غوریات کوئی جو ہر لمحہ خوابیدہ تھا کوئی جو دل کو پسندیدہ تھا ایک گلاب جو دامن دریدہ تھا دز دِیدہ نگاھی کا گرویدہ تھا اب آنکھیں دکھانے لگ گیا ہے اب آنکھیں چرانے لگ گیا ہے بات سے بات بنانے لگ گیا ہے نت نئے بہانے بنانے لگ گیا ہے اپنے احسان جتانے لگ گیا ہے اپنے نخرے دکھانے لگ گیا ہے یہی موقع ہے خود کو بچا لو بدطینت مرد سے پلو چھڑا لو خودی کا کبھی سودا نہ کرنا خوشنودی کو پاؤں تلے رکھنا ہنسنا اور ہمیشہ مسکراتے رہنا جینا اور جی بھر کے جیتے رہنا جسے چاہا اس کو اپنا بناکے رہنا پھر عمر بھر اسے ہی چاہتے رہنا غوری 3 مئی 21