1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میرے وطن کی خوشبو،!!!!

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالرحمن سید, ‏13 اکتوبر 2010۔

  1. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    اپنی سروس کے دوران سالانہ چھٹی تک نہیں‌ لی اب میں بہت تھک چکا تھا، میں نے چھٹی کی درخوست پیش کی جو منظور ھوگئی، اپنی ذمہ داریاں ایک اپنے فیلڈ کے سپروائزر کو دے کر موقع سے فائدہ اٹھاتے ھوئے میں اپنی بیگم اور بچوں سمیت کمپنی کے خرچے پر چھٹیاں گزارنے کیلئے پھر اسی میری پسندیدہ ٹرین تیزگام سے لاھور روانہ ھوگیا، میرے ساتھ چار بچے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، اور اس دفعہ میرا پروگرام لاھور شہر گھومنے کے علاوہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات سوات کالام اور مری نتھیا گلی ایبٹ آباد بھی گھومنے کا تھا،!!!!!!! ‌

    تیزگام کا سفر تو ھمیشہ ھی سے مجھے پسند تھا اور ھر بار میں نے سفر کیلئے تیزگام کو ھی ترجیح دی، میں نے اپنا تفصیلی پروگرام پہلے ھی سے اپنی کمپنی کو دے دیا تھا، اور کراچی، لاھور، اسلام آباد میں ان کی برانچیں تھیں، اور پاکستان ٹورزم اور اچھے رسٹ ھاؤسس کے علاؤہ ھر بڑے ھوٹل سے سیر و تفریح کی غرض سے آنے والوں کیلئے ان کے بزنس تعلقات ھر علاقے میں بھی تھے، اور یہ تمام ادارے اس کمپنی کے اسٹاف کو رعائیتاً سہولتیں بھی مہیا کرتے تھے اور اب بھی ویسا ھی ھے، کیونکہ ھماری کمپنی رینٹ اے کار کے علاؤہ انٹرنیشنل طور پر ٹورز اینڈ ٹریول کا بزنس بھی عروج پر تھا، اور دنیا بھر سے ٹورسٹ پاکستان میں گھومنے پھرنے کی غرض سے ھماری کمپنی سے ھی رابطہ کرتے تھے،!!!!!!

    میرا پروگرام بھی ایک مکمل ٹور پیکیج ھی تھا جو اس کمپنی کی ایک اسٹاف سہولتوں میں سے ایک تھا جس سے ھر سال فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا، جب ھم لاھور کے اسٹیش سے باھر نکلے، تو باھر ھی ایک باوردی ڈرائیور ھماری کمپنی کا ایک چھوٹا سا سائن بورڈ لے کر کھڑا تھا جسے میں نے پہچان لیا اس سے مصافحہ کرنے کے بعد اس نے ھمیں اپنی کار تک لے جانے میں راہنمائی کی، اور قلی سے سامان ڈگی کھول کر رکھوایا، اور باقی سب سکون کے ساتھ کار میں بیٹھ گئے، اچھی بڑی ائرکنڈیشنڈ کار تھی اور وھاں کے منیجر نے خاص طور سے میرے لئے بھیجی تھی، اسٹیشن سے سیدھا ھمیں ڈرائیور نے ایک ھوٹل میں پہنچایا جہاں پر ھمارے لئے پہلے سے ھی کمرے بک تھے، اور ھمیں بڑے شاھانہ طور سے ایک پروٹکول کے ساتھ ھوٹل کے کمروں تک لے جایا گیا، اور ڈرائیور نے پوچھا کہ وہ کس وقت حاضر ھوجائے، میں نے اسے شام کا وقت دیا تاکہ جب تک ھم کچھ آرام کرلیں اور کچھ ناشتہ بھی کرلیں، بھوک بھی سخت لگی ھوئی تھی،!!!!

    یہ تو سچی بات ھے کہ پہلی مرتبہ زندگی میں اس طرح کی عیاشی ھورھی تھی، ھمیں تو ھوائی جہاز کا بھی ٹکٹ مل جاتا، لیکن ھمارے سالے صاحب اور انکی نئی نویلی دلہن بھی ساتھ تھیں، اور اس وقت ان کے لئے ٹکٹ علیحدہ سے خریدنا پڑتا، اس لئے ٹرین سے ھی سفر کرنے کو غنیمت جانا، لاھور میں دو دن کا رکنے کا پروگرام تھا، ھوٹل بھی بہت خوبصورت تھا اور کمرے بھی سجے سجائے جو ھم کبھی خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے، ھمیں دو کمروں کی اجازت تھی، اس لئے ایک کمرہ ھم نے نئے شادی شدہ جوڑے کو دے دیا تھا اور دوسرے ساتھ کے کمرے میں ھم اپنے چار بچوں کے ساتھ تھے، جو اس وقت چھوٹے چھوٹے سے تھے،ان کے لئے ھوٹل والوں نے بچوں کیلئے اکسٹرا بیڈ بھی ڈال دیئے تھے،!!!!!!

    ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ ٔٔ

    ناشتے کے بعد سفر کی تھکان کی وجہ سے اس دن ایسے سوئے کہ شام کو ھی آٹھے وہ بھی ٹیلیفون کی گھنٹی کی آواز پر جو کہ کافی دیر سے بج رھی تھی، دوسری طرف ھماری ڈیوٹی پر معمور ڈرائیور تھے، جو کہ وقت مقررہ پر پہنچ چکے تھے، اب دوپہر کے کھانے کا تو ٹائم نہیں تھا، لیکن بھوک تو لگ رھی تھی، سوچا چلو باھر ھی کھالیں گے، جلدی جلدی تیار ھوئے، اور بیگم نے بچوں کو تیار کیا، برابر کے کمرے سے بچوں کی مامی اور ماموں کی نئی نویلی جوڑی کو بھی بچے پہلے ھی آٹھا چکے تھے، جلدی جلدی ھم سب ھوٹل کی لابی میں پہنچے، اور ڈرائیور کی راہنمائی میں کار کی طرف چل دیئے، میں اپنے بڑے دو بچوں کو لے کر آگے بیٹھا اور پیچھے میری بیگم ایک چھؤٹی بچی کو گود میں لئے اور چھوٹے بیٹے کو مامی نے گود میں بٹھا لیا اور ماموں بھی ساتھ بیٹھ گئے، بچوں کی عمریں 2 سال سے لے کر 8 سال تک کی تھیں، اور ھر ایک میں ڈیڑھ یا دو سال کا فرق تھا، ستمبر 1988 کا زمانہ تھا موسم بھی خوشگوار ھی تھا،!!!!

    سب سے پہلے کھانے کیلئے ایک ریسٹورنٹ میں پہنچے، ڈرائیور کو بھی کہا لیکن انہوں نے معذرت کرلی، بھوک سب کو لگی ھوئی تھی، کھا پی کر وھاں سے سب سے پہلے بادشاھی مسجد کی طرف گئے، مسجد میں داخل ھونے سے پہلے میں گیٹ کے ساتھ علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی، تصویریں بھی ساتھ ساتھ کھینچتے رھے، پھر اسکے بعد مسجد کے سامنے لال قلعہ کے اندر داخل ھوئے اور مغل بادشاھوں کے فن تعمیر کے حیرت انگیز شاھکار کو دیکھا اور قلعہ کے اندر خاص طور سے شیش محل کا اچھی طرح سے جائزہ لیا، اندر کے میوزیم کی نادر نمونے دیکھے، وھاں سے پیدل ھی گھومتے ھوئے ایک بڑی سڑک پار کرتے ھوئے اپنے چھوٹے سے قافلے کے ساتھ مینار یادگار پاکستاں کی طرف نکل گئے، جہاں کہ پاکستان کی قرارداد 1940 کو منظور ھوئی تھی، اوپر جانے کی ھمت تو نہیں ھوئی، لیکن باھر ھی سے اس کا نظارہ کیا اور تصویریں بھی کھینچیں، اور اس کے اطراف کے گارڈن میں کچھ دیر بیٹھ کر کار میں انارکلی بازار میں چلے آئے، لاھور کا اس وقت کا بہت ھی خوبصورت اور مشہور بازار تھا، خیر آج بھی اسی طرح اسکی رونق ھے، مگر اب تو بہت سارے ماڈرن شاپنگ سینٹر بن چکے ھیں،!!!!!

    انارکلی بازار سے ھوتے ھوئے ھمیں ڈرائیور علامہ اقبال پارک لے گئے جو کہ بہت ھی خوبصورت پارک تھا اور کچھ فاصلے پر ریس کورس پارک میں یا اس کے قریب ھی رنگ برنگے اترتے چڑھتے فوارے چل رھے تھے رات کا وقت تھا تو اور بھی خوبصورت لگ رھےتھے، اس کے علاوہ رات گئے تک کار میں ھی گھومتے رھے اور ڈرائیور جو ایک ھماری فیملی ممبر کی طرح ھی تھے، انہوں نے لاھور کی ھر مشہور جگہ گھمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اسی دوران داتا دربار میں بھی حاضری دی اور اس طرح وقت کا پتہ ھی نہیں چلا اور آدھی رات ھوچکی تھی، فوراً ھی ھوٹل واپس پہنچے، اور ڈرائیور کو کل صبح 10 بجے کا آنے کہہ کر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے، خوب تھک چکے تھے، ایسے سوئے کہ صبح سورج نکلنے کے کافی دیر بعد آنکھ کھلی،!!!!

    پھر جلدی جلدی تیار ھوکر ھوٹل کے باھر نکلے تو ڈرائیور صاحب اپنی کار چمکا کر تیار کھڑے تھے، ناشتہ سے فارغ ھوتے ھی ھم وھاں سے سیدھے شالامار باغ گئے، پھر دریائے راوی کے پار انارکلی اور آصف جاہ کے مقبروں کو دیکھتے ھوئے اور بھی لاھور کے تاریخی شہر کئے کئی مغل بادشاھوں کی یادگاروں کی سیر کی، اس کے علاوہ ایک ھمارے جاننے والوں کے گھر بھی پہنچے جو “چوبرجی“ کے قریب ھی رھتے تھے،جہاں رات کا کھانا انھوں نے بڑے اھتمام سے ھمارے لئے تیار کیا جسے ھم نے بڑے شوق سے کھایا تین چار دنوں بعد ھمیں گھر کا کھانا نصیب ھوا، وھاں سے سیدھا ھم واپس ھوٹل پہنچے اور دوسرے دن ھمیں بذریعہ بس راولپنڈی روانہ ھونا تھا، اس لئے ڈرائیور نے ھمیں دوسرے دن صبح صبح بس اسٹینڈ پر چھوڑ کر الوداع کہا، وہ بہت ھی اچھے مخلص انسان تھے، انہوں نے ھمارے لاھور کے قیام کے دوران یہ بالکل محسوس نہیں ھونے دیا کہ ھم کسی اجنبی شہر میں ھیں، وھاں لوگ بھی بہت ھی زندہ دل اور بہت ھی ملنسار تھے، جہاں جہاں گئے ھمارا بہت ھی اچھی طرح سے پیش آئے، اور مہربان اور شفیق رویہ کا برتاؤ رکھا یہ لاھور کا دورہ میں اپنی زندگی میں کبھی نہیں بھول سکتا ھوں، !!!!!!

    تیسرے دن ھم لاھور سے بذریعہ بس راولپنڈی پہنچے، اور وہاں سے ٹیکسی کرکے اسلام آباد کے ایک گیسٹ ھاؤس پہنچے جہاں پر ھمارے لئے ایک چھوٹا سا دو کمروں کا اپارٹمنٹ بک تھا، وھاں پہنچ کر تازہ دم ھوئے اور دوپہر کے کھانے کا آرڈر دے دیا، کھانا کھانے سے پہلے ھی میں نے وہاں کے اپنے دفتر کے ہیڈ آفس سے رابطہ کرکے اپنے آنے کی اطلاع دی اور پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت اپنے پروگرام کی تفصیل انکو بتائی، انہوں نے پہلے ھی سے ھمارے لئے ایک اچھی بڑی ائرکنڈیشنڈ کار ایک ڈرائیور کے ساتھ تیار کرکے رکھی تھی، اس دن تو وقت زیادہ ھوچکا تھا، بس اسلام آباد کی ھی سیر کی جس میں سب سے پہلے فیصل مسجد گئے، پھر دامن کوہ پہاڑوں کے اوپر پہنچے، اور جناح سپر مارکیٹ اور ارجنٹیئنا پارک اس کے علاوہ ارد گرد کے مقامی جگہوں اور پارکس کے علاوہ راول ڈیم ، شکرپڑیاں ساتھ ھی آبپارہ کے ساتھ یاسمین گارڈن بھی خوب تسلی سے گھومے پھرے اور پھر دوسرے دن کا پروگرام بھی ڈرائیور کو بتا کر گیسٹ ھاؤس میں اپنے اپنے کمروں جاکر سو گئے،!!!!

    رات کا اکثر ھم بس کچھ لائٹ سا ھی کھا لیتے تھے، کوئی کھانے کا خاص اھتمام نہیں کرتے تھے، یا اگر کسی جاننے کے یہاں چلے گئے تو مشکل ھوجاتا تھا کیوں وہ لوگ تو اچھا خاصہ اھتمام کرتے تھے، اور پھر گھر کا کھانا تو ھم بہت شوق سے ھی کھاتے تھے، دوسرے دن سے ھمارا بہت ھی لمبا پروگرام تھا،وادی سوات کالام اور ایبٹ آباد، نتھیا گلی اور واپسی میں مری کے علاقہ جات بھور بن، گھوڑا گلی، جھیکا گلی اور موڑہ شریف جانے کا تھا، ڈرائیور کو تمام ھدائتیں دے چکا تھا اور اسے تمام راستوں اور ھماری رھائیش کی سہولتوں کے بارے مکمل علم تھا، اور بچوں کے ماموں اور مامی بھی بہت خوش تھے کیونکہ ان کا ھنی مون بہت ھی خوبصورت طریقے سے چل رھا تھا،!!!!!!!

    ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ ٔٔٔٔٔٔٔ

    شکر ھے کہ صبح صبح سب کو اُٹھانے میں کوئی دقت نہیں ھوئی، کیونکہ گزشتہ رات خوب گھوم پھر کر تھک گئے تھے اس لئے سب کو بہت‌ گہری نیند آگئی تھی، اور جلد ھی سو گئے تھے، ویسے بھی اس وقت عشاء کے بعد زیادہ تر اسلام آباد میں سناٹا ھی ھوجاتا تھا، ابھی ھم ناشتہ کی تیاری ھی کررھے تھے تو ڈرائیور صاحب گاڑی لے کر آگئے، سب نے دو بڑے ھینڈ بیگ میں اپنی اپنی ضرورت کی استعمال کی چیزیں اور پہنے کے کپڑے وغیرہ رکھ لئے تھے، ناشتے سے فارغ ھوتے ھی سامان کار کی ڈگی میں رکھا، اور اگلے سفر کیلئے تیار ھوگئے، ڈرائیور کو بھی ھمارے پاکستان کے تمام خوبصورت علاقوں کے راستوں کا بخوبی علم تھا، اور میں ان کا نام بھول گیا ھوں بہت ھی اچھے انسان تھے، انہوں نے ھمارے ساتھ ایک ھی فیملی کی طرح بہت اچھا وقت گزارا،!!!!!

    اسلام آباد سے نکلے تو آب پارہ سے ھوتے ھوئے زیرو پوانٹ سے راولپنڈی کی طرف نکلے مری روڈ سے ھوتے ھوئے، اپنے ان تمام علاقوں کو دیکھتے ھوئے بھی جارھے تھے جہاں ھم نے ایک کافی عرصہ گزارا تھا، کمیٹی چوک سے نکل رھے تھے تو دائیں ھاتھ پر ایک سڑک راجہ بازار اور موتی بازار کو جارھی تھی اور بائیں ھاتھ پر موتی محل سینما اور ایک اور سینما تھا، آگے نکلے تو لیاقت باغ کو اپنے سیدھے ھاتھ کی طرف پایا اور اس ھاتھ کی طرف سنگیت سینما اور ریالٹو سینما کو دیکھا، اور آگے کی طرف مریڑ چوک کی طرف کو ایک ریلوئے پل کے دو موھری والے پل کے نیچے سے نکلے، اور سیدھا صدر بازار کے علاقے میں پہنچ گئے، وھاں سے کچھ راستے کے لئے کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری کی، اور کھانے پینے کی ساری ذمہ داری ھمارے بچوں کے ماموں نے لی ھوئی تھی، کیونکہ ان کا پہلا پہلا ھنی مون جو تھا، بڑے خوش تھے، وہ اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ اور ھمارے دو چھوٹے بچوں اور ان کی اماں یعنی ھماری بیگم اور میں ڈرائیور کے ساتھ ھی زیادہ تر اپنے دو بڑے بچوں کے ساتھ ھی تمام سفر میں بیٹھا رھا،!!!!!

    صدر کینٹ بازار سے نکلے تو پشاور روڈ پر ھماری کار نے رخ اختیار کیا اور اسی موڑ پر میں نے اپنے بچپن کے کینٹ پبلک اسکول کو دیکھا اور اپنے بچپن کی یادوں میں کھو گیا، ابھ ان یادوں میں ھی کھویا ھوا تھا کہ سیدھے ھاتھ کی طرف ریس کورس گراونڈ کو گزرتے ھوئے دیکھ رھا تھا اور بائیں ھاتھ کی طرف قاسم مارکیٹ کا علاقہ تھا جہاں میرا پچپن کھیل کود میں گزرا تھا وہ دن یاد آگئے جب ھمارے والد ھم دونوں بہن بھائی کی انگلی پکڑ کر ھر شام کو پیدل گھر سے ریس کورس گراونڈ میں گھمانے لے جاتے تھے، ساتھ ساتھ میں سب کو اپنی بچپن کی یادوں کے بارے میں بتاتا بھی جارھا تھا، آگے بائیں ھاتھ پر ریڈیو پاکستان کو دیکھا اور اس سے پہلے ایک سڑک جس کا نام چیرنگ کراس تھا، اس کو دائیں طرف گزرتے ھوئے دیکھا جو ویسٹریج کے علاقے کی طرف جاتی تھی، کچھ اور آگے بڑھے تو میرا پہلے کا دفتر نظر آیا جو تین منزلہ تھا اور رھائیش بھی ساتھ ھی تھی، جہاں شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کے وقت کی خوبصورت اور خوشگوار یادوں کا سامنا ھو گیا جو چوھڑ کا علاقہ کہلاتا تھا، وھاں کچھ دیر کیلئے رکے اور چند اس وقت کے ملنے والے خاندان سے ملے جو بہت ھی شفیق اور مہربان لوگ تھے، بہت مشکل سے انہوں نے اجازت دی، انہوں نےچائے اور کچھ ناشتہ کا بندو بست کیا ھوا تھا، اس مختصر وقت کی ملاقات کیلئے وہ لوگ بہت ناراض ھوئے، واپسی پر تفصیلی ملاقات کا وعدہ کیا اور وھاں سے نکل پڑے،!!!!!

    ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ

    یہاں پنڈی میں کالج روڈ پر ھماری بیگم کی خالہ کا گھر تھا، وہ ایک اچھی خاصی پرانی حویلی ٹائپ کی تھی، نیچے خالہ اور انکی ساس اور انکی اماں بی اور ساتھ نند اور دو دیور نیچے رھتے تھے، اس کے علاوہ خالہ کے جیٹھ اوپر کے حصے میں اپنے بچوں کے ساتھ رھتے تھے، شروع شروع میں شادی کے بعد سعودی عرب سے 1983 میں جب میرا ٹرانسفر ھوا تھا تو کچھ دنوں کے لئے میں بیگم اور پہلا بیٹا (جس کی عمر اس وقت 8 مہینہ کی تھی)، کے ساتھ اوپر کے ایک کمرے میں بھی رھے تھے، جب مکان مل گیا، تو وھاں سے ٹنچ بھاٹہ چلے گئے تھے، ھماری خالہ کا اب انتقال ھوچکا ھے، اللٌہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین،!!!! بہت ھی مہمان نواز تھیں اور خاص طور سے میرا بہت خیال رکھتی تھیں، انکے بھی اس وقت چھوٹے چھوٹے پانچ بچے تھے،
    آج تو ماشااللٌہ سب کی شادیاں بھی ھوگئی ھیں،!!!

    ان کے یہاں ھم اکثر ویک اینڈ پر آجاتے تھے، میں تو خالو کے ساتھ باھر انکے ساتھ دوستوں کی طرف نکل لیتا تھا، اور ھماری بیگم خالہ کے ساتھ اڑوس پڑوس کے یہاں چلی جاتیں یا پھر وہ لوگ یہاں آجاتیں بہت ھی اچھا وقت گزرا تھا، میں خالہ کی وہ مہمان نوازی کبھی نہیں بھول سکتا تھا، اکثر کبھی کبھی وہ بھی ھمارے یہاں آجاتیں، اور عید کی نماز پڑھ کر ھم سب ایک ھی جگہ ھمارے گھر اکھٹے ھوجایا کرتے تھے، اور ھم سب ملکر خوب اچھی طرح عید کی خوشیاں دوبالا کیا کرتے تھے،!!!!

    کالج روڈ پر ان کا گھر تھا اور وھاں سے موتی بازار، راجہ بازار، تو بہت ھی نزدیک تھے، راجہ بازار سے تو اکثر گھر کا سودا سبزی گوشت وغیرہ لیتے تھے اور موتی بازار ھم اکثر ملکر وھاں عید کی تیاری کیلئے اور ویسے بھی موتی بازار اکثر آنا جانا رھتا ھی تھا، اور واقعی جب ھم وھاں جاتے تو ھماری خالہ وھاں کے دھی بڑے اور چاٹ ضرور کھلاتی تھیں، مجھے بھی وھاں کہ دھی بڑے اور چاٹ بہت پسند تھے اور ھماری بیگم تو وھاں کے دہی بڑے اور چاٹ کی دیوانی تھیں، انہی کے گھر سے مجھے یاد ھے کہ تانگہ میں بیٹھ کر کبھی بھاپڑا بازار بھی جاتے تھے اور کبھی ھم کمیٹی چوک جہاں کی مچھلی فرائی تو بہت ھی لاجواب تھی اور کمیٹی چوک سے کچھ ھی فاصلے پر مری روڈ کے ساتھ ھی قصرشیریں مٹھائی کی دکان تھی جس کی مٹھائیاں سب سے زیادہ مشہور تھیں،!!!!

    کبھی کبھی ویسے ھی ٹہلتے ھوئے لیاقت باغ بھی پہنچ جاتے تھے، وھاں کے آڈیوٹوریم میں کئی اسٹیج شو بھی دیکھے اور اس وقت بہت ھی معیاری اسٹیج شو ھوا کرتے تھے، کالج روڈ سے ھر طرف جانے کیلئے کئی راستے تھے، اور وھاں سے اگر دور جانا ھو تو زیادہ تر تانگہ میں ھی بیٹھ کر جاتے تھے، جیسے صادق آباد، رحماں آباد، سٹلائٹ ٹاؤن، فیض آباد، وغیرہ تک جو مری روڈ پر ھی واقع تھے، صدر بازار اور ایوب پارک جو مور گاہ شیر شاہ سوری کی جرنیلی سڑک پر واقع ھے، اکثر گھومنے کیلئے چلے جاتے تھے، اس کے علاؤہ اسلام آباد کیلئے ھم ویگن یا بسوں کے ذریعے ھی جاتے تھے، اور مری گھومنے کیلئے بھی ویگن اور بس کے زریعہ ھی سفر کرتے تھے، پنڈی میں رھنے والوں کیلئے یہی فائدہ تھا کہ ھر جگہ جانے کیلئے کافی سہولتیں اور ٹرانسپورٹ کا بہت ھی اچھا انتظام تھا، اور اب تو موٹر وے کی وجہ سے بھی سفر کافی آسان ھوگیا ھے، اور ڈائیو کی بسیں تو بہت ھی زیادہ آرام دہ بھی ھیں اور موٹر وے کا سفر تو ایسا لگتا ھے کہ جیسے ھم کہیں یورپ میں سفر کررھے ھیں، !!!!!!!

    یہ تو وہاں کی کچھ پرانی یادیں تھیں، جو کہ یہاں سے گزرتے ھوئے وہ یادیں تازہ ھوگئی تھیں،!!!!

    ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ
    چلئے پھر اپنی کہانی وہیں سے شروع کرتے ھیں جہاں سے ھم پنڈی سے باھر نکلے،!!!!!!

    جہاں شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کے وقت کی خوبصورت اور خوشگوار یادوں کا سامنا ھو گیا جو چوھڑ کا علاقہ کہلاتا تھا، وھاں کچھ دیر کیلئے رکے اور چند اس وقت کے ملنے والے خاندان سے ملے جو بہت ھی شفیق اور مہربان لوگ تھے، بہت مشکل سے انہوں نے اجازت دی، انہوں نےچائے اور کچھ ناشتہ کا بندو بست کیا ھوا تھا، اس مختصر وقت کی ملاقات کیلئے وہ لوگ بہت ناراض ھوئے، واپسی پر تفصیلی ملاقات کا وعدہ کیا اور وھاں سے نکل پڑے،!!!!!

    آگے جیسے ھی بڑھے تو ھمارے بائیں طرف کوہ نور ٹیکسٹائل ملز کو گزرتے ھوئے دیکھا، بہت ھی پرانی یہ ٹیکسٹائل ملز ھے، جو سہگل برادران سے تعلق رکھتی ھے، ھمارے اس طرح کے تاجر برادری جنہوں نے اپنی خدمات پاکستان کی معاشی حالات کو سدھارنے کے لئے وقف کی ھیں، اگر ان سب کو اور اچھے بہتر وسائل اور سہولتیں حکومت کی طرف سے اور عوام کو تعاون حاصل رھے تو ھمارے ملک کی فلاح بہبود اور ترقی کے لئے یہ ھماری تاجر برادری بہت کچھ کرسکتے ھیں، ورنہ تو یہ بھی غیر قانونی وسائل کو استعمال میں لاکر ملک کی سلامتی کو نقصان بھی پہنچاسکتے ھیں،!!!!!

    پشاور روڈ پر ھماری کار دوڑی چلی جارھی تھی اور راستے میں ھم تمام آس پاس کے گزرنے والے مناظروں سے لطف اندوز بھی ھورھے تھے، خوب گب شپ اور ھنسی مذاق بھی چل رھا تھا، ترنول کے موڑ کے ساتھ ساتھ گولڑا شریف کا موڑ بھی ھم نے اپنی نظروں کے سامنے گزرتے ھوئے دیکھا، یہ ساری جگہوں کی معلومات وقفہ وقفہ سے جناب ڈرائیور صاحب ھمیں بتاتے جارھے تھے، بہت ھی نیک اور شریف انسان تھے ایک ھماری اپنی فیملی کی طرح ھی ھمارے ساتھ تھے، اور ھر جگہ اور ھر اس علاقے سے منسلک تمام معلومات ھمیں پہنچا بھی رھے تھے، ان کو کمپنی نے پٹرول اور راستہ کیلئے گاڑی کے اخراجات بھی دیئے تھے، میں نے کئی دفعہ انہیں پیسے دینا چاھے، لیکن انہوں نے انکار کردیا، جواباً یہی کہا کہ آپ ھمارے بڑے سینئر اسٹاف ھیں اور کراچی سے آئے ھیں، آپ ھمارے مہمان ھیں، اور کمپنی مجھے آپ کی خدمت کے لئے تنخواہ اور اس کے علاؤہ خاص مراعات باھر کے دورے کیلئے روز کے حساب سے الگ الاونس بھی دیتی ھے، اور کار کے اخراجات کے لئے الگ سے، اس کے علاوہ ھر ھوٹل میں جہاں گیسٹ کو لاتے ھیں کھانے پینے کے علاوہ مفت رہائیش کا انتظام لازمی ھوتا ھے،!!!! مجھے ان کی ایمانداری اور اس ظرح کی مخلصانہ مہمانداری پر بہت ھی زیادہ خوشی ھوئی، کھانا تو جہاں وہ ھمارے ساتھ ھوتے ھم سب مل جل کر کھانا کھاتے، حالانکہ انہوں نے منع بھی کیا، لیکن وہ ایک طرح کے اپنی فیملی ممبر کی طرح تھے، ھمارے اسرار پر انہوں نے ھمارے ساتھ کھانا شروع کیا لیکن کئی جگہوں پر انہوں نے ھمارے منع کرنے کے باوجود بھی اپنے پاس سے خرچہ بھی کیا، انکا آزاد کشمیر سے تعلق تھا اور پنڈی میں مستقل رھائیش پزیر تھے اور ھماری کمپنی میں عرصہ 5 سال سے ڈرائیور اور اسپشل گائیڈ کے فرائض انجام دے رھے تھے، اور وہ اس کمپنی میں بہت ھی خوش تھے،!!!!!!!

    خوب ساتھ باتیں کرتے ھوئے، ھم حسن ابدال پہنچے، وھاں پر کچھ شاید کھانے پینے کیلئے رکے تھے، وہاں سے ایک طرف واہ فیکٹری کے علاقے کی طرف جاتا ھے، اور اس سے پہلے ٹیکسلا کی طرف سڑک رواں دواں تھی، حسن ابدال میں سکھوں کے مقدس مقامات ھیں، اور ٹیکسلا میں میں پرانے بدھ مذہب کے کھنڈرات اور ایک بڑا میوزیم بھی ھے، جسے ھم پہلے بھی دیکھ چکے ھیں، اس کے علاوہ واہ فیکٹری کے علاقے میں ہیوی میکینیکل کمپلیکس فیکٹری اور بڑی چھاونی بھی ھے اور مغل بادشاھوں کے زمانے کی اثار قدیمہ کی تعمیرات نادر نمونے موجود ھیں، وھاں پر ایک مغلوں کے زمانے کا مغل واہ گارڈن بھی ھے، وہاں سے ھوتے ھوئے مختلف علاقوں سے گذرتے ھوئے، ھم نوسہرہ کے اٹک کے پل پر پہنچے جو ایک پرانا اور تاریخی پل ھے وہاں کچھ دیر رکے اور پھر مردان کی طرف ھماری کار نے رخ کیا، مردان پہنچ کر کچھ دیر کیلئے وہاں پر کھانے کیلئے رکے، وہاں کا کڑھائی گوشت اور چپل کباب سے لطف اندوز ھوئے، بہت ھی ذائقہ دار پکا ھوا تھا، آپکو زیادہ تر کڑھائی گوشت اور چپلی کباب کے پکوان بہت ھی ذائقہ دار سرحد کے علاقوں میں ھی ملیں گے، اس کے علاوہ یہاں کی پشاوری چائے جو کیتلیوں میں ملتی ھے، وہ بہت ھی مزیدار اور پینے کا ایک الگ ھی لطف آتا ھے،!!!!!!

    مردان کے علاقے سے نکلے تو ھم سوات کی حسین وادیوں میں پہنچ گئے، شام ھونے والی تھی سردی کچھ بڑھتی جارھی تھی، فوراً ھی ھم نے بچوں کو گرم کپڑے پہنائے، اور خود بھی پہن لئے، ڈرائیور ھمیں ایک جگہ جس کا نام مرغزار تھا وھاں لے گئے وہاں پر والئے سوات کا سفید محل دیکھا جو اب ایک ھوٹل میں تبدیل ھوچا تھا، وھاں پر ھی ھمارے ٹہرنے کا انتظام تھا، معمول کے مطابق وہان پر دو کمروں میں ھم لوگ پہلے ھی کی ترتیب سے پہنچ گئے، بہت ھی گرم خوبصورت کمرے انگیٹھیاں لگی ھوئی، یہاں پہنچ کربہت تھک چکے تھے، اس لئے سب کمبلوں میں گھس گئے، اور ایسے سوئے کہ صبح ھوئی تو ھی آنکھ کھلی،!!!!!!

    ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ ٔٔٔٔٔٔٔٔٔ

    ناشتہ سے فارغ ھو کر ادھر ادھر پہاڑوں میں چہل قدمی کی، مرغزار کے اس علاقے میں سفید محل کے آس پاس کی خوبصورت وادیوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے ھم کسی طلسماتی جگہ پر آگئے ھیں، یہ میرے لئے تو پہلا موقعہ تھا، صبح صبح وادیوں میں پرندوں کی چہچہانے کی آوازیں کانوں میں ایک سریلی میٹھی سر بکھیر رھی تھیں اور ایک سحر انگیز منظر اور رومان پرور کا سا سماں چاروں طرف پھیلا ھوا تھا، دل چاھتا تھا کہ انہی حسین وادیوں میں کھو جائیں، دل تو نہیں چاھتا تھا کہ وہاں سے واپس جائیں، لیکن مجبوری تھی کیونکہ ابھی ایک لمبا سفر باقی تھا، اور بھی حسین اور خوبصورت مناظروں کو دیکھنے کی دل میں ہل چل مچی ھوئی تھی اور خوب سے خوب تر کی تلاش تھی،!!!!!

    مرغزار سے نکلے تو سیدھا سوات کے مین بازار میں پہنچے، وھاں کچھ دیر کیلئے گھومے کچھ وھاں کی ھاتھ کی بنی ھوئی چیزیں دستکاری کے خوبصورت نمونے اورخوبصورت تراشے ھوئے ھیرے بھی دیکھے، ھمارے سالے صاحب کو ان قیمتی پتھروں سے کچھ زیادہ ھی لگاؤ تھا، اور کچھ خریداری بھی کی، وھاں سے ھوتے ھم “میاں دم“ کے علاقے میں پہنچے اور وھاں کہ پاکستان ٹورزم کے ھوٹل میں کچھ دیر رک کر چائے کا آرڈر دیا اور وھاں سے تمام سوات کے علاقوں کی خوبصورتی کو اپنی انکھوں میں سماتے رھے، کیا حسین مناظر تھے، ھر جگہ کا اپنا ھی ایک حسن تھا، وہاں سے نکلے تو سیدو شریف میں کچھ دیر گھوم کر مینگورہ کے ساتھ دریائے سوات کے کنارے ھم کچھ دیر کیلئے گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور دریا کے کنارے آس پاس کی خوبصورت وادیوں کے حسن میں کھوئے رھے، نہ جانے پھر کب ھمیں قسمت لے کر آئے، مینگورہ میں کافی دیر تک ٹھرے، اور کھانا وغیرہ کھایا، اس کے بعد کالام جانے کیلئے ڈرائیور ھمیں لے کر چل پڑے، راستہ میں خواجہ خیلہ سے ھوتے ھوئے مدین اور بحرین کی وادیوں کے پاس تھوڑی دیر کیلئے رکے، وہاں بھی شور مچاتے ھوئے دریاؤں اور ان پر لٹکے ھوئے رسیوں کے جھولتے ھوئے پلوں کو دیکھا، بہت ھی خوبصورت مناظر کی عکاسی کررھے تھے،!!!!!!

    مدین اور بحرین میں وہاں کے دریاؤں کی تازہ مچھلی بھی کھائی، کچھ اچھی خاصی ٹھنڈ بھی تھی، اور گرما گرم تلی ھوئی مچھلی مھا شیر اور ٹراونٹ مچھلی کے ذائقے نے تو اور بھی ماحول کو گرما دیا تھا،!!!!!

    وھاں کچھ دیر رکے اور پھر کالام کیلئے روانہ ھوگئے، ھم چاھتے تھے کہ شام سے پہلے وہاں پہنچ جائیں، لیکن افسوس تو یہ ھوا کہ آگے جانے کے راستے بارش کی وجہ سے مٹی کے تودے گرنے کے باعث بند ھوچکے تھے، وھان سے ھم نے اپنا سفر مختصر کیا اور مایوسی کی حالت میں وہیں سے واپسی ھوئی، اور مینگورہ سے ھوتے ھوئے ھم شارع ریشم کی طرف نکل پڑے، اونچے اونچے پہاڑوں کے ساتھ ساتھ سلک روڈ اور ساتھ ھی دریائے سوات بھی ایک خوبصورت مناظر پیش کررھا تھا، اب ھمارا رخ ایبٹ آباد کی طرف تھا، شام ھوچکی تھی “بیشام‘ کے پاکستان ٹوریزم کے ایک چھوٹے سے مرکز میں کچھ منہ ھاتھ دھو کر تروتازہ ھوئے اور وہان سے ھم ایبٹ آباد کیلئے روانہ ھوگئے، رات ھوچکی تھی ھم سب بہت تھک چکے تھے صبح صبح کے نکلے ھوئے، کہیں بھی آرام نہیں کیا، رات گئے تک ھم آیبٹ اباد پہنچ چکے تھے جہاں ھمارے جاننے والے رھتے تھے، تھوڑی سی تلاش کے بعد ان کا گھر مل گیا، وہ لوگ تو بہت ھی زیادہ خوش ھوئے، اور رات کے کھانے کا خاص طور سے بندوبست کیا، کھا پی کر عورتیں اور بچے تو الگ ھی آپس میں مصروف گفتگو رھیں، اور ھم دونوں بھی سب کے ساتھ بیٹھک میں گپ شپ کرتے رھے،اور وہیں پر ھم نے رات بسر کی تھکے ھوئے تھے نیند کا غلبہ تھے خوب سوئے، صبح کافی دیر میں اٹھے،!!!!!

    یہ سب لوگ ھماری سسرال کے پڑوسی تھے جو کراچی میں رھتے تھے، اور ان سے بہت اچھے تعلقات تھے، اب بھی کراچی میں آنا جانا رھتا ھے، اور اب تو ھمارے ایک اور سالے صاحب کی شادی ایبٹ آباد کی ھی ایک فیملی میں ھوئی ھے، جو ھندکو زبان اچھی طرح بولتے ھیں، !!!! دوسرے دن دوپہر کے کھانے سے فارغ ھوکر انہوں نے ھمیں ایبٹ آباد کی سیر کرائی، ایبٹ اباد بھی پہاڑوں میں گھرا ھوا خوبصورت علاقہ ھے، مری اور سوات کی طرح خوبصورت وادیاں ھیں، اس وقت بھی اچھی خاصی ٹھنڈ تھی، پھر اس دن تو ویسے ھی گھومتے پھرتے شام ھوگئی تھی تو دوسرے دن ایبٹ آباد سے ھم نے نتھیا گلی جانے کا پروگرام بنایا، اور وہاں سے مری کے علاقے بھوربن اور جھیکا گلی کی طرف رخ کرنا تھا، کیونکہ جھیکاگلی میں بھی ھمارے پرانے جاننے والے رھتے تھے، اور شام تک ان کے گھر پہنچنا چاھتے تھے، ھمارے ڈرائیور صاحب بھی ماشااللٌہ بہت ھی پہاڑوں میں گاڑی چلانے کے ماھر تھے، اور ان تمام پہاڑی علاقوں کی کافی معلومات تھیں، اور انہیں کی وجہ سے ھم سب نے اس یادگار سفر سے خوب اچھی طرح لطف آٹھایا، !!!!!!!!!!

    جاری ہے،!!!!!!!

    "یادوں کی پٹاری" کے سابقہ ورژن سے ایک اقتباس،!!!!!!!
     
  2. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میرے وطن کی خوشبو،!!!!

    دوسرے دن ایبٹ آباد سے ھم نے نتھیا گلی جانے کا پروگرام بنایا، اور وہاں سے مری کے علاقے بھوربن اور جھیکا گلی کی طرف رخ کرنا تھا، کیونکہ جھیکاگلی میں بھی ھمارے پرانے جاننے والے رھتے تھے، اور شام تک ان کے گھر پہنچنا چاھتے تھے، ھمارے ڈرائیور صاحب بھی ماشااللٌہ بہت ھی پہاڑوں میں گاڑی چلانے کے ماھر تھے، اور ان تمام پہاڑی علاقوں کی کافی معلومات تھیں، اور انہیں کی وجہ سے ھم سب نے اس یادگار سفر سے خوب اچھی طرح لطف آٹھایا، !!!!!!!!!!

    یہ ضلع ہزارہ کے اطراف کے علاقے تھے، خوبصورت پہاڑوں اور لمبے لمبے چیڑ کے درختوں سے گھرے ھوئے، ان کے ساتھ ساتھ چلتی ھوئی شاراہیں بہت ھی ایک جادوئی طلسماتی منظر پیش کرتی ھیں، اللٌہ تعالیٰ نے ھمارے ملک میں ھر جگہ اتنا حسن اور خوبصورتی عطا فرمائی ھے، لیکن ھمیں اپنے ملک کی کوئی قدر نہیں ھے، انہیں خوبصورت مقامات سے ھوتی ھوئی، ھماری گاڑی بہت احتیاط سے بل کھاتی ھوئی سڑکوں پر چل رھی تھی، اور ھم سب انھی خوبصورت مناظروں سے لطف اندوز ھو رھے تھے، اگلا مقام ایوبیہ تھا، جسے نتھیا گلی بھی کہتے ھیں، وہاں پہنچتے پہنچتے ٹھنڈ تو اور زیادہ ھی بڑھ گئی،!!!!

    وہاں پر کیبل لفٹ چئیرز کا انتظام تھا، سب لوگ باری باری لفٹوں میں بیٹھے، کیا بات تھی اتنی اونچائی کے مقام پر ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر جانے والی یہ لفٹ چیر جب بادلوں میں سے گزرتی تھی، تو بہت ھی زیادہ لطف آتا تھا، اب تو یہ لفٹیں مری میں گھوڑا گلی کے مقام پر بھی لگ چکی ھیں اور آج کل کیبل چیر کے لئے یہاں آنے کی ضرورت بھی نہیں ھے، لیکن ایوبیہ نتھیا گلی کا اپنا ایک الگ ھی حسن ھے، ایک تو سب سے اونچی جگہ پر ھے، اور اگر آپ کو کہیں بھی برف جمی ھوئی نہ ملے، تو یہاں ضرور ھی برف سفید چادر کی طرح جمی ھوئی نظر آئے گی، یہاں ھم کچھ زیادہ دیر تک نہیں رکے اور مری کی طرف نکل گئے، کیونکہ ھم چاھتے تھے کہ شام سے پہلے پہلے مری پہنچ جائیں، کیونکہ وہاں ھم نے کسی کے یہاں قیام کرنا تھا یہ بھی ھمارے بہت پرانے جاننے والے تھے، ھم اکثر ان کے یہاں ھی کچھ دن ضرور قیام کرتے تھے، ان کا گھر جھیکا گلی کے علاقے میں پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹے سے گاؤں “سانٹھی“ میں تھا، ان کے گھر کے سامنے دوسرے پہاڑ پر پیرموڑہ شریف کا مزار ایک چاند کی طرح چمکتا ھوا صاف نظر آتا تھا، اور رات کو سالانہ عرس کے موقع پر وہاں خوب رونق ھوتی تھی،!!!!!

    جھیکا گلی کے علاقے پر پہنچتے ھی روڈ کے کنارے سے ایک چھوٹی سی پگڈنڈی “سانٹھی“ نام کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی طرف جاتی تھی، اور یہ راستہ کچھ خطرناک بھی تھا، اگر کسی کا پیر پھسل گیا تو بس سونچ لیں کہ نیچے ہزاروں فٹ کی کھائی تھی، وہاں پر اس وقت کوئی ٹیلفون یا موبائل کی سہولت نہیں تھی، ورنہ ھم پہلے ھی آنے کی اطلاع دے دیتے، بہرحال سب ویسے ھی بہت تھکے ھوئے تھے، مزید پہاڑ کے نیچے اترنا تو ایک بہت بڑا کٹھن مرحلہ تھا، ھم سب کچھ دیر کیلئے سڑک کے کنارے ھی پگڈنڈی کے موڑ پر ھی چادر بچھا کر بیٹھ گئے، دونوں لیڈیز تو لیٹ گئیں، اب فیصلہ یہ کرنا تھا کہ نیچے اترا جائے یا اوپر ھی مری کے کسی ھوٹل میں ٹہرا جائے،!!!!!!

    اتفاق سے اسی گاؤں کی طرف جانے والے مل گئے، جو انہیں بھی جانتے تھے، انہوں نے ھمیں وہاں تک کی راہنمائی کی پیش کش کی، اور پھر ھم تیار ھوگئے، لیکن نوبیاہتا جوڑا نیچے اترنے سے گھبرا رھا تھا، اسلئے انہوں نے واپس اسلام آباد جانے کا فیصلہ کرلیا، اور دوسرے دن کے آنے کا وعدہ کرکے اسی کار میں واپس چلے گئے اور اسی وقت ھم اور ھمارے بچے اپنے آپ کو سنبھالتے ھوئے پہاڑ کے نیچے اترنے کی کوشش کررھے تھے،!!!!!!!!

    ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ ٔٔٔٔٔٔٔ

    بچے تو گود میں آنے کو تیار ھی نہیں تھے، ساتھ راہنمائی کرنے والوں نے ھمارے ھاتھ کا سامان اٹھا رکھا تھا، اور ایک نے ھماری چھوٹی گود کی بچی کو اٹھایا ھوا تھا، بڑے بیٹا اور بیٹی جو 8 اور 6 سال کے تھے وہ تو خود ھی تفریح کرتے ھوئے اتر رھے تھے، ان کے بعد کا ایک بیٹا جو تقریباً اس وقت 4 سال کا تھا، وہ میری گود میں نیچے اترنے کے لئے مچل رھا تھا، آج میں یہ سوچتا ھوں کہ یہ چاروں بچے اب بڑے ھو چکے ھیں دو کی تو اب شادیاں بھی ھو چکی ھیں، لگتا ھے کہ یہ سب کل کی سی بات ھو، وقت کیسے اتنی جلدی گزر گیا کہ کچھ پتہ ھی نہیں چلا، کل تک جب میرے بچے میری انگلی پکڑ کر چلتے تھے، پچھلے دنوں وہ میری بیماری کے دوران وہ مجھے سہارا دے کر سیڑھیوں پر چڑھا رھے تھے، اور وہ دونوں میرے بیٹے آج قد میں مجھ سے بھی بڑے ھیں، کیا شان ھے میرے رب کی، سبحان اللٌہ !!!!!!

    دونوں بڑے بچوں کو بھی ایک تفریح مل گئی تھی، جگہ جگہ وہ ٹہر جاتے اور پھولوں ‌پر بیٹھی ھوئی تتلیوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے، اور میں ڈرتا رھتا کہ ان کا پیر سلپ نہ ھوجائے، مگر انہیں کسی بات کی فکر ھی نہیں تھی، کیونکہ وہ چھوٹی سی پگڈنڈی آگے چل کر تو بہت ھی خطرناک ڈھلان کی شکل اختیار کر چکی تھی، میں تو بس پیچھے پیچھے دونوں بچوں کو ڈانٹتا ھوا جا رھا تھا، اور ھماری بیگم بھی بہت محتاط ھوکر چل رھی تھیں، مگر کچھ غصہ میں بھی نظر آرھی تھیں، اور میں تیسرے نمبر کے بیٹے کو گود میں اٹھائے ھوئے ھانپتا ھوا پہاڑوں کی ڈھلان کی طرف آہستہ آہستہ اتر رھا تھا شکر تھا کہ ابھی کچھ شام کی ھلکی سی روشنی باقی تھی اور سورج کی آخری کرنیں جدا ھوتی ھوئی نظر آرھی تھیں،!!!!!

    بالآخر ھانپتے کانپتے ھم اپنے مطلوبہ مقام “سانٹھی“ تک پہنچ گئے، وہاں پر بھی وہ سب اپنے گھر سے باھر آگئے اور ھمیں پہچاننے کی کوشش کرنے لگے، جیسے ھی انہوں نے پہچانا ایک شور مچ گیا، اپنی پہاڑی زبان میں “چھوٹے شاہ جی کراچی سے آگئے“ سارے خوش ھوگئے، سردی تو بہت تھی کپکپی لگی ھوئی تھی، فوراً انھوں نے مہمانوں کا کمرہ کھولا انگیٹھی پہلے ھی سے جل رھی تھی، کمرے کے بیچوں بیچ انگیٹھی تھی اور چاروں طرف پلنگ رضائیوں سے لدے ھوئے، میں اور دو بچے میں ایک بستر میں گھس گئے اور ھماری بیگم دوسرے پلنگ پر باقی دونوں چھوٹے بچوں کے ساتھ رضائی کو چاروں طرف سے لپیٹ لیا، تیسرے پلنگ پر میزبان فیملی تھی اور سب خیر خیریت معلوم کررھے تھے،!!!!!

    کیونکہ کافی عرصہ بعد ملاقات ھوئی تھی، اس لئے سب کو بہت ھی خوشی ھورھی تھی، بجلی تو تھی، کمرے میں ایک بلب اور ایک ٹیوب لائٹ جل رھی تھی، سب لوگ خاطر مدارات میں لگ گئے، کوئی تو انہی کے باغات کے پھل سیب، بگو گوشہ، ناشپاتیاں لارھا تھا کوئی خشک میوہ جات، ھمارے بچے بھی ان کے بچوں کے ساتھ ھی کمرے میں ایک دوسرے سے باتیں کررھے تھے، مگر ھمارے بچے ان کی زبان سمجھ نہیں پارھے تھے، بار بار میرے پاس آتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رھے، شاید کھانا پکانے کی تیاری بھی ھورھی تھی، دروازہ کھلتا تو سامنے تندور جلتا ھوا نظر آرھا تھا اور ساتھ ھی ایک کھلا باورچی خانہ دکھائی دے رھا تھا، جہاں دو عورتیں لکڑی کے چولہے پر ایک بڑی مٹی کی ھانڈی میں کچھ پکاتی ھوئی نظر آرھی تھیں، بھوک بھی شدید لگی ھوئی تھی، اور باھر سے پکتے ھوئے کھانوں کی سوندھی سوندھی خوشبو نے تو اور بھوک میں چار چاند لگا دئے تھے، !!!!

    ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ ٔٔ

    یہاں کے سیدھے سادے پرخلوص لوگ کتنے مہمان نواز ھوتے ھیں، گھر پر کوئی بھی آتا ھے تو اس کے آگے پیچھےخاطر مدارات میں لگ جاتے ھیں، کاش ھم سب کے دلوں میں بھی یہی محبت جذبہ خلوص ھو، اسی کمرے میں نیچے دستر خوان بچھا کر کھانا لگایا گیا، گرم گرم کھانوں سے بھاپ نکل رھی تھی، ایک طرف سبزی شاید پکی تھی اور ایک پلیٹ میں مرغی نظر آرھی تھی، اور سلاد کے ساتھ پودینہ کی چٹنی، اور پھر گھر کے تندور کی تازہ تازہ گرم گرم روٹیاں سوندھی اپنی ایک روائتی مہک کے ساتھ، کیا خوشگوار ماحول تھا، کتنے ھی مزیدار ذائقےدار کھانے کسی شاھی دسترخوان کے اعلیٰ ذائقوں سے کم نہیں تھے،!!!!!!

    کھانے سے فارغ ھوئے تو ذرا دروازہ کھول کر اھر جھانکنا چاھا تو سرد ھوا کے جھونکے نے واپس اندر آنے کیلئے مجبور کردیا، اندر کمرہ گرم تھا، میں نے فوراً ھی اپنی جیکٹ پہنی کانوں پر پشاوری ٹوپی ڈالی اور ایک گرم مفلر لپیٹ کر پھر سے قدم باہر نکالا، اب کچھ غنیمت تھا، لیکن پھر بھی سردی پیروں کی طرف سے لگ رھی تھی، مگر میں تو باھر کے مناظر کو دیکھتے ھی سردی کو تو بھول ھی گیا،رات ھوچکی تھی تمام آس پاس کے پہاڑون پر ایسا لگتا تھا کہ ساری کائنات کے ستارے ان پہاڑوں میں جگمگا رھے ھیں، ھر گھر کی کھڑکیوں دروازوں سے روشنیاں چھن چھن کے باھر کے فضا کو چمکدار بنائے ھوئے تھیں، دوسرے پہاڑ کی جانب پیر موڑہ شریف کی درگاہ بھی روشنیوں سے جگمگا رھی تھی اور پہاڑوں میں ‌وہاں سے سریلی مست قوالیوں کی گونج چاروں طرف گونج رھی تھی، دل یہی چاہ رھا تھا، بس اس طلسماتی منظر سے کبھی بھی دور نہ رھوں،!!!!!!!

    اندر کمرے سے آوازیں آرھی تھیں، شاید مجھے بلارھے تھے کیونکہ اندر کی انگیٹھی پر رکھی ھوئی کیتلی میں‌ چائے پک چکی تھی، اور پھر کھانے کے بعد ان سرد علاقوں میں گرم گرم چائے کا اپنا ایک الگ ھی مزا ھے، یہاں آکر تو میں سب دفتر کی ٹینشن، شہر کے بے ہنگام شور کو بھول چکا تھا، میں تو بس یہی چاھتا تھا کہ کہ یہاں کے ھر ایک یادگار لمحہ کو اپنی آنکھوں میں سما لوں، نہ جانے پھر کب یہاں آنے کا موقع ملے گا، !!!! باتیں کرتے کرتے کافی رات ھوگئی، اور اسی طرح پتہ ھی نہیں چلا کہ کب سب اپنے اپنے بستروں میں لحافوں میں گھس کر خوب گہری نیند سوگئے، صبح صبح کھڑکی کی درزوں سے سورج کی کرنیں پھوٹتی نظر آئیں تو میری آنکھ کھل گئی، باھر پرندوں کی آوازیں اور بھی مجھے باہر جانے کیلئے بےچین کررھی تھیں،!!!!

    دروازے کو آہستہ سے کھولا، سورج نکلا ھوا تھا، ٹھنڈ ابھی تک زیادہ تھی لیکن دھوپ کی وجہ سے کچھ شدت میں کمی تھی، کیا خوبصورت منظر تھا، پہاڑوں کے بیچوں بیچ کھڑا ھوا چاروں طرف ان خوبصورت مناظروں سے میں لطف اندوز ھورھا تھا، تمام پہاڑ ھرے بھرے لمبے لبے طویل چیڑ کے درخت بہت ھی خوبصورت منظر پیش کررھے تھے اور میرے سامنے چاروں طرف مختلف پھلوں کے درخت لگے ھوئے تھے، ناشتہ سے فارغ ھوکر ھم سب مل کر اور مزید نیچے کی طرف نکلے وھاں پر پانی کے جھرنے اور چشمے بہہ رھے تھے کیا حسین مناظر تھے، یہ ستمبر کا مہینہ تھا اور یہ سب کچھ تیں مہینے بعد سفید برف کی چادروں میں چھپ جانے والا تھا، قدرت بھی اس پیاری دھرتی پر کیا کیا رنگ بکھیرتی ھے، سبحان اللٌہ!!!!!!!!!

    ابھی اوپر مین روڈ بھی جانا تھا کیونکہ دوپہر کو ھمارے سالے صاحب اور انکی نوبیہاتا دلہن سے جو وعدہ کیا تھا کہ وہ لوگ دوسرے دن ھمارا جھیکاگلی کے اس موڑ پر انتظار کریں گے، اور میں نے یہ سوچا بھی تھا کہ کچھ پکانے کیلئے تازہ گوشت اور قیمہ وغیرہ بھی اوپر سے خرید لائیں گے، اور ساتھ ھی کچھ چاول اور مصالہ جات بریانی وغیرہ بنوانے کیلئے، اور کچھ میزبان کے بچوں کیلئے کچھ تحفے تحائف بھی خریدنے تھے، پھر اسی طرح اوپر چڑھنے لگے ساتھ میں وھاں کے بس ایک دو بندے ساتھ وھاں کے چند بچے بھی تھے اور میرا بڑا بیٹا ساتھ تھا جو تقریبا 8 سال کا تھا، اسے بھی میری طرح خوب گھومنے پھرنے کا شوق تھا، اوپر چڑھنا تو واقعی بہت مشکل مرحلہ تھا، لیکن وہان کے مقامی بچے تو اچھلتے اچھلتے تیزی سے چڑھتے جارھے تھے، اور میرا بیٹا بھی انہی کے جیسے چھلانگیں مارتا ھو جارھا تھا، اور میں پیچھے سے چیختا ھی جارھا تھا اور اسے تو کوئی فکر ھی نہیں تھی، وہ اپنے ھم عمر بچوں کے ساتھ خوب خوش خوش پہاڑ پر چڑھتا جارھا تھا،!!!!!

    اوپر جیسے ھی ھم پہنچے تو واقعی وہ دونوں بمعہ کار کے ھمارا انتظار کررھے تھے، میں نے تو ان کو بچوں کے ساتھ نیچے بھیج دیا، اور میں ڈرائیور کے ساتھ مری کے میں بازار چلا گیا، میرے ساتھ وہاں کے ایک میزبان کے بھی ساتھ ھی تھے، وھاں سے تازہ گوشت قیمہ اور ضرورت کی تمام چیزیں خریدیں اور پھر واپس جھیکاگلی کی طرف آگئے مری سے تقریباً چار یا پانچ کلومیٹر کا فاصلہ ھی ھوگا، وہاں پر نیچے جانے کے موڑ پر ھی اتر گئے کار کا روکنا بھی صحیح نہیں تھا، کیونکہ پارکنگ کا مسئلہ تھا، اس لئے ڈرائیور کو کل دوپہر کا آنے کا کہہ کر انہیں رخصت کردیا، سامان تو دوسرے نے اٹھایا ھوا تھا، میں تو بس جھاڑیاں پکڑ پکڑ کر نیچے اتر رھا تھا، کبھی کبھی میں جگہ جگہ رک کر تھوڑا آرام بھی کرلیتا تھا، آخر ایک گھنٹے بعد ھے گھر تک پہنچ ھی گئے، اور بس صحن میں چارپائی پر دھوپ سیکنے بیٹھ گیا اور قدرتی نظاروں میں پھر گم ھوگیا، ساتھ ھی میرے سالے صاحب بھی، وہ تو میرا دوست بھی تھا، نئی نئی شادی کراکر میرے ساتھ ھی آگئے تھے، اور انہوں نے بھی خوب لطف اٹھایا،!!!!!!

    ھم خوب باتیں کرتے رھے، ھماری بیگمات وہاں کی عورتوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف اور ساتھ ھی دوپہر کے کھانے کی تیاری بھی کررھی تھیں، اس صحن کے نیچے بھی جانوروں اور ذخیرہ گندم اور چارے کے اسٹور اور کمرے بنے ھوئے تھے جہاں انہوں نے بھینسیں بکریاں رکھی ھوئی تھی اس کے علاوہ مرغیاں تو کافی ادھر چلتی پھرتی نظر آرھی تھیں، کچھ تو اپنے چوزوں کے ساتھ دانہ چگ رھی تھیں، اور کبھی کبھی بادل بھی ھمارے ساتھ آس پاس ھی گھوم رھے ھوتے تھے جس سے کچھ نمی کا احساس ھوتا تھا، کھانا بن رھا تھا شہری اور گاؤں کی عورتیں دونوں مل کر کھانے پکانے میں مصروف تھیں، اور بچے اپنے ھم عمر دوستوں کے ساتھ ادھر ادھر گھومتے پھر رھے تھے،مجھے ڈر بھی لگ رھا تھا کہ اپنے بچے کہیں ادھر ادھر پھسل کر نیچے نہ گر جائیں، مگر ان کو کوئی پرواہ بھی نہیں تھی!!!!!!

    نوبہاتا جوڑے نے بھی خوب پہلی مرتبہ ان خوبصورت پہاڑوں کے حسین طلسماتی نظاروں کا لطف اٹھایا، وھاں کے زیر زمین پانی کے چشموں کی اور اوپر سے چھنا چھن شور میں گرتے ھوئے جھرنوں اور چھوٹے آبشاروں کی خوبصورتی اور حسن کا زندگی میں پہلی بار نزدیک جاکر جائزہ لیا، اس کے علاؤہ وہاں کے خوبصورت مناظر میں اور بھی خوب لطف آتا جب ھلکی ھلکی پھوار پڑنا شروع ھوجاتی، اور عورتیں اور بچے تو سردی کی پرواہ کئیے بغیر ھی بارش میں خوب تفریح لیتے تھے، یہ تمام وادیاں سردیوں میں مکمل طور سے برف میں ڈھک جاتی ھیں، اور یہ مقامی لوگ ان دنوں محفوظ مقامات پر نقل مکانی پر مجبور ھوجاتے ھیں، مگر صرف اپنے ھی خرچے پر، یہ لوگ ھمارے ملک کے لئے کتنی محنت کرتے ھیں، لیکن ان کی پریشانیوں کا حال کوئی ان کے گھر جاکر کوئی ان سے پوچھے کہ موسموں کی ھر تکلیف سہنے کے باوجود یہ اپنے ملک کی قوم کیلئے پھل فروٹ اور دنیا کی نعمتیں ھم تک پہنچانے کے لئے ھر سال ان موسموں کی ناقابل برداشت صورت حال میں بھی کتنی خدمت کرتے ھیں، لیکن ان کو اس کا معاوضہ انہیں نہ ھونے کے برابر ملتا ھے، منڈی کے بڑے بڑے ٹھیکیدار یہاں آکر اپنی مرضی کی بہت ھی چند گنے چنے نوٹوں کے عوض زبردستی تمام باغوں کے مالک بن بیٹھتے ھیں اور پھل پکنے کے بعد سب کچھ توڑ کر لے جاتے ھیں، یہ لوگ بس دیکھتے ھی رہ جاتے ھیں، اگر یہ لوگ خود منڈی تک جائیں تو ان کو ان کا اپنا مال بیچنے کی اجازت نہیں ملتی، بلکہ ان سے غنڈوں کے ذریعے مال کو لوٹ ھی لیتے ھیں، یہی حال دوسرے کسانوں کا بھی ھوتا ھے،!!!!

    اتنا دکھ ھوتا ھے ان سب کی روداد سن کر ان کے بچوں کے لئے اچھی تعلیم اور صحت کیلئے کوئی بھی اچھے مراکز نہیں ھیں، جو بھی فلاح و بہبود کے ادارے ھیں ان لوگوں کی آڑ میں پیسہ بٹور رھے ھیں، اور وہ صرف اپنے ھی مفاد کیلئے اپنی ھی جیبیں بھر رھے ھیں،!!!! ھم نے وھاں پر اتنے لذیذ اور خوش ذائقہ سیب، بگوگوشہ،ناشپاتی کے علاوہ املوک اور دوسرے پھل بھی دیکھے اور کھائے بھی، جو انھوں نے خاص طور سے پہلے سے ھی اپنے ذخیرہ اسٹور میں رکھے ھوئے تھے جو میں نے اپنی زندگی میں شہروں میں کسی بھی فروٹ مارکیٹ میں نہیں دیکھے، نہ جانے یہ ٹھیکیدار لوگ ان سے ان کی محنت سے حفاظت کئے ھوئے پھلوں کو کہاں بیچ آتے ھیں جو قوم کو کھانے کو میسر نہیں ھیں، اللٌہ تعالیٰ ان کو ان ظالم ٹھیکیداروں سے بچائے، آمین،!!!!!

    دوسرے دن جب ھم ان سے جدا ھورھے تھے تو میزبان کے تمام گھر والے آنسوؤں سے رو رھے تھے، اور ھمیں بھی ان سے بچھڑ کے بہت دکھ ھورھا تھا، ان کی میزبانی میں کوئی شک نہیں اپنوں سے بھی بڑھ کر ھماری جس خلوص دل سے خاطر مدارات کیں، اس کا صلہ کوئی بھی نہیں دے سکتا سوائے اللٌہ تعالیٰ کے،!!!! وہ ھمیں دعائیں دے رھے تھے، اور ھم سب ان کا شکریہ ادا کرتے ھوئے وداع ھورھے تھے، اوپر ھانپتے کانپتے پہنچے تو وہاں فوراً ھی سرد ھواؤں کے جھکڑ شروع ھوگئے، ھم سب اوپر کانپ رھے تھے حالانکہ سب نے گرم کپڑے اور شالیں لپیٹ رکھی تھیں اور ابھی تک ڈرائیور گاڑی لے کر نہیں پہنچا تھا، ھمارے ساتھ آئے ھوئے میزبان جو ھمارا سامان بھی اٹھا کر لائے اور ساتھ کافی پھل فروٹ بھی باندھ کر تحفے میں دئیے، اس خوش دل میزبانی کو میں اپنی زندگی میں کبھی بھول نہیں سکتا،!!!!

    کچھ ھی دیر میں گاڑی بھی آگئی سامان وغیرہ کار کی ڈگی میں رکھا اور وہاں سب کو الوداع کہتے ھوئے روانہ ھوگئے، پہلے تو کچھ دیر کے لئے بھور بن کے جنگلات کی طرف نکلے اور کار میں رھتے ھوئے ھی باھر سے ھی دیکھا، کیونکہ ٹھنڈی ھوائیں چل رھی تھیں، باھر نکلنے کی ھمت کسی میں بھی نہیں تھی، وھاں سے واپس اسلام آباد کیلئے روانہ ھوئے بیگمات کے اصرار پر مری کے سنر میں اپر مال اور لوئر مال روڈ کی سیر کرائی، مگر سرد ھواؤں اور جھکڑ کی وجہ سے زیادہ رکنا محال ھورھا تھا، اس لئے فوراً ھی وھاں سے جانے میں ھی بہتری سمجھی، ورنہ تو شاید سب کی قلفی جم جاتی، مری سے نکلے تو گھوڑا گلی کے پاس کچھ دیر کیلئے چائے پینے کیلئے رکے، دوپہر کا کھانا اور ناشتہ بھی ایک ساتھ ھی ھم لوگ کھا پی کر ھی گھر سے نکلے تھے، اس لئے صرف چائے پر ھی اکتفا کیا، اس سے کچھ جسم میں حرارت محسوس ھوئی، ورنہ تو منہ پر ناک بھی غائب نظر آتی تھی، اور ھاتھ پاؤں بھی سن ھوچکے تھے،!!!!!

    وہاں سے آگے نکلے تو پھر ھلکی ھلکی پھوار شروع ھوگئی تھی، اور ھمارے ڈرائیور صاحب بھی بل کھاتی ھوئی سڑک ہر بہت ھی محتاط ھو کر آہستہ آھستہ گاڑی چلارھے تھے، جیسے جیسے ھم پہاڑوں سے نیچے آرھے تھے، سردی کی شدت میں کمی ھوتی جارھی تھی، جب “چھتر“ کا علاقہ آیا تو کچھ دھوپ کے آثار دکھائی دئیے تو جان میں جان آئی، کچھ دیر کے لئے وہاں کے موسم کا بھی لطف اٹھایا، دھوپ کا مزا لیا اور ساتھ ھی وہاں کی ایک ندی کے پاس بیٹھ کر آس پاس کی حسین وادیوں کو آخری بار للچائی ھوئی نظروں سے جائزہ لیتے رھے، یہ علاقہ بالکل پہاڑوں کی آخری ڈھلان کا حصہ تھا، وہاں سے پہاڑوں کی اونچی اونچی چوٹیاں نظر آرھی تھیں،!!!!!

    وہاں سے بھی بالآخر روانہ ھوگئے، موسم بہت ھی خوشگوار ھوچکا تھا، سیدھا ھم اسلام آباد کے اپنے گیسٹ ھاؤس میں پہنچے، بہت ھی زیادہ تھک چکے تھے شام ھو چکی تھی، سامان وغیرہ کار سے نکالا اور کمروں میں رکھ دیا، اور ڈرائیور بھائی صاحب کا بہت ھی شکریہ ادا کیا، انہوں نے جس طرح ھمیں اپنی فیملی سے زیادہ خیال کیا اور اپنا سمجھ کر ھمیں ھمارے ملک کے خوبصورت اور حسین تر علاقوں کی سیر کرائی، جس کا احسان ھم زندگی بھر نہیں بھول سکتے، آج بھی جب ھم وھاں کی تصویروں کو دیکھتے ھیں، تو ساری یادیں تازہ ھوجاتی ھیں، اور ھم اپنے ان بھائی کو اور ھمارے تمام میزبانوں کو دل سے ھمیشہ یاد کرتے ھیں اور بہت دعائیں دیتے ھیں، اللٌہ تعالیٰ ان سب کو صدا خوش رکھے اور جائز خواھشات کی تکمیل کرے،!!!!!!

    ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ

    میں اپنا یہ سفر اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں بھول سکتا، کیونکہ یہ سفر میری زندگی کا طویل ترین سفر تھا، ساتھ میری چھوٹی سی فیملی بھی تھی، اور پہلی بار مجھے پاکستان کے خوبصورت علاقوں کا دیدار نصیب ھوا، جو کہ میں اپنے خوابوں میں بھی تصور نہیں کرسکتا تھا،!!!!!

    ھمارا ملک پاکستان کتنا خوبصورت ھے، دنیا میں سیاحت سے دلچسپی رکھنے والے اس کے حسن اور خوبصورتی کی تعریفیں کرتے ھیں، اور ھم اس کے بارے میں کیا سوچتے ھیں،؟؟؟؟ محبت تو بہت کرتے ھیں لیکن عملی طور پر بے قدری کررھے ھیں،!!!!!


    "یادوں کی پٹاری" کے سابقہ ورژن سے ایک اقتباس،!!!!!!!
     
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میرے وطن کی خوشبو،!!!!

    بہت شکریہ سید انکل اپنی خوبصورت یادیں ہمارے ساتھ شیئر کرنے کا ۔ پاکستان جیسے خوبصورت خطے دنیا میں کہیں نہیں ہوں گے ان کے سیر ہو اور پھر اپنے پیارے بھی ساتھ ہوں تو چوپڑی اور 2،2 والی بات صآدق آتی ہے۔ اللہ تعالی آپ کو ہمیشہ اپنی فیملی کے ساتھ خوش و خرم رکھے۔
     
  4. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    جواب: میرے وطن کی خوشبو،!!!!

    انکل سید ۔ آپ نے پیارے پاکستان کی سیر کروا دی ۔ شکریہ
     
  5. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میرے وطن کی خوشبو،!!!!

    سید انکل بہت ہی خوبصورت لکھا ہے ابھی مجھ سے سارا پڑھا نہیں‌گیا :222:
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میرے وطن کی خوشبو،!!!!

    واقعی موجودہ قسم کے خطے دنیا میں کہیں نہیں ہیں :no:
     
  7. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میرے وطن کی خوشبو،!!!!

    بہت بہت شکریہ، یہ میرے پیارے وطن کا سہانا سفر بھی میری سابقہ یادوں کی پٹاری کا ایک حصہ ہے، جس کے کھلنے میں پریشانی ہورہی ہے، اور لوگ مجھے اس کی شکایت بھی کررہے ہیں،!!!! آپ سب سے سفارش کرنے کی درخواست ہے،!!!!!
     
  8. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میرے وطن کی خوشبو،!!!!

    میرے وطن کی ہر چیز مجھے عزیز ہے، وہاں کا کلچر پردیس میں کہاں دیکھنے کو ملتا ہے ہم تو ترس جاتے ہیں، اپنے وطن میں گزری ہوئی پرانی خوشگوار یادوں کو یاد کرکے تازہ کرتے رہتے کہ کبھی بالکونی سے جھانک کر تو دیکھیں کہ کیا بیچنے والا جارہا ہے، کھڑکیاں جو کھلی ہیں تازہ تازہ ہوا آرہی ہے، مجھے اپنے بچپن میں ٹھیلے والوں کے پاس جاکر آلو چھولے، فروٹ چاٹ کھانا بہت پسند تھا، اس کی آواز میرے کانوں کو بھلی لگتی تھی، جب وہ آواز لگاتا ہے، آلو چھولے، بارہ مصالے،!!!! گول گپے کی ریڑی والا تو بغیر ہمارے دروازے سے کچھ لئے دیئے تو گزر ہی نہیں سکتا،!! جہاں مزید گلی کے بچوں کا رش بھی لگ جاتا ہے،!!!! گول گپے والا آیا گول گپے والا اس کے علاؤہ ٹھنڈی کھوئے ملائی والی قلفی اور رنگ برنگے گولا گنڈے،والا !!!!، تو بس کیا بتاؤں کیا ہم چسکیاں لے کر خوب مزے سے کھاتے تھے، وہاں کا کیا عالم ہے کہ سبزی بیچنے والے بھی اپنی ہری بھری سبزیاں ٹھیلوں پر سجائے، ان پر پانی چھڑکتے ہوئے آوازیں لگاتے جب گزرتے ہیں تو تقریباً ہر گھر پر اپنے اپنے گیٹ کے پاس عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ اپنی من پسند کی سبزیاں خریدتی ہوئی نظر آتی ہیں،!!!!! تازی لوکی لے لو پالک لے لو، گوبھی لے لو، کراری تازہ بھنڈیاں دیکھو، پیاز آلو ٹماٹر لے لو،!!!!
    مچھلی والوں کو بھی دیکھا اپنی سائکلوں پر پیچھے مچھلی کا ٹوکرا لٹکائے گلی گلی آوازیں لگائے پھرتے ہیں، تازہ میٹھے پانی کی روو، پلا، مچھلی تازہ پاپلیٹ مچھی لے لو،!!!! ہاں مگر میں نے کبھی گوشت یا مرغی والوں یا گھر کے راشن والوں کو پگلیوں کا پھیرا لگاتے ہوئے نہیں دیکھا، اس کے لئے تو بازار ہی جانا پڑتا ہے، مگر مٹی کا تیل اور پکانے کے تیل والوں کو سائکل کے پیچھے چھوٹا ٹینکر لگائے گلی گلی گھومتے ضرور دیکھا ہے،!!!! ہاں ایک اور آواز برتنوں کو چمکانے کے لئے بھی سنی پھانڈے قلعی کرالو،!!!!!

    ابھی بھی وہی ماحول ہے، اپنی گلی میں دیکھو تو بندر والا اپنی ڈگڈگی بجائے چلا آرہا ہے اور ہم بچوں سمیت ہی اپنی بالکونی سے جھانکنے لگیں تو بندر والے نے وہیں اپنا ڈیرہ جمالیا اور لگا بندر کا تماشہ دکھانے، اور بار بار ہماری طرف دیکھ کر بندر کو کہتا بھی جائے کہ دیکھو بابو صاحب کو ایک سلام مارو، آج بابو جی تو تمہیں کھانا بھی کھلائے گا، اپنا پیٹ دکھا، دو دن سے کچھ کھایا جو نہیں، اب کیا اپنی جیبیں ٹتولتے یا پھر بیگم کو آواز دیتے کہ اگر کچھ گھر میں کھانے کو کچھ ہے تو بندر والے کو باہر بھجوادو،!!!!

    ہمارے یہاں میں تو بچپن سے ڈاکیہ کو دیکھ رہا ہوں جو اپنی سائیکل روزانہ ہر گھر میں خط پہنچا رہا ہے، اور وہ اپنے اس پیشے سے اس مہنگائی کے دور میں بھی خوش ہے، کبھی کبھی کوئی بھلے گھر سے اسے کچھ عیدی کے طور پر پیسے مل جاتے ہیں تو اس کی عید اچھی گزر جاتی ہے، مگر کوئی کچھ دے یا نہ دے وہ ڈاکیہ اپنا فرض بخوبی نبھاتا ہے، ہر گھر میں ان کے پیاروں کا پیغام پہنچانا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے، بلکہ کئی گھروں میں تو وہ خط پڑھ کر بھی سناتا ہے اور لوگ اس سے اپنا دکھ درد بھی شئیر کرنے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے، آج کل تو موبائل کی سہولتوں کی وجہ سے خط و کتابت میں کمی آگئی ہے، لیکن اب بھی کچھ لوگ اپنی پرانی روائتوں کو نہیں بھولے ہیں، پیغامات کا سلسلہ اب بھی ویسے ہی قائم کئے ہوئے ہیں،!!!!

    بچے بھی گلی میں کھیل رہے ہیں، خوب شور و غل مچا ہوا ہے، دھول مٹی بھی ساتھ ساتھ اڑ رہی ہے کمروں میں صحن میں جب ہی تو کہوں کہ بیگم روز صفائی کرتی ہیں اور کافی مٹی اور کچرا باہر پھینکتی ہیں،!!! یہاں پردیس میں بہت کم ہی کمروں میں مٹی دیکھی کیونکہ یہاں تو کھڑکی دروازے تو ہمیشہ بند ہی رہتے ہیں، ائرکنڈیشنڈ ضرور چل رہے ہوتے ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ بند کمروں کی ٹھنڈی جیل ہو، یہاں شروع شروع میں تو کمروں میں دم گھٹتا تھا لیکن اب تو عادت سی ہوگئی ہے،!!!!

    مجھے تو بچپن سے ہی ٹرین میں سفر کرنے کا بہت شوق ہے، لیکن اب کہاں موقعہ ملتا ہے، شروع شروع میں اپنے وطن میں بچپن سے جوانی کے عروج تک خوب ٹرین کا سفر کیا، میں تو سفر کے دوران سونے کا عادی ویسے بھی نہیں ہوں، مجھے لمبے لمبے سفر بہت ہی زیادہ پسند تھے، چاہے وہ بس کا ہو یا ٹرین کا سفر، مجھے بہت لطف آتا تھا، ہر بس اسٹاپ پر یا ہر ریلوئے اسٹیشن پر جیسے ہی ٹرین رکنے لگتی میں تو فوراً ہی کھڑکی سے باہر جھانکنے لگتا تھا، وہاں کے حاکروں کی ملی جلی آوازیں تو کبھی قلیوں اور مسافروں کا شور کوئی مسافر فیملیوں کے ساتھ کچھ اکیلے اپنے اپنے سامان کے ساتھ اتر رہیں ہیں اور کوئی چڑھ رہے ہیں ایک افرا تفری کا عالم ہوتا ہے، لیکن جو آوازیں آتی ہیں، اس کا اپنا ایک الگ ہی مزا ہوتا ہے، آپ کو چند آوازیں تو خیر ہر اسٹیشن پر سنائی دیں گی، جیسے چائے گرم ہے بھئی، کباب پراٹھے،!!!! کچھ تو سفید یا خاکی وردی پہنے بوگیوں میں دس بارہ ٹرے کھانوں کی ایک ہتھیلی پرسجائے ہوئے آواز لگا رہے ہیں، گرم کھانے ڈائینگ کار کے کھانے بھئی،!!!! کوئی تو کھڑکی کے باہر سے ہی آواز لگا رہے ہیں کہ اسٹیشن کے گرم کھانے رات کا مزیدار کھانا اگلے اسٹیشن پر،!!!!!! صبح صبح ہی آوازیں لگاتے پہنچ جاتے ہیں، ڈائینگ کار کا ناشتہ بھئی،!!!!!

    کچھ حاکروں کی آوازیں ہر اسٹیشن پر وہاں کی مشہور چیزوں کی ہوتی ہیں، مجھے تو یہ آوازیں بہت ہی اچھی لگتی ہیں، ملتان خانیوال کے اسٹیشنوں پر خاص کر حافظ جی کا ملتانی سوہن حلوہ لے لو،!!!! وزیرآباد میں چھری چاقو قینچی لے لو،!!!!! حیدرآباد اور کوٹری میں چوڑیاں حیدرآباد کی لے لو،!!!!! بعض تو ڈبوں میں اپنی رنگ برنگی چوڑیوں کی دکان سر پر سجائے چلے آتے ہیں،!!!!!! ایک بالکل اپنے سروں میں مخصوص آوازوں کے ساتھ،!!!!

    یہ آوازیں ہمارے ملک کی ثقافت کا حصہ ہیں ہمارا یہ سب کچھ لوک ورثہ ہیں، گلی محلہ ہو یا چھوٹی بڑی شاہراہ ہر طرف ایک ٹریفک کا ہجوم، موٹر سائیکل، موٹر رکشہ بسوں کا ایک شور کنڈکٹروں کی آوازوں کے ساتھ ملا جلا شور جس میں ہمارے وطن کی مہک بسی ہوئی ہے، راہ چلتے آپس کے جھگڑے، محلے میں بچوں کی ایک چیخ و پکار ہمیں یہاں پردیسیوں کو بہت یاد آتی ہے، اور یہی ہمارے ملک کا حسن ہیں علاقائی لوک گیت، جو ہم سنتے ہیں اس میں ہمارے وطن کی ایک خوشو رچی ہوئی ہے، راستے بھر لہلاتے کھیتوں کے بیچوں بیچ چکی کی ایک مخصوص آوازوں کے ساتھ، باغات سے ہوتی ہوئی دریاؤں کے پلوں پر سے دوڑتی ہوئی اپنی مخصوص سیٹیوں کی دھن میں جب ٹرین چھک چھکا چھک کرتی ہوئی گزرتی ہے تو ایک الگ خوبصورت سماں بندھا ہوا ہوتا ہے،!!!!!

    ہمارے خانہ بدوشوں کی اپنی الگ روایت ہے، وہ اپنے کھیل تماشوں کے ساز و سامان کے ساتھ شہر شہر، گاؤں گاؤں اپنے تمام کنبے کے ساتھ پھرتے رہتے ہیں، جہاں ڈیرہ جما لیا وہی ان کا محلہ ہوگیا، ان کو اگر دنیا کی دولت بھی مل جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنا یہ پیشہ کبھی نہ چھوڑیں گے، وہ اپنے انہی کرتب اور کمالات دکھا کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں اور لوگوں، بوڑھوں، عورتوں، جوانوں اور بچوں کو سستی تفریح فراہم کرتے ہیں، کوئی بندر کا تماشہ ریچھ کو ساتھ لئے دکھا رہا ہے تو کسی نے بچوں کے لئے کسی میلے کی طرح چکری جھولا ہی لگا دیا ہے، اور دو آدمی خوب زور زور سے اپنے ہی ہاتھوں سے چلارہے ہیں، کبھی کبھی تو بچوں کو بغیر پیسے لئے بھی بٹھا دیتے ہیں، کوئی چھوٹی سی میدان میں سرکس لگائے ہوئے ہے، رسوں پر چلنے کا تماشا تو کبھی منہ سے آگ نکال رہے ہیں تو کوئی تو پوری تلوار ہی منہ میں ڈال کر لوگوں کو حیرت زدہ کررہا ہے، مفت شو کررہے ہیں میدان میں،!!! آخر میں وہ سب سے ہاتھ پر اپنی جھولی پھیلائے اپنی محنت کا پھل مانگتے ہیں، اگر کسی نے کچھ انہیں دے دیا اور کسی نے نہ بھی دیا تو وہ پھر بھی خوش، مجھے اب بھی بڑے بڑے شہروں کے میلوں نمائش سے یہ دیسی کرتب دکھانے والے اچھے لگتے ہیں،!!!!!!

    اور خاص کر ہمارے شادی بیاہ کے مختلف رسم و رواج، نکاح سے زیادہ مہندی، اور مایوں کی رسومات میں خوب ھلا گلہ ہوتا ہے، عورتوں اور لڑکیوں کے لئے تو ان کے پسندیدہ شوق پورے کرنے کا جو موقعہ ملتا ہے اسے وہ ان تقریبات میں پورا کرتی ہیں، میک اپ، رنگ برنگے بھڑکیلے ملبوسات، زیورات سجائے ان شادیوں میں ایک دوسرے کو دکھا کر خوش ہوتیں ہیں، اور ان دنوں شادی بیاہ کے گیتوں کو ڈھولک کی تاپ پر گاتی ہیں اور گھر کی رونقوں میں اضافہ کرتی ہیں، دولہا میاں گھوڑے پر یا بڑے شہروں میں کار میں، بینڈ باجے کے ساتھ بارات کا آنا، نکاح کی تیاری کے فوراً بعد کھانے پر لوگوں کا رش اور پھر دلہن کی رخصتی کے وقت رونے دھونے کا دل ہلا دینے والا منظر،!!!!!!

    ایسا ملا جلا ماحول میں نے اور کسی باہر کے ملکوں میں نہیں دیکھا، مجھے میرے وطن کے اسی شور و غل سے پیار ہے، جس کے لئے ہم ترستے ہیں، جب ہم چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں تو ہمیں اپنے پیارے وطن کی اسی کلچر کی یادوں کو اپنے سینے سے لگائے آنکھوں میں بسائے واپس جب واپس لوٹتے ہیں تو ہماری آنکھوں میں آنسو بھرے ہوتے ہیں،!!!!
     
  9. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میرے وطن کی خوشبو،!!!!

    میرا اپنا پاکستان،!!!! جس کے ہر رنگ میں اپنی ایک پہچان ہے،!!!!!

    میرا دل ہمیشہ سے یہی کہتا ہے کہ ہر پاکستانی کے دل کے گوشہ میں کہیں نہ کہیں ایک اپنے وطن کے لئے کچھ تو محبت بھرا جذبہ ہوگا، چاہے ہم کہیں بھی ہوں ایک ہمارا اپنا ملک ہی ہے جو ہمیں ہر وقت اپنی باہیں پھیلائے ہمیں پکار رہا ہوتا ہے، اگر ہم پردیسیوں کو کہیں بھی جگہ نہ ملی تو ایک جگہ ہے میرا وطن،!!!! جو لاکھ نفرتوں کے باوجود بھی اپنی ماں کی طرح اپنے آغوش میں لینے کیلئے ہمیشہ تیار ہے،!!!

    وہ میرے وطن کا محنت کش کسان اپنے ہل کو اپنے کاندھے پر اٹھائے ہمیں ہمیشہ آواز دیتا رہتا ہے، کہ کہاں بھٹک رہے ہو پریشانیوں کے حل کے لئے، آپ کا سکون تو آپ کے اپنے ملک میں آپ کو آواز دے رہا ہے، میں تو یہاں آپ کے لئے انتھک محنت کرتا ہوں، آپ کے لئے اس اللٌہ کی زمین پر غلہ اگاتا ہوں، دن بھر تپتی دھوپ میں اپنے ساتھی بیلوں بھینسوں کے ساتھ کبھی مشینوں کے ساتھ مل کر تمھارے لئے ہی ہل چلاتا ہوں، اور اللٌہ اس کا پھل دیتا ہے، اس ثمر کے لئے میں تمھارا منتظر ہوں، میں تمھارا ساتھ چاہتا ہوں، اس مٹی نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے، میں اسے ضایع نہیں کرنا چاہتا، میری فصل کو سنبھالو، اس کو اپنی ضرورت کے لئے استعمال کرو، ورنہ اسے تو کوئی اور آکر اٹھا لے جائے گا، نہ میری ضرورت پوری ہوگی اور نہ ہی آپکی خواہش !!!!

    آج میں یہاں پردیس میں یہی سوچ رہا ہوں کہ اپنی ساری عمر تو یہیں گزار دی اپنے وطن کے لئے ہم نے کیا کیا،؟؟؟ بس اپنی کمائی میں سے چند گنے چنے سکے اپنے وطن بھیج کر ہم سمجھتے ہیں کہ اپنا فرض پورا ہوگیا، ہم تو مورکھ ہیں کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہم نے بہت کچھ کھو دیا، ہمیں تو اپنے وطن کی مٹی کی وہ سوندھی سوندھی خوشبو کی بہت زیادہ کمی محسوس ہوتی ہے جو اکثر برسات کے موسم میں دل کو خوب بھاتی ہے، جس میں ہم ایک جنت کا سا سحر محسوس کرتے ہیں،!!!

    دولت روپیہ پیسہ ایک طرف اور دل کا سکون اور اطمنان قلب ایک طرف،!!!!! جو کچھ کمایا وہ ایک نہ ایک دن ختم ہوجائے گا، اور دوسرے ہاتھوں میں پہنچ جائے گا، مگر دل کا سکون جس سے جو خوشی حاصل ہوگی وہ تو ہمارے اندر ہمیشہ رہے گی، اور کہاں کہاں بانٹتے پھرو گے، مگر پھر بھی یہ قدرت کا خزانہ ہے یہ کبھی ختم نہ ہوگا، یہ اس چراغ کی مانند ہے جس سے مزید کتنے اور چراغ سے چراغ روشن کرتے چلے جاؤ گے،!!!!
     
  10. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میرے وطن کی خوشبو،!!!!

    سید انکل بہت ہی عمدہ ص آگیا :222: :serious:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں