1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

محبت کے معجزے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راشد احمد, ‏1 ستمبر 2009۔

  1. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    محبت سے معجزے برپا ہوتے ہیں، جس دن ہمارے آفاق پر محبت میں مبتلا کوئی لیڈر طلوع ہوا تو انشا ء اللہ چراغاں ہو جائے گا۔ چاروں طرف چراغاں۔
    آسمان پر چودھویں کا چاند تھا اور ہم -2زماں پارک کے صحن میں کھڑے تھے۔ تین ہزار گز پر پھیلے کشادہ مکان کے حاشیوں پر اونچے درختوں سے چاندنی تھم تھم کر، چھن چھن کر اترتی تھی۔ اچانک عمران خان دروازے سے متصل درختوں کی طرف بڑھے اور یہ کہا: دیکھو، یہ درخت کتنے خوبصورت ہیں ، یہ میں نے اس دن گاڑے تھے، جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا۔ پھر سامنے کی قطار کو دیکھا "کچھ بھی نہیں ، بالکل عام سے بھدّے سے درخت ہیں "۔ بھدّے؟کیا درخت بھی بھدّے ہوتے ہیں ۔ مجھے تو سب اشجار ہمیشہ خوبصورت ہی لگے ، کچھ زیادہ ، کچھ بہت زیادہ۔ کیا کپتان کی آنکھ میں نمی تھی؟ معلوم نہیں ۔ روشنی کم تھی اور خان رونے والوں میں نہیں۔ ہاں مگر ایک گہری اداسی ۔ میں کسی شخص کو نہیں جانتا ، جس نے اپنی ماں کی موت کے دن گھر کے صحن میں درخت بوئے ہوں، مگر ایسا آدمی بھی کہاں ہوگا، جس نے اس الم میں ہسپتال تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ عمران کو درختوں ، کھیتوں ، دریاؤں ، پرندوں اور پہاڑوں سے محبت بہت ہے۔ ۔۔کیا آدم زاد سے بھی ؟"ہاں "اس نے مجھے بتایا اور ایسے لہجے میں گویا خود سے ناراض ہو ، "لیکن میں محبت کا اظہار نہیں کرسکتا"۔ کر سکتاہے ۔ اس نے کیاہے ، الفاظ میں نہیں ، عمل میں ، کرکٹ کاعالمی کپ، شوکت خانم ہسپتال اور نمل کالج۔ پچھلے برس سوات میں ایک زخمی بچے کے لیے اس نے دس لاکھ روپے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا اور اخبارات کو خبر جاری کرنے سے گریز ، حالانکہ اب اس کی آمدن محدود ہے کہ کرکٹ کے لیے فرصت ،نہ ماڈلنگ پرآمادگی۔
    عمران کے گاڑے ہوئے درخت اونچے ہو گئے۔ اتنے اونچے کہ سر اٹھا کر دیکھو تو ٹوپی گر پڑے ۔ شوکت خانم ہسپتال اتنا اونچا ہو گیا کہ یقین ہی نہیں آتا۔ چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر فیصل سے میں نے پوچھا: تو آپ کا بجٹ ایک ارب روپے سالانہ سے تجاوز کر چکا؟ چونک کر انہوں نے کہا: ارے نہیں دو ارب ساٹھ کروڑ روپے۔ اخراجات پورے کرنے کے لئے ہمیں ایک ارب تیس کروڑ روپے کے عطیات درکار ہوتے ہیں ۔75فیصد مریضوں کا علاج مفت ہوتاہے اور مریض تو رہے ایک طرف تیمار داروں کیلئے بھی کھانے کا بندوبست کیا جاتاہے اورنہایت احترام کے ساتھ۔ ہسپتال کے103کمروں میں 130بستر ہیں۔ نقشہ منظور ہونے والا ہے ، مزید 90بستروں کیلئے کمروں کی تعمیر شروع ہو جائیگی اور پھر کراچی شہر میں اتنا ہی بڑا ہسپتال۔ اتنا بہت سا روپیہ کہاں سے آئے گا؟ رسان سے انہوں نے جواب دیا: انشا ء اللہ کوئی مشکل نہ ہوگی ۔ عطیات دینے والوں نے نام لکھوا رکھے ہیں ۔ سب کے سب پاکستانی ، زیادہ تر مقامی باقی سمندر پار۔ میرے دوست نے اپنے فیصلوں سے کئی بارمجھے رنج پہنچایا لیکن بارہ برس میں کتنے بے شمار مواقع آئے جب اس کے دم سے راحت پہنچی ، روشنی ہوئی ۔ اللہ کرے کہ یہ طرزِ فکر ایک فیصلہ بن جائے ۔ کپتان! کسی حال میں ہم بھارتیوں کا مرہونِ منت ہونا پسند نہیں کرتے ۔ جب بھی ممکن ہو، ہمیں کسی بھارتی کی مدد کرنی چاہیے لیکن حصول سے گریز ہی افضل۔
    کیا دنیا کے 156ممالک میں ، کہیں اور بھی کوئی ہسپتال ہے ، جہاں کینسر کے مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہو؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا: جی ، میں نے سنا ہے کہ امریکہ کے سینٹ جوڈس ہسپتال میں ، لیکن صرف بچوں کا اور بتایا جاتا ہے کہ ایک محدود سی تعداد میں۔ تین سال پہلے کپتان سے بات ہوئی تھی۔ دسمبر 1994ء کے بعد بارہ برس تک وہ ہسپتال کو سب سے زیادہ عطیہ دینے والا شخص تھا۔کیا اب بھی ہے ؟ "نہیں "ڈاکٹر صاحب نے کہا "اب تین ایسے جواں ہمت ہیں جو بازی لے گئے"۔ پوچھا : کیا اب بھی ہسپتال میں عمران کے پاس بہت سادہ فرنیچر والا وہی چھوٹا سا کمرہ ہے ۔ "نہیں "وہ ہنسے "ہم نے اس پر قبضہ کر لیا ۔ اب اس کے پاس کوئی کمرہ نہیں "۔"عمران کہتے ہیں کہ اب ہسپتال اس کے بغیر بھی چل سکتا ہے ،مکمل طور پر اب وہ ایک ادارہ ہے ، فقط نظم و نسق نہیں " دوسری طرف پل بھر کو سناٹا چھا گیا اور پھر ڈاکٹر فیصل نے یہ کہا: ہسپتال کے اندر یا بیرونِ ملک، جب بھی ، جہاں کہیں بھی خان موجود ہو ،عطیات کی سطح بلند ہو جاتی ہے ، لوگ اس سے محبت کرتے ہیں ، اس کا اعتبار بہت ہے ۔ ان کیلئے وہ ایک نمونہ ء عمل ہے ۔ وہ انہیں آمادہء ایثار کرتا ہے۔
    1989ء میں منصوبے پر اولین مشاورت کے لیے کل 19ڈاکٹر یکجا تھے ۔ ان میں سے ایک کے سوا سارے متفق تھے کہ ہسپتال کسی طرح بن نہیں سکتا ۔اس ایک نے کہا : بن سکتاہے ، چل نہیں سکتا۔ اللہ کے بھروسے پر ایک تنہا آدمی اٹھا اور معجزہ ہو گیا۔مستقل مزاجی کے ساتھ وہ ڈٹا رہا لیکن اڑھائی سال میں صرف ایک کروڑ جمع ہو سکے ، پھر ایک دن ،لاہورمیں غریبوں کے محلے ،گڑھی شاہو کے کچھ درماندہ سے لوگ آئے اور کھینچ کر اسے محلے کی مسجد میں لے گئے ۔ خلقِ خدا ٹوٹ پڑی۔ دس اور پانچ روپے کے نوٹوں کا ڈھیر لگ گیا۔ اس دن یہ بات عمران خان کی سمجھ میں آگئی کہ ہسپتال کیسے بنے گا۔ باقی 55کروڑ بھی فراہم ہو گئے۔ایک کروڑ کا عطیہ خود اس نے دیا اور پندرہ برس سے ہر سال ، کم و بیش اتنا ہی نذر کرتا ہے ۔کچھ ہسپتال ، کچھ نمل کالج کے لیے جہاں غریبوں کے بچے برطانوی معیار کی تعلیم مفت پاتے ہیں۔ عمران کے مرحوم والد اکرام اللہ نیازی یاد آئے کہ نمل کالج کی عمارت کے لیے انہوں نے چالیس لاکھ دیے تھے جب کہ عمران نے تیس لاکھ ۔ ہر اچھے مشرقی باپ کی طرح اول اول مرحوم کو یقین تھا کہ ان کا اکلوتا فرزند نالائق ہے ۔ شوکت خانم ہسپتال کا آغاز ہوا تو وہ بڑبڑاتے "عمارت سازی کا اسے کیا پتہ ۔ پیسہ برباد کرے گا، کھا جائیں گے لوگ"انجینئرنگ کے چالیس سالہ تجربے کے ساتھ سارا دن وہ نگرانی کرتے ، حتیٰ کہ فنِ تعمیر کا شاہکار متشکل ہو گیا۔بادشاہ جہانگیر کے بیٹے شاہ جہاں نے تاج محل تعمیر کیا تھا، انجینئر نیازی کے بیٹے نے ہسپتال اور کالج۔ اکرام اللہ خان نیازی دس افراد پر مشتمل بورڈ آف ڈائریکٹر کے پہلے چئیرمین تھے ، بعد میں خود ہی سبکدوش ہو ئے ۔ پھر جب اس نے تحریک ِ انصاف بنائی تو وہ کہتے "ٹی ہاؤس میں کبھی بیٹھا نہیں اور چلا ہے سیاست کرنے "پھر تعجب سے میں نے سوچا: وہ کیسی خاتون ہو گی، جس کی دعا، اس کی موت کے بعد قبول ہوئی او ر نمو پذیر ہے۔ شوکت خانم ہسپتال فروغ کے نئے مرحلوں میں ہے ۔سچے عمل کا کھرا بیج زمین میں بو دیا جائے تو پھوٹ نکلتاہے ، برگ و بار لاتاہے ، رفعت پذیر ہو تاہے ، حتیٰ کہ ٹہنیاں آسمان کو چھونے لگتی ہیں ۔
    شوکت خانم ہسپتال تعمیر کرنے والی قوم سے مایوس ہونے کا جواز کیا ہے۔ایک نہیں کتنے ہی معرکے مثلاً ایدھی فاؤنڈیشن ، جنرل جہاں داد خان کے الشفا ہسپتالوں کی قطار ، جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن ، کیا یہ ادارے اسی قوم نے تعمیر نہیں کئے ۔ تو وہ باقی ماندہ مرحلے کیوں نہ طے کرے گی؟ رفتہ رفتہ بتدریج۔
    محبت سے معجزے برپا ہوتے ہیں، جس دن ہمارے آفاق پر محبت میں مبتلا کوئی سچا اور ایماندار لیڈر طلوع ہوا تو انشا ء اللہ چراغاں ہو جائے گا۔ چاروں طرف چراغاں، رفتہ رفتہ بتدریج، شوکت خانم ہسپتال کی طرح۔

    حوالہ روزنامہ جنگ
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب ۔
    کاش ہم سب کے اندر بھی خدمت خلق اور خدمتِ وطن کا یہی جذبہ بیدار ہوجائے
    اور ہم ایسے قومی خادموں کی قدر کرنا سیکھ لیں۔
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بجا فرمایا

    مگر یہ جذبہ جب تک ہمارے لیڈروں میں نہیں ہوگا تو ہم تک کیسے پہنچے گا
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ہارون بھائی ۔ آپکی بات ایک لحاظ سے درست ہے۔

    لیکن اسی مسئلے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ۔۔۔
    بدقسمتی سے ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ان لیڈروں کو "لیڈر" بنایا کس نے ہے ؟
    قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ نہ دے کر لیڈر کس نے نہ تسلیم کیا ؟
    ہم نے ۔۔ یعنی عوام نے۔
    ڈاکٹر طاہر القادری 14-15 سال سیاسی جدوجہد کے باوجود ہم نے انہیں‌ مسترد کیوں کیا ؟
    حکیم محمد سعید شہید، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال اور عمران خان جیسے لوگوں کو ہم کیوں اپنا راہنما ماننے پر تیار نہیں ہوتے؟
    اسکے مقابلے میں ہر لٹیرے، جاگیردار، ملک دشمن، غدار ، فوجی و سول آمر، بہروپیوں اور نااہلوں کو ووٹوں کے انبار دے دے کر انہیں پچھلے 30 سال سے اپنا لیڈر بنائے ہوئے ہیں۔
    تو آخر قصور کس کا ہوا ؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں