1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

موجودہ نظام انتخابات اور متناسب نمائندگی کا نظام

Discussion in 'حالاتِ حاضرہ' started by نعیم, Dec 1, 2007.

  1. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    متناسب نمائندگی کا نظام اس وقت دنیا کے تقریباً 50 ممالک میں مختلف شکلوں میں رائج ہے مثلاً آسٹریا، ہنگری، سوئٹزرلینڈ، شمالی یورپ، بلجیئم، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، جرمنی، فرانس، ترکی، سری لنکا اور اس طرح کئی دیگر ممالک میں اس نظام کے تحت انتخابات ہو چکے ہیں، مختلف ممالک نے اپنے مخصوص حالات کے تناظر میں اس تصور میں جسب ضرورت تبدیلیاں کر کے اس نظام کو اپنے ہاں رائج کیا ہوا ہے اس لئے متناسب نمائندگی کے نظام کی مختلف شکلیں مختلف ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کی بنیاد اسلام ہے۔ قرارداد مقاصد نے آئین پاکستان میں اس کی نظریاتی اساس کا تعین کر دیا ہے، قرارداد مقاصد جمہوری اور قرآن و سنت میں وضع کئے گئے اصولوں کے عین مطابق ہے۔

    متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام میں حلقہ وار امیدواروں کے درمیان انتخابی عمل کی بجائے سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابی عمل ہوتا ہے اور ہر سیاسی جماعت کو مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹس کے تناسب سے اسمبلی میں نشستیں ملتی ہیں۔ متناسب نمائندگی کے نظامِ انتخاب میں ووٹرز براہِ راست سیاسی پارٹی کی قیادت اور منشور کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے سیاسی جماعتوں کو بالترتیب ملک و صوبہ بھر سے ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے نشستیں ملتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد کے مطابق میرٹ کی بنیاد پر اپنے باصلاحیت امیدواروں کے ناموں کی فہرستیں الیکشن کمیشن کو پیشگی مہیا کرتی ہیں جو کہ آئین کے مطابق طے کردہ اہلیت کے معیار پر بھی پورا اترتے ہوں۔ متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام میں اگر سیاسی جماعت کو مجموعی طور پر 30 فیصد ووٹ ملتے ہیں تو انہیں اسمبلی میں حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے 30 فیصد نشستیں مل جاتی ہیں۔ اسی طرح جن جماعتوں کو اس سے زیادہ یا کم ووٹ ملتے ہیں اسی مناسبت سے پارلیمنٹ میں نمائندگی بھی ملتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمارا ملک اپنے مخصوص حالات کے تناظر میں اس نظام انتخاب میں حسب ضرورت تبدیلیاں کر کے اس نظام کو رائج کرسکتا ہے۔

    موجودہ کرپٹ اور مہنگا نظام انتخاب جملہ مسائل کی جڑ

    مندرجہ بالا تجزیے سے ثابت ہوا کہ ملک کے تمام سنگین مسائل کی جڑ کرپٹ نظام انتخاب ہے۔ اس کرپٹ نظام انتخاب نے قوم کو اس کی حقیقی نمائندگی سے محروم کردیا ہے۔ عوام کے 98 فیصد غریب و متوسط طبقات سے کسی امیدوار کا منتخب ہونا عملًا ناممکن ہوچکا ہے کیونکہ موجودہ نظام انتخاب کی خامیوں کی وجہ سے انتخابی حلقہ جات پر کرپٹ، سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیروں، مافیا، بااثر اور حکومتی امیدواروں کا کنٹرول ہوچکا ہے۔ حتی کہ کسی حلقہ میں کوئی بڑی پارٹی اپنے انتہائی دیرینہ نظریاتی ورکر کومحض اس لئے ٹکٹ نہیں دیتی کہ وہ کروڑوں روپے خرچ نہیں کرسکتا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ:

    نظام انتخاب شفاف اور سستا ہو۔
    نظام انتخاب حکومتی، بااثر طبقات، سرمایہ داروں اور الیکشن کمیشن کے ناجائز اثرو رسوخ سے آزاد ہو۔
    نظامِ انتخاب جعلی شناختی کارڈ سازی اور جعلی ووٹس، جانبدارانہ حلقہ بندیوں و پولنگ سکیم، الیکشن عملہ کی ملی بھگت اور پولیس انتظامیہ و غنڈہ عناصرکی ناجائز مداخلت سے پاک ہو
    تشہیر، جلسوں، ٹرانسپورٹ، الیکشن کیمپوں کے اخراجات اور سرمایہ کے ذریعے ووٹرز کی رائے پر اثر انداز ہونے جیسی انتخابی دھاندلیوں سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔
    نظام انتخاب عبوری حکومتوں، لوکل باڈیز اداروں اور الیکشن کمیشن کے ناجائز اثرو رسوخ سے آزاد ہو تاکہ سیاسی جماعتیں تمام تر مصلحتوں سے بالاتر ہوکر غریب و متوسط باصلاحیت کارکنان کو میرٹ پر اسمبلیوں میں نمائندگی کے لئے نامزد کرسکیں۔
    تاکہ سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے حصول کے لئے کوئی ڈیل نہ کرنا پڑے اورنہ ہی انہیں اسکے لئے غیر فطری اتحاد بنانا پڑیں بلکہ سیاسی جماعتیں عوامی ایشوز پر اپنا حقیقی کردار ادا کرسکیں۔

    موجودہ کرپٹ اور مہنگے اِنتخابی نظام کی وجہ سے تقریباً 70 فیصد قوم انتخابات سے کلیتاً لاتعلق ہوگئی ہے اور قوم اپنے بنیادی آئینی و انسانی حقوق سے محروم ہوگئی ہے۔ لہٰذا یہ ملک و قوم کے ریاستی و مقتدر اداروں بشمول عدلیہ، قانون ساز اداروں، سیاسی پارٹیز و اراکین پارلیمنٹ، میڈیا، سیاسی جماعتوں، دانشور و وکلاء طبقات کی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس انتہائی اہم قومی حساس مسئلہ کے حل پر توجہ دیں اور ملک وقوم کو موجودہ کرپٹ انتخابی نظام سے چھٹکارا دلاکر شفاف نظام انتخاب مہیا کریں۔
     
  2. واصف حسین
    Offline

    واصف حسین ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 3, 2006
    Messages:
    10,073
    Likes Received:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی ہر ایک نظام میں خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ اچھے انسان کو درست عمل کرنے کے لیے قانون کی ضرورت نہیں ہوتی اور برے انسان قانون کو دھوکہ دینے کے طریقے ڈھونڈ لیتے ہیں۔
    اس کا مطلب یہ نہیں کہ قانون ہونا ہی نہیں چاہیے۔

    کوئی بھی نظام الیکشن ہو جب تک ہم اور ہمارے لیڈر مخلص نہیں نظام کو دھوکہ دینے کے طریقے نکلتے رہیں‌گے اور جوڑ توڑ کو کوئی نہیں روک سکتا۔

    میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ ہر شخص صرف اپنے آپ کو سدھار لے تو کسی انقلاب کی ضرورت نہ رہے۔
     
  3. برادر
    Offline

    برادر ممبر

    Joined:
    Apr 21, 2007
    Messages:
    1,227
    Likes Received:
    78
    محترم پیا جی ۔
    تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ۔ صرف عوام کے سدھرنے سے ہر منزل حاصل نہیں ہوسکتی ۔ جو کام عدلیہ کے کرنے کے ہیں۔ جو کام پارلیمنٹ کے کرنے کے ہیں اور اسی طرح جو کام فوج اور میڈیا کے کرنے کے ہیں۔ سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    جبھی کوئی مثبت تبدیلی متوقع ہوسکتی ہے۔
     
  4. پیاجی
    Offline

    پیاجی ممبر

    Joined:
    May 13, 2006
    Messages:
    1,094
    Likes Received:
    19
    محترم برادر بھائی میں تو اسے سے سو فیصد اتفاق کرتا ہے۔ اور میں اپنا کردار ادا کر رہا ہوں جتنی اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی ہے۔ ان شاء اللہ یہ کردار ادا کرتا رہوں گا۔
     
  5. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    یہ اصول بادی النظر میں بہت آسان اور سیدھا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن عملاً انتہائی مشکل بلکہ شاید نا ممکن ہے۔ گو کہ اسکی کسی حد تک وضاحت برادر بھائی نے کی ہے۔

    تاریخ انسانی، قرآن و حدیث اور عمرانیات کا مطالعہ کرنےسے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ پورے کا پورا معاشرہ سدھر کر کبھی فرشتوں کا معاشرہ نہیں بنتا ۔بلکہ حق و باطل کے نمائندگان، خیر وشر کے پیروکار، اور رحمن (خدا) اور شیطان کے ماننے والے ہمیشہ رہے ہیں۔ اگر جہاں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو معاشرے میں امن ،محبت، بھائی چارہ، مساوات، ترقی، اور اجتماعی فلاح وبہبود کے مقاصد کے لیے کوشاں ہوتے ہیں تو اسی معاشرے میں شر، نفرت، طبقاتی تفریق ، قتل و غارت اور اپنے مفادات کے حصول معاشرے میں بےراہروی اور غربت و افلاس بپا کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ ان دونوں طبقات کے درمیاں کشمکش ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ کبھی اہل حق غالب آتے ہیں تو کبھی اہل شر کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے۔ یہ عمل کئی دہائیوں اور بعض اوقات کئی صدیوں تک بھی محمول ہوتا ہے۔

    اگر صرف تبلیغ سے، تربیت سے اور کسی مسجد، کلیسا اور مندر میں کسی مذہبی راہنما کے سمجھانے بجھانے نے سارا معاشرہ حق پرست ہوجاتا تو انبیائے کرام (علیھم السلام) سے بڑھ کر بڑا مصلح، مبلغ اور مربی تو اس دنیا میں نہ کوئی آیا ہے اور نہ ہی آسکتا ہے۔ ہمارے برصغیر پاک و ہند میں ایک تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے جو گذشتہ کم و بیش سوا صدی سے مساجد کے اندر جا کر تبلیغ کرتے ہیں ۔ معاشرے کو سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن آج تک ایسے سنورے ہوئے لوگوں کی تعداد کتنی ہے اور اس سے معاشرے میں فلاح و کامیابی کی کونسی راہ کھلی ہے ؟

    اور پھر انبیا کے سردار ہمارے پیارے حضور خاتم النبین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اللہ تعالی نے سب انبیائے کرام کی خصوصیات اور سب سے بلند مراتب عطا فرمائے تھے۔ انہی کی سیرت جو ہمارے لیے بطور مسلمان اسوہء کامل بھی ہے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ باطل کے اندھیرے معاشرے میں جب انسان حق کی شمع جلاتا ہے تو ضروری نہیں کہ سارا معاشرہ اسکی آواز پر لبیک کہتا ہوا اسکے ساتھ چل پڑے اور سارا معاشرہ ہی نیک صفت اور فرشتہ سیرت بن جائے۔ وہاں کوئی برائی نہ رہے ۔ نہیں ایسا نہیں ہوتا۔ بلکہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیشہ چند (سو، ہزار یا لاکھ) لوگ حق کا علم لے کر اٹھتے ہیں۔ قربانیاں دیتے ہیں۔ اور پھر مسجد میں بیٹھ کر تبلیغ کرنے کی بجائے باطل و شیطانی طاقتوں کے خلاف برسرپیکار ہوتے ہیں۔ ایک فلاحی ریاست کی تشکیل کے بعد معاشرے کو امن و محبت، فلاح و ترقی اور عروج کی جانب گامزن کرتے ہیں۔

    اس دور میں باطل کے نمائندگان براہ راست کافر تھے۔ اللہ و رسول :saw: کے منکر تھے۔ جبکہ اسکے بعد کے معاشروں میں یہ صورتحال تبدیل ہوتی رہی ۔ مختلف طبقات کے لوگ باطل کے علمبردار بن کر حق کے سامنے آتے رہے۔ نواسہء رسول سیدنا امام حسین :rda: کے مقابلے میں ہزاروں کلمہ گو مسلمان کوفی باطلانہ نظام کے دفاع کے لیے باطل کے سپاھی بن کر میدان میں اترے۔

    ہمارے وطن عزیز پاکستان میں تو دیگر بہت سی برائیوں کے ساتھ ساتھ اخلاقی گراوٹ بھی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ منافقت، جھوٹ ہمارے معاشرے کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگے ہیں ۔(الا ماشاءاللہ ۔ کچھ نہ کچھ استثناء ہمیشہ ہوتے ہیں) نہ کوئی نظریہ، نہ کوئی اصول نہ ضابطہ ، نہ دین کا حیاء اور نہ ہی اپنے کیے گئے وعدوں کا پاس رہا ہے۔ ہرقول و عمل کے پیچھے ذاتی مفادات کارفرما ہوتے ہیں۔ یہ صرف عوام کا ہی نہیں بلکہ عوامی لیڈروں کا حال ہے۔ جس قوم کے راہنما جھوٹ، منافقت اور عیاری کو اصول، عقلمندی اور سیاست کا نام دینا شروع کردیں ذرا سوچئے اس معاشرے کے عوام الناس اس سے کتنا اثر قبول کریں گے۔

    کیونکہ کسی معاشرے کو کسی بھی منزل یعنی ترقی و تنزلی کی جانب لے جانے کے لیے راہنما کی اہمیت سے کبھی اور قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایران کے امام خمینی، ملائشیا کے مہاتیر محمد اور چین کے ماوزے تنگ سے لے کر دنیا کے ہر معاشرے کا ایک لیڈر ہوتا ہے ۔جو یا تو قوم کو ترقی کی انتہاؤں پر پہنچا دیتا ہے یا پھر تنزلی کے گڑھے میں پھینک کر تباہی و بربادی کی آگ میں جھونک دیتا ہے۔

    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اللہ تعالی سے مدد مانگ کر، اپنی عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے، اپنے اردگرد نظر دوڑا کر دیکھیں کہ کون سا لیڈر، راہنما ہے جو قابلیت و صلاحیت سے مالامال ہے، بےلوث خدمت کا جذبہ دل میں رکھتا ہے، اور ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی کی راہ دکھاتا ہے۔ کیونکہ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ ہم نے صرف اس دنیا کی مادی ترقی پر ہی نظر نہیں رکھنی بلکہ آخرت کی بھی فکر کرنا ہے۔
    اگر ایسا راہنما ہمارے معاشرے میں موجود ہے تو ہمیں چاھیے کہ اس کے دست و بازو بن جائیں اور بڑھتے بڑھتے اتنے ہو جائیں کہ باطل کی علمبردار طاقتوں سے عنانِ حکومت چھین کر اہل حق کے ہاتھوں میں منتقل کر دیں ۔ تاکہ ہم بھی بطور مسلمان اور پاکستانی دنیا میں عزت و وقار سے سر اٹھا کے جینے کے قابل ہوسکیں۔
     
  6. نور
    Offline

    نور ممبر

    Joined:
    Jun 21, 2007
    Messages:
    4,021
    Likes Received:
    22
    اگر ایسا ہوگیا تو پھر گجرات کے چوہدری اور پرویز مشرف جیسے لوگ ووٹ کہاں سے لیں گے ؟
     
  7. برادر
    Offline

    برادر ممبر

    Joined:
    Apr 21, 2007
    Messages:
    1,227
    Likes Received:
    78
    جب تک قوم بلکہ آئندہ نسل کو مثبت اور بامقصد تعلیم نہیں ملے گی، اسوقت تک قومی و ملی شعور بیدار نہیں ہوسکتا۔ آپ چاہے سارے مل کے لاکھوں جلسے کر لیں، ہزاروں تقریریں کرلیں، سینکڑوں بار الیکشن کروا لیں، اور چہرے بدل بدل نئے سے نئے لٹیرے امپورٹد یا لوکل لیڈر کو ایوانِ اقتدار تک لے جائیں۔ قوم کا مقدر نہیں بدلے گا۔

    اگر مقدر بدلنا ہے تو آئندہ نسل کو شعورِمقصدیت کے ساتھ تیارکرنا ہوگا۔ وہ جب عملی زندگی میں ہرشعبہء زندگی میں جائیں گے تو تبدیلی کے لیے راہ ہموار ہوگی اور جب تک پوری قوم کا شعور بیدار نہ ہوگا کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ بلکہ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔

    اور ہاں ایک اہم بات یہ کہ قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے قیادت انتہائی ضروری ہے۔ روس سے لے کر چین اور یورپ سے لے کر ملائیشیا تک تاریخِ انسانی میں کبھی قیادت کے بغیر قوموں کا مقدر نہیں بدلتا۔
     

Share This Page