1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مزاح کی انگیٹھی

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏22 فروری 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    مزاح کی انگیٹھی

    طنز و مزاحآئوہاتھ سینک کرتاپ لومزاح کی انگیٹھیاردوکے نامورکالم نگار،نصراللہ خان مرحوم کے کالموںکی چٹ پٹی جھلکیاں

    اُردو کے مزاحیہ کالم نگاروں میں جناب نصراللہ خاں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ آپ نے نصف صدی سے زیادہ کالم نگاری کی اور ریکار ڈ21 ہزار سے زیادہ کالم لکھے۔ ان میں ۱۰ ہزار کالم تو روزنامہ ’’حریت‘‘ ہی میں شائع ہوئے۔ حریت کے بند ہونے کے بعد ’’روزنامہ جنگ‘‘ میں لکھنے لگے۔ اس کے علاوہ ہفت روزہ تکبیر میں ’’نصراللّٰہ خاں کا کالم‘‘ کے نام سے لکھتے رہے۔ ’’حریت‘‘ اور ’’جنگ‘‘ میں ان کے کالم کا نام ’’آداب عرض‘‘ تھا۔ پروفیسر سحرانصاری نے اپنی ایک تحریر ’’نصراللہ خاں اور مزاح‘‘ میں اُردُوکالم نگاری کے متعلق لکھا ہے:’’پاکستان میں اخبارات کا ایک جزو ایسے کالم بھی ہیں جن میں تہذیبی، ادبی، سیاسی، علمی غرض ہر شعبہ فکروحیات پر ہلکے پھلکے انداز میں اظہارِخیال کیا جائے۔ اسے عرفِ عام میں کالم نویسی کہا جاتا ہے۔ ابتدا ً جب چراغ حسن حسرت اور مولانا عبدالمجید سالک کے کالموں کا چرچا تھا تو یہ حضرات قلمی نام سے کالم لکھا کرتے تھے۔ پھر جب یہ اندازہ ہوا کہ کالم نویسی ذریعہ عزت بنتی جا رہی ہے تو وہ سارے نام جو سندبادجہازی، پنج دریا، عنقا، نانافرنویس اور بت شکن وغیرہ کے پردہ میں چھپے ہوئے تھے، اصلی ادبی ناموں کے ساتھ اُجاگر ہونے لگے۔‘‘جدید مزاحیہ کالم نویسی کو ابنِ انشائ، انتظارحسین، احمدندیم قاسمی، ابراہیم جلیس، نصراللہ خاں، شوکت تھانوی، طفیل احمد جمالی وغیرہ نے بطورِخاص نیا رنگ و آہنگ عطا کیا۔ نصراللہ خاں ان کم یاب مزاح نگاروں میںشامل ہیں جنھوں نے مزاح کو مزاج کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے لفظی کرتب، تحریف، پیروڈی، لطیفہ گوئی اور پھکڑپن سے اپنی تحریر کو اس طرح محفوظ رکھا کہ رشک آتا ہے۔‘‘

    سیاسی موسم
    نصراللہ خاں صاحب باتوں کے بادشاہ تھے۔ بات سے بات ایسے نکالتے جیسے ہم اور آپ مکھن سے بال یا دودھ میں سے مکھن نکالتے ہیں۔ مثلاً یہ کالم دیکھئے:موسمیات کے ماہرین سے اب تک یہ نہ ہوا کہ جو موسم یہ چاہتے، ملک میں رائج کرا دیتے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو جلوسوں کے وقت پولیس کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ نہ کہیں لاٹھی چلتی اور نہ کہیں آنسو گیس اور گولیوں کی ضرورت پڑتی۔ ایسے موقع پر محکمہ موسمیات بس یہ اعلان کر دیتا کہ جلسے، جلوس اور ہڑتالیں نہیں ہوں گی۔ اگر کوئی سیاسی پارٹی ایسا کرے گی تو ہم اولے برسا دیں گے، لُو چلا دیں گے۔ایسی صورت میں پھر اخباروں میں کچھ اس طرح کی خبریں شائع ہوتی:’’آج حزبِ اختلاف اور سرکاری پارٹی میں نشتر پارک میں بڑی زور کی جھڑپ ہوئی۔ سرکاری پارٹی کے کچھ عناصر نے حزبِ اختلاف کے اجلاس پر اولے برسائے تو جماعت اسلامی نے سخت گرمی دکھائی۔ جمعیت علمائے پاکستان نے لُو چلا دی۔ پیپلزگارڈ سیلاب لے آئے۔ سردار شوکت حیات خاں کی پارٹی نے جھکڑ چھوڑا۔ پولیس نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم سے بذریعہ آلاتِ تنبیہ عوام پر قابو پا لیا۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جو تماشائی سیلاب سے تباہ ہوئے ہیں یا جنھیں سیاسی لُو لگی ہے یا جو سردار شوکت حیات کے جھکڑ کی نذر ہوگئے، ان سب کو حوصلہ افزائی کے ضمن میں (شابشی) انعامات یعنی کنسولیشن پرائز دیے جائیں گے۔‘‘

    مہنگائی کی دہائی
    جالبی صاحب لکھتے ہیں: شوخی، چہل، مزاح اور بے باکی ان کے کالموں کا ایسا وصف ہے کہ پڑھنے والا ان کے طلسم میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ نصراللہ خاں صاحب کے قلم کی سچائی، فقروں کی گرمی، زبان و بیان کے حسن، مزاح کی شگفتگی اور طنز کی حدت نے یقینا عام آدمی کے شعور میں اضافہ کیا ہے۔ خاں صاحب کی ندرتِ خیال کے مزید چند نمونے دیکھئے:’’کل ایک صاحب کو ہم نے بازار میں اس طرح ہاتھ تاپتے دیکھا کہ اپنے دونوں کھلے ہاتھ دکان دار کی طرف بڑھا کر پوچھا ’’کیوں میاں، آٹے دال کا کیا بھائو ہے؟‘‘جب دکاندار نے بھائو بتایا تو انھوں نے ہاتھ تاپ کر اپنے دونوں ہاتھ واپس کیے اور پھر پوچھا ’’ہلدی اور دھنیے اور گرم مسالے کا کیا بھائو ہے؟‘‘جب دکاندار نے بھائو بتایا تو انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ پھر اپنے منہ کی طرف بڑھا دیے۔ ہم نے پوچھا، یہ سب کیا ہے؟ بولے ’’غریب آدمی ہوں۔ گھر میں آگ نہیں، سو اس طرح مہنگائی کی انگیٹھی سے تاپ لیتا ہوں۔‘‘پہلے زمانے میں ہم جیب میں پیسے اور کاندھے پر خالی تھیلا ڈال کر بازار جایا کرتے تھے۔ اب یہ حال کہ تھیلے میں نوٹ بھر کر لے جاتے اور سامان رومال میں باندھ کر لاتے ہیں۔

    بھینسوںکی درخواست
    نصراللہ خاں کے تخیل کی زرخیزی اور جولانی قابلِ داد ہے۔ وہ چرند، پرند، انسان، حیوان، زندہ اور مردہ سب پر لکھ سکتے ہیں اور کس قادرالکلامی سے، ذیل کے کالم سے بخوبی اس کا اندازہ ہوتا ہے:’’کراچی شہر کی بھینسوں کی درخواست بنام جناب روئیداد خاں، چیف کمشنر، کراچیحضورِعالی:’’قادر بخش یہ کہتا ہے کہ سرکارِوالا ہمیں شہربدر اس قصور پر کر رہے ہیں کہ ہم شہر میں گندگی پھیلاتی ہیں۔ اگر یہ بات ٹھیک ہے تو سرکارِوالا! اکیلی میونسپل کارپوریشن کراچی کی سب بھینسوں کے مجموعے کے برابر ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ بھینسوں کے ساتھ ساتھ کارپوریشن کو بھی ہانک دیا جائے۔‘‘بھینسوں کی اس آبادکاری پر نصراللہ خاں شہریوں کی غفلتوں کا موازنہ بھینسوں کے اخلاق و آداب سے کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’بھینسیں پان نہیں کھاتی، سڑکوں اور عمارتوں کی پیک سے تجریدی آرٹ کے نمونوں کی نمائش نہیں کرتی۔ دیواروں پر کلاسیکی گالیاں نہیں لکھتی، لائوڈسپیکر پر شور نہیں مچاتی، فرقی وارانہ فساد نہیں کراتی۔ بھوری اور کالی بھینسیں سب برابر ہیں۔(فقط حضور کی کنیزیں، کراچی کی بھینسیں)

    سرکارکے شعار
    اہم اداروں کی تباہ حالی اور انحطاط پذیری کا مطالعہ بھی ان کے کالموں کا اہم موضوع ہے۔ ’’موٹوز‘‘ (شعار) کے عنوان سے ایک کالم میں لکھتے ہیں:’’جب سیّد ذوالفقار علی بخاری مرحوم نے کلام پاک سے ریڈیوپاکستان کے لیے یہ شعار نکالا! ’’قولو للناس حسنا‘‘۔ تو پاکستان کے تمام محکموں کے افسروں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ ہم بھی قرآن مجید سے اپنے لیے اپنی کارکردگی کے مطابق شعار نکال لیں۔ لیکن اس سلسلے میں بڑی دشواری پیش آئی کیونکہ جب وہ محکموں کی کارکردگی پر نظر ڈالتے تو سخت پریشان ہوتے کہ دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نظر نہ آتا۔‘‘ چنانچہ یہ کام خود کالم نویس یعنی نصراللہ خاں نے کیا۔ مختلف محکموں کے لیے اُن کے تجویز کردہ شعار ملاحظہ فرمایئے:محکمہ پولیس انی کنت من الظلمین محکمہ اطلاعات واللہ اعلم بالصواب محکمہ خوراک و فی السماء رزقکم میونسپل کارپوریشن لاحول ولاقوۃ الاباللہ وزارتِ خارجہ سیرو فی الارض، کلو واشربوملک کے نام نہاد لیڈر غیرالمضوب علیھم الضالین پولیس کاہے فرض…دریا کو کوزے میں بند کرنے کے علاوہ صاف گوئی اور بے باکی کا یہ انداز بھی دیکھئے۔

    محکمہ پولیس کے متعلق ایک کالم میں لکھتے ہیں:ہماری پولیس مجرموں کی حفاظت کرتی ہے۔لیکن پولیس اور مجرم میں صرف یونیفارم یعنی وردی کا فرق ہے۔ اسی فرق سے پولیس اور مجرم پہچانے جاتے ہیں۔ پولیس کا کام لاٹھی چلانا، گولیاں برسانا، آنسو گیس پھینکنا اور گالیاں دینا ہے۔ اسی کام کی پولیس تنخواہ پاتی اور سلیوٹ کرتی ہے۔

    نصراللہ صاحب کا قول ہے:
    ’’جب میں نے کالم نویسی اختیار کی تو مجھے اپنے دکھ اور آنسو کو ہنسی میں سمیٹ کر اوروں کو بھی ہنسانا آگیا۔‘‘ خاں صاحب کا جذبہ قابلِ قدر اور اعلیٰ انسانی قدروں کا حامل ہے۔ ذیل میں خاں صاحب کا ایک اور کالم پیش ہے۔ اس میں شیطان دہاڑیں مار مار کر رو اور انسان ہنس رہا ہے۔’’شہر کی سب سے بڑی ہائوسنگ سوسائٹی میں ایک بہت بڑے بنگلے کے سامنے ایک ضعیف شخص کہ جس کی بھویں بھی سفید تھیں، بیٹھا دہاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ ہمیں اس کی حالت پر بڑا ترس آیا۔ قریب گئے۔ پوچھا: ’’بڑے میاں! تم کون ہو، کیوں رو رہے ہو؟‘‘وہ بولا ’’اے اجنبی! میرا نام شیطان ہے۔‘‘پھر کہنے لگا: ’’یہ سامنے والاجو مالک مکان، ہم نے اس کو بلیک مارکیٹنگ، بلیک میلنگ اور بلیک قسم کے جتنے بھی فن ہو سکتے تھے، سب ہی سکھا ڈالے۔ پھر اسے ہم نے اسمگلر بنایا، فرسٹ کلاس اسمگلر، پھر اسے حاجی بنایا۔ جب یہ حج کرکے لوٹا تو اپنے ساتھ دینی ثواب کے بجائے دنیاوی ثواب کے ڈھیر اُٹھا لایا۔ پھر اس نے یہ بنگلہ بنایا۔‘‘ یہ کہہ کر شیطان پھر رونے لگا۔ ہم نے رونے کی وجہ دریافت کی، تو بولا:’’دیکھو، سامنے کیا لکھا ہے!‘‘ہم نے کہا ’’سامنے لکھا ہے، ھذا من فضل ربی۔‘‘وہ بولا ’’کیا یہ رونے کا مقام نہیں؟‘‘ اس شخص نے اسمگلنگ ہم سے سیکھی، اسے بلیک مارکٹنگ ہم نے سکھائی، بلیک میلنگ کے جدیدترین طریقے ہم نے بتائے۔ پھر دولت ہم نے اکٹھی کروائی۔ کیا اپنے مکان پر اس احسان فراموش انسان کو یہ نہیں لکھوانا چاہیے تھا:’’ھذا من فضل شیطان‘‘

    علامہ اقبالؒ کی ناقدری
    علم و ادب دوست ہونے کے ناتے شاعروں اور ادیبوں سے انھیں قدرتی طور پر دلچسپی تھی۔ چنانچہ شاعروں اور ادیبوں کی خبرگیری کرتے اور حاصل شدہ معلومات سے قارئین کو بہرہ ور فرماتے۔ اقبال شناس ہونے کے سبب اُن کی اقبال ناشناسوں پر کڑی نظر تھی۔ علامہؒ کی ناقدری پر تلملا اٹھتے اور شکوہ کرتے:’’جن لوگوں نے علامہ اقبالؒ کے جنازے میں شرکت نہیں کی تھی اور جنھوں نے دور سے بھی علامہؒ کو نہیں دیکھا تھا، وہ اب علامہؒ کے دیرینہ نیازمند بن گئے۔ جو دیرینہ نیازمند تھے مثلاً صوفی تبسم صاحب تو یار لوگ انھیں اقبال کے کلینک کا کمپائونڈر بتاتے ہیں۔ ایک بزرگ تو بڑی دیدہ دلیری سے یہ فرماتے ہیں کہ علامہؒ کی خودی کا پریشر اتنا بڑھ گیا تھا کہ وہ نہ حکیموں کے علاج سے کم ہوا نہ ڈاکٹروں کے نسخوں سے گیا اور اسی بیماری میں وہ رحلت کر گئے
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مزاح کی انگیٹھی

    اچھا انداز ہے۔ صدیقی بھائی شکریہ
     
  3. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مزاح کی انگیٹھی

    بہت خوب جناب صدیقی بھائی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں