1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نئے خطرے کی گھنٹی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏5 ستمبر 2009۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    نئے خطرے کی گھنٹی


    اب شک کی گنجائش نہیں رہی صوبہ سرحد کے بعد بلوچستان کو نشانہ بنانے کے جس منصوبے کی بھنبھناہٹ آہستہ آہستہ سرگوشیوں کا رنگ اختیار کر رہی تھی اب اس کے نقوش منظرعام پر آنا شروع ہو گئے ہیں چمن کی سرحد پر نیٹو کی سپلائی لے جانے والے 25 کنٹینروں کی تباہی خطرے کی واضح گھنٹی ہے چینی اور آٹے کے چکر میں گرفتار کر دی جانے والی قوم کو اس گھنٹی سے گونجنے والی صداؤں کو نہ سننے کی فرصت ہے نہ ہوش‘ ہنرکاروں نے جو ڈرامہ ترتیب دیا ہے اس کے پہلے ایکٹ کا آغاز ہو گیا ہے ماضی قریب اگر یادداشت کے صحراؤں میں گم نہیں ہوا ہے تو ہر پاکستانی کے ذہن میں آ جانا چاہئے کہ فاٹا اور پشاور کے راستے امریکی افواج کے لئے اسلحہ اور خوراک سمیت ہر ضرورت کی سپلائی کا ذریعہ بننے والے کنٹینروں کو تباہ کر دیا گیا امریکی ذرائع ابلاغ نے واویلا شروع کر دیا اور اس تباہی بلکہ امریکی اور نیٹو فوجیوں کی ’’زندگی کے لئے خطرہ‘‘ بننے والے ان اقدامات کا سہرا القاعدہ اور طالبان کے سر باندھ دیا گیا جس نے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں کا جواز مہیا کر دیا پھر جن کا دائرہ بنوں اور دیگر علاقوں تک پھیلا دیا گیا تھا۔ پاکستانی فوج کیلئے بھی ایسے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا کوئی جواز بھی نہیں رہا۔ وہی کہانی‘ وہی کردار‘ ویسا ہی واویلا‘ اس سب کو صدر باراک اوبامہ‘ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن‘ وزیر دفاع رابرٹ گیٹس‘ پاکستان کیلئے نیا امریکی ’’وائسرائے‘‘ رچرڈ ہالبروک‘ امریکی سفیر این پیٹرسن اور ایڈمرل مائیک مولن سمیت دیگر امریکی عہدیداروں کے گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے ان بیانات سے ملا کر سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ القاعدہ اور طالبان کی قیادت بلوچستان میں موجود ہے۔ حکومت پاکستان کے بار بار تردیدی بیانات کے باوجود پیہم اصرار اصل عزائم کے سارے تانے بانے کی گتھیاں کھل کر سامنے آجائیں گی کیا اس حملہ سے یہ کہانی جنم نہیں لے گی القاعدہ اور طالبان کی قیادت پہلے تو بلوچستان میں صرف موجود تھی اب جارحیت پر اتر آئی ہے اور امریکہ اور نیٹو کی سپلائی لائن کیلئے سنگین خطرہ بن گئی ہے اور جو امریکہ کیلئے خطرہ بن جائے اس سے نبٹنا امریکہ کا تو حق بنتا ہی ہے فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناطے پاکستان کے فرائض کا حصہ بھی ہے سوچ اندیشوں سے لرزنے لگتی ہے کیا چاغی کے نزدیک ڈرون طیاروں کا ائربیس ایسے ہی وقت کیلئے قائم کیا گیا تھا غور کیا جائے تباہ ہونے والے کنٹینروں کو تین روز تک افغانستان کے سرحدی اہلکاروں نے سرحد بند کرکے چمن کے بارڈر پر روکے رکھا محض اس الزام کے تحت کہ پاکستانی سرحدی محافظ تلاشی کی آڑ میں رشوت طلب کرتے ہیں۔ افغانستان کے سرحدی اہلکار کب سے امریکیوں پر غالب آگئے اور اس قدر غالب کہ وہ تین دن تک نیٹو کی سپلائی روکے رکھیں اور ان سے ’’مغلوب‘‘ امریکی اف تک نہ کر سکیں حتیٰ کہ القاعدہ اور طالبان کو موقع مل جائے کہ وہ ان کنٹینروں کو تباہ کر کے اس ’’معطل شدہ‘‘ سپلائی کو دائمی محرومی میں بدل دیں اب ان ’’دہشت گردوں‘‘ کو اس ’’دہشت گردی‘‘ پر سبق سکھایا جائے گا پاکستان کے حکمران پھر مطالبہ کریں گے۔ ڈرون طیارے ہمیں دئیے جائیں بلوچستان میں موجود ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہم خود کریں گے اور امریکیوں کا جواب ہو گا دوستوں کو کیا تکلیف دی جائے یہ زحمت ہم خود کر لیں گے بے شک بے حسی‘ مفاد پرستی اور آنے والے خطرات کا ادراک نہ کرنے والی فضا میں ہوشیار‘ خبردار رہنے کی صدا بمشکل سنی جائے گی مگر آواز لگا دینی چاہئے۔


    ادارتی صفحہ۔ نوائے وقت ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں