1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ناراضگی سے بغاوت تک۔۔۔۔ سلمان غنی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏21 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ناراضگی سے بغاوت تک۔۔۔۔ سلمان غنی

    حکومت اور جہانگیر ترین کے درمیان جاری سیاسی آنکھ مچولی کی لڑائی کا منطقی انجام سامنے آگیا جہانگیر ترین حکومت سے معاملات طے کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور انہوں نے اب کھل کر بغاوت کردی ہے ،مرکز اور پنجاب میں ہم خیال گروپ کا اعلان کردیا ہے ۔ قومی اسمبلی میں راجہ ریاض کو جبکہ سعید اکبر نوانی کو پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر مقرر کیا گیا ہے ۔31کے قریب ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کا اجلاس جہانگیر ترین کی صدارت میں ہوا ۔ اجلاس میں راجہ ریاض، صوبائی وزیر نعمان لنگڑیال ، عون چودھری، اسحاق خاکوانی ، نذیر چوہان ، اسلم بھروانہ ، سلیم اختر، فیصل حیات، خواجہ شیراز، سجاد وڑائچ، خرم لغاری، عمران آفتاب ، اجمل چیمہ سمیت متعدد ارکان قومی و صوبائی اسمبلی شریک تھے ۔جہانگیر ترین گروپ نے اپنی سیاسی طاقت دکھا کر وزیر اعظم پر دبائو ڈالا تھا کہ وہ جہانگیر ترین کے بارے میں پارٹی کے اندر او رچینی سیکنڈل کی بنیاد پر جو کردار کشی کی جارہی ہے اسے ختم کیا جائے ۔
    پی ٹی آئی کے اس وفد نے جس کو جہانگیر ترین کی حمایت حاصل تھی وزیر اعظم سے براہ راست ملاقات بھی کی تھی ۔ اس سے قبل اس وفد نے گورنر پنجاب چودھری سرور سے بھی ملاقات کی تھی ۔ پارٹی کے اندر ایک گروپ ایسا تھا کہ جو چاہتا تھا کہ وزیر ا عظم اور جہانگیر ترین کے درمیان معاملات خراب ہونے کی بجائے درست ہوں تاکہ موجودہ صورتحال میں پارٹی او ر حکومت کو کسی بڑے سیاسی نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن لگتا ہے کہ وزیر اعظم نے جہانگیر ترین کے معاملے میں کسی بھی سطح پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا ہے او راب اس کا عملی نتیجہ ہم خیال گروپ کے نام سے سامنے آیا ہے ۔ اس گروپ کے عملی قیام کی ’’سیاسی ٹائمنگ‘‘ بھی اہم ہے کیونکہ حکومت کو بجٹ اجلاس میں اپنی جماعت کی جانب سے مکمل حمایت درکار ہے او رایسے میں اگر جہانگیر ترین گروپ حکومت کی حمایت نہیں کرتا تو حکومت کیلئے بجٹ کو منظور کرانا بڑا چیلنج بن جائے گا ۔
    اصولی طور پر جہانگیر ترین کے ہم خیال گروپ کے قیام کے بعد حکومت اور وزیر اعظم کی سیاسی پوزیشن کافی خراب ہوئی ہے اور پارلیمینٹ میں موجود حکومت کے اعتماد کو کافی نقصان پہنچا ہے کیونکہ اگر ہم خیال گروپ نے موجود ہ حکومت او ر اپنی ہی جماعت سے فاصلے پیدا کرلیے تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ حکومت اسمبلی سے اپنے اعتماد کا ووٹ کھوچکی ہے ۔ کافی عرصے سے پارلیمینٹ کے اندر سے حکومت کی تبدیلی کی باتیں چل رہی تھیں اور کہا جارہا تھا کہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کا ایک دھڑا خود حکومت کیخلاف بغاوت کردے گا اور اب اس کی عملی شکل جہانگیر ترین کے گروپ کی صورت میں سامنے آئی ہے ۔ پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ( ن) نے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے بیشتر ارکان جن میں جہانگیر ترین گروپ بھی شامل ہے ان سے رابطوں میں ہے اور ہم بہت جلد حکومت کو بڑا سیاسی سرپرائز دیں گے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ کو یہ سب کچھ کرنے کیلئے کس کی حمایت درکار ہے ۔؟
    جنوبی پنجاب کے لوگ عام طور پر اس طرح کے بڑے فیصلے کسی کی بڑی حمایت کے بغیر نہیں کرتے ۔ اصل بات یہ ہے کہ دیکھنا ہوگا کہ جہانگیرترین کے سیاسی کارڈ کھیلنے کے بعد حکومت اپنا کیا کارڈ کھیلتی ہے ۔ایک بات تو واضح ہوگئی ہے کہ جہانگیر ترین اور پی ٹی آئی کے درمیان علیٰحدگی ہوگئی ہے ۔یقینی طو رپر جہانگیرترین کو اب پی ٹی آئی کے متبادل پالیسی اختیار کرناہوگی ۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے،ا ن کے بقول اس میں پارٹی اور حکومت میں شامل چند لوگ ہیں جنہوں نے وزیر اعظم او ران کے درمیان جان بوجھ کر فاصلے پیدا کیے ہیں ۔ لیکن اب جہانگیر ترین کی ناراضی کنٹرو ل سے باہر ہوگئی ہے اور لگتا ہے کہ انہوں نے سب کچھ سوچ سمجھ کر باہر نکلنے کا فیصلہ کیاہے ۔ موجودہ حالات میں30 سے زیادہ ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کی کھل کر حمایت کے ساتھ جہانگیر ترین کا پاور شو ظاہر کرتا ہے کہ وہ آسانی سے شکست تسلیم نہیں کریں گے ۔ جہانگیر ترین ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر وہ حکومت بناسکتے ہیں تو حکومت گرانے کی بھی صلاحیت ان کے پاس ہے ، وہ یہ کھیل کیسے او رکب کھیلتے ہیں او ر کس حد تک ان کو’’ بڑے لوگوں‘‘ کی حمایت ہوگی یہ اگلے چند ہفتوں میں سامنے آجائے گا۔یہ بھی لگ رہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں وزیر اعظم جارحانہ اننگز کھیلنے کی کوشش کریں گے کیونکہ وہ اس کھیل سے یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے احتساب پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور ان کو حکومت کرنے کیلئے ’’سیاسی بلیک میلنگ ‘‘کاسامنا ہے ۔ لگتا ہے آنیوالے چند ہفتوں میں سیاسی درجۂ حرارت میں کافی شدت دیکھنے کو ملے گی ۔ تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ وہ مسلم لیگ( ن) میں سیاسی دراڑ ڈالے گی لیکن یہاں اپنی جماعت میں ’’سیاسی بغاوت‘‘ کے بعد ایک بڑے بحران نے ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
    دوسری جانب رنگ روڈ سیکنڈل سامنے آنے پر حکومت کو سیاسی محاذ پر ایک اور بڑی سیاسی سبکی کا سامنا ہے ۔ کیونکہ اس میں کئی اہم حکومتی افراد کے نام سامنے آئے ہیں ۔ زلفی بخاری نے تو خود کو تحقیقات کیلئے پیش بھی کردیاہے او راپنے عہدے سے علیٰحدگی اختیار کرلی ہے جبکہ وفاقی وزیر غلام سرور کافی غصے میں نظر آتے ہیں ۔اگرچہ ابتدائی رپورٹ میں بعض سرکاری افسران کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن اصل فیصلے تو حکومت میں بیٹھے لوگوں نے کیے ہیں اس لیے جب تک ان کیخلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوگی حکومت کے ’’سیاسی دامن‘‘ پر سوالات موجود رہیں گے ۔
    آج کل جو کچھ اسرائیل فلسطین میں کررہا ہے اس پر عالمی دنیا میں شدید احتجاج ہورہا ہے ۔ اسی حوالے سے لاہو رمیں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے بھی معروف صحافیوں ، کالم نگاروں ، تعلیمی ماہرین اور اہم سیاسی افراد کی ایک بیٹھک کا اہتمام کیا جس میں اسرائیل کے کردار کی شدید مذمت کی گئی۔ شرکا ء نے عالمی بڑی طاقتوں اور مسلم دنیا کے حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مسئلے پر محض بیانات تک خود کو محدود نہ کریں بلکہ عملی طور پر اسرائیل کی جنگی جنوں پر مبنی پالیسی کو روکیں اور واضح پیغام دیں کہ مسلم دنیا فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں