1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ناشکری

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏2 جون 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کرنے کی بجائے تکبر اور غرور کرنا شروع کردے اور آخرت کوبھول جائے تو ایسی قوم کے مال و دولت کو اللہ تعالیٰ تباہ و برباد کرکے عذاب سے دوچار کردیتے ہیں۔ سورہٴ کہف میں اللہ تعالیٰ نے دو آدمیوں کا واقعہ بیان فرمایا ہے :
    ﴿وَاضرِ‌ب لَهُم مَثَلًا رَ‌جُلَينِ جَعَلنا لِأَحَدِهِما جَنَّتَينِ مِن أَعنـٰبٍ وَحَفَفنـٰهُما بِنَخلٍ وَجَعَلنا بَينَهُما زَر‌عًا ٣٢ كِلتَا الجَنَّتَينِ ءاتَت أُكُلَها وَلَم تَظلِم مِنهُ شَيـًٔا ۚ وَفَجَّر‌نا خِلـٰلَهُما نَهَرً‌ا ٣٣ وَكانَ لَهُ ثَمَرٌ‌ فَقالَ لِصـٰحِبِهِ وَهُوَ يُحاوِرُ‌هُ أَنا۠ أَكثَرُ‌ مِنكَ مالًا وَأَعَزُّ نَفَرً‌ا٣٤وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظالِمٌ لِنَفسِهِ قالَ ما أَظُنُّ أَن تَبيدَ هـٰذِهِ أَبَدًا ٣٥ وَما أَظُنُّ السّاعَةَ قائِمَةً وَلَئِن رُ‌دِدتُ إِلىٰ رَ‌بّى لَأَجِدَنَّ خَيرً‌ا مِنها مُنقَلَبًا ٣٦ قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُ‌هُ أَكَفَر‌تَ بِالَّذى خَلَقَكَ مِن تُر‌ابٍ ثُمَّ مِن نُطفَةٍ ثُمَّ سَوّىٰكَ رَ‌جُلًا ٣٧ لـٰكِنّا۠ هُوَ اللَّهُ رَ‌بّى وَلا أُشرِ‌كُ بِرَ‌بّى أَحَدًا ٣٨ وَلَولا إِذ دَخَلتَ جَنَّتَكَ قُلتَ ما شاءَ اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلّا بِاللَّهِ ۚ إِن تَرَ‌نِ أَنا۠ أَقَلَّ مِنكَ مالًا وَوَلَدًا ٣٩ فَعَسىٰ رَ‌بّى أَن يُؤتِيَنِ خَيرً‌ا مِن جَنَّتِكَ وَيُر‌سِلَ عَلَيها حُسبانًا مِنَ السَّماءِ فَتُصبِحَ صَعيدًا زَلَقًا ٤٠ أَو يُصبِحَ ماؤُها غَورً‌ا فَلَن تَستَطيعَ لَهُ طَلَبًا ٤١ وَأُحيطَ بِثَمَرِ‌هِ فَأَصبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيهِ عَلىٰ ما أَنفَقَ فيها وَهِىَ خاوِيَةٌ عَلىٰ عُر‌وشِها وَيَقولُ يـٰلَيتَنى لَم أُشرِ‌ك بِرَ‌بّى أَحَدًا ٤٢...... سورة الكهف
    "مثال بیان کرو ان کے لئے دو آدمیوں کی: ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عطا فرمائے، ان کے ارد گرد کھجور کی باڑ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی۔ دونوں باغ پھلے پھولے اور پھل دینے میں انہوں نے ذرّہ سی بھی کسر نہ چھوڑی۔ ان باغوں کے اندر ہم نے ایک نہر جاری کردی اور اس سے خوب نفع حاصل ہوا۔
    یہ سب کچھ پاکر ایک دن وہ اپنے ساتھی سے کہنے لگا کہ میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری بھی رکھتا ہوں۔ پھر وہ اپنے باغ میں داخل ہوا اور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کر کہنے لگا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہوجائے گی اور مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی۔ تاہم اگرمجھے کبھی اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیا تو ضرور اس سے زیادہ شاندار جگہ پاؤں گا۔ اس کے ساتھی نے اس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا :کیا تو اس ذات کے ساتھ شکر کی بجائے کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے اور پھرنطفے سے پیدا کیا اورتجھے ایک پورا آدمی بنا کر کھڑا کیا۔ میرا ربّ تو وہی اللہ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہو رہاتھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا ماشاء اللہ لاقوة إلا باللہ!
    اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر پارہا ہے تو بعید نہیں کہ میرا ربّ تیرے باغ سے بہتر مجھے عطا فرما دے اور تیرے باغ پر آسمان سے کوئی آفت بھیج کر اسے تباہ و برباد کردے جس سے وہ صاف میدان بن کر رہ جائے یا اس کا پانی زمین میں اُتر جائے اور پھر تو کسی طرح نہ نکال سکے ۔
    آخر کار یہ ہوا اس کا سارا پھل مارا گیا اور وہ اپنے انگور کے باغ کو ٹٹیوں پر اُلٹا پڑا دیکھ کر اپنی لگائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا۔"
    حضرت شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں کہ آخر اس کے باغ کا وہی حال ہوا جو اس کے نیک بھائی کی زبان سے نکلا تھا کہ رات کو آگ لگ گئی، آسمان سے سب جل کر راکھ کا ڈھیر ہوگیا جو مال خرچ کیا تھا، دولت بڑھانے کو، وہ اصل بھی کھو بیٹھا۔ (موضح القرآن)
    اس واقعہ سے مندرجہ ذیل چار باتیں معلوم ہوتی ہیں :
    1۔ دنیوی نعمتیں دو گھڑی کی دھوپ اور چار دن کی چاندنی ہیں، ناپائیدار اور فانی ہیں۔ پس عقل مند وہ ہے جوان پر گھمنڈ نہ کرے اور ان کے بل بوتے پر اللہ کی نافرمانی پر آمادہ نہ ہوجائے اور تاریخ کے وہ اوراق ہمیشہ پیش نظر رکھے جن کی آغوش میں فرعون، نمرود، ثمود اور عاد کی قاہرانہ طاقتوں کاانجام آج تک محفوظ ہے :
    ﴿سير‌وا فِى الأَر‌ضِ فَانظُر‌وا كَيفَ كانَ عـٰقِبَةُ المُجرِ‌مينَ ٦٩..... سور النمل
    "زمین کی سیر کرو اور پھر دیکھو کہ نافرمانوں کا کیا انجام ہوا!"
    2۔ حقیقی اور دائمی عزت ایمان اور عمل صالح سے میسر ہوتی ہے، مال و دولت اور حشمت ِدنیوی سے حاصل نہیں ہوتی۔قریش مکہ کو مال و دولت، ثروت و سطوت حاصل تھی ،مگر بدر کے میدان میں ان کے انجامِ بد اور دین و دنیا کی رسوائی کو کوئی روک نہ سکا۔ جبکہ مسلمان ہمہ قسم کے سامانِ عیش سے محروم تھے مگر ایمان باللہ اور عمل صالح نے جب ان کو دینی و دنیوی عزت و حشمت عطا کی تو اس میں کوئی حائل نہ ہوسکا :
    ﴿وَلِلَّهِ خَزائِنُ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضِ وَلـٰكِنَّ المُنـٰفِقينَ لا يَفقَهونَ ٧...... سورة المنافقون
    " حقیقی عزت اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے لئے ہی ہے مگر منافقین اس حقیقت سے ناآشنا ہیں۔"
    ۳۔ موٴمن کی شان یہ ہے کہ اگر اس کو اللہ تعالیٰ نے دنیاکی نعمتوں سے نوازا ہے تو غرور اور تکبر کی بجائے درگاہِ حق میں جبیں نیاز جھکا کر اعترافِ نعمت کرے اور دل و زبان سے دونوں سے اقرار کرے کہ خدایا اگر تو یہ عطا نہ فرماتا تو ا ن کا حصول میری اپنی قوت و طاقت سے باہر تھا۔ یہ سب تیرے ہی عطا و نوال کاصدقہ ہے :
    ﴿وَلَولا إِذ دَخَلتَ جَنَّتَكَ قُلتَ ما شاءَ اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلّا بِاللَّهِ......٣٩﴾..... سورة الكهف
    "اور اپنے باغ میں داخل ہوتے وقت تو نے یوں کیوں نہ کہا کہ وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔"
    صحیح حدیث میں ہے کہ لاحول ولا قوة الا باللہ جنت کے پوشیدہ خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے کہ بندہ اعتراف کرے کہ بھلائی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر نہ ممکن ہے یعنی جس شخص نے زبان سے اقرار اور دل سے اس حقیقت کااعتراف کرلیا گویا کہ اس نے جنت کے مستور خزانوں کی کنجی حاصل کرلی۔
    اس کے برعکس کافر کی حالت یہ ہے کہ اس کو جب دولت و ثروت اور جاہ و جلال میسر آجائے تو وہ خودی میں آکر مغرور ہوجاتا ہے اورجب اسے خدا کا کوئی نیک بندہ سمجھتا ہے کہ یہ سب اللہ کا فضل و کرم ہے، اس کا شکر کر تو وہ اکڑ کر کہتا ہے:﴿إِنَّما أوتيتُهُ عَلىٰ عِلمٍ عِندى﴾
    کہ "یہ خدا کا دیا ہوا نہیں بلکہ میری اپنی دانائی اور علم و ہنر کا نتیجہ ہے۔"
    موٴمن اور کافر کو اللہ کی طرف سے بھی الگ الگ جواب ملتا ہے جسے اس طرح بیان کیا گیا ہے :
    ﴿أَيَحسَبونَ أَنَّما نُمِدُّهُم بِهِ مِن مالٍ وَبَنينَ ٥٥ نُسارِ‌عُ لَهُم فِى الخَير‌ٰ‌تِ ۚ بَل لا يَشعُر‌ونَ ٥٦ إِنَّ الَّذينَ هُم مِن خَشيَةِ رَ‌بِّهِم مُشفِقونَ ٥٧ وَالَّذينَ هُم بِـٔايـٰتِ رَ‌بِّهِم يُؤمِنونَ ٥٨ وَالَّذينَ هُم بِرَ‌بِّهِم لا يُشرِ‌كونَ ٥٩وَالَّذينَ يُؤتونَ ما ءاتَوا وَقُلوبُهُم وَجِلَةٌ أَنَّهُم إِلىٰ رَ‌بِّهِم ر‌ٰ‌جِعونَ ٦٠ أُولـٰئِكَ يُسـٰرِ‌عونَ فِى الخَير‌ٰ‌تِ وَهُم لَها سـٰبِقونَ ٦١
    .... سورة المومنون
    "کیا (یہ کافر) لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم مال اور اولاد سے اس لئے ان کی امداد کر رہے ہیں کہ بھلائی پہنچانے میں سرگرمی دکھائیں ، نہیں مگر وہ شعور نہیں رکھتے (کہ ان کے بارے میں حقیقت حال دوسری ہے یعنی قانونِ مہلت کام کر رہا ہے) اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں، اس کی نشانیوں پریقین رکھتے ہیں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، اس کی راہ میں جو کچھ دے سکتے ہیں، بلا تامل دیتے ہیں اور پھر بھی ان کے دل ترساں رہتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے حضور لوٹنا ہے تو بلا شبہ یہ لوگ ہیں جوبھلائیوں میں تیزگام ہیں اور یہی ہیں جو اس راہ میں سب سے آگے نکل جانے والے ہیں۔"
    ۴۔ سعید وہ ہے جو انجام سے قبل حقیقت ِانجام کو سوچ لے اور انجام کار سعادت ِابدی و سرمدی پائے اور شقی وہ ہے جو انجام پر غور کئے بغیر غرور و نخوت کا اظہار کرے اور انجامِ بد دیکھنے کے بعد ندامت وحسرت کا اِقرار کرے اور اس وقت یہ ندامت و حسرت اس کے کچھ کام نہ آئے ۔ چنانچہ اس واقعہ میں بھی منکر کو وہی شقاوت پیش آئی :
    ﴿وَأُحيطَ بِثَمَرِ‌هِ فَأَصبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيهِ عَلىٰ ما أَنفَقَ فيها وَهِىَ خاوِيَةٌ عَلىٰ عُر‌وشِها وَيَقولُ يـٰلَيتَنى لَم أُشرِ‌ك بِرَ‌بّى أَحَدًا ٤٢ ﴾.... سورة الكهف
    "آخر کار ہوا یہ کہ اس کا سارا پھل مارا گیا اوروہ اپنے انگور کے باغ کوٹٹیوں پر اُلٹا پڑا دیکھ کر اپنی لگائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور کہنے لگا، کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا"
    اور یہی روزِ بد فرعون کو دیکھنا پڑا کہ وقت گزرنے کے بعد اس نے کہا: اگر عذاب کے مشاہدے سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کی نصیحت مان لیتا تو اس دردناک عذاب کی لپیٹ میں نہ آتا:
    ﴿حَتّىٰ إِذا أَدرَ‌كَهُ الغَرَ‌قُ قالَ ءامَنتُ أَنَّهُ لا إِلـٰهَ إِلَّا الَّذى ءامَنَت بِهِ بَنوا إِسر‌ٰ‌ءيلَ وَأَنا۠ مِنَ المُسلِمينَ ٩٠ ءالـٔـٰنَ وَقَد عَصَيتَ قَبلُ وَكُنتَ مِنَ المُفسِدينَ ٩١..... سورة يونس
    "یہاں تک کہ جب وہ (فرعون) غرقاب ہونے لگا تو اس نے کہاکہ میں اقرار کرتا ہوں کہ کوئی الٰہ نہیں سوائے اس ذات کے جس پربنواسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوتا ہوں، اللہ کی طرف سے جواب آیا اور اس سے پہلے تو نافرمانی کرتا رہا اور فسادیوں میں سے تھا۔"
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    قارون کا قصہ کبر ونخوت:
    قارون کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کے خزانے وافر مقدار میں عطا فرمائے تھے، اس کے خزانوں کی چابیاں اٹھانے کے لئے قوی ہیکل مزدوروں کی جماعت درکار تھی۔ اس تمول اور سرمایہ داری نے اس کو بے حد مغرور کردیا تھا اور وہ دولت کے نشہ میں اس قدر چور تھا کہ اپنے عزیزوں،قرابت داروں اور قوم کے افراد کو حقیر و ذلیل سمجھتا اور ان کے ساتھ حقارت سے پیش آتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم نے ایک مرتبہ ان کو نصیحت کی کہ
    "اللہ تعالیٰ نے تجھے بے شمار دولت و ثروت بخشی اور عزت و حشمت عطا فرمائی ہے۔لہٰذا اس کا شکر کر اور مالی حقوق زکوٰة و صدقات دے کر غربا ، فقرا اور مساکین کی مدد کر، خدا کو بھول جانا اور اس کے اَحکام کی خلاف ورزی کرنا اَخلاق و شرافت دونوں لحاظ سے سخت ناشکری اور سرکشی ہے۔ اس کی دی ہوئی عزت کا صلہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ تو کمزوروں اور ضعیفوں کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگے اور تکبر و غرور میں غریبوں اور عزیزوں کے ساتھ نفرت سے پیش آئے۔ "
    قارون کے جذبہ انانیت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نصیحت پسند نہ آئی اور اس نے مغرورانہ انداز میں جناب موسیٰ علیہ السلام سے کہا: موسیٰ یہ میری دولت و ثروت تیرے خدا کی عطا نہیں ہے، یہ تو میرے عقلی تجربوں اور عملی کاوشوں اور ہنرمندی کا نتیجہ ہے :﴿إِنَّما أوتيتُهُ عَلىٰ عِلمٍ عِندى﴾، میری تیری نصیحت مان کر اپنی دولت کو اس طرح برباد نہیں کرسکتا۔ مگر موسیٰ علیہ السلام برابر اپنے فریضہ تبلیغ کو سرانجام دیتے رہے اور قارون کو راہِ ہدایت دکھاتے رہے۔
    قارون نے جب یہ دیکھا کہ موسیٰ کسی طرح پیچھا نہیں چھوڑتے تو ان کو زِچ کرنے اور اپنی دولت و حشمت اور ظاہری چمک و دمک، ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کروفر اور جاہ و جلال کے مظاہر سے مرعوب کرنے کے لئے ایک دن بڑے متکبرانہ انداز کے ساتھ نکلا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے مجمع میں پیغامِ الٰہی سنا رہے تھے کہ قارون ایک بڑی جماعت کے ساتھ خاص شان و شوکت میں خزانوں کی نمائش کرتے ہوئے سامنے سے گزرا ، اشارہ یہ تھا کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو میں بھی ایک جتھا رکھتاہوں اور زرو جواہر کا بھی مالک ہوں لہٰذا ان دونوں ہتھیاروں کے ذریعے موسیٰ علیہ السلام کوشکست دے کر رہوں گا۔
    بنی اسرائیل نے جب قارون کی اس دنیوی ثروت و عظمت کو دیکھا تو ان میں سے کچھ آدمیوں کے دلوں میں انسانی کمزوری نے جذبہ پیدا کیا اور وہ بے چین ہو کر یہ دعا کرنے لگے: اے کاش! یہ دولت و ثروت ہم کو بھی حاصل ہوتی مگر بنی اسرائیل کے اربابِ حل و عقد نے فوراً مداخلت کی اور ان سے کہنے لگے کہ خبردار اس دنیوی زیب و زینت پر نہ جانا اور اس کے لالچ میں گرفتار نہ ہو بیٹھنا تم عنقریب دیکھو گے، اس مال و دولت کا انجام کیسا ہونے والا ہے؟ آخر کار جب قارون نے کبرونخوت کے خوب مظاہرے کرلئے اور حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے مسلمانوں کی تحقیر و تذلیل میں حد درجہ زور صرف کرلیا تو اب غیرتِ حق حرکت میں آئی اور پاداشِ عمل کے فطری قانون نے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور قارون اور اس کی دولت پر خدا کا یہ اٹل فیصلہ ناطق کردیا : ﴿فَخَسَفنا بِهِ وَبِدارِ‌هِ الأَر‌ضَ﴾ "ہم نے قارون اور اس کے سرمایہ کو زمین کے اندر دھنسا دیا" اور بنی اسرائیل کے سامنے اس کا غرور باقی رہا، نہ سامانِ غرور سب کو زمین نے نگل کر سامانِ عبرت بنا دیا۔ قرآنِ حکیم نے اس واقعہ کو سورئہ قصص میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔
    ان دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ مال و دولت کے ملنے پرشکر کے بجائے اگر تکبر و غرور کیاجائے تو اللہ وہ مال و دولت اور رزق کی فروانی کو تباہ و برباد کرکے اپنا عذاب مسلط کردیتے ہیں۔ ﴿فَاعتَبِر‌وا يـٰأُولِى الأَبصـٰرِ‌﴾
    جو قوم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرنے کی بجائے ناشکری کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے وہ نعمتیں چھین کر انہیں مختلف طرح کے مصائب و آلام میں مبتلا کردیتے ہیں۔ قرآنِ میں اللہ نے فرمایا
    ﴿وَضَرَ‌بَ اللَّهُ مَثَلًا قَر‌يَةً كانَت ءامِنَةً مُطمَئِنَّةً يَأتيها رِ‌زقُها رَ‌غَدًا مِن كُلِّ مَكانٍ فَكَفَرَ‌ت بِأَنعُمِ اللَّهِ فَأَذ‌ٰقَهَا اللَّهُ لِباسَ الجوعِ وَالخَوفِ بِما كانوا يَصنَعونَ ١١٢﴾.... سورة النحل
    "اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال دیتا ہے، وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو وافر رزق پہنچ رہاتھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کردیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزہ چکھایا کہ خوف اوربھوک کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں"
    اس سے معلوم ہوا کہ جو قوم کفرانِ نعمت کا راستہ اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ کے اَوامر و نواہی سے پہلوتہی کرے ، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کے دروازے بندکردیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ گناہوں کی وجہ سے اپنی نعمتیں سلب کرلیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مسحتق بننے کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔
    قرآن حکیم نے قومِ سبا پر اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس قوم پر اللہ تعالیٰ نے بے شمار اور لامحدود انعام و اکرام کئے۔ دنیوی سج دھج، کروفر اور مال و زر کی کثرت کی وجہ سے انہیں ہمہ قسم کی نعمتیں میسر تھیں اور ان تمام چیزوں پر مستزادیہ تھا کہ یمن سے شام تک جس شاہراہ پر اہل سبا کے تجارتی قافلوں کی آمد و رفت تھی، اس کے دونوں جانب حسین و جمیل باغات اور خوشبودار درختوں کا سایہ تھا اور قریب قریب فاصلہ پر ان کے سفر کو آرام دہ بنانے کے لئے کاروان سرائے بنی ہوئیں تھی جو شام کے علاقہ تک ان کو اس آرام کے ساتھ پہنچاتی تھیں کہ پانی، میوؤں اور پھلوں کی کثرت یہ بھی محسوس نہیں ہونے دیتی تھی کہ وہ اپنے وطن میں ہیں یا دشوار گزار سفر میں حتیٰ کہ جب خوش گوار سایہ اور راحت بخش ہوا میں ان کا کارواں سراؤں میں ٹھہرتا، پرلطف میوے اور تازہ پھل کھاتا، ٹھنڈا اور میٹھا پانی پیتا ہوا حجاز اور شام تک آمدورفت رکھتا تو ہمسایہ قومیں رشک و حسد سے ان پر نگاہیں اٹھاتیں اور تعجب و حیرت کے ساتھ ان کی اس عیش و عشرت پرانگشت بدنداں ہوجاتی تھیں۔ قرآنِ حکیم کی ان آیات میں قوم سبا کی خوشحالی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
    ﴿لَقَد كانَ لِسَبَإٍ فى مَسكَنِهِم ءايَةٌ ۖ جَنَّتانِ عَن يَمينٍ وَشِمالٍ ۖ كُلوا مِن رِ‌زقِ رَ‌بِّكُم وَاشكُر‌وا لَهُ ۚ بَلدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَ‌بٌّ غَفورٌ‌ ١٥ ﴾.....
    سورة سبا
    "بلاشبہ اہل سبا کے لئے ان کے وطن میں قدرتِ الٰہی کی عجیب و غریب نشانی تھی۔ دو باغوں کا (سلسلہ) دائیں بائیں (اور اللہ نے ان کو فرما دیا تھا) کہ اے سبا والو! اپنے پروردگار کی جانب سے بخشی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر کرو، شہر ہے پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشنے والا"چنانچہ اہل سبا ایک عرصہ تک تو اس جنت ارضی کو اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمت ہی سمجھتے رہے اور حلقہ بگوش اسلام رہتے ہوئے اَحکام الٰہی کی تعمیل اپنا فرض سمجھتے رہے لیکن دنیوی ٹھاٹھ باٹھ اور عیش و عشرت نے ان میں بھی وہی بداخلاقی اور کردارپیدا کردیئے جو ان کی پیشرو متکبر اور مغرور قوموں میں موجود تھے حتی کہ حالت یہاں تک جا پہنچی کہ انہوں نے دین حق کو بھی خیرباد کہہ دیا اور کفر و شرک کی سابقہ زندگی کو پھر اپنا لیا، تاہم ربّ ِغفور نے فوراً گرفت نہیں کی بلکہ اس کی وسعت ِرحمت نے قانونِ مہلت سے کام لیااور انبیاء نے ان کو راہِ حق کی تلقین فرمائی اور بتایا کہ ان نعمتوں کا مطلب یہ نہیں کہ تم دولت و ثروت اور جاہ و جلال کے نشہ میں مست ہوجاؤ اور نہ یہ کہ اخلاقِ کریمانہ کو چھوڑ بیٹھو اور کفر وشرک اختیار کرکے خدا کے ساتھ بغاوت کا اعلان کردو۔ سوچو اور غور کرو کہ یہ بری راہ ہے اور اس کا انجام نہایت خطرناک ہے۔
    ابن منبہ کے حوالے سے محمد بن اسحق بیان کرتے ہیں کہ خوشحالی کے ان دنوں میں ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے تیرہ نبی فریضہ رسالت ادا کرنے آئے مگر انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی اور اپنی موجودہ خوشی اور عیش کو دائمی سمجھ کر کفروشرک کی بدمستیوں میں مبتلا رہے۔ بالآخر تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری کی بدولت ان کا انجام بھی وہی ہوا جو گذشتہ زمانہ میں اللہ کی نافرمان قوموں کا ہوتا ہے اور اللہ نے ان پر دو طرح کے عذاب مسلط کردیئے :
    پہلی سزا: سیل عرم، جس کی بدولت ان کے جنت نظیر باغات برباد ہوگئے اور ان کی جگہ جنگلی بیریاں، خاردار درخت اور پیلو کے درخت اُگ کر یہ شہادت دینے اور عبرت کی کہانی سنانے لگے کہ خدا کی پیہم نافرمانی اور سرکشی کرنے والی اَقوام کا یہی حشر ہوتا ہے۔ چنانچہ ہوا یہ کہ وہ ڈیم جس کی تعمیر پر ان کو بڑا فخر و ناز تھا اور جس کی بدولت ان کے دارالحکومت کے دونوں جانب تین سو مربع میل تک خوب صورت اور حسین باغات اور سرسبز و شاداب کھیتوں اور فصلوں سے چمن گلزار بنا ہوا تھا، وہ ڈیم خدا کے حکم سے ٹوٹ گیا اور اچانک اس کا پانی زبردست سیلاب بن کر وادی میں پھیل گیا اور مآرب اور اس کے تمام حصہ زمین پرجہاں یہ راحت بخش باغات تھے، چھا گیا اور ان سب کو غرقاب کرکے برباد کردیااور جب پانی آہستہ آہستہ خشک ہوگیا تو اس پورے علاقے میں باغوں کی جنت کی جگہ پہاڑوں کے دونوں کناروں سے وادی کے دونوں جانب جھاؤ کے درختوں کے جھنڈ، جنگلی بیروں کے درخت اور پیلو کے درختوں نے لے لی جن کا پھل بدذائقہ تھا۔ اور خدا کے اس عذاب کو اہل مآرب اور قومِ سبا کی کوئی قوت و سطوت نہ روک سکی اور فن تعمیر اور انجینئرنگ کے کمال بھی ان کے کام نہ آئے او ر قوم سبا کے لئے اس کے سوا کوئی چارہٴ کار باقی نہ رہا کہ اپنے وطن مألوف اور بلدہٴ طیبہ مآرب اور نواح کو چھوڑ کر منتشر ہوجائیں۔ قرآن حکیم نے اس عبرت ناک واقعہ کو بیان کرکے دیدہ نگاہ اور بیدار قلب انسان کو نصیحت کا یہ سبق سنایا ہے :
    ﴿فَأَعرَ‌ضوا فَأَر‌سَلنا عَلَيهِم سَيلَ العَرِ‌مِ وَبَدَّلنـٰهُم بِجَنَّتَيهِم جَنَّتَينِ ذَواتَى أُكُلٍ خَمطٍ وَأَثلٍ وَشَىءٍ مِن سِدرٍ‌ قَليلٍ ١٦ذ‌ٰلِكَ جَزَينـٰهُم بِما كَفَر‌وا ۖ وَهَل نُجـٰزى إِلَّا الكَفورَ‌ ١٧..... سورة سبا
    "پھر انہوں (قومِ سبا ) نے ان پیغمبروں کی نصیحتوں سے منہ پھیر لیا پس ہم نے ان زور کا سیلاب چھوڑ دیا اور ان کے دو عمدہ باغوں کے بدلے دو ایسے باغ اُگا دیئے جو بدمزہ پھلوں جھاؤ اور کچھ بیری کے درختوں کے جھنڈ تھے۔ یہ ہم نے ان کو ناشکرگزاری کی سزا دی او رہم ناشکری قوم ہی کو سزا دیا کرتے ہیں"دوسری سزا: مآرب کے ڈیم ٹوٹ جانے پر جب شہر مآرب اور ا س کے دونوں جانب کے علاقے سرسبز کھیتوں، خوشبودار درختوں اور عمدہ میوؤں اور پھلوں کے شاداب باغوں سے محروم ہوگئے تو ان بستیوں کے اکثر باشندے منتشر ہو کر کچھ شام ، عراق اور حجاز کی جانب چلے گئے اور کچھ یمن کے دوسرے علاقوں میں جا بسے مگر عذابِ الٰہی کی تکمیل ہنوز باقی تھی۔ اس لئے سبا نے صرف غرور اور سرکشی ، کفر و شرک ہی کے ذریعے اللہ کی نعمتوں کو نہیں ٹھکرایا تھا بلکہ ان کو یمن سے شام تک راحت رساں آبادیوں اور کارواں سراؤں کی وجہ سے وہ سفر بھی راس نہ آیا جس میں ان کو یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ سفر کی صعوبتیں کیا ہوتی ہیں اور پانی کی تکلیف اور خوردونوش کی ایذا کس شے کا نام ہے او رقدم قدم پر وہ خوشبودار درختوں اور پھلوں کے باغات کی وجہ سے گرمی اور تپش کی زحمت سے بھی ناآشنا تھے۔
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    انہوں نے ان نعمتوں پر خدا کا شکر ادا کرنے کی بجائے بنی اسرائیل کی طرح ناک بھوں چڑھا کر یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ بھی بھلا کوئی زندگی ہے کہ انسان سفر کے ارادے سے گھر سے نکلے اور اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ حالت ِسفر میں ہے یا اپنے گھر میں۔ خوش نصیب انسان تو وہ ہے جو ہمت ِمرداں کے ساتھ سفر کی ہمہ قسم کی تکالیف اٹھائے، پانی اور خوردونوش کے لئے آزار سہے اور اسبابِ راحت و آرام کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے لذتِ سفر کا ذائقہ چکھے ۔ کاش! ہمارا سفر ایسا ہوجائے کہ ہم یہ محسوس کرنے لگیں کہ وطن سے کسی دور دراز جگہ کا سفر کرنے نکلے ہیں او رہم دوری منزل کی تکالیف سہتے ہوئے حضر اور سفر میں امتیاز کرسکیں۔ بدبخت اور ناسپاس گزار انسانوں کی یہ ناشکری تھی جس کی تمناؤں اور آرزؤں میں مضطرب ہو کر خدا کے عذاب کو دعوت دے رہے تھے اور اس کے انجامِ بد سے غافل ہوچکے تھے۔
    قوم سبا نے جب اس طرح کفرانِ نعمت کی انتہا کردی تو اب اللہ تعالیٰ نے ان کو دوسری سزا یہ دی کہ یمن سے شام تک ان کی تمام آبادیوں کو ویران کردیا جو ان کے راحت و آرام کی کفیل تھیں اور سفر کی ہر قسم کی صعوبتوں سے ان کو محفوظ رکھتی تھیں اور اس طرح پورے علاقے میں خاک لگی اور یمن سے شام تک نو آبادیوں کا یہ سلسلہ ویرانہ میں تبدیل ہو کر رہ گیا۔ چنانچہ قرآن حکیم کی یہ آیات اسی حقیقت کا اعلان کر رہی ہیں :
    ﴿ وَجَعَلنا بَينَهُم وَبَينَ القُرَ‌ى الَّتى بـٰرَ‌كنا فيها قُرً‌ى ظـٰهِرَ‌ةً وَقَدَّر‌نا فيهَا السَّيرَ‌ ۖسير‌وا فيها لَيالِىَ وَأَيّامًا ءامِنينَ ١٨فَقالوا رَ‌بَّنا بـٰعِد بَينَ أَسفارِ‌نا وَظَلَموا أَنفُسَهُم فَجَعَلنـٰهُم أَحاديثَ وَمَزَّقنـٰهُم كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فى ذ‌ٰلِكَ لَءايـٰتٍ لِكُلِّ صَبّارٍ‌ شَكورٍ‌ ١٩..... سور سبا
    "ہم نے ان ملک اور برکت والی آبادیوں (یعنی شام) کے درمیان بہت سی کھلی آبادیاں کردی تھیں اور ان میں سفر کی منزلیں (کارواں سرائے) مقرر کی تھیں اور کہہ دیا تھا کہ چلو ان آبادیوں کے درمیان دن رات بے خوف و خطر۔ مگر انہوں نے کہا: ہمارے پروردگار ہمارے سفروں اور منزلوں کے درمیان دوری کردے اور یہ کہہ کر انہوں نے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا پس ہم نے ان کو کہانی بنا دیا اور ان کو پارہ پارہ کردیا۔ بلاشبہ اس واقعہ میں عبرت کی نشانیاں ہیں صابر اور شکرگزار بندوں کے لئے۔"قرآن حکیم نے جب اہل عرب کو سبا اور سیل عرم کا یہ واقعہ سنایا تو اس وقت یمن کا ہرآدمی ا س حقیقت کا بچشم خود مشاہدہ کررہا تھا اور وہ تمام خاندان بھی جو حجاز، شام، عمان، بحرین، نجد میں اس حادثہ کی بدولت پناہ گزیں ہوگئے تھے، اپنے آباؤ اجداد کے اس مرکز کی حالت ِزار کو دیکھ او رسن رہے تھے۔ حتیٰ کہ ہمدانی جو کہ چوتھی صدی ہجری کا مشہور سیاح ہے ، اپنی کتاب 'اکلیل' میں یمن کے اس حصے کے متعلق اپنی عینی شہادت پیش کرتا ہے کہ قرآنِ حکیم نے جنتان عن یمین و شمال کہہ کرجن باغوں کاذکر کیا ہے بلا شبہ آج بھی ان کی جگہ اس قدر کثرت سے پیلو کے درخت موجود ہیں کہ اتنی کثرت کے ساتھ اور کہیں نہیں پائے جاتے اور انہی درختوں کے ساتھ جھاؤ اور کہیں کہیں جنگلی بیر کے درخت بھی نظر آتے ہیں اور وہ دیدئہ بینا کو عبرتناک داستان سنا رہے ہیں۔ فاعتبروا يأولي الأبصار!
    جو قوم فرمانِ نبوی کے سامنے جھکنے کی بجائے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر کمربستہ ہوجائے ، اللہ تعالیٰ ان کی پیداوار میں کمی کرکے انہیں غربت و افلاس، فقر و فاقے اور بیماریوں میں مبتلا کردیتے ہیں :
    "سیدنا عمر فاروق ایک دفعہ اپنے زمانہ خلافت میں غلہ منڈی میں گئے اور جاکر اناج کے ڈھیروں کا معائنہ کرنے لگے۔ ایک جگہ آپ نے نہایت عمدہ اناج دیکھا اور فرمایا کہ اللہ اس غلے میں برکت عطا فرمائے اور اس کے لانے والے پر بھی رحم و کرم فرمائے۔ آپ کو بتایا گیا کہ اس غلہ کے مالکوں نے اس کو سٹاک کیا ہوا تھا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کون ہیں جنہوں نے اُمت کی ضرورت کے وقت اس غلہ کو سٹاک کیا ہے۔ آپ کو بتایا گیا کہ فلاں فلاں آدمی ہیں۔ آپ نے ان کو طلب کرکے فرمایا کہ
    "میں نے رسول کریمﷺ سے سنا ہے کہ جو آدمی امت ِمسلمہ کی ضرورت کے وقت اناج سٹاک کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے کوڑھ کی بیماری لگا دیں گے یا اسے غربت و افلاس میں مبتلا کردیں گے۔"ان دونوں آدمیوں میں سے ایک نے وہاں کھڑے ہی اللہ کے حضور توبہ کرلی اور آئندہ ذخیرہ اندوزی نہ کرنے کا اللہ سے وعدہ کرلیا لیکن دوسرے آدمی نے کہا کہ یہ ہمارا اناج ہے، ہم جب چاہیں اور جیسے چاہیں خرچ کریں کسی کو کیا اعتراض ہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کو کوڑھ کی بیماری میں مبتلا کردیا اور وہ اسی حال میں مرگیا۔
    (مسند احمد ، مسندعمر بن خطاب: ۱۳۰)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں