1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

من کی باتیں

Discussion in 'اردو ادب' started by سین, Aug 26, 2011.

  1. سین
    Offline

    سین ممبر

    Joined:
    Jul 22, 2011
    Messages:
    5,529
    Likes Received:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    آج کے دور میں سچا اور کامل گُرو۔۔۔۔ ’استاد‘۔۔۔۔ کہاں سے ملتا ہے ۔۔۔یہ باتیں قصے کہانیوں میں ہی بھلی معلوم ہوتی ہیں لیکن ہمارے بزرگ اس رائے پر یقین نہیں رکھتے ان کے مطابق ایک سچا شخص ہی سچے کی تلاش کر سکتا ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ آپ کی سچی طلب ہی آپکو سچ اور حق سے آشنا کراتی ہے۔وہ کہتے ہیں دراصل ہمیں کسی گُرو کی حقیقی تلاش نہیں ہوتئ بلکہ ہمیں کوئی کام ہوتا ہے جو ہم اس گرو سے نکلوانا چاہتے ہیں اس لیے کسی چھوٹے موٹے کام کے لیے سچے گُرو کی کیا ضرورت اور وہ گُرو ہی کیا جو آپ کو ملنے کے بعد آپ کے دو ٹکے کے کام پہ جُت جائے۔گُرو حال میں ملے تو ماضی بھُلا دیتا ہے اور مستقبل سنوار دیتا ہے ۔گُرو بتاتا ہے کہ مستقبل کوئی مقام نہیں ہے کہ جہاں ہم جا رہے ہیں مستقبل تو ہم خود تخلیق کرتے ہیں ۔گُرو یہ بات منوا لیتا ہے کہ راستے پائے نہیں جاتے بلکہ بنائے جاتے ہیں ۔گُرو کے ملنے کے بعد آپ جان جاتے ہیں کہ غربت اور دولت مندی دونوں ہی سوچ کی پیدا وار ہیں لیکن میرا سوال ہمیشہ ہی ہوتا ہے کہ ہمیں اتنی پیچیدگی کیوں محسوس ہوتی ہے تو ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ خدا نے تو ہمیں سیدھا سادہ بنایا تھا ہم نے خود کو بے حد پیچیدہ بنا لیا ہے
    ''بابا جی آخر ہم منزل پر کیوں نہیں پہنچتے''۔۔۔اس سوال کو سن کر وہ تھوڑی دیر کی خاموشی اختیار کرتے ہیں اور یہ راز افشا کر دیتے ہیں کہ
    ''دس قدم آگے ارو دس قدم پیچھے چلنے والا آخر وہیں موجود ہوتا ہے جہاں سے اس نے سفر کی ابتدا کی ہوتی ہے ''
    اگر کوئی پریشان چہرہ لیکر ہمارے بزرگوں سے پوچھ ہی لیتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔ ''مجھے کسی جگہ سکون نہیں ملتا'' ۔۔۔۔۔۔تو بابا جی گرجدار آواز میں کہتے ہیں کہ۔۔۔۔۔ '' بیٹا سکون تجھے کہاں سے ملے تیرے اندر بے سکونی کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے کہانکہ ہمارے گردوپیش کے حالات کا دارومدار اس امر پر ہے کہ ہمارے اندر کیا ہے''۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ایک دن میں تھکا ہارا بابا جی کے حضور پیش ہوا اور سوال کیا کہ راستے میں رکاوٹیں بہت ہیں ہم کیا کریں ؟
    بابا جی فرمانے لگے اچھے راستے میں رکاوٹیں زیادہ ہوتی ہیں اگر رکاوٹیں کم ہوں تو وہو اچھا راستہ بھی نہیں‌ہوتا ہے
    باقی ہمارے زہن کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی سوائے اسکے جسے ہم رکاوٹ مان لیتے ہیں ''

    کسی دانشور نے اس بات کی وضاحت چاہی کہ کامیاب زندگی کا دارومدار کس بات پر ہے اور ساتھ درخواست کی کہ جواب تفصیل عنائت فرمائیں ۔۔۔محترم بزرگ جلالی انداز میں گویا ہوئے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''جو بات ہے ہی مختصر اسے میں تفصیل سے کیسے بیان کروں اور بتایا کہ کامیاب زندگی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ تم بچوں کے ساتھ کتنی شفقت برتتے ہو بوڑھوں کی کتنی خدمت کرتے ہو مصیبت زدوں سے کتنی ہمدردی کرتے ہو اور کمزوروں سے کتنا درگزر سے کام لیتے ہو اسکی وجہ یہ ہے کہ تم زندگی میں کبھی نا کبھی ان سارے مراحل سے گزرو گے''



    ایک دن فرمانے لگے '۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''کیا تمہیں معلوم ہے کہ اچھا استاد ہمیشہ زندہ کیوں رہتا ہے'' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب نے کوئی خاص جواب نا دیا تو کہنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔''جس انسان کی تربیت دوسروں کو فائدہ دینے لگے وہ کیسے مرسکتا ہے''۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    پھر جلالی انداز مین بولے

    'س انسان کو مت ڈبوو جس نے تمہیں تیرنا سکھایا جس انسان سے تم نے کاروبار کے اصول سیکھے اسکے مقابلے میں کاروبار مت کرو کیونکہ کاروبار تو شائد خوب چلے مگر اس مین خیروبرکت نہیں ہوگی

    بچوں کی تربیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ
    ']'جب والدین بچوں کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں تو بچے اپنے لیے کچھ بھی نہیں کرتے اس لیے بچوں کو قیمتی بنانے کے لیے زمہ دار بناو''

    ایک دن ہمارا سوال تھا کہ ''۔۔۔۔۔۔کچھ لوگ ہمارے لیے بہت کچھ کرتے ہیں ہم انکے احسانات کا جواب کیسے دیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔فرمانے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔'' محسن وہ ہوتا ہے جسکے احسانات نا اتاریں جا سکیں ،لیکن اگر زیادہ ہی دل مائل ہو کہ احسانات کا جواب دینا ہے تو وہ آسانیاں جو آپ تک اپ کے محسنوں نے پہنچائیں انہیں امانت جان کر دوسروں کو پہنچانا شروع کردو''۔۔۔۔۔۔

    نوجوان نے سوال کیا کہ ہم اتنی بے بسی کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں ؟۔۔۔۔فرمانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'' کہ بےبس تھوڑے ہو تم جو کرنے کہ اہل ہو اگر کر گزرو تو خود حیران رہ جاو بس مسئلہ ایک ہے کہ تمہیں خبر ہی نہیں کہ تم کیا کچھ کر سکتے ہو''

    نا امیدی کے اس دور میں امید کے چراغ روشن کرنا بڑی بات ہے اسی لیے دانائی شائد کسی دانا کی تابعداری سے ملتی ہے ۔ان من کی باتوں کو جان کر ہم نے سچے گرو کی تلاش چھوڑ دی تو سچی طلب کی تلاش شروع کردی کیونکہ سچ کی تلاش کوئی سچا ہی کرسکتا ہے

    تحریر-قاسم علی شاہ
     

Share This Page