1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مروجہ جمہوریت کی حقیقت ۔ اعدادوشمار کی روشنی میں ایک حیران کن جائزہ

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏22 مئی 2013۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستانی جمہوریت !!! اعداد و شمار کی روشنی میں ایک حیران کن جائزہ
    الیکشن 2013 میں پورز ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد تقریبا 8 کروڑ اور چند لاکھ تھی
    الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق الیکشن 2013 میں ڈالے گئے ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 54 فیصد رہا۔ یعنی 4 کروڑ اور چند لاکھ ووٹ کاسٹ ہوئے۔
    مسلم لیگ ن جو الیکشن 2013 میں فاتح قرار پائی ہے اسے الیکشن کمیشن کے مطابق تقریبا 1 کروڑ اور 65 لاکھ ووٹ ملے۔
    کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد : تقریبا ساڑھے 8 کروڑ
    اس میں سے 46 فیصد یعنی تقریبا پونے 4 یا 4 کروڑ لوگوں نے اس نظام پر اعتماد ہی نہیں کیا۔ گویا اور اس گلے سڑے متعفن نظام سیاست سے ہی بیزار ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ ن سمیت ہر پارٹی کو ٹھکرا کر اس غیر منصفانہ نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
    باقی بچے تقریبا ساڑے 4 کروڑ ووٹرز۔ جن میں سے 1 کروڑ 65 لاکھ ووٹ مسلم لیگ ن کو ملے۔
    باقی 3کروڑ ووٹرز نے مسلم لیگ ن کو ٹھکرا کر باقی پارٹیوں کو ووٹ دیا۔
    یاد رہے کہ 4 کروڑ نے پہلے ہی اس نظام کو ووٹ نہیں دیا۔
    اب دیکھیے۔۔ ساڑھے 8 کروڑ ووٹرز میں سے صرف 1 کروڑ 60-65 لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت یا لیڈر 18 کروڑ عوام پر حقِ حکمرانی حاصل کرکے انکی تقدیر کے فیصلے کرنے کے قابل ہوگیا۔
    یعنی 18 کروڑ عوام کے ایک ملک میں ایک لیڈر کو تقریبا ساڑھے 16کروڑ لوگ ناپسند کرتے ہیں۔ اور پھر بھی وہ سیاستدان تختِ حکمرانی پر بیٹھ جاتا ہے۔
    جمہوریت میں سبق تو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ عوام کی اکثریت کی حکومت ہوگی ۔
    لیکن غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تو چند اقلیتی سرمایہ داروں و وڈیروں کا کھیل تماشہ اور کاروبار ہے۔
    یہ نہ جمہوریت ہے۔ نہ عوامی اکثریت ہے اور نہ ہی رائے عامہ کا اعتماد !!!

    مکر کی چالوں سے بازی لےگیا سرمایہ دار​
    انتہائے سادگی سے کھاگیا مزدور مات​

    دنیا میں جمہوریت کے اور بھی بہت سے نظام رائج ہیں۔
    جن میں متناسب نمائندگی کا نظام ہے۔
    سربراہ ریاست کے براہ راست عوامی ووٹوں سے انتخاب کا نظام موجود ہے۔
    فقط پارٹی لیڈر، پارٹی نظام کو براہ راست مینڈیٹ دینے کا نظام موجود ہے۔
    ہمارے ہاں پچھلے 60-65 سال اور بالخصوص پچھلے 40 سال سے رائج "حلقہ جاتی" نظام سیاست نے ہمیں تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ہر حلقے کے عوام اس حلقے کے دو چار امیر، جاگیردار، سرمایہ دار اور بدقماش و غنڈہ مزاج خاندانوں کے غلام بن جاتے ہیں۔
    پارٹی کوئی بھی آئے، لیڈر کوئی بھی آئے ، نعرے کیسے بھی آئیں، منشور کوئی بھی ہو۔
    یہی جیتنے والے گھوڑے۔ وننگ ہارسز کے خاندان والے ہی الیکشن لڑتے ہیں ۔ کسی نہ کسی پارٹی سے منتخب ہوتے ہیں۔ اور اسمبلی میں بیٹھ کر کرپشن کرتے اور عیاشیاں کرتے ہیں۔
    اس وقت ملک میں ایک آواز ڈاکٹر طاہرالقادری کی بلند ہورہی ہے جس کے مطابق عوام کو اپنے حقوق کی بازیابی اور حقیقی جمہوریت کے نفاذ کے لیے پہلے نظام کو بدلنا ہوگا۔
    حالیہ الیکشن کا تجربہ ایک بار پھر واضح کرگیا ہے کہ یہ انتخابی نظام انہی کرپٹ سرمایہ داروں کی ایک "جنگِ زرگری" کے سوا کچھ نہیں۔ یہ انتخابی نظام کبھی اس ملک کو تبدیلی نہیں دے سکتا۔
    ہمیں اس نظام کو بدلنے کے لیے عوامی قوت کے ساتھ اس کو مسترد کر کے نئے منصفانہ طرزِ جمہوریت کو اپنانا ہوگا۔

    "بشکریہ فیس بک پیج رضوان سیال"
     
    پاکستانی55 اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    قابل غور باتیں ہیں!!!!
    اس کا مطلب اس نظام میں تو ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک پارٹی کے کل ووٹ دوسری پارٹی سے زیادہ ہوں لیکن اس کی سیٹس دوسری پارٹی سے کم ہوں۔ مطلب وہ کم جگہوں سے بہت زیادہ مارجن سے جیتی ہو۔ یعنی زیادہ عوام نے اس کو پسند کیا لیکن دوسری پارٹی کے پاس سیٹس زیادہ ہیں تو حکومت اس کی ہو گی جس کو کم ووٹ ملے۔ یہ تو بہت بڑی خامی ہے۔
    تو پھر آپ کے خیال میں اس نظام کے متبادل کیا نظام ہونا چاہیے؟
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم بلال بھائی ۔
    آپ نے درست سمجھا۔ ایسا ایک بار ہوا بھی تھا۔ غالبا بےنظیر بھٹو جب دوسری بار وزیراعظم بنی تھی ۔ تو کل ووٹوں کی تعداد مسلم لیگ کی زیادہ تھی اور پی پی پی کی کم تھی ۔ مگر اسمبلی سیٹیں اور جوڑ توڑ کے ذریعے انکی حکومت اکثریتی ارکان کی وجہ سے بن گئی۔

    یہی حال اسمبلی کی حلقہ جاتی سیٹ کا بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بعض اوقات بالفرض 1 لاکھ ووٹوں کے حلقے میں 70 ہزار ووٹ پڑے۔ بالفرض 3 امیدوار تھے ایک کو 30 ہزار ووٹ پڑے۔ دوسرے کو 25اور تیسرے کو 15 ہزار۔ظاہر ہے اب 30 ہزار والا کامیاب قرار پائے گا۔ حالانکہ اسکے حلقے کے اپنے عوام میں 70 ہزار لوگ اسکو اپنا نمائندہ نہیں مانتے اور نہ ہی اسکو اسمبلی میں پہنچتا دیکھنا چاہتے ہیں مگر موجودہ نظام کے ذریعے وہ 70 فیصد مخالفت کے باوجود اسمبلی میں بیٹھ جاتا ہے۔

    متبادل نظام کے متعلق میں کیا اور میرا خیال کیا۔ ایک تو میں کم علم ہوں اور اوپر سے بھولا بھی ۔ :wink:
    ظاہر ہے اس کے لیے تو کوئی مفکر، دانشور اور ماہرِ قانون و سیاسیات ہی بہترین رہنمائی دے سکتا ہے۔

    لیکن دنیا میں رائج چند جمہوری نظاموں کا ذکر اوپر والے مضمون میں موجود ہے۔ وہ یہ ہے :
    1) جن میں متناسب نمائندگی کا نظام ہے۔
    2) سربراہ ریاست کے براہ راست عوامی ووٹوں سے انتخاب کا نظام موجود ہے۔
    3) فقط پارٹی لیڈر، پارٹی نظام کو براہ راست مینڈیٹ دینے کا نظام موجود ہے۔
    یقینا اور بھی کئی نظام ہوں گے۔ چائنہ، جاپان، امریکہ، جرمنی، فرانس، آسٹریا و آسٹریلیا وغیرہ میں الگ الگ جمہوری نظام رائج ہیں۔ لیکن سب جمہوری کہلاتے ہیں۔ عوام کو انکے حقوق انکی دہلیز پر دستیاب ہوتے ہیں۔ عدل و انصاف کی حکمرانی ہوتی ہے۔
     
    پاکستانی55 اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ایک نیا نظام آیا میرے ذہن میں
    ویسے اگر الیکشن میں پسندیدہ بندے کو ووٹ دینے کی بجاے لسٹ میں سے سب سے ناپسندیدہ کے ووٹ شمار کیے جایں تو کیا خیال ہے ۔ مطلب ووٹ ناپسندیدہ کو ہو ۔
    جسے سب سے کم ناپسندیدگی کے ووٹ ملیں اسے کامیاب قرار دیا جائے تو کیا خیال ہے؟
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    پھر ہر سیاستدان خود کو سب سے بڑا کرپٹ ثابت کرنے کی "الیکشن کمپین" پر لگ جائے گا۔ اور خود کو ناپسندیدہ ثابت کرنے کے لیے "کرپشن" کی جائے گی۔ یعنی آپ والے نظام میں بھی آگے کرپٹ ہی آئیں گے۔ :wink:
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    میں شاید ٹھیک سے سمجھا نہیں پایا۔ میرا مطلب یہ کہ جسے سب سے کم ووٹ ملیں ناپسندیدگی کے اسے منتخب کر لیا جائے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مطلب اب آپ مولانا فضل الرحمن اور الطاف بھائی کو جتوانے کی فکر میں ہیں ؟؟؟؟
     
    آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ھاھاھاھا
    چلیں یہ دونوں جیت بھی گئے تو کیا کر لیں گے اکثریتی فیصلہ تو شاید کچھ بہتر ہی ہو
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جمہوری نظام بنانے والوں نے ایک لائن کھینچی ہے عوام اور لیڈر شپ کے درمیان،لیکن ساتھ میں عوام کو بھی سہولتیں دی ہیں کہ وہ ان کے خلاف آواز نہ اٹھا سکیں ۔آپ کو شاید پتہ ہو گا پچھلے دنوں یوکے میں ایم پیز سے رقوم واپس لیں گئیں کچھ کو جیل بھی ہوئی۔یہ ٹھیک تھا لیکن یہ ایم پی کے لئے تھی اس کی جگہ اگر عام بندہ ایسے کرتا تو اسے اس سے دس گناہ زیادہ سزا ہوتی اور اسی طرح جرمانہ بھی ہوتا۔ایم پیز کو الاؤنس کے علاوہ اور بھی بہت آمدن ہوتی ہے بڑی بڑی کمپنیاں انہیں آنریری عہدے دیتی ہیں اور انہیں ہائی پے منٹ کرتیں ہیں ۔ان کی اولادیں پرائیویٹ اچھے سکولوں میں پڑہتی ہیں جبکہ عوام کے بچے عام سکولوں میں ۔اس کے علاوہ عوام ملازمت کر کے ٹیکس دیتے ہیں۔کاروباری لوگ بھی ٹیکس دیتے ہیں جس سے گورنمنٹ بھی چلتی ہے ملک بھی چلتا ہے اور ساتھ میں ہیلتھ سسٹم اور جسٹس سسٹم بھی اچھا ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں تو سب کچھ لیڈرز اور جاگیرداروں کے لئے ہے۔عوام فٹ پاتھوں یا عام مقانوں میں اور لیڈر زمحلوں میں۔عوام کو نہ اچھی روٹی نہ اچھی صحت نہ اچھی تعلیم ۔خالی نعروں سے ہی عوام کے پیٹ بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔جاگیرداروں کے پاس بے شمار زمین ہے اور دوسری طرف عوام جن کے پاس تھوڑی زمین ہے اس میں سے اپنی روزی بھی مشکل سے حاصل کر سکتے ہیں۔اسے بدلنے کے لئے ایک بہت بڑے انقلاب کی ضرورت ہے۔کیونکہ ہمارے لیڈرز جن کےپیٹھو ہیں وہ پوری کوشش کریں گے کہ ہماری زندگی بہتر نہ ہو ہمارا ملک مضبوط نہ ہو۔ہم ان کے ہی محتاج رہیں ہر چیز کے لئے۔لیکن ہمیں اس چیز کو نظر انداز کر کے اپنے لئے سوچنا ہے اپنے ملک کے لئے سوچنا ہے ۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    میرے دماغ میں ایک اور نظام کی خدو خال موجود ہیں ، سب سے پہلے تو ہر شخص کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہونا چاہیے ( اس سے مراد یہ ہر گز نہین کہ ہر پاکستانی ہی ووٹ دینے کے لیے نا اہل ہو ) بلکہ جس طرح عوامی نمائندگی کے لیے ( اچھا یا برا ) ایک طریقہ کار موجود ہے ( اس پر پوری طرح عمل نہ ہونا ایک الگ بات ہے ) اور جو شخص بھی عوامی نمائندہ بننا چاہتا ہے اُسے ایک طریقہ کار کے تحت اور ایک خاص اہلیت کے بعد ہی نمائندگی کا حق حاصل ہوتا ہے بلکل اسی طرح ہر ووٹر کے لیے بھی اہلیت کا کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے ، جو شخص اُس طریقہ کار کو پورا کرے وہی ووٹ دینے کا اہل ہو ( اب اہلیت کے اس طریقہ کار پر بحث ہو سکتی ہے ) اور جو شخص بھی ایک خاص طریقہ کار یا امتحان میں کامیابی کے بعد ووٹ دینے کا اہل ہو گا تو یقینا اُسے اپنے ووٹ کی اہمیت کا اندازہ بھی ہو گا ، اور جو شخص اس کا اہل نہیں ہو سکے گا وہ اہل ہونے کی کوشش یا کم از کم اپنی نااہلی پر غور تو کرے گا ۔
    اس کے بعد ملک میں ریاست کا کاروبار چلانے کے لیے شورائی نظام نافذ کیا جائے ۔ تمام سیاسی جماعتیں شفاف طریقے سے اپنے اپنے اراکین کو رُکن پارلمنٹ ( مجلس شورا ) بنانے کے لیے ایک مخصوص اہلیت کے طریقے کار سے گزار کر عوام کے سامنے پیش کریں ، اور ووٹ دینے کے اہل افراد ایسے لوگوں کو اپنے ووٹ کے زریعے منتخب کریں ، انتخابی مہم صرف چھوٹی کارنر میٹنگز اور ٹی وی مباحثوں کے زریعے چلائی جائے ، بڑے بڑے جلسے جلوسوں کی بلکل اجازت نہ ہو اور نہ ہی برے برے ہورڈنگ بورڈز کی ۔ ہر حلقے سے باہم مقابل لوگ عوام میں ایک ساتھ جاکر مباحثہ کریں ، اپنی ترجیحات پیش کریں اور عوامی مسائل و قوانین پر بات کریں ، دلائل دیں ۔ اُس کے بعد عوام جسے اکثریت سے منتخب کر لیں اُسے عوامی نمائندہ سمجھا جائے اور وہ مجلس شورا کو رُکن سمجھا جائے ، مجلس شورا میں پہنچنے کے بعد ہر رُکن جماعتی وابستگی سے آزاد ہو جائے ، اور ملکی مفاد میں قوانین سازی میں اپنا کردار ادا کرے ۔ یہ مجلس شورا دراصل چیف ایگزیکٹو ہو گی ۔
    سربرائے مملکت کو بھی عوام برائے راست اپنے ووٹوں سے منتخب کرے اور جو کہ اپنے تمام اقدامات کے لیے مجلس شورا کو جواب دہ ہو ۔ سربرائے مملکت ہی سربرائے حکومت ، اور افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف ہوں ۔ اب سر برائے مملکت پوری مجلس شورا میں سے جسے چاہیں اپنی کابینہ میں شامل کر لیں ، اس طرح ( اُمید ہے کہ ) بہتر لوگ ہی کابینہ کا حصہ بنیں گے ۔ سربرائے مملکت اور پوری کابینی اپنے اقدامات کے لیے مجلس شورا کو جواب دہ ہوں ۔ مجلس شورا کا کام قوانین سازی اور حکومت کی کارگردگی پر نظر رکھنا ہو ۔ تمام ترقیاتی کام کے لیے بلدیاتی نظام نافذ کیا جائے ، مجلس شورا کے کسی رُکن کو کوئی فنڈ نہ جاری کیا جائے ، البتہ مجلس شورا بلدیاتی نظام پر بھی چیک اینڈ بیلنس رکھے ۔ پولیس کے بلدیاتی نظام کے تحت کرتے ہوئے ڈی سینٹرلاز کیا جائے ، ہر ضلع کی اپنی پولیس فورس ہو اور جو کہ تمام سیاسی وابستگیوں سے پاک ہو ، ایک آئی جی 10 کروڑ کی آبادی والے صوبے پر کیسے کنٹرول کر سکتا ہے ۔
    ملک میں مزید صوبے یا یونٹس بنائے جائیں ، بلکہ ممکن ہو تو ہر ڈویژن کو ہی ایک الگ صوبہ قرار دیا جائے ۔
    جاری ہے ۔ ۔ ۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب آصف بھائی ۔ پچھلے دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک نئے نظام کا خاکہ دیا ہے ۔ جس میں کافی سارے نکات آپ کے ذہن بارسا کے خاکہ سے ملتے جلتے ہیں۔ مثلا
    1) سربراہ ریاست کی اہلیت کے لیے سخت شرائط ہوں تاکہ اسکی وفاداری، صلاحیت اور حب الوطنی ہر شک و شبہ سے بالاتر ہو۔اور ماضی و حال پاک صاف ہو۔
    2) سربراہِ ریاست کا انتخاب براہ راست عوامی ووٹوں سے ہو ۔
    3) الیکشن کے لیے جلسہ جلوس کی بجائے صرف میڈیا پر امیدواروں کے درمیاں ملکی مسائل پر بحث مباحثہ ہو تاکہ عوام کو اپنے سربراہ کی اہلیت کا اندازہ ہوسکے۔
    4) سربراہ ریاست کو اپنی مرضی سے کابینہ چننے کا اختیار ہو تاکہ وہ ایکسپرٹ اور ماہرین کی ٹیم کے ساتھ ملکی مسائل حل کرے۔ البتہ کابینہ کے لیے اہلیت کا ایک معیار ضرور ہونا چاہیے۔
    5) موجودہ نظام انتخاب کا حلقہ جاتی نظام ختم کردیا جائے۔
    6) متناسب نمائندگی کے تحت ملک بھر کے کل ووٹرز کی تعداد اور اسمبلی نشستوں کے تناسب سے ایک شرح مقرر کرکے عوام کو براہ راست منصفانہ انداز میں صرف پارٹی اور لیڈرشپ کو ووٹ دینے کا موقع دیا جائے۔ کیونکہ ہر حلقہ کے ووننگ ہارسز ہی کرپشن کی بنیاد بنتے ہیں۔
    7) علاقہ جاتی مسائل بجلی کنکشن، گیس کنکشن، سڑکیں گلیاں یہ مقامی بلدیہ کی ذمہ داری ہو۔ بلدیاتی نظام مستحکم کیا جائے۔
    8) پاکستان کو محض انتظامی بنیادوں پر 30-32 صوبوں میں تقسیم کیا جائے۔ مگر یہ تقسیم لسانی، نسلی یا علاقائی تعصب کی بنیاد پر نہ ہو۔
    ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ ابھی اس پر مزید کام جاری ہے اور تفصیلی نظام کا خاکہ کچھ عرصہ تک قوم کے سامنے آجائے گا۔

    اب رہ گیا موجودہ نظام کے تحت آگے منزل تلاش کرنا تو یہ حقیقت ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اگلے 5 سال بعد یہ الیکشن کمیشن ختم ہوجائے گا مگر آئین کی 18-19ویں ترمیم کے تحت پھر سے یہی پارلیمانی کمیٹی بیٹھ کر پھر سے ویسے ہی ایک کرپٹ الیکشن کمیشن تشکیل دے گی ۔ پھر سے ویسے ہی نااہل نگران حکومت تشکیل دے دی جائے گی ۔ قوم چیختی رہ جائے گی۔ مگر میڈیا کو اربوں روپے دے کر قوم کو پھر سے ووٹ دے کر اپنی تقدیر بدل دینے کے سبز باغ دکھائے جائیں گے۔ قوم میڈیا سے سحرزدہ ہوکر پھر سے بھیڑ بکریوں کی طرح اپنے کسی ہیرو سے امیدیں لگا کر بیٹھ جائے گی ۔ پھر سے وہی حلقہ جاتی خدائی فوجدار آگے بڑھیں گے۔ انہی کرپٹ جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں کے خاندانوں میں سے کوئی نہ کوئی کروڑوں روپے فی حلقہ لگا کر پھر سے ووٹ دے کر اسمبلی پہنچایا جائے گا۔ وہ کروڑوں کو 2 یا 3 سے ضرب دے کر واپس لینے کی کوشش کرے گا۔ تبدیلی کا خواب پھر سے ہوا میں اڑے گا ۔کیونکہ کرپٹ اشرافیہ کو علم ہے کہ عوام بھیڑ بکریوں کی طرح ہمارے ظالمانہ و غیر منصفانہ "نظام " کے خلاف اٹھنے کے لیے تیار نہیں ۔ بلکہ ہمارے بچھائے ہوئے اسی جال میں اپنی آزادی کے خواب تلاش کرتی ہے جو اسے کبھی اس نظام کے اندر نہیں مل سکتے۔
    یاد رکھیں ۔عدلیہ، نیب، خفیہ ادارے، سٹیٹ بنک ، الیکشن کمیشن ، انتظامیہ اور کرپٹ سیاستدان کبھی عوام کی حقیقی قیادت کو آگے نہیں آنے دیں گے۔ بلکہ عوام کو اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے ان اداروں کے کرپٹ 8-10 افراد کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر نیا نظام تشکیل دینا ہوگا۔ ایک پرامن جدوجہد کے ذریعے عوامی انقلاب بپا کرنا ہوگا۔ وگرنہ اگر موجودہ اٹھان کے باوجود قوم کو سوائے مایوسی کے کچھ میسر نہیں آیا تو اگلے 10 الیکشن میں بھی کچھ نہیں بدلے گا۔ اس الیکشن کے نظام کے ذریعے تبدیلی کی امید سوائے "خود فریبی" کے کچھ نہیں۔

    جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی​
    اس کھیت کے ہرگوشہ گندم کو جلا دو​
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس انٹرویو میں کے آخری 8 منٹ میں نئے نظام کے خاکہ پر گفتگو موجود ہے۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں