1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مسلم شخصیات . نورالنساء عنایت خان

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از احتشام محمود صدیقی, ‏2 اپریل 2012۔

  1. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں کے زیرِ قبضہ فرانس میں کئی سطحوں پر تحریکِ مزاحمت جاری تھی۔ برطانیہ کی خفیہ سروس نے پیرس میں اپنے جاسوسوں کا جال پھیلا رکھا تھا جسکے ذریعے پل پل کی خبر اتحادی کمان کو پہنچتی تھی۔ نورالنساء (Noor-u-Nissa) جرمنوں کے خلاف کام کرنے والی پہلی خاتون ریڈیو آپریٹر تھیں

    نورالنساء کا باپ صُوفی منش انسان تھا، عدم تشدد کا قائل اور عارفانہ موسیقی کا شیدائی جبکہ اُس کی ماں ایک نو مسلم امریکی خاتون تھی۔

    پہلی جنگِ عظیم کے وقت بلومز بری میں پیدا ہونے والی یہ لڑکی دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنوں کی قید میں انتہائی اذیت ناک حالات میں دم توڑ گئی۔
    [​IMG]

    1943ء میں نازیوں نے اِن جاسوسوں کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع کر دی اور ایک ایسا وقت بھی آیا کہ نورالنساء کے تمام ساتھی گرفتار ہوگئے اور پیرس میں اتحادیوں کے لِیے پیغام رسانی کی تمام تر ذمہ داری اس نوجوان خاتون پر آن پڑی لیکن آخر کار جرمن خفیہ سروس گستاپو نے نور کو بھی آن لیا۔

    نازی پنجے کی گرفت میں آنے کے بعد نور کا حوصلہ مزید مضبوط ہوگیا اور راز اُگلوانے کے سارے نازی ہتھکنڈے ناکام ہوگئے۔ نور کی زبان کُھلوانے کے لئے اُسے جو جو اذیتیں دی گئیں اُن کا اندازہ اس امر سے ہوجاتا ہے کہ جنگ کے بعد نازیوں پر چلنے والے جنگی جرائم کے مقدّمے میں گستاپو کے متعلقہ افسر، ہانس جوزف کیفر سے نورالنساء کی موت کے بارے میں پوچھا گیا تو سنگدِل افسر کی آنکھوں میں آنسو اگئے۔

    نورالنساء کا بچپن پیرس کے نواح میں گزرا۔ وہ اپنے خیالات میں گُم رہنے والی اور طلسمی کہانیاں پڑھنے والی ایک بچّی تھی لیکن 1927ء میں جب وہ صرف تیرہ برس کی تھی تو والد کا انتقال ہوگیا اور والدہ اس صدمے سے مستقلاً سکتے میں آگئیں۔

    چار بچّوں میں سب سے بڑی ہونے کے سبب سارے خاندان کی ذمہ داری نورالنساء کے ناتواں کاندھوں پر آن پڑی تھی۔

    1940ء میں جب جرمنوں نے فرانس پر قبضہ کیا تو نورالنساء کا سماجی اور سیاسی شعور پختہ ہوچکا تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ اب والد صاحب کی طرح محض عدم تشدد پہ یقین رکھنے اور صوفیانہ موسیقی میں گم رہنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ حالات براہِ راست عملی اقدام کا تقاضہ کر رہے ہیں۔

    نور کو بچپن ہی سے ریڈیو پر بچّوں کو کہانیاں سنانے کا شوق تھا اور وہ ریڈیو اور وائرلیس کی تکنیک سے قدرے شناسا تھی چنانچہ جرمنوں کے خلاف تحریکِ مزاحمت میں اُس نے خفیہ پیغام رسانی کا میدان چُنا۔

    یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ نور عنایت خان جرمنوں کے خلاف کام کرنے والی اولین خاتون ریڈیو آپریٹر تھی۔ اس نے چھبیس برس کی عمر میں خود کو تحریکِ مزاحمت کے لئے وقف کر دیا تھا اور اُنتیس برس کی عمر میں جرمنوں کے ہاتھوں ایک اذیت ناک موت سے ہم کنار ہوئی۔
    نورؔ نے برٹش سرکار کو اتنی بیش بہامعلومات پہنچائی تھیں جس کے اعتراف میں 16جنوری 1946ء کو فرانس کے جنرل ڈیگال نے نورالنساء عنایت خان کو مرنے کے بعد بہادری کا میڈل اور خطاب دیا۔چونکہ معاملہ ایک مسلمان لڑکی کا تھا اس لئے شاطر انگریزوں نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور معاملے کو گول کرنا چاہا مگر بعد میں کسی مصلحت کے تحت 15اپریل 1949ء کو برٹش سرکار نے بھی اسے الگ سے بعد از مرگ خطاب عطا کیا ۔
    نرم و نازک خدوخال، گہری سیاہ آنکھوں اور دھیمے لہجے والی حسین و جمیل خاتون کی خطر پسند زندگی نے کئی قلم کاروں کو اپنی جانب راغب کیا اور اب تک اس کی زندگی پر عالمی شہرت کے دو ناول تحریر کئے جا چکے ہیں۔

    نور عنایت خان کو اپنے جدِ امجد سلطان ٹیپو سے والہانہ عقیدت تھی اور اُسی روایت پہ چلتے ہوئے انھوں نے ہندوستان کو انگریزی عمل داری سے پاک کرنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ جب خفیہ سروس میں بھرتی کے لئے انٹرویو ہوا تو نور عنایت نے انگریز افسر سے صاف صاف کہہ دیا کہ فی الحال ہمارے سامنے ایک مشترکہ دشمن نازی جرمنی کی شکل میں موجود ہے لیکن نازی ازم کا خاتمہ ہوتے ہی میں آزادیء ہند کے لئے انگریزوں کے خلاف بر سرِ پیکار ہوجاؤں گی۔

    ایک ایسی خوبرو، صاف گو، شیردِل لیکن فنکارانہ مزاج کی عورت کے اصل حالاتِ زندگی بہت


    پہلے دنیا کے سامنے آجانے چاہیئں تھے۔ بہر حال مصنفہ شربانی باسُو داد کی مستحق ہیں کہ انھوں نے اس دیرینہ ضرورت کو پورا کیا ہے اور نور عنایت خان کی ہشت پہلو زندگی ہم پہ بے نقاب کی ہے۔

    نورالنساء (Noor-u-Nissa) کی داستانِ حیات پر اب تک اسرار کا دبیز پردہ پڑا رہا ہے جس نے بے شمار افواہوں کو بھی جنم دیا لیکن اب شربانی باسُو کی نئی کتاب ’جاسوس شہزادی‘ (Spy Princess) نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ہے۔

    [​IMG]
    [​IMG]

    [​IMG]
     
  2. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مسلم شخصیات . نورالنساء عنایت خان

    اردو کی کسی اور سائٹ پر کچھ عرصہ پہلے یعنی جنوری 2011 ء میں ، میں نے بھی نورالنساء کے بارے میں کچھ لکھا تھا۔ احتشام محمود صدیقی صاحب کا آرٹیکل دیکھا تو سوچا کہ اپنے اس لکھے یہاں بھی لگا دوں ۔۔۔۔

    ستمبر 1944ء کو جرمنی کے ایک عقوبت خانے کے کمرے کے فرش پر ایک لڑکی مری پڑی تھی۔ اس کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ برطانیہ کی جاسوس ہے۔ جرمنوں کے نزدیک اس کا نام نورابیکر تھا۔ اس سے زیادہ ان کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ کہ یہ کون ہے؟ کہاں سے آئی ہے؟ کیا کرتی رہی ہے؟ اس کے ساتھی کون ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مخبر کی اطلاع پر اس کو پکڑا گیا تھا، ساری رات اس سے تشدد آمیز تفتیش ہوتی رہی تھی۔ لیکن لڑکی کی زبان سے ایک ہی لفظ نکلتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آزادی ۔
    وہ لڑکی نورا بیکر نہیں تھی۔
    اس کا نام نور عنایت خان تھا۔
    پہلی خاتون ریڈیو آپریٹر جو جرمنوں کے قبضے میں آۓ ہوۓ فرانس میں داخل ہوئی اور اتحادی افواج کو نازیوں کی فوجی حرکات اور پوزیشن کے بارے میں خبریں دیں۔ موت کے بعد اس کو فرانس کا کراس دی گئورے اور برطانیہ کا جارج کراس دیا گیا۔ ۔ ۔ یہ دونوں اعزازات صرف تین خواتین کو ملے ہیں۔ باقی دو اوڈیٹ ھالوز اور وائلٹ سزوبو کے بارے میں تو فلمیں بھی بن چکی ہیں، لیکن نور عنایت خان کو بھلا دیا گیا۔
    ایک انڈین شہزادی۔۔ اس کا مجسمہ 2012ء میں جب لندن کے گورڈن سکوئر پر نصب کیا جاۓ گا تو، یہ کسی بھی انڈین خاتون کا برطانیہ میں پہلا مجسمہ ہوگا، ۔۔۔۔ اور کسی بھی مسلم خاتون کا دنیا میں پہلا۔
    نور ماسکو میں پیدا ہوئی۔ وہ ٹیپوسلطان کی اولاد میں سے تھی۔ اس کا والد حضرت عنایت خان، ایک صوفی تھا۔ اور موسیقی کا دلدادہ۔ ان دونوں کی خآطر اس نے ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کیا۔
    ٹیپوسلطان کا خاندان، میسور میں شکست کھانے کے بعد پورے انڈیا میں پھیل گیا تھا، عنایت خان گجرات کی ریاست برودہ میں پیدا ہوا تھا، نوجوانی میں صوفی ازم کے پرچار کیلیۓ اس نے امریکہ تک کا سفر کیا۔ وہاں پر اس کی ملاقات اورا ورا بیکر سے ہوئی۔ جس سے اس نے بعد میں لندن میں شادی کی۔ اور اس کا اسلامی نام امینہ بیگم رکھا گیا۔
    1914ء میں عنایت خان کو ماسکو آنے کی دعوت دی گئ۔ اور وہیں پر نورالنساء عنایت خان کی ولادت ہوئی۔
    ماسکو اس وقت خانہ جنگی اور محلاتی سازشوں کی زد میں تھا۔ اس لیے عنایت جلد ہی وہاں سے واپس لندن آگیا۔
    برطانوی ہمیشہ عنایت خان کے بارے میں مشکوک رہے، اس کی دوستی نہرو اور گاندھی جیسے سیاستدانوں سے تھی۔ خود عنایت خان کے اپنے خیالات بے حد قوم پرستانہ تھے، اور ان خیالات کے اظہار میں وہ کبھی ہچکچایا بھی نہیں تھا۔ عنایت خان نے مناسب یہی جانا کہ لندن کو چھوڑ کر پیرس میں سکونت اختیار کر لی جاۓ۔
    نورالنساء نے اپنی تعلیم پیرس سے ہی حاصل کی۔
    اور کہانیاں لکھنے لگی۔ اس کی ایک کتاب 1939ء میں چھپی۔ نور النساء کے والد چونکہ موسیقی کے شوقین تھے اس لیے اس نے ستار سمیت کئ ساز بجانے سیکھ رکھے تھے۔

    دوسری جنگ کا آغاز ہوا۔ صوفی ازم میں عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے، لیکن جرمنوں کی نازی ازم کو روکنا ضروری تھا۔ نازی ازم نسلی انتہا پسندی پر یقین رکھتا تھا۔ جس کے مطابق سفید آریائی نسل کو باقیوں سے برتر سمجھا جاتا تھا۔ جو کہ انسانیت کے اصولوں کے خلاف تھی، انہی سوچوں کے پیش نظر نور نے نازیوں کے خلاف حصہ لینے کا فیصلہ کیا
    اس نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔سپیشل آپریشنز ایگزیکٹیو کو اس وقت ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جو ایک سے زیادہ زبانیں جانتے ہوں۔ نور ایک موزوں انتخاب تھی۔ اس کو سپیشل ٹریننگ کیلیۓ بھیج دیا گیا۔
    ٹریننگ کے بعد، ستار بجانے والی نازک سی لڑکی اب تربیت یافتہ ریڈیو آپریٹر اور اسلحہ چلانے کی ماہر تھی۔
    کئ ماہ تک اس نے کامیابی سے اپنا نیٹ ورک چلایا۔ لیکن کسی ڈبل ایجنٹ کی مخبری کی باعث اس کو پکڑ لیا گیا۔ اکتوبر 1943ء سے اس کی موت تک اس سے مسلسل تفتیش ہوتی رہی۔ تشدد کیا گیا۔ اذیتیں دی گیئں۔ لیکن نور نے کچھ بھی بتایا۔ اپنا نام تک نہ بتایا۔
    بالآخر 13 ستمبر 1944ء کو اس کے سر پر گولی مار کر مار دیا گیا۔

    دیگر معلومات نورالنساء میموریل ٹرسٹ کی ویب سائٹ سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
     
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مسلم شخصیات . نورالنساء عنایت خان

    احتشام محمود صدیقی جی !
    ایک باہمت مسلمان خاتون کے حالات زندگی سے روشناس کروانے پر بہت بہت شکریہ
    اور عمر خیام جی !
    آپ کی تحریر پڑھ کر معلومات میں مزید اضافہ ہوا۔

    آپ دونوں احباب کا بہت شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں