1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نمونہء عمل کون ہے؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از برادر, ‏25 ستمبر 2009۔

  1. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    نمونہٴ عمل,,,,ناتمام…ہارون الرشید


    آدمی ویسے ہی ہونے لگتے ہیں ، جس طرح کے نمونہ ء عمل کو وہ ملحوظ رکھیں۔ اب اگر کسی کے لئے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو ہی مثالی رہنما ہوں تو اس سے کیا امید رکھی جائے؟
    اپنے حکمرانوں سے ہم یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ عمر فاروقِ اعظم ایسے ہو جائیں۔ ان سے تو محمد علی جناح کی پیروی کا مطالبہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ رعایا یا حاکم، عامی یا مقتدر، ایک آدمی اگر مسلمان ہے اور اگر حسنِ عمل کا آرزومند ہے تو وہ کسے قندیل کرے گا،کس کی زندگی پر غور کرے گا اور کس سے اکتسابِ فیض؟
    ٹی وی کے ایک مذاکرے میں ، جب میں نے تاریخ کے چند واقعات کا حوالہ دیا تو وفاقی وزیر نے کہا: یہ گزرے ہوئے زمانوں کے قصّے ہیں اور زندگی بدلتی رہتی ہے ۔ وہ ایک منکسر آدمی ہے لیکن اس کے قول پر حیرت ہوئی اور میں نے اس سے پوچھا کہ کیا چیز بدل گئی ہے ۔ ہماری زمین یا اس پر تنا ہوا آسمان؟ کیا انسانی جبلّتیں بدل گئی ہیں یا آدمی کی ضروریات؟ زندگی وہی ہے اور دائم ویسی ہی رہے گی۔ آدمی کو امن درکار ہے اور عدل۔ اسے بھوک لگتی ہے اور وہ تحفظ کا آرزومند ہوتا ہے ۔ دائم اسے عادل اور مضبوط حکمرانوں کی احتیاج رہتی ہے جو اقدار اور اصولوں کے پابند ہوں، جو محتاجوں ، مفلسوں اور ستائے ہوؤں کا درد محسوس کر سکیں۔ نیا زمانہ کیا ہے ؟ کمپیوٹر؟ بجلی کا بلب؟ ہوائی جہاز؟ پارلیمنٹ اور جمہوریت؟ جب ہم گزرے ہوئے زمانوں کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں ٹیپو سلطان ایسے حکمران بھی نظر آتے ہیں جو جنگوں اور وباؤں میں اپنی غیر مسلم رعایا کے لیے نہریں کھدوانے کے لئے فکر مند ہوتے تھے۔ محتاجوں کو غیر سودی قرضے دیتے اور خطا کا ارتکاب کرنے والوں کو معاف کردیتے تھے ۔ پھر ہم تیمور ایسے سفاک قاتلوں کو دیکھتے ہیں جو اطاعت قبول نہ کرنے والے بلادِ شام کے مسلمانوں کو "حربی کافر"قرار دیتا اور کھوپڑیوں کے مینار بناتا تھا۔ تاریخ کے اوراق پر ہمیں سپین کا عبدالرحمٰن الداخل نظر آتا ہے جو خانہ جنگی کے مارے معاشرے میں امن و قرار کے لئے مضطرب تھا اور جسے کسانوں کی فکر لاحق تھی کہ آب رسانی کے ذرائع مربوط نہیں اور ٹیکس کی شرح زیادہ ہے ۔ مینارِ نور کی طرح صلاح الدین ایوبی ہے کہ بیت المقدس کی تسخیر کے دن بڑھیا اپنے بیٹے کے لئے روئی کہ جزیہ ادا نہ کر سکتی تھی۔ سلطان کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ اپنی جیب سے اس نے جزیہ ادا کیا۔ دوسروں کے لیے وہ ایک مثال بنا اور امرا نے خزانوں کے منہ محتاجوں کے لئے کھول دئیے۔ ٹھیک اس وقت یروشلم کا پادری خچروں پر خزانہ لادے ہوئے گزرا اور اس نے پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ چھ صدیوں کے بعد ہیرالڈیم نے اس عظیم فاتح کو خراجِ تحسین پیش کر تے ہوئے لکھا: بادشاہ نہیں وہ ایک ولی تھا کہ انسانی تاریخ سخاوت اور عفو و درگزر کی ایسی کوئی مثال پیش نہیں کرتی۔ اس جملے پر غور کرتے ہوئے ، ہمیشہ یہ خیال آیا کہ مغربی مورخ نے فتح مکّہ کا باب نہ پڑھا ہوگایا شاید تب وہ اسے متسخصر نہ ہو وگرنہ وہ یہ بات کبھی نہ کہتا۔
    امام ابنِ جوزی نے اپنی کتاب "رشیدالاحباب الیٰ مناقب عمر ابن خطابرضی اللہ عنہ میں لکھا ہے : حضرت عوف بن حارث اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قحط پڑا اور سنگین قحط ۔ اس زمانے کو عام الرّمادہ یعنی قحط کا سال کہا گیا۔ بارش سے مسلسل محرومی کے سبب زمین جل کر سیاہ ہو گئی اور راکھ ایسی لگتی تھی۔ اذیت ناک قحط کا یہ زمانہ نو ماہ پر محیط تھا۔ ابنِ اسعد کہتے ہیں کہ قحط کے اس زمانے میں عمر فاروقِ اعظم نے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں خربوزہ دیکھا تو کہا: اے امیرالمومنین کے فرزند، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھوکوں مر رہی ہے اورتو خربوزے کھاتاہے ؟ خربوزہ پکڑے، لڑکا روتا ہوا بھاگا تو ان سے عرض کیا گیا کہ یہ تو اس نے مٹھی بھر کھجوروں کی گٹھلیاں دے کر خریدا ہے ، تب آنجناب نے اسے خربوزہ کھانے دیا۔ یحییٰ بن سعد کہتے ہیں کہ فاروقِ اعظم کی اہلیہ نے قحط سالی کے زمانے میں تین صاع گھی آپ کے لئے خریدا۔ آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے ؟ کہا: یہ گھی میں نے آپ کے خرچ یعنی سرکاری وظیفے سے نہیں، اپنے پیسوں سے خرید کیاہے ۔ ایک لمحہ تامّل کے بغیر اس پر انہوں نے کہا" جب تک عام مسلمانوں کو خوش حالی میّسر نہیں آتی، میں ہرگز اسے نہ چکھوں گا"
    حضرت ابو ملیکہ حضرت محذرہ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے کہ صفوان بن امیہ کھانے کا ایک بہت بڑا پیالہ لے کر آئے ، جسے چار آدمیوں نے اٹھا رکھا تھا۔ یہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ گردوپیش سے آپ نے تنگ دست اور غریب لوگوں کو جمع کیا او ران سب نے آپ کے ساتھ مل کر کھایا۔ اس موقع پر آپ نے کہا: اللہ ان لوگوں کو غرق کر دے جو مفلسوں اور معمولی لوگوں کے ساتھ کھانے سے احتراز کرتے ہیں۔
    جناب عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے : قحط سالی کے دوران میں نے انہیں دیکھا کہ آپ کا رنگ سیاہ ہو چکا ہے ، حالانکہ گورے چٹے تھے۔ وہ گھی اور دودھ کے عادی تھے لیکن قحط پڑا تو معمولی خوراک کے سوا سب کچھ ترک کر دیا، حتی ٰکہ چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ اکثر وہ فاقہ سے رہتے۔ آپ کے غلام جناب اسلم فرماتے ہیں: اکثر ہم کہا کرتے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے قحط سالی دور نہ کی ہوتی تو عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے غم میں اللہ کو پیارے ہو جاتے۔ عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ شدید قحط کے زمانے میں آپ دیہی علاقوں کو گندم اور زیتون کے تیل کی فراہمی کے لیے بے قرار رہتے۔ اس کوشش میں زرخیز علاقوں میں بھی اناج کے ذخائر ختم ہو گئے تو عمر بارگاہِ الٰہی میں کھڑے ہوئے اور دعا کی "اللّھم ارزقھم علیٰ رؤس الجبال"اے اللہ انہیں پہاڑوں سے رزق عطافرما۔ بارش برسی اور جل تھل ہوگیا۔
    فضل بن عمیرہ سے روایت ہے کہ احنف بن قیس عراقی وفد کے ہمراہ مدینہ پہنچے تو گرمی زوروں پہ تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ عمر سر پہ چادر لپیٹے بیت المال کے اونٹوں کو تیل کی مالش کر رہے تھے ۔ احنف کی طرف عالی جناب متوجہ ہوئے اور کہا: آؤ ، اس ایک اونٹ کی مالش کر کے امیرالمومنین کی مدد کرو۔ یہ بیت المال کے اونٹ ہیں۔ اس میں یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کا حق ہے ۔ وفد کے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: امیر المومنین آپ بیت المال کے غلاموں میں سے ، کسی غلام کو حکم کیوں نہیں دیتے کہ وہ یہ کام نمٹا دے۔ جواب ملا: بھائی ، مجھ سے اور احنف سے بڑھ کر اور کون غلام ہے ۔
    بہت دن بعد ، خوش حالی کے زمانے میں ، ایک روز تہجد کی نماز سے فارغ ہوئے تو کسی سے کہا:بھائی! اٹھو نماز پڑھو، واللہ میرا حال تو یہ ہے کہ اب میں سو نہیں سکتا اور یکسوئی سے نماز بھی نہیں پڑھ سکتا۔ میں کوئی سورة پڑھنا شروع کرتا ہوں تو بھول جاتا ہوں کہ شروع سے پڑھ رہا تھا یا آخر سے۔ عرض کیا گیا: امیر المومنین ایسا کیوں ہے ؟ فرمایا: جب سے دولت کی فراوانی مسلمانوں کو حاصل ہوئی ، میں ان کے لئے فکر میں مبتلا رہتا ہوں۔
    یہ وہ حکمران تھے جو آنے والے زمانوں کے لیے مثال بنے۔ برطانیہ میں سوشل سیکیورٹی سسٹم کے معمار نے کہا تھا کہ اس نے یہ تصور عمر ابن خطاب کی سوانح سے اخذکیا تھااور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ سکینڈے نیویا کے ممالک میں عوامی تحفظ کے اس قانون کو" عمر لاء" کہا جاتاہے ۔ آدمی ویسے ہی ہونے لگتے ہیں ، جس طرح کے نمونہ ء عمل کو وہ ملحوظ رکھیں۔ اب اگر کسی کے لئے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو ہی مثالی رہنما ہوں تو اس سے کیا امید رکھی جائے؟ کیا آپ ان علماء کو نہیں دیکھتے جو سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کی بجائے دائم اپنے اساتذہ اور شیوخ کے ذکر میں مبتلا رہتے ہیں ۔۔۔ ان کا کردار کیسا ہوتا ہے ؟


    جنگ 25ستمبر 2009 کے ادارتی صفحہ پر شائع ہوا کالم۔
     
  2. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    برادر بھائی شکریہ فکر انگیز مضمون پیش کیا ! نہ جانے آج کا انسان سیدھی سادی باتوں کو اتنا پیچیدہ اور گھمبیر کیوں بنائے چلا جا رہا ہے سائنسی ترقی کے نام پر مادی چیزوں سے محبت اور انسانیت سے نفرت کا بیج بونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی اللہ تعالی ہمیں ہدایت کی راہ پر رکھے آمین
     
  3. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    بہت شکریہ برادر
    ہارون الرشید کے کالم بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن درویشانہ ہوتے ہیں
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    برادر بھائی ۔ اتنی فکر انگیز تحریر کے لیے بہت شکریہ ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں