1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مشرف کے خلاف کاروئی ہونی چاہے یا نہیں؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از گوہر, ‏20 اگست 2009۔

  1. گوہر
    آف لائن

    گوہر ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2009
    پیغامات:
    56
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    تحریر: محمد الطاف گوہر
    میڈیا کے اس دور میں ہر بات ممکن ہے کیونکہ جس بات کو اس میڈیا پہ پزیرائی مل جائے وہ عوامی حلقوں میں کسی بھی نئی بحث کے آغاز کا باعث ہے ،مگر یہ بات بھی روز روشن کیطرح عیاں ہےکہ پاکستان میں عوام کا سیاست کی سہ رخی پالیسی کے باعث اعتبار اٹھ چکا ہے اور عدم دلچسپی کا اظہارنمایاں ہے، کیونکہ ایک طرف عوام کی کمر تو مہنگائی نے توڑ دی ہے تو دوسری طرف توانائی کا بحران کسی عفرییت کیطرح ہر شے نگلی جا رہا ہے۔ لہذا معاشی بد حالی، غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ زندگی سے تنگ آچکے ہیں، جو تو کچھ حیثیت رکھتے ہیں وہ ملک چھوڑ کر بیر ون ممالک ہجرت کر رہے ہیں اور باقی بدحالی کا شکار دیوار سے لگے کھڑے ہیں۔ البتہ اقتصادی اور میعشت کے تمام شعبوں میں ذہین ترین لوگ موجود ہیں مگر ان کی افادیت لا حاصل کیونکہ ان کی صلاحیتوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور کو ئی جامع پالیسی وضع نہیں کی گئی، بلکہ کشکول لیکر امداد کیلئے دنیا میں مارے مارے پھرتے ہیں اور آئی ایم ایف اور علمی بینک کے قرضوں تلے دبے جا رہے ہیں۔

    اب جبکہ سپریم کورٹ کے3 نومبر کے فیصلے کے بعد سابق جنرل لندن سے یورپ Cruising (بحری تفریح) کے لیے جا چکے ہیں، آج سابق صدر پرویز مشرف کے بارے میں یہ بحث جاری کہ انہوں نے آئین کو توڑا ہے اور آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کی جائے یا نہیں؟ کیونکہ جو شخص آئین کو توڑے گا اس کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلایا جائیگا۔ اگر پرویز مشرف کے حالیہ بیانات کو دیکھا جائے تو کہیں نظر نہیں آتا کہ وہ اپنے ماضی کے کیے پر شرمندہ ہیں یاانہیں کسی قسم کی کوئی پیشمانی ہو۔

    یہ بات تو واضع ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک آئین شکن او ر اپنی ذات کی خاطر اس ملک کے ہر ادارے کو تباہ کرنے والے آمر کے احتساب کا وقت آچکاہے تو کچھ حضرات اپنے منطق اور دلیل کی بنیاد پر پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے اور سزا کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف کو بھول جانے اور ہمیں مستقبل کی فکر کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ مشرف کے تمام جرائم تسلیم کیے جا رہے ہیں مگر اس کیلئے سزا یہ تجویز کی جا رہی ہے کہ اسے فراموشی کے تاریک کنویں میں پھینک دیا جائے ۔

    اگر مشرف جیسے شخص جن کے جرائم کی لسٹ بہت طویل اور نہایت سنگین ہے کیلئے کوئی جسمانی سزا نہیں تو پھر ہمیں عدالتوں، پولیس اور جیلوں کی کیا ضرورت ہے۔ اگر ایک عام ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر سزا اور جرمانہ دیا جاتا ہے تو آئین کی دھجیاں اڑانے والے کیلئے عام معافی کیوں؟۔ عدل و انصاف کے شعبہ میں عدالتی نظام بھی امریت کے شکنجے میں رہا ہے اور حال ہی میں وکلا ء اور سول سوسائٹی کی بھرپور تحریک آخر رنگ لائی اور 16 مارچ 2009 ءمیں تمام جج بحال ہوئے اور ایک آزاد عدلیہ سامنے آئی جس سے عوام کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نیا سیاسی ماحول اور اسکا رد عمل کونسے جمود کو توڑنا چاہتا ہے؟

    اگر گزشتہ ایک دھائی پہ نظر ڈالی جائے تو یہ واضع ہوتا ہے امن و امان کی صورت حال تو ایک طرف ، ملک پاکستان میں کسی شبعہءزندگی میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ۔ ابھی حال ہی میں ہم اپنا 63 واں یوم آزادی منا چکے ہیں مگر حال یہ ہے کہ ان گذشتہ برسوں میں عوامی آزادی کا گراف نیچے کیطرف آتا نظرآ رہا ہے۔ عوام جس چکی میں پس رہے ہیں اسکا کیا حل نکالا گیا ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا کی ترجیحات عوامی بد حالی اور انکے مسائل کے حل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قا ئم ہونی چاہیں۔ آپ کا کیا خیا ل ہے؟
     
  2. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    بہت ہی مناسب تحریر ہے ، اور ُپر مغز ،، سچ کہا، اگر بڑوں کو چھوڑ دیا جإئے تو چھوٹوں کا محاسبہ ظلم کہلائے گا،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  3. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    جنگ کی تازہ خبر

    پرویز مشرف کا استعفیٰ ڈیل کا نتیجہ تھا،وزیراعظم کی تقریر سے واضح ہوگیا



    کراچی(کامران خان) وزیر اعظم نے بدھ کو قومی اسمبلی میں جب یہ کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا کیس قابل عمل نہیں ہے تو دراصل وہ اشارتاً کنایتاً ان غیر تحریری یقین دہانیوں کا حوالے دے رہے تھے ،باوثوق سیاسی اور سیکورٹی ذرائع کے مطابق یہ یقین دہانیاں حکمران اتحاد، عسکری قیادت اور پاکستان کے معتمد دوستوں نے گزشتہ برس 18 اگست کو پرویز مشرف کے استعفے سے پہلے والے ہفتے میں انہیں کرائی تھیں۔ وزیر اعظم نے ن لیگ کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ پرویز مشرف کے ٹرائل کے مسئلے پر گیلری میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو ملوث نہ کریں اوراگرچہ انہوں نے یہ کہا کہ ہمیں صرف وہی کچھ کرنا چاہئے جو ” قابل عمل “ ہے تاہم انہوں نے جان بوجھ کر اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ یہ ” قابل عمل“ کیا ہے۔11 سے 18 اگست تک اقتدار کے ایوانوں میں کیا کچھ ہوا، اس بار ے میں جاننے والے مختلف ذرائع کا کہنا ہے کہ مشرف کی رخصتی کے حوالے سے جو سمجھوتا طے پایا اس میں پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت جس میں صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی دونوں شامل تھے کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی ، پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن، برطانیہ کے خصوصی نمائندے برائے پاکستان مارک لائل گرانٹ اور سعودی بادشاہ کے خصوصی ایلچی شامل تھے۔ ایک سینئر افسر جو پرویز مشرف کی رخصتی سے پہلے کے فیصلہ کن ہفتے میں ہونے والی پیشرفت سے براہ راست آگہی رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس ڈیل کی غرض وغایت یہ تھی کہ پرویز مشرف کو باوقار انداز میں ایوان صدر سے رخصت کیاجائیگا اور یہ ضمانت دی جائے گی کہ نہ تو انکا مواخذہ ہوگا اور نہ ہی مستقبل میں ان کے خلاف کوئی اور عدالتی کارروائی ہوگی۔اس معاہدے میں اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ مستقبل بعید میں مشرف سے کیا ہوتا ہے لیکن اس ڈیل میں یہ وعدہ ضرور ہے کہ موجودہ حکومت پرویز مشرف کو سرکاری سطح پر بے توقیر نہیں کریگی۔وزیر اعظم گیلانی نے اپنے حالیہ بیان میں اور صدر زرداری کی جانب سے گزشتہ ہفتے میں ’ ’ دوستوں“ کو انتقام کی سیاست روکنے کا مشورہ دیکر دراصل گزشتہ برس اگست میں ہونے والے معاہدے کے تقدس پر بیان دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سینئر پی پی قیادت اس امر پر قائل ہو چکی ہے کہ ن لیگ اس معاہدے کے برعکس پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ فائل کرنے کیلئے حکومت پر دباؤڈال کر پیپلزپارٹی کی حکومت کو فوج کے مقابل لا کر کھڑا کرنا چاہتی ہے۔گزشتہ ماہ 17 جولائی کو رائیونڈ میں خیرسگالی کیلئے ملاقات کے موقع پر صدر زرداری نے نواز شریف سے کہا تھا کہ ” میاں صاحب ہم(پیپلزپارٹی ) سے بہت محاذ آرائی کرچکے ہیں اور بڑی قربانیاں دے چکے ہیں، مہربانی فرما کر اس مرتبہ ہمیں معاف ہی رکھیں آپ آگے بڑھیں اور یہ کام کر دکھائیں۔یہ انہوں نے اس وقت کہا تھا جب نواز شریف نے آصف علی زرداری سے بصد اصرار کہا کہ حکومت مشرف کے خلاف غداری کے الزام میں کارروائی کرے۔ ” یہ شاندار ڈیل ایسی چیز ہے کہ اس میں حصہ لینے والا کوئی بھی شخص نہ تو مان کر دکھائے گا اور نہ ہی اس کی تصدیق کریگا لیکن اس کے باوجود ایسی کوئی چیز نہیں ہورہی جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ اس غیر تحریری معاہدے کی کوئی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ تحریر ی سیاسی معاہدوں سے زیادہ مقدس ہے۔مشرف کی جانب سے استعفے کے اعلان کے بعد تینوں سروسز چیفس اور چےئر مین جائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی جانب سے الوداع کہے جانے سے قبل تینوں مسلح افواج کے یونٹس نے مشرف کو آخری سلامی دی۔اس سب کچھ کا انتظام بڑی احتیاط سے کیا گیا تھا تاکہ قوم اور فوج کو یہ پیغام دیاجا سکے کہ ایوان صدر سے مشرف کی رخصتی سے فوجی ناراضی کا کوئی تعلق نہیں ہے، انہی ذرائع نے مزید کہا ہے کہ فوج کو جنرل پرویز مشرف کے سیاسی عزائم یا ان کے نتائج مین کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن جہاں تک موجودہ حکومت کی جانب سے پرویز مشرف کے سابقہ اقدامات کے ٹرائل کا سوال ہے تو اس سے بے چینی ہوگی۔ایک اور ذریعے نے بتایا کہ صدارتی سیکورٹی کیلئے قانون نافذ کرنیوالی فوجی اور سول ایجنسیوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی بکتر بند گاڑیوں سمیت دیگر گاڑیاں تاحال آرمی ہاؤس میں کھڑی ہیں، آرمی چیف کی سرکاری رہائشگاہ بھی اسی معاہدے کے تحت سابق صدر کو پاکستان میں ان کے قیام تک فراہم کی گئی تھی۔مشرف کی رخصتی کے بین الاقوامی عنصر نے بھی ان کے بیرون ملک قیام کے دوران انہیں اسی طرح کا پروٹوکول دینے کا وعدہ کیا تھا۔ عام آدمی کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ برطانیہ میں قیام کے دوران برطانوی حکومت نے انہیں 24 گھنٹے سیکورٹی کور فراہم کیا اور اس میں مسلح اہلکاروں کے علاوہ بکتر بند گاڑیاں بھی شامل ہیں، یہ وہ انتظامات ہیں جو برطانیہ میں انتہائی اہم افراد کیلئے اٹھائے جاتے ہیں۔اتفاق کی بات کہ برطانیہ نے بھی مشرف کی رخصتی کے حتمی معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس موقع پر برطانیہ کی جانب سے سر مارک لائل گرانٹ کو بھیجا گیا تھا۔ وہ پاکستان میں برطانیہ کے سابق سفیر ہیں اور پیپلزپارٹی و ن لیگ کی قیادت سے اپنے گہرے روابط کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔باخبر ذرائع نے مزید کہا کہ ” سر گرانٹ کی آمد ایک اہم موڑ تھا،ان کے پاس مشرف کو اس امر پر قائل کرنے کیلئے درکار اہلیت بھی موجود تھی اور اثرورسوخ بھی، انہوں نے اسی اثناء میں زرداری اور نواز شریف سے درخواست کی کہ وہ مشرف کی رخصتی کے دوران معاملات خراب نہ کریں لیکن اس ڈیل کے آخری پیچ جنرل کیانی نے کسے جن سے برطانوی مندوب نے سب سے آخر میں ملاقات کی۔سر مارک لائل گرانٹ 14 اگست کو واپس لندن گئے تو اس وقت فوجی قیادت مشرف کے اقتدار کے ڈرامے کا آخری ایکٹ لکھنا شروع کر دیا تھا۔اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ برس 15 اگست کو سرمارک لائل گرانٹ کے جانے کے محض ایک دن بعد ہی فنانشل ٹائمز نے ” الوداع مشرف“کی سرخی کے ساتھ اپنا ایڈیٹوریل لکھاتھا۔اس ایڈیٹوریل میں ویسی ہی نصیحت اعلیٰ سیاسی پاکستانی قیادت کو دی جیسی مارک لائل گرانٹ نے دی تھی۔ اخبار نے لکھا تھا کہ”پرویز مشرف کی فوری رخصتی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فوج اپنے سابق چیف آف اسٹاف کو پارلیمانی مواخذے سے بے توقیر ہوتے دیکھتی رہے گی، حکمران اتحاد کو ضرورت سے زائد عملیت کا مظاہرہ نہیں کر نا چاہئے کیونکہ پاکستان بحران کی ایک اور تہہ کو برداشت نہیں کر سکتا۔لندن سے واشنگٹن ، ریاض سے اسلام آباد تک بہت سی تہہ دار کوششیں ہوئیں جنکا مقصد یہ تھا کہ سیاسی قیادت بالخصوص نواز شریف اس امر کو یقینی بنائیں کہ مشرف کی باوقار رخصتی میں کوئی رخنہ نہ آنے پائے۔بہت سے ذرائع نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ پرویز مشرف جب اپنے استعفے کی تقریر کی تیاری کیلئے اتوار کو اپنے کمرے میں گئے اس دن جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل طارق مجید ، ڈی جی آئی ایس آئی ندیم تاج اور کور کمانڈرراولپنڈی جنرل محسن کمال اپنے سابق کمانڈر انچیف کی دلجوئی کیلئے انکی خدمت میں پیش ہوئے اور انہیں مستقبل میں اچھے سلوک کیلئے دلی یقین دہانیاں کرائیں۔مارل لائل گرانٹ نے ایک علیحدہ محاذ پر مشرف کو ایک پیغام دیا اور پھر اس کے بعد اسکی نوعیت کے دیگر پیغامات ٹیلیفون کالز کی شکل میں آئے، ان پیغامات میں امریکی نائب صدر ڈک چینی، سیکریٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزارائس کے ٹیلی فونز شامل تھے۔اسی اثناء میں اسلام آباد میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن فوجی و سیاسی قیادت سے ملنے اور ٹیلی فونز پر کام کر رہی تھیں تاکہ فوجی اقتدار کا خاتمہ ہر ممکن طور پر ہموار طریقے سے ہوسکے۔سیاسی محاذ پر مارک لائل گرانٹ اور این ڈبلیو پیٹرسن نے زرداری اور گیلانی دونوں سے یقین دہانی حاصل کرلی تھی وہ مشرف کے مواخذے یا مستقبل میں ان کے خلاف مقدمے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے، اس کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی سابق صدر سے اپنے براہ راست رابطوں میں انہیں آگاہ کر دیا کہ وہ باوقار انداز میں انکی رخصتی چاہتے ہیں اورمستقبل میں بھی وہ انہیں عدالت میں گھسیٹنے کی کسی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گے۔اس حوالے سے پس منظر میں ایک دلچسپ ملاقات بھی ہوئی، یہ ملاقات مشرف اور اے این پی کے صدر اسفندیار ولی کے مابین ہوئی، تاہم مشرف کے مستقبل کے تنازع کے عروج پرہونے والی یہ ملاقات میڈیا سے خفیہ رہی،ذرائع میں شامل کم از کم دو سینئر افسران نے اس امر پر اصرار کیا کہ مشرف نے 16 اگست کو سعودی فرمانروا شادہ عبداللہ سے نجی بات چیت کے بعد استعفیٰ دینے کیلئے اپنا ذہن بنا لیا تھا۔شاہ عبداللہ نے پرویز مشرف کے فیصلے کی حمایت کی اور انہیں سعودی عرب کو اپنا وطن تصور کرنے کی پیشکش کی۔یہ خیال کیاجاتا ہے کہ اقتدار سے علیحدگی کے بعد پرویز مشرف مسلسل شاہ عبداللہ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انہوں نے رواں برس مئی میں ان سے ملاقات بھی کی تھی، ان کے نجی دورے کے بعد شاہ عبداللہ نے پرویز مشرف کو ریاض سے لندن جانے کیلئے اپنا شاہی طیارہ بھی فراہم کیا تھا۔شاہ عبداللہ کے ساتھ پرویز مشرف کی ملاقات سے مشرف کے ایک دوست نے تاثر اخذ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ اگر نواز شریف نے پرویز مشرف کیخلاف غداری کے مقدمے پر کارروائی کے حوالے سے سرگرمیاں بڑھائیں تو شاہ عبداللہ پرویز مشرف کی جانب سے معاملے میں مداخلت کرسکتے ہیں۔پیپلز پارٹی، عالمی قوتوں ، فوج اور پرویز مشرف کے مابین پرویز مشرف کو اقتدار سے علیحدگی کیلئے باوقار راستہ دینے کے حوالے سے ڈیل ایسے غیر تحریری معاہدوں کے سلسلے میں سے دوسرا معاہدہ ہے جسے مشکل ترین حالات میں بھی تقدس فراہم کیا گیا ہے۔ایسا ہی ایک معاہدہ پرویز مشرف اور بینظیر بھٹو کے مابین 2007 میں لندن اور ابو ظبی میں ہونے والی ملاقاتوں کے دوران کیا گیا تھا اور یہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی برقرار رہا اور پرویز مشرف بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کے مہینوں میں بھی برسراقتدار رہے جبکہ اس کے عوض انہوں نے نواز شریف حکومت کے عہد میں بنائے جانے والے مقدمات میں بے مثال معافی دینے کا سلسلہ جاری رکھا ، پیپلزپارٹی کے رہنماؤں اور وفاقی و صوبائی حکام کے خلاف بنائے گئے یہ وہی مقدمات تھے جن کی وہ اپنے فوجی دور اقتدار میں پیروی کرتے رہے تھے۔
     
  4. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    میرے خیال سے پرویز مشرف کا نہ تو ٹرائل ہوگا اور نہ ہی ہونا چاہئے

    لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ذوالفقار بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں شامل تھا اور پاکستان توڑنے والے یحیٰی خان کو اس نے کچھ نہیں کہا

    نواز شریف ضیاء الحق کی حکومت میں صوبائی وزیر خزانہ، وزیر اعلٰٰی پنجاب رہا۔ وہی نواز شریف جس کے بارے میں ضیاء الحق نے کہا تھا کہ اسے میری عمر لگ جائے۔
    یوسف رضا گیلانی بھی ضیاء الحق کی حکومت میں وزیر تھا۔

    ایم کیو ایم، ق لیگ مشرف دور میں اس کے ساتھ تھی۔

    اگر ٹرائل کرنا ہی ہے تو سب کا کریں اکیلے مشرف کا کرنے کا کیا فائدہ؟

    ن لیگ 12 اکتوبر کی بجائے 3 نومبر پر مشرف کا احتساب چاہتی ہے 12 اکتوبر 1999 پر کیوں نہیں

    ن لیگ کے جو اراکین مشرف کا آرٹیکل 6 پر ٹرائل چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ اس آرٹیکل 6 کو اچھی طرح پڑھ لیں جس میں صاف لکھا ہے کہ معاونت کرنیوالے بھی سزاکے حقدار ہیں۔

    سچ تو یہ ہے کہ مشرف کا ٹرائل کوئی حکومت نہیں چاہتی۔ پیپلزپارٹی کی نیت تو خراب ہے ہی لیکن ن لیگ حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں ہے۔

    ٹرائل شروع کرنا ہے تو ایوب خان، یحیٰی خان، ضیاء الحق، مشرف سمیت ان سب کا کریں جنہوں نے ان آمروں کا ساتھ دیا
     
  5. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    میں راشد جی کی اس بات سے متفق ہوں کہ محاسبہ ہی کرنا ھے تو سبھی کو 1 کٹہرے میں کھڑ اکریں یہ کیا بات ہوئی جو اقتدار میں ھے وہ ولی اللہ اور جو جا چکا وہ چور اور غدار
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
    یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں


    :201: :201: :201:​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں