منصور آفاق منصور آفاق (پیدائش : 17 جنوری 1962ء) معروف شاعر اور ادیب ہیں۔ منصور آفاق کا کالم دیوار پر دستک جنگ لندن میں شایع ہوتا ہے۔منصورآفاق نے پی ٹی وی اور دوسرے چینلز کے لیئے کئی ٹی وی سیریلز تحریر اور ڈائرکٹ کئے ہیں، جن میں زمین ، دنیا ، پتھر اور کہہ جانڑاں میں قابلِ ذکر ہیں۔ منصور آفاق جدید شاعری میں اپنے منفرد لہجے کے باعث خصوصی مقام رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے لکھنے کا آغاز سولہ سال کی عمر سے کیا۔ بہت کم عمری میں کامیابی نے اُن کے قدم چومے۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے سب سے کم عمر ڈرامہ سیریل رائٹر ہیں۔ آفاق نما ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ اٹھارہ سال کی عمر میں شائع ہوا اور ان کے لکھے ہوئے خاکوں کا مجموعہ چہرہ نما بیس سال عمر میں شائع ہوا۔ غزل, نعت, ڈرامہ, تنقید, تحقیق, کالم نگاری, ناول نگاری اور جدید نظم میں انہوں نے ہمیشہ زندہ رہنے والا کام کیا۔ منصور آفاق ایک معتبر فلمی نقاد بھی ہیں۔وہ ایک طویل عرصہ تک روزنامہ نوائے وقت میں فلموں اور ٹی وی پروگراموں پر تبصرے کر تے ہیں ۔برطانیہ میں سوسائٹی آف کلچر اینڈ ہیرٹج کے تحت کام کرنے والی ایسٹ فلم اکیڈمی میں اداکاری اور سکرپٹ رائیٹنگ پر لیکچربھی دیتے رہے ہیں۔انہوں نے اردو میں ڈائریکشن کے موضوع ایک کتاب تتلی کاشاٹ کےنام سے بھی تحریر کی ہے۔
منصور آفاق کی ایک منفرد غزل ﺷﺐِ ﻭﺻﺎﻝ ﭘﮧ ﻟﻌﻨﺖ ﺷﺐِ ﻗﺮﺍﺭ ﭘﮧ ﺗﻒ ﺗﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﭘﮧ ﺗﮭﻮ ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﭘﮧ ﺗﻒ ﻭﮦ ﭘﺎﺅﮞ ﺳﻮﮔﺌﮯ ﺟﻮ ﺑﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻃﻮﺍﻑ ﮐﻮﭼﮧﺀ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﭘﮧ ، ﮐﻮﺋﮯ ﯾﺎﺭ ﭘﮧ ﺗﻒ ﺗﺠﮫ ﺍﯾﺴﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﮧ ﺑﺎﺭ ﮨﺎ ﻟﻌﻨﺖ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺭﮐﮭﺘﺎﮨﻮﮞ ﻧﻮﮎِ ﺧﺎﺭ ﭘﮧ ﺗﻒ ﺩﻝِ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﻮ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﮯ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺴﻦِ ﻧﻈﺮ ! ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﭘﮧ ﺗﻒ ﭘﮩﻨﭻ ﺳﮑﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺗﮏ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺯﺧﻢ ﮐﺎ ﻧﻮﺭ ﭼﺮﺍﻍ ﺧﻮﻥ ﭘﮧ ﺗﮭﻮ ﺳﯿﻨﮧ ﺀ ﻓﮕﺎﺭ ﭘﮧ ﺗﻒ ﮨﯿﮟ ﺑﺮﮒِ ﺧﺸﮏ ﺳﯽ ﺷﮑﻨﯿﮟ ﺧﺰﺍﮞ ﺑﮑﻒ ﺑﺴﺘﺮ ﻣﺮﮮ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﮩﺎﺭ ﭘﮧ ﺗﻒ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ ﮨﮯ ﺟﺎ ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﺑﺎﻧﭧ ﺗﺮﮮ ﻣﻼﻝ ﺗﺮﯼ ﭼﺸﻢ ﺍﺷﮑﺒﺎﺭ ﭘﮧ ﺗﻒ ﺗﺠﮭﮯ ﺧﺒﺮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺮﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺳﺖ ﺗﺮﮮ ﺟﯿﺴﮯ ﻏﻤﮕﺴﺎﺭ ﭘﮧ ﺗﻒ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺑﮑﮭﯿﺮﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺩﮬﻮﻝ ﺁﻧﮑﮭﻮں ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍﺋﮯ ﺗﯿﺰ ﮐﮯ ﺍﮌﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻏﺒﺎﺭ ﭘﮧ ﺗﻒ
وداع روح کا منظر اب ہم پہ طاری ہے ترا خیال مگر پھر بھی جاری ہے تری نگاہ کے رسیا خراب حالوں کو ترا مزاج بدلنے کی آس ساری ہے کف افسوس ہے اس کی تہی دستی پر کہ جس کے ربط و خیال سے تو عاری ہے تمہارے ہجر میں یکجا کیا ہے لمحوں کو تمہارے وصل میں جینے کی راہ نکالی ہے توقیر فقط روشنی حیات کی خاطر متاع جاں کی طرف غزل اچھالی ہے
جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا آ گرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیر تک پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر اک سفر زاد اپنے ہی نقش قدم پر اتارا ہوا زندگی اک جوا خانہ ہے جس کی فٹ پاتھ پر اپنا دل اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا تم جسے چاند کا چاند کہتے ہو منصورؔ آفاق وہ ایک لمحہ ہے کتنے مصیبت زدوں کا پکارا ہوا