1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

موجودہ چیف الیکشن کمشنر

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نذر حافی, ‏17 اپریل 2013۔

  1. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    ماضی کے برعکس موجودہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کو ویٹو کی وہ طاقت میسر نہیں جو انکے پیشرؤں کو حاصل تھی، جسکی وجہ سے انھیں فیصلہ سازی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

    الیکشن کمیشن یا چیف الیکشن کمشنر نے منگل کو الیکشن کمیشن آفس میں میڈیا کے داخلے پر پابندی کیوں لگائی؟ یہ جسٹس ابراہیم جیسے شخص کیلئے آسان فیصلہ نہیں ہوگا جومعلومات تک رسائی پریقین رکھتے ہیں۔ لگتا ہے الیکشن کمیشن کے اندر موجود چند لوگ انھیں شرمندہ کرانا چاہتے ہیں۔ وہ پہلے خبرچلواتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے مذھب اور فرقے کے نام پر ووٹ مانگنے پر پابندی لگادی ہے۔ شدید رد عمل پر الیکشن کمیشن کو وضاحت کرنا پڑی کہ انھوں نے اس ضمن میں کوئی نوٹیفیکیشن نہیں کیا۔

    الیکشن کمیشن کا ترجمان سیکرٹری ہوتا ہے تاہم لگتاہے چیف الیکشن کمشنرکی ہدایات کے باوجود کمیشن کے تمام افراد ہی ترجمان ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اگر نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا تو کس نے اور کیوں یہ خبر چلائی؟ چیف الیکشن کمشنر "چیف" ہیں مگر نام کے، عملی طور پر دیگر ارکان کی طرح ان کا بھی ایک ووٹ ہے۔

    وہ کمیشن کے ارکان یا الیکشن کمیشن کی طرف سے کئے گئے کوئی فیصلہ روک نہیں سکتے، البتہ اپنا اختلافی ووٹ دے سکتے ہیں تاہم انھوں نے ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کیلئے ابھی تک ایسا کرنے سے اجتناب کیاہے۔ نئے نامزدگی کاغذات اگرچہ انکی ذھن کی پیداوارہیں تاہم جس طرح انکی تشریح اور تصویر کشی ہوئی، تمام الزام انکے سر آگیا۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگوں کوامیدواروں کے متعلق تمام معلومات میسر آئیں، تاہم اگر کسی نے مالی تفصیلات والا کالم خالی چھوڑدیا تو بھی اسکے کاغذات مسترد نہیں ہوسکے۔

    ریٹرننگ آفیسرز کو عدلیہ نے ہی تعینات کیا، تاہم سوالات کے متعلق جانچ پڑتال یا بریف کرنے کے حوالے سے انکی تربیت نہیں ہوئی۔ جسکے باعث چیف الیکشن کمشنر کو پھر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس عمل کے دوران الیکشن کمیشن کا ایک رکن افضل خان ٹی وی ٹاک شو میں کمیشن کی نمائندگی کرتے رہے۔ حالانکہ چیف الیکشن کمشنر نے "زیادہ نہ بولنے" کی ہدایت کی تھی۔
    کو ویٹو کی وہ طاقت میسر نہیں جو انکے پیشرؤں کو حاصل تھی، جسکی وجہ سے انھیں فیصلہ سازی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

    الیکشن کمیشن یا چیف الیکشن کمشنر نے منگل کو الیکشن کمیشن آفس میں میڈیا کے داخلے پر پابندی کیوں لگائی؟ یہ جسٹس ابراہیم جیسے شخص کیلئے آسان فیصلہ نہیں ہوگا جومعلومات تک رسائی پریقین رکھتے ہیں۔ لگتا ہے الیکشن کمیشن کے اندر موجود چند لوگ انھیں شرمندہ کرانا چاہتے ہیں۔ وہ پہلے خبرچلواتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے مذھب اور فرقے کے نام پر ووٹ مانگنے پر پابندی لگادی ہے۔ شدید رد عمل پر الیکشن کمیشن کو وضاحت کرنا پڑی کہ انھوں نے اس ضمن میں کوئی نوٹیفیکیشن نہیں کیا۔

    الیکشن کمیشن کا ترجمان سیکرٹری ہوتا ہے تاہم لگتاہے چیف الیکشن کمشنرکی ہدایات کے باوجود کمیشن کے تمام افراد ہی ترجمان ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اگر نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا تو کس نے اور کیوں یہ خبر چلائی؟ چیف الیکشن کمشنر "چیف" ہیں مگر نام کے، عملی طور پر دیگر ارکان کی طرح ان کا بھی ایک ووٹ ہے۔

    وہ کمیشن کے ارکان یا الیکشن کمیشن کی طرف سے کئے گئے کوئی فیصلہ روک نہیں سکتے، البتہ اپنا اختلافی ووٹ دے سکتے ہیں تاہم انھوں نے ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کیلئے ابھی تک ایسا کرنے سے اجتناب کیاہے۔ نئے نامزدگی کاغذات اگرچہ انکی ذھن کی پیداوارہیں تاہم جس طرح انکی تشریح اور تصویر کشی ہوئی، تمام الزام انکے سر آگیا۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگوں کوامیدواروں کے متعلق تمام معلومات میسر آئیں، تاہم اگر کسی نے مالی تفصیلات والا کالم خالی چھوڑدیا تو بھی اسکے کاغذات مسترد نہیں ہوسکے۔

    ریٹرننگ آفیسرز کو عدلیہ نے ہی تعینات کیا، تاہم سوالات کے متعلق جانچ پڑتال یا بریف کرنے کے حوالے سے انکی تربیت نہیں ہوئی۔ جسکے باعث چیف الیکشن کمشنر کو پھر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس عمل کے دوران الیکشن کمیشن کا ایک رکن افضل خان ٹی وی ٹاک شو میں کمیشن کی نمائندگی کرتے رہے۔ حالانکہ چیف الیکشن کمشنر نے "زیادہ نہ بولنے" کی ہدایت کی تھی۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بجا فرمایا محترم نذر حافی بھائی ۔​
    سب ڈرامہ ہے۔ ایک دھوکہ ہے۔ جو بہت عرصہ پہلے سے تیار شدہ منصوبہ بندی کے تحت قوم کو دیا جارہا ہے۔ ​
    وکی لیکس کے بعض لیکس کے مطابق پی پی پی ، ن لیگ اور امریکی سفیر کے درمیان زرداری صاحب کو صدر بناتے وقت یہ منصوبہ طے پاگیا تھا کہ اگلی باری کس کی ہے۔ ​
    گویا یہ ملک ایک مردار ہے اور سیاسی جماعتیں گدھ یا کتوں کی طرح باری باری اسے بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر کھائے جارہی ہیں۔ ​
    عوام کو جمہوریت کا لالی پاپ دے کر خوش کردیا گیا ۔ ٹی وی پر خوبصورت، امیر کبیر، چمکتے دمکتے چہرے جنہوں نے زندگی میں کبھی ایک فاقہ بھی نہیں دیکھا ۔۔ وہ چلبلی آوازوں میں قوم کو ووٹ ڈالنے کا مشورہ دیتے ہی۔ انکے فرض کی ادائگی کا احساس دلاتے ہیں گویا دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز صرف اسی "ووٹ " ڈالنے میں مضمر ہوگیا ہے ۔​
    سب ڈرامہ ہے ۔ عوام 65 سال سے اشرافیہ کے ہاتھوں بنتے رہے ہیں اور اب پھر 11 مئی کو بےوقوف بننے والے ہیں۔​
     
    نذر حافی اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں