1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

معاویہ رضی اللہ عنہ (خوش نصیب) مومنین میں سے ایک ہیں

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏5 اکتوبر 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صُحبت کی فضیلت اُن تمام صحابہ کرام کے لئے ثابت ہے جو اہل سنّت کے نزدیک متفقہ طور پر کئے گئے صحابی کی تعریف کے ضمن میں داخل ہوئے۔

    اور یہ بدترین جہالت میں سے ہے جسے معاصرین اہل بدعت فروغ دے رہے کہ وہ صحابہ کے مفہوم کو ایک خاص گروہ یا ٹولی کے ساتھ محصور کررہے ہیں، اور یہ صحابہ سے حسد وبغض رکھنے والے خبیث رافضہ کی کاوش ہے جو بہت سارے صحابہ کرام کو صحابی کی تعریف سے نکالنا چاہتے ہیں۔

    شیخ محدث سلیمان العلوان اپنی کتاب( الاستنفار للذب عن الصحابہ الأخیار،ص۲۰) میں فرماتے ہیں:

    ’’بعض خواہش پرستوں کا یہ گمان ہے کہ صرف مہاجرین وانصار کے لئے ہی صحبت(صحابی ہونے کا وصف) صحیح ہوگا ،اور اس وقت ان کے بعد آنے والوں کی عدالت اسی چیز کے ذریعہ ثابت ہوگی جس سے ان کے علاوہ تابعین وتبع تابعین کی عدالت ثابت ہوتی ہے، اور یہ (خیال) غلط ہے، کیونکہ اسے اہل سنّت میں سے کسی نے نہیں کہا ہے‘‘۔ ا.ھ۔

    اسی طرح معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے اس دلیل کی بنیاد پرحسد کرنا یا انہیں ہدف تنقید بنانا کہ انہوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے جنگ کی،یا فتح مکہ کے سال اسلام لائے ،یا وہ جنگ حنین کے بعد مرتد ہوگئے درست وجائزنہیں ہے، اور نہ ہی اہل علم میں سے کسی نے یہ بات ذکر کی ہے کہ معاویہ ۔رضی اللہ عنہ۔جنگ حنین کے بعد مرتد ہوگئے تھے،کیونکہ معاویہ بن ابی سفیان ۔رضی اللہ عنہ۔کی فضیلت ،اور ان کے سچّے اسلام اور اُن کی امانت پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے، اور معاویہ رضی اللہ عنہ غزوہ حُنین میں شریک رہے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے باقی صحابہ کے ساتھ اُن کا تزکیہ فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    ﴿لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّـهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ ثُمَّ أَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ﴾[التوبة:25-26]

    ’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی ہے اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں اپنی کثرت پر ناز ہوگیا تھا، لیکن اس نے تمہیں کوئی فائده نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئےپھر اللہ نے اپنی طرف کی تسکین اپنے نبی پر اور مومنوں پر اتاری اور اپنے وه لشکر بھیجے جنہیں تم دیکھ نہیں رہے تھے اور کافروں کو پوری سزا دی۔ ان کفار کا یہی بدلہ تھا ‘‘۔[سورہ توبہ:۲۵۔۲۶]

    اور معاویہ رضی اللہ عنہ (خوش نصیب) مومنین میں سے ایک ہیں کہ جن پر اللہ تعالیٰ نے سکینت نازل فرمائی ہے ،تو وہ سکینت الہی کے نزول کے بعد کیسے (دین سے) مرتد ہوسکتے ہیں؟۔

    اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    ﴿لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴾[الحشر:10]

    ’’تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وه (دوسروں کے) برابر نہیں، بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے۔ ہاں بھلائی کا وعده تو اللہ تعالیٰ کاان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے‘‘۔[سورہ حدید:۱۰]

    اور معاویہ رضی اللہ عنہ ان (خوش نصیب) لوگوں میں سے ایک ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے جنّت کا وعدہ کیا ہے، کیونکہ انہوں نے حنین وطائف کے غزوہ میں مال خرچ کیا ہے اور ان میں لڑائی کی ہے۔

    عبدالرحمن بن ابی عمیرہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:(اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ ) قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

    ’’اے اللہ! اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعہ (لوگوں کو)ہدایت دے‘‘۔

    (امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے)[ البتہ علامہ البانیؒ نے اسے مشکاۃ رقم (۶۲۳) میں صحیح قرار دیا ہے ۔ م۔ر ]

    اور کتاب (البدایہ والنہایہ لابن کثیر۸؍۱۳۴) میں آیا ہے کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر مقرّر کیا تو فرمایا:

    ’’معاویہ رضی اللہ عنہ کو صرف خیر سے یاد کیا کرو‘‘۔

    علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جب جنگ صفّین سے واپس آئے تو فرمایا:

    ’’لوگو! معاویہ کی گورنر ی کو ناپسند مت کرو۔اگرتم نے انہیں کھو دیا تو تم دیکھو گے کہ سَر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کرگریں گےجیسے حنظل (اندرائن ) کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا ہے‘‘۔(دیکھئے: البدایہ والنہایہ لابن کثیر،۸؍۱۳۴)

    اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا گیا ، کیا آپ جانتے ہیں کہ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ صرف ایک ہی وتر پڑھتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: ’’وہ فقیہ ہیں‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب فضائل صحابہ،باب ذکر معاویہ)۔

    اور(کتاب السنۃ للخلال ۱؍۴۴۴) میں امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے آیا ہے کہ: ’’معاویہ رضی اللہ عنہ کئی سال عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل پیرا رہے لیکن وہ ان میں کوئی بھی عیب نہ پائے‘‘۔

    ابن قدامہ المقدسی اپنی کتاب(لمعۃ الاعتقاد الہادی الی سبیل الرشاد،ص۳۳) میں کہتے ہیں کہ:

    ’’معاویہ ۔رضی اللہ عنہ۔ مومنوں کے ماموں،وحی الہی کے کاتب اور مسلمانوں کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ تھے اللہ ان سب سے راضی ہو‘‘۔

    محدّث شیخ سلیمان العلوان اپنی کتاب(الاستنفارللذب عن الصحابۃ الأخیار) میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے بارے میں رقم طراز ہیں:

    ’’جوشخص اُن کے ایمان کی شہادت دینے کے بعد انہیں منافق سے متّصف کرتا ہے وہ اُن پر بہت بڑا بہتان لگاتا ہے اور واضح گناہ کا مرتکب ہوتاہے، ایسے شخص کو توبہ کا حُکم دیا جائے گا،اگروہ توبہ کرلیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ حاکمِ وقت پر علماء کے صحیح قول کے مطابق اس کا قتل کرنا واجب ہے‘‘۔۱ھ.

    اور ربیع بن نافع حلبی(ت ۲۴۱ھ) کہتے ہیں:

    ’’اصحابِ محمد ﷺ کے لئے معاویہ رضی اللہ عنہ ایک پردے کی حیثیت سے تھے ،پس جب کوئی اس پردہ کو کھول دیتا ہے تو ماورائے پردہ کے متعلق وہ جَری ہوجاتا ہے‘‘۔(دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۸؍۱۳۹)

    رسول اکرم ﷺ کے اصحاب اور آپ کی ازواج مطہرّات سے محبّت کرنے والے مسلمان بھائی ،اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو یا د کر:

    ﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾[الحشر:10]

    ’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے‘‘[سورہ حشر:۱۰]

    پس تو ایسے ہی بننے کی کوشش کراور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں رسول اکرمﷺ کی صحبت اور جنّت میں آپﷺ کی رفاقت کا شرف بخشاہے تو بھی اُن کے لئے رضی اللہ عنہم اور رحمہم اللہ کے(دعائیہ کلمات) کہتے رہ، اور ان گمراہ لوگوں کے راستے پرچلنے سے اجتناب کر،جورب العالمین کی سیدہی راہ اور رسول اکرمﷺ کے اسوہ حسنہ کی مخالفت کرتے ہیں۔
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں