1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مزید سودے اور دیوالیہ

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از بےباک, ‏5 اگست 2009۔

  1. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    کچھ مزید سودے منصوبہ بندی کے مرحلے میں، کئی قومی ادارے دیوالیہ ہوسکتے ہیں ،،
    کراچی (رپورٹ کامران خان )اگرچہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن اور پاکستان اسٹیل جیسے عظیم قومی اداروں میں سرکاری حمایت سرپرستی میں بلاروک ٹوک بدعنوانی کو شدید دھچکہ پہنچا ہے لیکن اس نمائندے کی تحقیقات کے مطابق کچھ دیگر قومی اداروں اور پاکستانی عوام کے مفاد کو ان خفیہ معاملات سے خطرہ ہے جن پراس وقت مساوی موقع اور ایماندارانہ طرز عمل اختیار کئے بغیر شفافیت کے دائرے سے باہر گفت و شنید ہو رہی ہے۔ متعدد ایماندار حکام اور کاروباری ذرائع کے مطابق بات چیت حتمی مرحلے میں ہے، کچھ سودے منصوبہ بندی کے مراحل میں ہیں، اگر ان پر عمل ہوا تو مزید قومی ادارے دیوالیہ کا شکار ہوں گے اور قومی خزانے کو پہنچنے والا مسلسل نقصان مزید بڑھ جائے گا۔ ایک مرتبہ پھرطاقتور سیاسی حمایت رکھنے والے کچھ اشخاص جنہیں گزشتہ برس سرکاری اداروں میں منفعت بخش عہدوں سے نوازا گیا تھا منافع کمانے کی دوڑ میں شریک ہیں۔ ایسے سودے کرنے کا ایک مقام ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ کا ادارہ ہے، جہاں اس کے چیئرمین اسداللہ شیخ ناقابل بھروسہ جائیدادوں کی خریداری اور حصول کیلئے حتمی مرحلے میں مذاکرات کر رہے ہیں۔ اسد اللہ شیخ برطانیہ میں خود ساختہ 10 برس کی جلاوطنی ختم کر کے گزشتہ برس پاکستان واپس آئے ہیں، جب وہ لندن میں تھے تواس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے احتساب بیورو اور جنرل پرویز مشرف کے نیب نے ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کی پیروی کی تھی اور انہیں اشتہاری ملزم قرار دیا تھا۔ انہیں گزشتہ جولائی میں ای او بی آئی کا چیئر مین مقرر کیا گیا تھا، ای او بی آئی ایک سرکاری ادارہ ہے یہ تمام نجی اداروں سے لازمی عطیات جمع کر کے ان اداروں سے ریٹائر ہونے والے افراد کو بڑھاپے کی پنشن، گرانٹ اور دیگر فوائد فراہم کرتا ہے۔ ای او بی آئی دراصل غریب بوڑھے مزدوروں کے 160 ارب روپے کے فنڈ کو سنبھالنے کا ذمہ دار ہے۔ کراچی میں ای او بی آئی کے صدر دفتر میں ہونے والی بات چیت کا براہ راست علم رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ اعلی سطح پر انتظامیہ اس وقت اسلام آباد میں دو اہم منصوبوں پر رقم لگانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ ای او بی آئی اسلام آباد کے قلب میں ایک پہلے سے ہی پھنسی ہوئی جائیداد کے منصوبے جو ٹاور ہے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کر چکا ہے۔اگریہ حقیقت بنتا ہے تو ای او بی آئی کی جانب سے 6 ارب روپے کی خریداری کا یہ انتہائی نقصان دہ ، رکا ہوا منصوبہ، جس میں ابھی ٹاور کی تعمیر بھی باقی ہے، ہو سکتا ہے کہ اس کی زندگی میں جو پہلے ہی اپنے سعودی گاہک سے محروم ہو چکا ہے کچھ جان ڈال دے۔اس خریداری کی تجویز پر ہکا بکا رہ جانیوالے ای او بی آئی کے ایک سینئر اہلکار نے شدید اعتراضات اٹھائے اور بالآخر چند ماہ قبل مستعفی ہوکر میدان خالی چھوڑ کر چلے گئے۔ ای او بی آئی کی جانب سے ایک اور متنازعہ پروجیکٹ کے حصول کیلئے گفت و شنید جاری ہے، یہ پروجیکٹ اسلام آباد کا ایک فائیو اسٹار ہوٹل ہوٹل ہے جو فی الوقت پنجاب کے ایک بزنس گروپ کی ملکیت ہے۔ اسلام آباد میں فائیو اسٹار ہوٹل کی کامیابی کے امکانات میں بتدریج کمی اور اپنے مالیاتی معاملات کی وجہ سے یہ بزنس گروپ شدت کے ساتھ ایک ایسے گاہک کا منتظر تھا جو اسے اس بھاری مالی ذمہ داری سے نجات دلائے۔ ای او بی آئی، جس کے پاس 160 ارب روپے کے بھاری فنڈز موجود ہیں، ممکنہ گاہک کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا ہے اور اب اس بے وقعت منصوبے کیلئے 8 ارب روپے کی قیمت پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ای او بی آئی کے اہلکار نے کہا، ”یہ فنڈز غریب مزدوروں کے ہیں اور یہ جائیدادوں کی اس طرح کی بیکار مہم جوئی کیلئے نہیں بلکہ نقصان کے اندیشے سے پاک منصوبوں پر سرمایہ کاری کیلئے ہیں “۔ اس اہلکار نے چیئرمین اسداللہ شیخ کی جانب سے اس ایشو پر اب تک ہونے والے مذاکرات کا تفصیلی خاکہ بھی پیش کیا۔ ایک ایسے موقع پر جب اعلیٰ انتظامیہ بڑے معاہدوں پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے، اس ادارے کو چار ڈائریکٹر جنرل چلا رہے ہیں جو ایڈہاک بنیادوں پر ایسے مالی سال میں کام کر رہے ہیں جس نے نجی کمپنیوں کی جانب سے اولڈ ایج کے فوائد کیلئے ریکارڈ 30 فیصد کمی کا سامنا کیا۔ ایک ایسے موقع پر جب ادارے میں ایمانداری کے ساتھ مساوی مواقع دینے کا عمل اور میرٹ شدید دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں، تمام توجہ حال ہی میں مشتہر کی جانے والی ای او بی آئی کیلئے 75 اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کی خالی اسامیوں کو دی جا رہی ہے جس کیلئے 17 ہزار پاکستانیوں نے درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ ان اسامیوں کو پر کرنے کے عمل کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ اسی طرح کی پس پردے ہونے والے معاہدے صرف ای او بی آئی تک محدود نہیں ہیں اور بھی کئی سرکاری ادارے اہم عہدوں پر فائز افراد کے فائدے کیلئے زبردست تصورات پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں ایک نیا تصور جسے اس کے خفیہ ضامن کیلئے مالی خوش قسمتی قرار دیا جا رہا ہے، سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) لمیٹڈ، جو بلوچستان اور سندھ بشمول کراچی کو گھریلو استعمال کی گیس فراہم کرتی ہے، کے ذریعے چل رہا ہے۔ ایس ایس جی سی پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ایک ایسا تصور پیش کرے جس کے تحٹ انتہائی مہنگی ترین مصنوعی طور پر تیار کی گئی گیس کی بھاری بھر کم مقدار اپنے قدرتی گیس کے ڈسٹری بیوشن سسٹم میں داخل کردے، یہ شاید ملک میں ایل پی جی کی بڑھتی طلب کو پورا کرنے کیلئے ہے۔ گزشتہ جمعہ کوچار کمپنیوں نے قدرتی گیس کے ڈسٹری بیوشن نظام میں مصنوعی طور پر تیار کردہ گیس کی 100 ملین اسٹینڈرڈ کیوبک فٹ پر ڈے آف گیس (ایم ایم ایس سی ایف ڈی) مقدارشامل کرنے کیلئے ایس ایس جی سی کے پاس ٹینڈر جمع کرائے۔ ٹینڈر میں جس طرح کے طریقہ کار کا ذکر کیا گیا ہے وہ صرف کراچی کی ایک کمپنی ہی پورا کر سکتی ہے۔ انتہائی باخبر ذرائع نے کہا کہ اگرچہ ایس ایس جی سی نے اس تصور کو فروغ دیا اور رسمی پیشکش ( ٹینڈر ) حاصل کی لیکن انتظامیہ نے بالکل واضح الفاظ میں اس کی مخالفت کی ہے اور وزارت پیٹرولیم میں موجود اپنے اہم ضامن کو بتایا ہے کہ یہ منصوبہ مہنگی مصنوعی طور پر تیار کردی گیس کی درآمد اور اسے ایس ایس جی ایس کے مرکزی گرڈ کے ساتھ ملانے سے مشروط ہے لہٰذا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گھریلو اور کمرشل صارفین کیلئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائیگا۔ ایس ایس جی سی انتظامیہ نے وزارت کو بتایا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے ایک طرف عوام مشتعل ہوں گے تو دوسری جانب مہنگی مصنوعی طور پر تیار کردہ گیس کو ملانے سے ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک میں کیمیکل دھماکوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ ایس ایس جی سی کے ایک ذریعے نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ”اعلیٰ سطح پر ایس این جی (پروپین اور بیوٹین) کو میتھین والی قدرتی گیس کے ساتھ ملانے کرنے کا عمل پہلے کبھی نہیں ہوا اور ایسا کرنے کیلئے ایس ایس جی سی پر دباؤ ڈال کر یہ وزارت آگ سے کھیل رہی ہے“۔ قومی اداروں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بدعنوانی کا سنگین ترین پہلو یہ حقیقت ہے کہ نظری طور پر ان سرکاری اداروں کو ان کے متعلقہ، قیاس کی رو سے، خود مختار بورڈ آف ڈائریکٹر کنٹرول کرتے ہیں، لیکن سنگین مالیاتی نتائج کے زیادہ تر معاملات میں بورڈ یا تو لاعلم رہتے ہیں یا پھر اپنی انتظامیہ اور ان کے سیاسی آقاؤں کی خواہشات کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ جب اس نمائندے نے ایس ایس جی سی بورڈ کے ایک رکن سے اس مشکوک منصوبے پر، جس کے ادارے کی مالی حالت پر براہ راست اثرات مرتب ہوں گے، ان کے خیالات جاننا چاہے تو ان کاردعمل تھا کہ، ” کیا! ہم نے اس ٹینڈر کے بارے میں کبھی کچھ نہیں سنا “ ۔ تمام اعتراضات کے باوجود وزارت پیٹرولیم اس معاملے کو فوراً سے پیشتر نمٹانا چاہتی ہے۔ یہ کراچی، اندرون سندھ، بلوچستان میں گیس کے صارفین کیلئے ایک بری خبر ہے جن کے گیس کے نرخ اس منصوبے کی تکمیل کے چند دن کے اندر بڑھ جائیں گے۔ وہ معاملات جن میں سخت شفافیت اور پارلیمانی نگرانی کی ضرورت ہے سویلین اداروں تک محدود نہیں ہیں کیونکہ پاکستان نیوی نئی آبدوز خریدنے پر غور کر رہی ہے جو قوم کو کم از کم ڈیڑھ ارب ڈالر کی پڑے گی۔ نئی آبدوز کی خریداری قوم کو ان واقعات کی یاد دلاتی ہے جب پاکستان نے اپنی آخری آبدوز خریدی ( فرانس سے آگوسٹا ) یہ سودا پیپلز پارٹی کی آخری حکومت میں اس وقت مکمل ہوا تھا جب ایڈمرل منصور الحق چیف آف نیول اسٹاف تھے۔ اسی آبدوز کی بدعنوانی سے لبریز خریداری کی وجہ سے منصور الحق پاکستان میں پہلے ملٹری چیف تھے جنہیں گرفتار کر کے مقدمہ چلایا گیا اور سزا دی گئی۔ پاک بحریہ کے بیڑے میں مزید آبدوزوں کی ضرورت کی حکومت پاکستان پہلے ہی منظوری دے چکی ہے لیکن معاملے نے حال ہی میں اس وقت ایک موڑ لیا جب یہ ظاہر ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ حکومت پاکستان جرمنی سے یو 214 ٹائپ تین آبدوزوں کی خریداری کے معاہدے پر کام نہ کرے۔ جرمنی کی شپ بلڈنگ کمپنی ایچ ڈی ڈبلیو کو یہ ڈیزل الیکٹرک آبدوزیں کراچی کے شپ یارڈ میں تیار کرنا تھیں ، اس ڈیل کے تحت جرمن کمپنی سے ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی ہوتی۔ایچ ڈی ڈبلیو، جو گزشتہ سال شایع ہونیوالی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق روایتی آبدوز بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر والٹر فریٹگ نے کہا کہ تجارتی کنٹریکٹ کو 95 فیصد تک حتمی شکل دیدی گئی ہے ۔ باخبر ذرائع نے کہا کہ اگرچہ پاکستان جرمنی کیساتھ u-214 سب میرین (آبدوز) کا معاہدہ کرنے کے آخری مرحلے پر ہے اور رواں ماہ جرمن وفد اسلام آباد پہنچنے والا ہے، اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور بحری فوج جرمنی سے خریداری کے اس منصوبے پر نظرثانی کرسکتے ہیں۔ یہ بات اس وقت مزید واضح ہوگئی جب حال ہی میں فنانشل ٹائمز نے اپنی خبر میں بتایا کہ صدر آصف علی زرداری جرمن سب میرینز کیلئے شاید اپنی فوج کی ترجیحات کو نظر انداز کرکے فرانس کی ”مزید بہتر“ پیشکش کو منتخب کرسکتے ہیں۔ پاک بحریہ کے ذرائع نے کہا کہ صدر زرداری بہتر پیشکشوں پر غور کر رہے ہیں اور آپشنز نیول ہیڈکوارٹرز میں غور و فکر کے ابھرتے عمل کیساتھ ہم آہنگ ہیں جہاں سب میرین حاصل کرنے کے پروجیکٹ کی اس ٹیم کو تبدیل کرکے نئی ٹیم کو مقرر کردیا گیا ہے جس نے جرمن سب میرین کی خریداری کی حمایت کی تھی۔ 120 ارب روپے کی پاک بحریہ کی اس ڈیل نے پارلیمنٹ میں بھی دلچسپی پید اکردی ہے جہاں سینیٹ کے چند ارکان اس نظرثانی کے حوالے سے پاک بحریہ کے سربراہ سے سوالات کرنے کیلئے بے چین نظر آتے ہیں۔
    بشکریہ جنگ 5-اگست
    کاش کوٰ مجھے سمجھائے کہ یہ کس ملک کی بربادی کے قصے صفحے اول پر چھپ رہے ہیں ، اور ہم کیوں کبوتر کی طرح آنکھ بند کیے بیٹھے ہیں؟ ،
    فیصل آباد میں جا کر معلوم ہوا کہ "ستارہ ملز "والوں نے اپنی کالونی کے باسیوں کو اپنے پاور پلانٹ سے بجلی مہیا کی ہے ، اور اپنے رہائشی منصوبوں میں بھی ایسا ہی کرنے کو کہا ہے، اور مزید شنید ہے کہ سیالکوٹ ائرپورٹ جیسا خودانحصاری پر مبنی منصوبہ بنایا گیا کہ فیصل آباد کے صنعتی اور رہائشی علاقوں میں اپنی پیدا کردہ بجلی مہیا کی جائے ،لیکن مگر مچھوں کے مگر مچھ نے پانچ کروڑ کی رشوت مانگی ہے ، اللہ ہی جانتا ہے اصل حقیقت کیا ہے ، لیکن آواز خلق چیخ چیخ کر یہی پکار دے رہی ہے ،
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    واہ بے باک جی بہت خوبصورت شئیرنگ ھے

    بیٹے کی شادی مبارک ہو مجھے افسوس ھے میں‌آ نہیں‌پائی ،
     
  3. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    میری شئیر کی گئی یہ تحریر پڑھیں
    http://www.oururdu.com/forums/showthread.php?t=5484

    اگر حکومت کی نیت درست ہوتو بہت سے ذرائع سے بجلی پیدا ہوسکتی ہے

    شمسی توانائی سے بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔

    نہروں میں موٹریں لگاکر بجلی پیداہوسکتی ہے۔

    ہوائی چکیوں سے بجلی پیداہوسکتی ہے۔ کیا کراچی، گوادر میں سمندر کنارے یہ پلانٹ لگاکر بجلی پیدا نہیں ہوسکتی۔

    نئے ڈیم بناکر بجلی پیداہوسکتی ہے۔اگر آج کالاباغ ڈیم بناہوتا تو پاکستان بجلی میں‌خودکفیل ہوجاتا۔ اگر حکومت چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی بنالے تو نہ صرف بجلی حاصل ہوسکتی ہے بلکہ پانی بھی ذخیرہ ہوسکتا ہے۔

    سب سے بڑھ کر کوڑے سے بجلی پیداہوسکتی ہے۔ لاہور کا کوڑا کرکٹ لاہور میں بجلی کی کمی پوری کرنے کے لئے کافی ہے۔ کراچی کے کوڑے سے کراچی کی بجلی پوری ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اسلام آباد میں درختوں کے گرے ہوئے سوکھے پتے اکٹھے کرکے اور راولپنڈی، اسلام آباد کا کوڑا اکٹھا کرکے دونوں شہروں کی بجلی پوری ہوسکتی ہے۔

    پاکستان میں سینکڑوں شوگر مل ہیں۔ ان شوگر ملوں کے پاس ضرورت سے زیادہ بجلی ہے۔ ایک شوگر مل کے پاس 10 میگاواٹ سے 80 میگاواٹ تک بجلی فالتو ہے اور ان شوگر ملوں نے حکومت کو پیشکش بھی کی تھی لیکن حکومت نے کان نہیں دھرے۔ اب خود اندازہ لگائیں کہ پاکستان 1000 سے 2000 میگاواٹ بجلی ان شوگر ملوں سے پوری کرسکتا ہے۔

    کوئلے سے بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔ تھر، چکوال، خوشاب کا کوئلہ استعمال کرکے بجلی بنائی جاسکتی ہے۔

    تھرمل پاور پلانٹ کی بجلی بہت مہنگی ہے۔ اگر حکومت ڈیموں، نہروں، کوڑے کرکٹ، ہوائی چکیوں اور شمسی توانائی سے بجلی بنائے تو یہ 1 سے دو روپے فی یونٹ تک عوام کو دی جائے تو حکومت کو کوئی نقصان نہیں۔

    سابقہ اور موجودہ حکومت نے بجلی پیدا کرنے کے نئے ذرائع پر عمل نہ کرکے بہت بڑا جرم کیا ہے۔ حکومتیں تھرمل پر اس لئے زور دیتی ہیں تاکہ کرپٹ افراد اپنی کمیشن کھری کرسکیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں