1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مستقبل کا کوالالمپور۔۔۔۔ بالحق ۔۔۔۔۔۔ عنایت عادل

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از عنایت عادل, ‏22 اپریل 2013۔

  1. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    مستقبل کا کوالالمپور۔۔۔۔ بالحق ۔۔۔۔۔۔ عنایت عادل
    میراسیاسی شخصیات سے ملاقات کا تجربہ کچھ اتنا نہیں کہ میں انکے انداز بیان اور انکے خیالات و افکار پہ کسی قسم کے تبصرے کا سوچ سکوں۔البتہ میڈیا پر بہت سے ایسے چہرے لب ہلاتے، الفاظ کی مار دیتے نظر آتے ہیں کہ جن کی ہر بات پر نہ سہی، اکثر باتوں پر تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ سیاست سے بھی میرا اتنا ہی تعلق ہے کہ جتنا ملک کے 65فیصد اس طبقے کا کہ جو الیکشن کے دن کو ایک خدائی تحفہ سمجھتے ہوئے بستر توڑ کر مناتے ہیں۔اور یہاں پر یہ کہنا بھی میں اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں کہ اب مجھ جیسے کاہلوں کو یہ اقبال جرم کر لینا چاہئے کہ یہ ہم 65 فیصد لوگوں کی ہی کاہلی ہے کہ جس کی وجہ سے ملک میں مسند اقتدار ٹینس کے بال کی صورت، جالی سے کبھی اس پار تو کبھی اُس پار گردش کر رہی ہے۔اور کون نہیں جانتا کہ ٹینس کے کورٹ میں لگی جالی تو محض ایک روائیتی تفریق ہے وگرنہ کورٹ کے دونوں جانب بال کے انتظار میں نظریں پھیلائے کھلاڑیوں کا ایک ہی مطمع نظر ہوا کرتا ہے کہ کب بال ان کے پاس آئے اور کب وہ اسے اپنی مرضی سے ''ضرب '' لگا کر، اپنی ذات ، اپنے کھیل، اپنی ٹیم اور اپنے ملک سے محبت کی مجبوری کی بنیاد پرداد دیتے ہجوم کی مزید حمایت حاصل کر سکیں۔اس کے بعد، میچ ختم۔۔۔کھلاڑی اپنی راہ، جبکہ ہجوم میں سے کچھ شاداں تو کچھ نالاں، نہ کوئی فائدہ، نہ زیاں ، اگلے میچ تک اپنے اپنے گھروں کی راہ لے لیتا ہے۔خیر یہ تو ایک کھیل کی بات تھی، میں اکثر اپنے ارد گرد اور ملکی سطح پر روزوانہ کی بنیاد پر جاری ، لمحہ لمحہ رنگ بدلتے سیاست کے کھیل کے بارے میں سوچا ضرور کرتا ہوں اور میری اس سوچ کا مرکز و محور کبھی بھی سیاستدان نہیں رہے۔ بلکہ میری سوچ کے دھارے ہمیشہ اس ہجوم میں سرگرداں رہے ہیں کہ جو ان سیاستدانوں کے گردا گرد ٹینس کے شائقین کی مثل گردن کبھی دائیں تو کبھی بائیں گھمائے نہیں تھکتے۔ سوال جو اس سوچ کے دوران اٹھتا ہے وہ یہ کہ وہ کون سے عوامل ہو سکتے ہیں کہ جو اس نفسا نفسی ، مصروفیت کی انتہا، اور مہنگائی کی چوٹیاں سر کرتے ماحول میںاس ہجوم کو اپنے تمام تر کام کاج کو چھوڑ چھاڑ کر، ان سیاسی دنگلوں اور اس میں نبر آزما پہلوانوں کی ان دھینگا مشتیوں کے نظارے کرنے پر مجبور کر دیتا ہے؟ ذاتی مفاد؟ بھلا ایک سیاستدان ان ہزاروں اور بعض اوقات لاکھوں کی حدوں کو چھوتے تماشائیوں میں سے کتنوں کے ذاتی مفادکی آبیاری کی سکت رکھ سکتا ہے؟بہر حال یہ ایک سوال ہی ہے۔ جسے اللہ دے۔البتہ ایک بات جو گزشتہ کچھ عرصے سے ذاتی تجربے میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سیاسی پہلوان، اپنے دائو پیچ میں کافی مہارت سے لیس ہوا کرتے ہیں۔ان میں سب سے بڑھ کر جو عنصر دیکھنے میں آتا ہے ، وہ ان کا کمال کی حد تک خود اعتماد ہونا ہے۔ عوامی ہجوم ، اور یہاں تک کہ میڈیا کے نمائندوں کی طرف سے ہر قسم کے آسان و مشکل سوالات کا جواب، چاہے غلط ہو یا کہ درست ، اس خوداعتمادی سے دیتے ہیں کہ درست و صحیح میں تمیز مشکل ہو ئی جاتی ہے۔ماضی کی کارکردگی کو ازبر رکھتے ہوئے، مستقبل کی ایسی پر اعتماد منصوبہ سازی سننے کو ملتی ہے کہ مجھ جیسا کم فہم شخص تو کیا بڑے بڑے علامہ سر دھننے لگتے ہیں۔ ملکی کھڑپینچوں کی تو خیر بات ہی کیا ہے، خوداپنے ضلع کے سیاسی افق کے ان ٹمٹماتے ستاروں کی ہی اگر بات کی جائے تو ان کی ماضی کی کاردگی کا تو شہر کا قریہ قریہ چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے کہ ہمارے شہر اور اس سے متصل دوسرے علاقوں میں کس قدر ترقی ہوئی اور صوبے کا دوسرا بڑا شہر ، بڑے بڑے سیاسی زعماء کا ''موجد'' ہوتے ہوئے کن کن تجربات سے گزر رہا ہے۔مگر جب آپ اپنے ان نمائندوں سے بات کرنے بیٹھ جائیں تو ان کے پاس اپنے کارناموں کی ایسی مدلل فہرست پائی جاتی ہے کہ آپ خود کو کوسنے لگتے ہیں کہ ان نمائندوں کو منتخب کرنے میں آپ نے ووٹ نہ ڈال کر واقعی اپنے شہر کے ساتھ زیادتی کا گناہ کر ڈالا ہے۔ اور اسی داستان کی بنیاد پر اور ساتھ ہی عوام کے بھرپور ''ساتھ '' کے ساتھ ساتھ انشاء اللہ کی ناقابل تردید دلیل کے ساتھ مستقبل کا ایسا نقشہ کھینچ کر سامنے رکھ دیںگے کہ عمران خان کے دعووں کے مصداق، لوگ یورپ و دوبئی چھوڑ کر ڈیرہ میں نوکریا ں ڈھونڈتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ڈیرہ کا سیورج سسٹم، نصف درجن کے قریب یونیورسٹیوں کی اشد ضرورت، صنعتی و زرعی انقلاب کے استعارے، انفرا سٹرکچر کے یکسر بدل دینے کے بلند باگ دعوے، گھر گھر گیس اور میٹھے پانی کی دستیابی، ننھے منے بچوں کی کلکاریوں سے فرحت انگیز پارکوں کی رنگینیاں، صاف ستھری سڑکوں کے کنارے خوشنما پھولوں سے سجی سر سبز پٹیوں اور رات کو جھلمل کرتے رنگین جھرنوں کی ایسی تصویر کشی کرتے ہیں کہ مہاتیر محمد بھی یہ نقشہ دیکھ لے تو سر پیٹ لے کہ اس نے کوالالمپور اور جینٹنگ ہائی لینڈ کو تعمیر کرتے وقت ان سے مشورہ کیوں نہ لیا۔اسی طرح، جب ان شخصیات کے لئے جلسوں کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے تو پنڈال میںموجود ملک اور ضلع کی غربت کی لکیر سے نیچے سانس لیتی عوام کی نبض پر ایسا ہاتھ رکھتے ہیںکہ سٹیج پر لگے مائکروفون تک اس داستان کو سن کر کپکپا اٹھتے ہیں ۔اور پھر اس کے بعد ان مفلسوں کو ایسے ایسے وعدے سننے کو ملتے ہیں کہ دوسری صبح دیہاڑی پر جاتے وقت ان کے ذہن میں یہی خواب گردش کر رہا ہوتا ہے کہ کب الیکشن ہو اور گزشتہ روز سنی جانے والی تقریر کے ثمرات سامنے آئیں اور کب ان کے دن پھر جائیں۔غرض، پینسٹھ سال سے اس ''آئندہ '' کا خواب ہے جس کی تعبیرہماری اور ہم سے پہلے کی نسلیں تو دیکھنے سے قاصر رہیں، کیا پتہ یہ خواب ہماری اگلی نسلوں کے لئے دیکھا گیا ہو؟ بہرحال، تماشائیوں کی دلچسپی کا ایک ہی جواب بنتا نظر آتا ہے کہ یہ ان کھلاڑیوںکے دائو پیچ ہی ہیں جو ان تماشائیوں کو کھچے چلے آنے پر مجبور کئے رکھتے ہیں اور یا پھر ان تماشائیوں کے اپنے خواب۔۔۔۔۔؟؟
     
    نعیم اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محترم عنایت عادل صاحب ۔
    مصورِ پاکستان تو بہت پہلے ہمیں ان کے شر سے آگہی دیتے ہوئے سمندر کو کوزے میں یوں بند کرگئے
    گرمیء گفتارِ اعضائے مجالس، الاماں !
    یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زرگری
    اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
    آہ ! اے ناداں ! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
     
  3. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی، کیا کہنے۔۔۔کیا کوزے کو بند کیا آپ نے میری تحریر کو علامہ کے شعر کی صورت میں۔ جزاک اللہ
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ خیر بھائی ۔
    اصل سہرا تو حضرت حکیم الامت علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی کے سر ہے جنہوں نے اس " احساسِ زیاں سے عاری امت" کی رہنمائی کئی دہائیوں پہلے ہی کردی تھی ۔ اور ہم بدنصیب ہیں کہ آج بھی اپنے آباء کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر بتانِ مغرب کے پجاری بن کر ذلت و رسوائی میں گرے ہوئے ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں