے درد نہیں ہوتا تھا۔ پاﺅں کی ایڑیاں تو پتھر ہوگئی تھیں۔ ایسے جیسے جلتی دھوپ اور اولوں دونوں کی مار سے پتھر کالے پڑ کر جگہ جگہ سے پھٹ جاتے ہیں۔نہ کسی چبھن کا احساس، نہ تپتی ہوئی ریت سے جلن ۔
    لمبی عمروں سے تھکے تھکائے دو جسموں کے سائے ، نہر کے پانی کے اوپر تیرتی لہروں کے اوپر چلتے یہ سائے ،سیدھی راہ چلتے پانی پر بہتے یہ سائے ، کبھی کبھی ان کی آگی آگے ہوجاتے ، کبھی ان کے پیچھے چلنے لگتے ۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی تائی کی آواز سن کر چیت سنگھ کھڑا ہوگیا۔
    ”میں نے کہا، بیر کے باپو مجھے تھام لو آگے کھائی ہے مجھ نہیں “اور اس نے کمر کے پاس سے دایاں بازو اٹھاکر چیت سنگھ کی طرف بڑھادیا۔
    ہاتھ ابھی خلا میں کھڑا تھا ۔ چیت سنگھ کے قدم جیسے وہیںرک گئے۔ ایک پاﺅں زمین پر اور دوسرا زمین سے تھوڑا سا اونچا۔وہ پتھرا گیا ، جیسے زمین کی کسی مقناطیسی کشش نے اس کے قدم جوں کے توں جکڑ لیے ہوں۔ اس نے کندھے سے لپٹی چادر کو کھولا اور پھر اچھی طرح اپنے اوپر اوڑھ لیا۔ باری باری اپنے دونوں جوتوں سے راستے کی مٹی اور ریت جھاڑی ، جوتے کی نوکوں کو دھرتی کے سینے سے ٹھونکا، عینک کی کمانیوں کو دونوں ہاتھوں سے کانوں کے پیچھے دبایا۔چیت سنگھ نے جھریوں بھرے پیلے ، پتیلے ، لمبے ہاتھوں کی انگلیوں کو مروڑا اورآنکھوں کی کونوں کو ذرا سا سکیڑ کر پیچھے دیکھا ۔ جسم کے گرد لپٹی ہوئی سفید چادر کی سلوٹوں کے عینک کے شیشے چمکے۔وقت کے تیکھے ناخنوں سے چھلا، سانولا پتلا ہاتھ ! جیسے ہاتھ کی ہڈیوں پرپتلی سانولی جھلی مڑھی ہو ۔ سوکھا ہاتھ سہارے کے لیے کانپ رہا تھا۔
    اس عمر میں جب سارا زور وطاقت ختم ہوگئی تھی، خود کو سنبھالنا تو کیا،ڈنگوری بھی کانپ رہی تھی۔ جسم کا کوئی بھی حصہ اپنے قابو میں نہیں تھا۔ ایسے میں اپنے آپ ہلتے ہوئے یہ ہاتھ ، پاﺅں ،سر۔ کانپتے بازوکو اس نے ذرا سا اٹھایا اور اس کی پانچوں انگلیاں الگ الگ کھڑی ہوگئیں۔چیت سنگھ کے ہونٹ تو ہلے تھے لیکن آواز اس کے کانوں تک نہیں پہنچی تھی۔ ہاتھ کی ہتھیلی سے ہی ٹکرا گئی تھی۔ چیت سنگھ کو لگا جیسے نہر کا پانی الٹی طرف بہنا شروع ہو گیا ہو، چڑھائی کی طرف۔ اس نے آنکھیں سکوڑ کر دیکھا۔پانی کی چھاتی پر دوتنکے ہچکولے کھاتے ، ڈوبتے ، تیرتے ،ٹکراتے آگے بڑھ گئے ۔ دور۔
    وہ اپنی درد بھری آواز میں جیسے پھرکرلائی تھی۔ ”آگے کھائی ہے ، میں نے کہا۔“ عمر کے آخری ٹھہراﺅ پر مرد کے سہارے کے لیے ہوا میں کانپتا ہاتھ اور ساتھ ساتھ کبھی آگے کبھی پےچھے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ چیت سنگھ کی بھاوج تھی، بڑی بھوجائی کلونت کور۔
    جس دن کلونت کور بےوہ ہوکر سر سے ننگی ہوئی تھی،اسی دن اس نے پاﺅں سے بھی ننگا رہنے کی قسم کھائی تھی۔سر سے ننگا تو موت نے کیا تھا ، پاﺅں سے ننگا اس کی ضد نے ۔
    اس کی لال جوتی کی تو ابھی چمک بھی نہیں مری تھی۔ لال شنیل پر تلے سے کڑھے ہوئے پھولوں کا ابھی کوئی دھاگا بھی نہیں اکھڑا تھا۔ داج اور بری کی ابھی ٹانکے نہیں ٹوٹے تھے کہ تیز بخار نے دیوا سنگھ کو آ جکڑا تھا۔ حکیم ،وید، ٹونے ،ارداسیں ، کچھ بھی راس نہ آیا۔ تیز بخار کی بےہوشی میں دیوا سنگھ نے آنکھیں کھولیں۔ آنکھوں سے اس کی طر ف دیکھ کر ہونٹ ہلائے تھے”دنتا“ اور اس وقت کلونت کور کے دل میں آئی تھی کہ سب کو کمرے سے باہر نکال دےمجھے اس کی چھاتی پر سر رکھ کر آواز سننے دو۔ ایک بار اسے اچھی طرح میری چھاتی سے لگ جانے دو ۔ باہر ہوجاﺅ۔ باہر۔ دیواروں کی آڑ میں۔“
    گھبرائی ہوئی دنتا نے گردن پر ہاتھ رکھ کر اپنی آواز کو دبا لیا اور دیوا سنگھ کے کندھے کے پاس جاکر رک گئی۔دونوں کچھ نہیں بول سکے تھے۔ دنتا کی چڑھتی جوانی کا سورج کالا پڑگیا تھا۔ سورج کے گرد گہن اورہر طرف اندھیرا ، غبار، موت اور ہوا کے اندھے جھکولے میں گھری دیوا سنگھ کی دنتا ، کلونت کور سر سے ننگی ہوگئی تھی۔
    سرسے ننگی ، پاﺅں سے ننگی کو دوچار عورتوں نے سہارا دیا تھااوروہ اسی دھرتی پر رینگتی دریا کے اس کنارے پہنچی، جہاں پہلی باردیواسنگھ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس نے ساری زمین اپنے قدموں سے ناپی تھی۔ وہ نیم کے درخت تک ، وہ اپنی منڈیر ، وہ ساری زمین دور دور تک چلتے ہوئے ، دونوں نے پاﺅں تلے روندی تھی۔ نمولیوں کے دن تھے۔ پہلی زرد نمولیاں، کڑوی نیم سے لگی میٹھی نمولیوں سے اس نے اپنی اوک بھرلی تھی۔ کھیتوں کی یہ ساری دھرتی تو اپنی تھی اور اپنی دھرتی سے ننگے پاﺅں میں کنکر پتھر چبھوئے تھے۔ اپنی ہی دھرتی کی گرم مٹی سے جھلسے تھے۔ کومل نرم سے پاﺅں میں پتھروں ،کنکروں کی تیکھی نوکیں انگاروں کی طرح چبھتی تھیں۔اندر کھنچے ہوئے سانس کے کبھی نہ لوٹ پانے کی امید میں وہ اپنا ہر قدم اٹھاتی رہی۔ سانس لوٹتے رہے تھے۔ کنکر پتھر پاﺅں میں چبھتے رہے تھے اور سروں کے سمندر میں وہ بھی بہے جارہی تھی۔
    دریا کے کنارے ایک جگہ پہنچ کر سب کھڑے ہو گئے تھے۔ صرف کچھ ہاتھوں میں حرکت تھی۔ صرف کچھ نیم جان سے جسم کچھ کررہے تھے اور پھر دیوا سنگھ کی چتا سے شعلوں سے نکلتے دھنوئیں میں جیسے ہرطرف اندھیرا ہوگیاتھا۔ دنتا کا اور کسی سے کیا واسطہ ۔ کوئی پیار، کوئی رشتہ ،سمبند کچھ بھی نہیں تھاجیسے۔ کاہے کی سزا ملی تھی اس کو ؟ کس جرم کے بدلے؟
    وہ جیتے جی ہی مرگئی تھی۔اور اس طرح جیتے ہوئے ،کھاتے ،پیتے ، اٹھتے بیٹھتے اپنی لاش کو کھینچنا اور گھسیٹنا کتنا مشکل کام ہے ، زندگی کے اس کھیل میں۔ اور اس نے ننگے پاﺅں ہی زندگی کا باقی سفر طے کرنے کی قسم کھائی تھی۔ باقی کا راستہ سےدھا تھا۔ اپنے سارے لوگ ہاتھوںسے سایہ کرتے تھے۔ راستے میں نہ کوئی سل پتھر، نہ ڈرنہ اگلا گھر اپنا لگتا نہ پچھلا۔
    چیت سنگھ دوسالوں میں جوان ہوگیا۔ چوڑی چھاتی ، مضبوط بازواور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ دیوا سنگھ لگتا تھا۔ ہو بہو۔ ”بھائی جیسی چال “ کی دنتا پیٹھ دیکھتی تھی۔ گھر میں باتیں ہونے لگی تھیں۔ پیٹ کی بھوک کے کام کے علاوہ تو کبھی کسی کو آواز بھی نہ دی تھی۔ سب کے گلے جیسے باندھے گئے تھے۔ گھر میں آنا جانا لگا ہوا تھا۔ ماں بھی آئی تھی اور باپ بھی۔ اور دنتا کی ساس نے چھاتی پر پتھر رکھ کر چیت سنگھ سے چادر ڈالنے کی بات چلائی۔
    اس دن چیت سنگھ جھومنے لگا۔ آنکھوں میں عجب خمار سا بھرگیا۔ ہونٹوں پر تازہ کھلی ہوئی گلاب کی سی مسکان پھیل گئی۔ اس دن وہ تیکھی نوک والی تلے کی جوتی پہن کر کمرمیں نئے نکورلٹھے کی چادر کا تہبند باندھ اورکلیوں والا بوسکی کا کرتااور سر پر طوطے رنگ کی کسی ہوئی پگڑی باندھ کر نہر کی اس پگڈنڈی پر تیز تیز قدموں سے چلتا شہر گیا تھا۔ کتنا کچھ لے کرآیا تھاشہر سے۔ لال پھندنے والا پراندہ، گلناری سوٹ ، منکے والے جھمکے ، آرسی ، بگتیاں اور بہت کچھ۔
    سویرے سویرے ہی دنتا کے ساتھ جانوروں کا چارہ ڈالنے ، گوبر سمیٹنے اور دودھ کا کام سمیٹنے کے لیے ”پسار“ میں چلا گیا۔ سورج کی کرن نکلنے سے پہلے ہی دنتا کو فرصت ہوگئی۔ چیت سنگھ نے ہاتھ منہ دھوتی دنتا کا گورا ہاتھ ، کومل کچی گری جیسا نرم ہاتھ پکڑلیا۔ نل چلا رہی دنتا کے ہاتھ سے ہتی چھوٹ کر دنتا کے ماتھے پرآلگی اور ایک جھٹکے سے اس نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔
    چیت سنگھ نے اپنی کمر کے پیچھے چھپائی کاغذ میں لپٹی جوتی نکالی اور دنتا کے پاﺅں کے پاس رکھ دی ۔ شنیل کے تلے والی لال رنگ کی جوتی۔ ”یہ ڈالنا پاﺅں میں پوری بھی ہے کہ نہیں نہیں تو پھر شہر جاآﺅں۔“
    دنتا کو لگا جیسے دھرتی کی کوکھ میں ابھی ابھی دو آنکھیں لگ آئی ہوں۔ آنکھیں جن کا آخری ملن وہ سہہ نہیں سکی تھی۔ چاروں آنکھیں چھلکی تھیں۔ ایک کے گھونگھٹ میں گالوں پر آنسو گرے تھے اور دوسرے کے کونوں سے ٹپک کر سرہانے کا سینہ چیر گئے تھے۔ وہ سنبھلی ۔ آنکھوں کے سامنے دیوا سنگھ کا پیازی پگڑی والا چہرہ آکر چمکا، پھرمٹی رنگ کا ، پہلا مرجھایا چہرہ اور اس نے آنکھوں میں پھیلی دھند کا گھونٹ پی لیا ۔ ”سنبھال کے رکھ ابھی تو“
    ”تم پاﺅں میں پھنسالو تیرے ننگے پاﺅں “ بات چیت سنگھ کے منہ سے پوری بھی نہ نکلی تھی کہ دنتا کانوں پر ہاتھ رکھے ”نہیں،نہیں“ چیختی پسار میں چلی گئی تھی۔ ساس ماں نے بہت سمجھایا۔
    ”تیرا تو جسم ابھی کنچن جیسا ہی ہے، اجلا چاندنی جیسا کوئی اورآگے جھوٹ موٹ نام دھرتا پھرے گا گھر کی بات گھر میں “
    وہ بنا بولے ، گم سم ، وہاں سے اٹھ کر دھڑام کرتی اس پلنگ پرجاگری ،جس کے ساتھ اس گھر کے کسی کونے میں کلونت کور کا سب سے پہلے رشتہ بنا تھا۔منہ دکھائی کے بعد اس کی جھولی میں بچہ بٹھایا گیا اور چاروں طرف عورتوں اور لڑکیوں کا گھیرا توڑتے چیت سنگھ ،جس کی ابھی مسیں پھوٹ رہی تھیں، اس نے بھابی کی گود میں بیٹھ کر انگوٹھا چوسنے کا سوانگ کیا تھا۔”جھاٹ بھابی“ اور گھونگھٹ میں کھلے ہوئے کمل سا چہرہ دیکھ کر وہ شور مچاتا بھائی کے پاس دوڑا گیا تھا۔ ”لے بھائی تم نے تو مورچہ مارلیا تم تو فرسٹ آگئے۔“عورتوں اور لڑکیوں کے ہنسنے چہکنے کی آوازوں میں بھی کلونت کور کے کانوں نے چیت سنگھ کی آواز پہچان لی تھی، اور گھونگھٹ میں ہی ہنستے ہوئے اس نے گردن اور نیچی کرلی تھی۔ سہاگ کے اسی پلنگ کے ساتھ اس کی بہت سی یادیں جڑی ہوئی تھیں۔
    اپنا ہم عمر دیور ، بیٹا بن کر اس کی جھولی میں بیٹھا تھا۔ ہم عمر دیور کے ساتھ تو وہ کھل کر ہنستی تھی ۔ کھل کر باتیں کرتی تھی۔ اب تک تو اپنی جھولی میں ڈالے رشتے کو پلنگ کے رشتے کی بات سوچتے ہی اس کے اندر کہیں سہا نہ جانے والا درد جاگ پڑا۔ جیسے اس کا سارا جسم تیز ناخنوں سے چھیل دیا گیا ہو۔ گلنار ی پھولوں والا سوٹ کبھی نہ مل سکا تھا۔
    دونوں کے درمیان چپ کی دیوار کھڑی ہوگئی۔ ایک گھر ، ایک ہی پسار، ایک ہی آنگن ، ڈیوڑی اور ان راستوں کو کلونت کور ننگے پاﺅں لتاڑتی رہی۔ چپ کی دیوار میں نہ کبھی کلونت کور نے کیل ٹھونکا اور نہ کبھی چیت سنگھ نے دھڑکتی خاموشی کی دیوار سے کان جوڑے۔
    کلونت کور نے سوچا ۔ وہ ساری عمر ایسے ہی روتے دھوتے کیوں گزاردے ۔اس کے گرد لپٹے موہ پیار کے دھاگے سے اسے دیکھ کر کیوں دھواں اُٹھے۔ اپنے آپ پر بھروسے، یقین اور مضبوط ارادے کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا جو ان جسم کے جلتے دہکتے ارمانوں احساسات کی راکھ اس نے دیوا سنگھ کی مڑی کی مٹی کے نیچے دبا دی۔ اس کا دل اور دماغ بھی سُنّ ہوتا چلا گیا۔ وہ خود مارو تھل میں کھڑے اس اکیلے پیڑ کی طرح ہوگئی۔ جس کے پتے پیڑ کے تنے کے ساتھ پھیلی ریت کو جھلسا کر رکھ دیتے ہیں۔ کبھی بہت اداس ہوجاتی، دل بہت بجھ جاتا تو کوٹھے پر چڑھ گھنٹوں چاند تاروں کو ٹکٹکی لگائے دیکھتی رہی۔ جلنے بجھتے ، ٹمٹماتے ستارے چاند کے گھٹنے بڑھنے ، چڑھنے کا سلسلہ دیکھتی رہتی۔ اداس لمبی راتیں بے رس سی زندگی کی مٹھی سے پھسلتی رہتیں۔ ویران دنوں کے ساتھ اس کا رشتہ اور پکا ہوگیا۔
    اکیلی اور اداس کلونت کور تن اور من سے جڑا ساتھی چلا گیا تھا اور وہ ہم عمر دیو ر چیت سنگھ جس سے وہ دو بول سا نجھے کر سکتی تھی۔ اس سے روٹھ گیا تھا۔ خاموشی اور چپ نے اس کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ لیکن اب اس نے خود کو سنبھال لیا تھا۔ زندگی کے راستے پر ڈھلان تو آگئی تھی۔ آگے نہ کوئی موڑ نہ چڑھائی۔ جوانی سے بڑھاپا اور بڑھاپے سے گرم ریت اوبڑکھا بڑ راستے سے ہوتا ہو شمشان کا سفر.... اور بس....
    اس نے اسی ویران دھرتی پر چھوٹے چھوٹے سپنے بولیے۔ آہستہ آہستہ ننگے پاﺅں چلنے کی عادت پڑ گئی۔ تو پائی میں چھبنے والی کرچوں، کانٹوں ، او رکنکر کی نوکوں سے در دہی نہ ہوتا۔ تلوے پنجے اور ایڑیاں سب کا درد سہنے کی عادت ہوگئی تھی۔ صرف ایک چھوٹی انگلی اس کا ساتھ دینے سے ہر راستے پر منکر ہوجاتی تھی۔ اس انگلی میں اب بھی گرم لہو دوڑتا تھا۔ اس میں کانٹے چبھتے تھے۔ سارے پاﺅں سے الگ ہوجاتی تھی۔ یہ انگلی بار بار ایسے موقعے پر کلونت کور کے سارے جسم میں درد جاگ اُٹھتے تھے۔ ایک جھٹکے سے چیت سنگھ سے چھڑائے ہاتھ کو وہ کئی بار ایسے ہی جھٹکتی جیسے خالی نیام اس کے جسم کے ساتھ بیکار جھول رہی ہو۔
    لال شنیل کی تلے والی جوتی ، گلناری پھولوں والا سوٹ اور لال پراندہ پہنا کر وہ اپنی موسی کی بیٹی جتیاں کو لے آئی تھی۔ چیت سنگھ خوش تھا۔ بے حد خوش۔ جتیاں نے آنگن کے سونے پن کو بھر دیا تھا۔ گھر میں پھر خوشبو کا پھیرا تھا۔ آنگن میں گیندے گلاب کے پھول کھلے ، چمپا چمیلی کی کلیوں سے خوشبو بکھر گئی۔ گیندے اور گلاب نے آنگن میں رنگ بھر دیے سارا باغ پریوار تو کلونت کو ر کا تھا۔ کلونت کور ونتا۔
    ونتا توتا ئی تھی۔ اب تائی سارے گاﺅں کی۔ بڑی بوڑھیاں تو اس کا نام بھول گئی تھیں اور دوسری پود کے ہر چھوٹے بڑے اور پیدا ہونے والی کی تائی....
    جتیاں کے دل میں دیور بھابھی کے بیچ کھڑی خاموشی کی دیوار کے بارے میں کئی شک پیدا ہوئے تھے۔ لیکن بھابھی ۔ بس بچوں کی تائی کی سچی لگن، سیوا بچوں سے پیار اور اسے اپنی قربانی دیتے دیکھ کر وہ اپنے دل میں پیدا ہونے والے شکوک کو دل میں ہی پھانسی لٹکا دیتی تھی۔ پھول پودوں اور کلیوں کی تو جتیاں صرف دھرتی تھی جس کی کوکھ سے وہ پیدا ہوئے تھے۔ ان کی مالن تو تائی تھی۔ جس کے بغیر بچے ایک پل بھی نہیں رہتے تھے۔ اس کے دیوتاں نہ کھاتے تھے نہ سوتے تھے۔
    اپنے گھر کو تو کیا سا رے گاﺅں میں دُکھ سُکھ کے وقت تائی ہی پردھان ہوتی۔ گاﺅں کی بیٹیاں، تائی سے ہی اپنے دُکھ کی بات کرتیں۔ رسم و رواجوں ، جھگڑے، جھمیلوں، رشتے ناطوں کے لیے مشورے اور لینے دینے کے سوالوں پر پوچھ تاچھ تائی سے ہی ہوتی۔ دُکھوں کو بانٹنے والی تائی، سکھوں میں صلاح کارتائی کسی کے بچے کا گلا خراب ہوجاتا تو انگوٹھے سے راکھ کی چٹکی لگا کر تائی بچے کے گلے میں کچھ کرتی، کسی کو نظر لگ جائے تو تائی مرچیں نچھاور کرکے”تاتی واﺅ نہ لگئی، کا شبد پڑھ کر نظر کے اثر کو زائیل کرتی۔ کسی بچے کے پیٹ میں در د ہوتا تو ہینگ اور گرم گرم گھی، نرم پتیوں سے ملتی ہوئی”پیدا کرنا تو آتا ہے نہ کڑے۔“ وہ بچے کی ماں کو پیار سے ڈانٹتی۔
    گاﺅں میں آنے والی نئی بیاہی بہو کی ڈولی گوردوارے کے بعد تائی کے دروازے پر رُک کر گھر جاتی تھی۔ چیت سنگھ کی بھوجائی دیوا سنگھ کی نئی نویلی دلہن کو سب بھول گئے تھے۔ تائی کے پاﺅں میں پڑے چھالے پک کر پتھر ہوگئے۔ ایڑیوں کی بیائیوں میں سوراخ پڑ گئے لیکن اس نے کبھی جوتی نہ پہنی۔
    اب .... اب تائی سے چلا بھی نہیں جاتا۔ اس کے پاﺅں تک گئے جسم چور چور ہوچکا.... جتیاں تو پھلدار پیڑ تائی کے حوالے کر کے کب کی پر لوک چلی گئی تھی.... ” تی تیری تو ضرورت تھی۔ میں پھوٹے کرموں والی جنم جلی.... ابھی یہ دیکھنا بھی باقی تھا.... اور تائی کی کمر دوہری ہوگئی۔ چیت سنگھ بھی خاموشی کی دیوار سے آرپار نہ ہوا۔
    اب زندگی کے آخری پڑاﺅ پر اس سے اکیلے نہیں چلا جاتا۔ ہاتھ میں ڈنگوری ہوتے ہوئے بھی اسے گرنے کا ڈر بنا رہتا ہے ۔ چھوٹی سی نالی پار کرنے کے لیے بھی اس کے پاﺅں میں سکت باقی نہ رہی۔اسی لیے مرد کے سہارے کے لیے اس کے منہ سے چیخ نکلی ہے۔
    چیت سنگھ کو اس کی پکار پر ترس بھی آیا.... غصہ بھی.... وہ جھنجھلا یا بھی کانپا بھی ....مجھے تھام لے.... پال ، بیر کے بابو .... نالی پار کرنی ہے۔”اور وہ ہاتھ جنھیں اپنے بل اپنی طاقت پر غرور تھا ، چیت سنگھ نے اپنی طرف جھکا ہوا دیکھا۔
    چیت سنگھ نے منہ اس کے کان کے پاس لے جاکر اونچی آواز میں کہا۔”لے سنبھل کے قدم اُٹھا۔ اور چیت سنگھ نے سوکھا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ لیا۔”سالا! پریوار تو ایک ہے نہ.... تم پر پُر سے در سے.... پر جانا چھوڑ دے نہ .... جان ہے تو جہان ہے نہ....اب تو بس ہی ہے.... اب تو اپنے پیر چتا میں....“
    کلونت کور.... ”ہاں ۔ ہوں۔”کہہ “ کہاں رہا جاتا ہے۔“ دُکھ سُکھ کے وقت .... چلو جب تک چلے۔”جیسے لفظ دہراتی، ہنکارا بھرتی ، چلتی رہی۔ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے پل پل پھیلتے اندھیرے تک، نہر کی پٹری پر، آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے اپنی ماضی کی یاد کرتے چلتے رہے۔
    کلونت کور.... اس نام کو تو سبھی بھول گئے ہیں۔ جیسے یہ نام کبھی وجود میں ہی نہ آیا ہو۔
    تائی کے جسم میں ماضی کی سوئیاں چھبیں اور نہ رکے کنارے کنارے چلتے ہوئے بھی پانی کے ایک گھونٹ کے لیے اس کا گلا سوکھ گیا۔
     

Share This Page