1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

منور حسن کا فوج کے خلاف بیان اور فوج کا ردِّ عمل

Discussion in 'کالم اور تبصرے' started by نعیم, Nov 12, 2013.

  1. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    منور حسن کا بیان اور فوج کا ردِ عمل
    اسد اللہ غالب

    میں نے اس قرآنی تعلیم کے پیش نظر خاموش رہنے کو ترجیح دی کہ جب جاہل کسی سے مخاطب ہوں تو انہیں کہو کہ بھائی صاحب سلام، لیکن لگتا ہے کہ منور حسن کے بیان سے فوج میں شدید ردعمل پیدا ہو اہے۔اور وہ بولنے پر مجبور ہو گئی ہے۔
    لیاقت بلوچ نے فوج پر ایک اور وار کیا ہے،اسے سیاست اور جمہوریت میںمداخلت کا مرتکب قراردے دیا ہے۔اس الزام پر کون اعتبار کرے گا کیونکہ یہ ایک ایسی فوج کے بارے میں ہے جس نے پچھلے کئی برسوں میں سیاست کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔
    فوج نے پریس ریلیز کیوں جاری کی، اس کا پس منظر سمجھنے کی ضرورت ہے۔منور حسن کا بیان ایک لحاظ سے فوج کے اندر بغاوت کو ہوا دینے کے مترادف تھا۔یہ بات سبھی سیاسی رہنما کہہ رہے ہیں ۔
    منور حسن عام آدمی نہیں ، وہ جماعت اسلامی کے امیر ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی جنگ کا ساتھ دینے والے پاک فوج کے شہیدوں کو وہ شہید نہیںمانتے اور جب امیرالعظیم کہتے ہیں کہ ڈرون سے مرنے ولا ہر شخص شہید ہے تو ا س سے جہاں عام معاشرے میں ابہام اور انتشار پھیلا ہے، وہاں فوج کے اندر بھی اس نرالی منطق کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیںیا یقینی طور پر ہوئے ہوں گے جن سے میں اور آپ لا علم ہیں۔
    منور حسن کے بیان کے بعد کوئی بھی فوجی، اپنے افسر بالا کے حکم کی سرتابی کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک ایسی جنگ لڑنے کے لئے تیارنہیں جو اول ، امریکہ کی خاطر ہے اور دوم ، اس میں شہادت کا مرتبہ نہیں ملے گا۔
    فوج صرف اور صرف آرڈر اور ڈسپلن پر چلتی ہے۔ تحریک نظام مصطفی کے دوران لاہور میں فوج نے احتجاجی مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا، اس وقت آرمی چیف جنرل ضیا الحق تھے، انہوںنے انکار کرنے والی پوری رجمنٹ کو لاہور چھاﺅنی کے ایک پارک میں قید کر دیا تھا اور اس کے کمانڈروں کا کورٹ مارشل ہو گیا تھا۔ فوج میں حکم کی سرتابی پر کورٹ مارشل ہوتا ہے۔اور ایسا پوری دنیا میں ہوتا ہے۔
    فوج نے منور حسن کے بیان پر فوری رد عمل نہیں دیا، اس نے انتظار کیا کہ ملک میں جمہوریت ہے، سیاست ہے، اس نظام میں اس کا کوئی والی وارث اور خصم سائیں ہو گا اور وہ منور حسن کے بیان کا نوٹس لے گا، جمہوری عمل اور سیاسی عمل اڑتالیس گھنٹے گونگا بنا رہا، صدر مملکت، وزیر اعظم اور وزیر دفاع کی طرف سے منور حسن کے بیان کی نہ مذمت کی گئی، نہ تائید کی گئی، خاموشی کو اگر نیم رضا تصور کیا جائے تو پھر پاک فوج کے شعبہ آئی ایس پی آرکو بولنا پڑا ۔فوج نے پریس ریلیز جاری کر کے سیاست اور جمہوریت میںمداخلت نہیں کی، سیاست اور جمہوریت کی حفاظت کے لئے قدم اٹھایا۔
    سندھ اسمبلی نے منور حسن کی مذمت کی ہے، پارلیمنٹ میں تحریک التو ا آ گئی ہے، منور حسن سے فوج ہی نے نہیں ، ہر شخص نے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے، منور حسن کے لئے معافی مانگنا مشکل ہے تو وہ اپنا بیان واپس لے لیں مگر وہ ایسا بھی نہیں کریں گے اور خدشہ ہے کہ اپنی ہٹ دھرمی سے اچھوت بن کر رہ جائیں گے۔
    منور حسن کے بیان پر منطقی انداز میں بھی بیان کی جا سکتی ہے۔پہلی افغان جنگ میں ان کی جماعت اور دیگر مجاہدین تنظیموں نے امریکی اسٹنگروں کی مدد سے سووئت فوج کو نشانہ بنایا، تو کیا یہ سمجھا جائے کہ امریکی اسٹنگروں سے مرنے والے روسی فوجی شہید تھے، حا شا وکلا، میں بحث برائے بحث میں بھی یہ تصور ذہن میں نہیں لا سکتا۔منور حسن اور امیر العظیم البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکی ڈرون میںمرنے والوں کی طرح امریکی اسٹنگروں سے مرنے والے بھی شہید تھے، کم از کم ان کی منطق سے یہی ظاہر ہو تا ہے۔
    دہشت گردی کی جنگ میں کسی کواس بارے ابہام نہیں کہ پاکستان میں پچاس ہزار بے گناہ افراد کو شہید کیا گیا۔یہ ان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے جنہیں فضل الرحمن اور منور حسن شہید قراردینے پر مصر ہیں۔
    موجودہ بحث کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی ¿تھی اور وہ وزیر داخلہ نے رکھی ، انہوںنے حکیم اللہ کی موت کا ماتم کیا۔کاش ! ایسے ماتم کا مظاہرہ وہ جنرل ثنا اللہ نیازی اور ان کے دو ساتھیوں کی شہادت پر بھی کرتے ، کاش! وہ اتنی لمبی تقریر پشاور کے چرچ میں بے گناہوں کی موت پر بھی کرتے، کاش! وہ قصہ خوانی بازار میں نشانہ بننے والوں کے ماتم میں کوئی ایک لفظ ہی بولتے، کاش ! وہ پشاور بس کی دہشت گردی میںپھول جیسے معصوم بچوں کے پرخچے اڑنے پر بھی ماتم کرتے۔دہشت گردوں کے ہاتھوںان شہادتوں نے بھی مذاکرات کے عمل کو قتل کیا، یہ تو خود وزیر داخلہ نے مانا ہے لیکن حکیم اللہ کی موت پروزیر داخلہ کاجذباتی خطاب اور پھر قومی اسمبلی میں عمران خاں کی شعلہ فشانی نے کج بحثی کو ہوا دی۔
    یہ کج بحثی ہے کہ ڈرون سے مرنے والے شہید ہیں ، امیر العظیم نے یہی کہا ہے ، فضل الر حمن نے تو کہا ہے کہ ڈرون سے کتا بھی مر جائے تو وہ شہید ہو گا۔ابھی لطیف اللہ محسود کی گرفتاری سے بھی یہ راز کھل گیا ہے کہ را کے ایجنٹ دہشت گردوں کی معاونت کے لئے فاٹا میں موجود ہیں ، اب اگر ان بھارتی ایجنٹوں کو ڈرون کانشانہ بنایا جائے تو کج بحثی کی رو سے وہ سب شہید اور جنتی۔واہ! کیا منطق ہے، جنت کے نئے داروغے اپنی منطق پر غور فرمائیں۔ مگر ان داروغوں کی مت ماری گئی ہے۔
    سیاست اور جمہوریت کی تعریف کوئی لیاقت بلوچ سے سیکھے۔ ان کی سیاست اور جمہوریت اس وقت عروج پر ہوتی ہے جب ملک میں یحییٰ خان اور جنرل ضیاا لحق کی فوجی آمریت مسلط ہو۔اور جنرل مشرف بھی ،ایم ایم اے کی شکل میں ان کے نخرے برداشت کریں۔ان کی سیاست اس وقت عروج پر ہوتی ہے جب وہ مشرقی پاکستان میں اکیلی الیکشن کے میدان میں اترتی ہے اور وہ سو فی صد سیٹیں جیت لیتی ہے۔جماعت اس وقت سیاست اور جمہوریت کا سبق بھول جاتی ہے جب اسے فوج سے کسی جہاد کا ٹھیکہ مل جائے۔پتہ نہیں جس فوج کو وہ مطعون کر رہی ہے، اس کے ساتھ کشمیر کے جہاد میں جماعت کے جن راہنماﺅں کے نوجوان شہید ہوئے،ان کی روحوں کو کیوں اذیت دی جا رہی ہے۔وہ سب شہید تھے ، خدا ن کی روحوں پر رحمت نازل فرمائے۔
    لیاقت بلوچ کو سیاست کا ایک سبق نوجوان بلاول بھٹو زرداری نے سکھانے کی کوشش کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جماعت کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گاجو بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے۔
    لگتا ہے جماعت کی تخلیق میں کوئی بنیادی خرابی ہے، مصر میں اخوان المسلمین بھی جماعت اسلامی کی ایک شکل ہے، پہلے اس کے راہنماﺅں کو پھانسی لگی ، اب ان کا ایک منتخب وزیر اعظم جیل کی سلاخوںکے پیچھے ہے۔یہ ہے جماعت کی سیاست کا حاصل۔

    بشکریہ : ادارتی صفحہ نوائے وقت
     
    پاکستانی55 likes this.
  2. پاکستانی55
    Offline

    پاکستانی55 ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 6, 2012
    Messages:
    98,397
    Likes Received:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    یہ غداروں کا ٹولا ہے۔ان کے بڑوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی اور یہ پاکستان میں بدامنی پھیلارہے ہیں
     
    نعیم likes this.

Share This Page