1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از زوہا, ‏28 جولائی 2011۔

  1. زوہا
    آف لائن

    زوہا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2011
    پیغامات:
    104
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    یہ نظام قدرت ہے کہ اللہ رب العزت ہمیشہ انسانوں کے اعمال وکردار کی بنیاد پر ان کی ترقی وتنزلی کا فیصلہ فرماتے ہیں،آرام وسکون اور قلبی اطمینان اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اچھے اعمال وکردار کا حامل بن کر اسی کا خوگر بن جاتا ہے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے ،بے چینی ، ذہنی انتشار اور قلبی بے اطمینانی انسان کا اس وقت مقدر بن جاتی ہیں جب وہ خدا تعالی کے مقرر کردہ اصول وضوابط اور ضابطہٴ حیات سے ہٹ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوتا ہے۔
    آج یہ عام شکایت ہے کہ اطمینان قلب حاصل نہیں رہا،ذہنی انتشار بہت ہے، طرح طرح کی الجھنیں اور پریشانیاں معاشرے میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں،ہر آدمی مختلف مسائل میں الجھا ہوا ہے اور انواع واقسام کی پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ اس کا صرف اور صرف سبب یہ ہے کہ ہم نے اپنے اعمال وکردار کو منشائے خداوندی کے خلاف کرلیا ہے ،دنیا کی حرص وہوس میں ہم نے نظام خداوندی کو پس پشت ڈال دیا ہے ،خدائی اصولوں کے بجائے دشمنان اسلام کے متعین کردہ ترقی وتنزلی کے معیار کو درست اور صحیح سمجھ لیا ہے اور اسی کو اپنانے کی فکر اور لگن میں رات دن منہمک اور مشغول ومصروف ہوگئے ہیں۔
    آج جب مسلم معاشرے کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اکثر کی زندگیاں دینی امور کی بجا آوری کے بجائے غیر شرعی اور غیر دینی امور میں مصروف دکھائی دیتی ہیں ،آج کے معاشرے کا سب سے بڑا ناسور، ٹی وی اور ملٹی میڈیا موبائل فون ہے، جومسلم معاشرے کی اخلاقی اقدار کے لیے زہر قاتل سے کسی طرح کم نہیں ہیں، لیکن پھر بھی اکثریت اسی پر فریفتہ نظر آتی ہے ۔
    قیامت کی نشانیوں کے سلسلہ میں ایک مشہور مقولہ کتابوں میں مذکور ہے کہ:
    لترفعن رأیة الفساد فوق کل بیت
    مطلب یہ ہے کہ قیامت کے قریب فساد کا جھنڈا ہر گھر کی چھت پر لہرا رہا ہوگا۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی شناعت اور دنیوی واخروی نقصانات اور مسلم معاشرہ پر پڑنے والے اس کے منفی اثرات کی وجہ سے ”فساد کا جھنڈا“ جس کی طرف اشارہ فرمایاگیا ہے وہ اسی ٹی،وی کا انٹینا ہے، جو تقریباً ہر گھر کی چھت پر نصب ہوتا ہے ۔اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی ایک دوسری نشانی یہ بتائی کہ لوگ راتوں کو ناچا کریں گے اور ان کے سروں پر موسیقی کے آلات ہوں گے۔
    آج جب کہ ٹی وی پر رات کو میوزیکل شوز دکھائے جاتے ہیں اور گلیوں میں ہم مسلم نوجوانوں کو اپنے کانوں پر Walk man کے مائیکرو فون لگائے ہوئے موسیقی سنتے دیکھتے ہیں تو حضور صلی الله علیہ وسلم کی حدیث کی صداقت سامنے آتی ہے، جب کہ1400 سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آلات موسیقی کو سر پر رکھ کر لنگور کی طرح کیسے ناچاجاسکتا ہے۔
    جب مسلمانوں میں ای میل(انٹر نیٹ کے ذریعہ خط وکتابت اور پیغام رسانی )کا رواج بڑھا تو نوجوان لڑکوں لڑکیوں میں عشق معاشقے بڑھے۔ پھر جب سیل فون عام ہوا تو اس نے ای میل کا بھی نمبر کاٹ دیا،حد تو یہ ہے کہ آج کل مسلمان حج کے دوران طواف کرتے ہوئے بھی سیل فون استعمال کرتے ہیں۔
    ایک یہودی پریس نے اپنے اخبار میں ایسے مسلمان حاجیوں کا ذکر کیا
    ”جن کے سیل فون عین وسط حرم میں بج رہے تھے اور انہوں نے سیل فون کی گھنٹی میں مائیکل جیکسن کے گانوں کی موسیقی بھری ہوئی تھی ۔“
    اندازہ کیجیے کہ حج، جو کہ جامع العبادات ہے اور طواف، جو کہ نماز کی طرح کی عبادت ہے، ایسی عبادات کے دوران بھی دجال کے ایجنٹ ہماری توجہ میں خلل انداز ہوتے ہیں، مشینوں کا استعمال بذاتِ خود برا نہیں، لیکن جب وہ اس درجہ پر پہنچ جائے کہ اس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی شروع ہوجائے تو یہ چیز بری ہے۔
    کتنے تعجب کی بات ہے کہ آٹا روز بروز مہنگا ہورہا ہے۔ اسی طرح دیگر کھانے کی چیزوں کا حال ہے، لیکن دوسری طرف کیبل، ٹی وی، انٹرنیٹ اور سیل فون دن بدن سستے ہوتے جارہے ہیں۔ حد یہ کہ سیل فون پر آج صرف چند روپوں میں لکھا ہوا پیغام Text Message بھیجا جاسکتا ہے۔ آخر حکومت اس سخاوت کا مظاہرہ کھانے پینے کی اشیا کو سستا کرکے کیوں نہیں کرتی؟در اصل کھانے پینے کی چیزیں فحاشی اور عریانی نہیں پھیلاتیں۔ اس کے برعکس دجال کے ایجنٹ یعنی ٹی وی، سینما، انٹرنیٹ، ڈش، کیبل، سیل فون یہ سب جتنے سستے ہوں گے، سوسائٹی میں اتنے ہی عام ہوں گے اور یہ برائی پھیلانے میں معاون ثابت ہوں گے۔
    قرآن میں فرعون اور موسی کا قصہ سب سے زیادہ بیان ہوا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دور میں یہی کشمکش رہتی ہے، شیطان کی چالیں وہی رہتی ہیں۔ صرف چہرے اور آلات بدل جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کے دور میں فرعون نے عوام کو اپنا محکوم اور اپنے سے مرعوب رکھنے کے لیے جادو گر رکھے ہوئے تھے،
    جو لوگوں کو نظروں کا دھوکہ دے کر ایک طرف لوگوں کی تفریح کا سامان کرتے تھے اور دوسری طرف فرعون کی طاقت سے مرعوب رکھتے تھے۔
    آج ٹی وی اور سینما کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر جو کچھ کرتے ہیں وہ فرعونی دور کے جادوگروں سے مختلف نہیں، ہالی وڈ کا مطلب ہی ”ایسی چھڑی جو لوگوں پر جادو کردے“ ہے۔ فلمیں بنانے والے عوام کو ٹی وی اور سینما کے مخصوص اثرات سے ایسا مسحور کردیتے ہیں کہ لوگ فلم میں خطرناک سین دیکھ کر دہشت زدہ ہوجاتے ہیں، غمگین سین دیکھ کر رونے لگ جاتے ہیں۔ اب کمپیوٹر کی وجہ سے نظر کا دھوکہ دینا پہلے سے بھی آسان ہوگیا ہے،
    آج مسلمان اپنا وقت فلم سٹاروں اور کھلاڑیوں کے کرتب دیکھنے میں گزار دیتے ہیں۔ اسی طرح آج کل کچھ مسلمان ماں باپ فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا پوری رات کمپیوٹر پر کام کرتا رہا، ایسے ماں باپ نہیں جانتے کہ ان کا بیٹا پوری رات انٹرنیٹ پر کیا غلاظت دیکھتا رہا ہے!؟
    قرب قیامت کے متعلق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نہایت دلچسپ حدیث ہے، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ”شیطان یتصور بصورة رجل فیحدث الناس“
    شیطان آدمی کی صورت میں آئے گا اور لوگوں کو خبریں سنائے گا۔ ”فیسمعون لہ“ پس لوگ اس کی بات سنیں گے اور پھر کہیں گے ”اعرف وجہ الرجل ولا اعرف اسمہ․“ ہم اس شخص کا چہرہ تو پہچانتے ہیں، لیکن اس کا نام نہیں جانتے۔
    آج جب لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کرٹی،وی پر خبریں دیکھتے ہیں اور شیاطین کو ٹی وی پر دیکھتے ہیں تو اکثر ان کے چہرے ہی پہچانتے ہیں، نام نہیں پہچانتے۔ یہاں ایک اور دلچسپ بات بھی ہے کہ بہت سے مسلمانوں کو جب ہم ٹی وی کے نقصانات بتاتے ہیں تو وہ ٹی وی کی حمایت میں جو آخری دلیل دیتے ہیں وہ یہی ہوتی ہے: ”آخر ہمیں ٹی وی پر خبریں دیکھنی ہوتی ہیں ۔ ہم حالات حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتے ہیں۔“حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کی لنگڑی دلیلوں کا علم تھا اس لیے انہوں نے ہمیں پہلے ہی اس سے باخبر کردیا۔
    حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں بیان فرمایا کہ جو شخص سورہٴ کہف پڑھے وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا۔ (ترمذی، احمد، نسائی)
    ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ سورہٴ کہف میں وہ کیا پیغام ہے جس سے ہم فتنہ دجال سے بچ سکتے ہیں۔ اصحاب کہف نے اپنے دور کے دجالی فتنہ اور مادیت پرستی کا مقابلہ غار میں محصور ہوکر کیا، اب ہم بھی دجالی فتنہ کا مقابلہ اصحاب کہف والے طریقے سے کر سکتے ہیں۔ ہمارا غار (کہف) ہمارا گھر ہے، ہمیں یہ چاہیے کہ ہر فتنہ والی جگہ، جہاں اللہ کی نافرمانی ہورہی ہو، وہاں جانے سے اجتناب کریں، اور اپنے گھروں میں دجال کے ایجنٹوں کو داخل نہ ہونے دیں۔
    بلکہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فتنے کے مواقع کے لیے ہمیں ہدایت فرمائی کہ”کونوا أحلاس بیوتکم“ (ابو داؤد) فتنوں کے دور میں گھروں میں ایسے دبک کے بیٹھ جاوٴ جیسے گھروں میں پرانی چٹائیاں پڑی رہتی ہیں کہ نہ ان کوکسی سے کوئی مطلب ہوتا ہے اور نہ کسی کو ان سے کوئی سرو کار۔جو دجالی ایجنٹ شدید ضرورت کی وجہ سے ہمارے استعمال میں اور ہمارے بچوں کے استعمال میں ہیں، ان پر کڑی نظر رکھیں۔ ساتھ ساتھ قرآن کی تفسیر اور احادیث نبوی کے ترجمے اپنی پورے خاندان کے ساتھ پڑھیں۔
    کیوں کہ احادیث نبوی میں ہمیں زندگی گزارنے کی ایک ایک قدم پر راہ نمائی ملتی ہے اور سنت کی پیروی میں ہی ہماری کام یابی ہے، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم اپنی دونوں آنکھیں کھلی رکھیں گے تو کوئی ہمیں زبردستی باطل کے راستے پر نہیں چلا سکتا۔
    بقول اقبال #
    تقلید پہ یورپ کی رضا مند ہوا تو
    مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے

    میڈیا اور غیر اسلامی ذرائع ابلاغ اور جدید مواصلاتی نظام کی روز افزوں ترقی نے آج مسلم معاشرے کے سامنے ان گنت مسائل کھڑے کردیے ہیں، انسانی معاشرتی نظام میں نت نئی تبدیلیاں اتنی تیزی سے آرہی ہیں کہ عقل و حواس محو حیرت ہیں، غیر اسلامی طاقتیں عام ذہنوں کی تسخیر کے لیے میڈیا اور ذرائع ابلاغ کو نہایت خفیہ انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہیں اور معاشرہ کی ساری صالح قدروں پر نقب زنی میں مصروف عمل ہیں،
    خاص طور سے مسلم معاشرے میں ان کو خوب خوب رواج دیا جارہا ہے اور ایک طرح سے ذہنوں سے اسلامی قدروں کو پامال کرنے اور دینی شعار کو فرسودہ تصور کرانے کی مہم چلا رکھی ہے ،اسلامی ناموں کے ساتھ پروگرام نشر کیے جاتے ہیں، ویب سائٹس بنائی جارہی ہیں” الجہاد“،” الشہادة“، ”الاسلام“اور ”القدس“ جیسے خوبصورت ناموں کے ذریعہ دام ہم رنگ زمین پھیلائے جارہے ہیں اور مسلمانوں کی نئی نسل کو گرفتار مکرو فریب کرکے ان کے ایمان اور ان کی روحانی وراثت کو سلب کیا جارہا ہے،
    اس سلسلہ میں عیسائی اور یہودی مشینریاں تو سب سے آگے ہیں ،گویا خوش رنگ اور دیدہ زیب حلوہ زہر ملا کر پیش کرتے ہیں اور معاشرہ اس سے لذت ِکام و دہن حاصل کرتا ہے، لیکن اس کے مہلک اثرات سے بے خبر ہوکر، اس کے نتیجہ اور انجام سے لاپروا ہوکر،
    آج عالم یہ ہے کہ موبائل فون گاؤں گاؤں پہنچ چکے ہیں، کسی گھر میں چاہے بجلی نہ ہو، پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو، معقول علاج کے لیے پیسے نہ ہوں، بچوں نے کسی اسکول کا منھ بھی نہ دیکھا ہو، لیکن موبائل فون ضرور میسر ہوگا،
    اس موبائل فون کے ذریعے جو انٹرنیٹ کی سہولت سے مزین ہوں اورجو فی الواقع ایک منی کمپیوٹر ہوں، جس میں ڈیجیٹل اور ویڈیو کیمرے بھی موجود ہوں، اخلاقی قدروں کا انہدام اور جنسی اباحیت کا فروغ، دونوں کام دھڑلے سے جاری ہیں، ان موبائل کیمروں کی وجہ سے اس وقت دنیا کی تمام فحش ویب سائٹس پر تیسری دنیا کے لڑکوں اور لڑکیوں کی جنسی حرکات کی فلمیں موبائل کلپس (clips) کے نام سے دست یاب ہیں، یہ اور ایسی ہی دوسری فحش فلمیں ہر اس موبائل پر، جس میں بلیوٹوتھ (BLUE TOOTH) کی سہولت ہو، بھیجے جاسکتے ہیں،
    آج ہم کس قدربے حس اور بے خبر ہیں ،ہماری نوجوان نسل تیزی سے اس میٹھے زہر کی لت میں مبتلا ہوتی جارہی ہے ،ایک پاکستانی ماہنامہ کی رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے اخبارات میں کم و بیش روزانہ شائع ہونے والی اخلاقی جرائم کی روح فرسا خبریں شاہد ہیں کہ ہماری حالت بھی ان مغربی معاشروں جیسی ہوتی جارہی ہے جہاں جنسی جرائم روز مرہ کا حصہ اور عام زندگی کا معمول بن چکے ہیں،
    مغربی معاشرے میں ہر منٹ میں خواتین جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں، یعنی ایک گھنٹے میں اٹہتر(78 )، ایک دن میں ایک ہزار آٹھ سو بہتر( 1872) اور ایک سال میں چھ لاکھ تراسی ہزار دو سو اسی(683280) خواتین جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں، ان میں سے84 فی صد کی عمریں24 سال سے کم ہوتی ہیں، جب کہ 84 فی صد جنسی تشدد کرنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں اکسایا گیا ہے، کس نے اکسایا ہے؟ فحش موبائل کلپس اور انٹرنیٹ فحاشی نے،
    جنسی تشدد کے 75 فی صد مجرموں کی تعداد انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعے بننے والے ”دوستوں“ کی ہوتی ہے، لیکن جرم کی یہ وہ تعداد ہے جو پولیس ریکارڈ میں ہے، مغرب میں دس میں سے نو عورتیں اپنے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کا کسی سے ذکر تک نہیں کرتیں، جب کہ مشرق میں شاید سو میں سے ایک عورت، بلکہ ایک ہزار میں سے ایک عورت ہی شاید اپنے اوپر ہونے والے جنسی ظلم کو باہر جاکر بتاتی ہو،
    اس کے باوجود صرف پاکستان جیسے چھوٹے سے مسلم ملک میں صرف ایک سال 2009ء میں زیادتی کی 928 وارداتیں پولیس میں رپورٹ ہوئیں اور274عمومی زیادتی کے واقعات ہوئے، یعنی پاکستان جیسے مسلم ملک میں روزانہ چار خواتین اجتماعی یا انفرادی آبروریزی کا شکار ہوئیں، مغرب کے ماہرین جرائم و نفسیات بتاتے ہیں کہ یہ سارے جنسی جرائم کسی مذہبی گھٹن یا مردانہ استحصال کی نعرہ بازی کا شکار نہ تھے، بلکہ ان میں سے 87 فی صد ایسے تھے جو فحش فلمیں دیکھنے کی لت میں مبتلا تھے،
    جن لوگوں نے چھوٹے بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا ان میں تو موبائل اور انٹرنیٹ پر فحش فلمیں دیکھنے اور فحش میگزین پڑھنے کی عادت رکھنے والوں کی تعداد 95 فی صد تھی، مغربی ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ آبروریزی اور جنسی جرائم کی خواہشات اسی غلیظ مواد سے پیدا ہوتی ہیں جو موبائل اور انٹرنیٹ پر بے روک ٹوک مہیا ہے،
    دنیا کے کسی ملک میں ہمارے یہاں سے زیادہ سستا موبائل فون نہیں اور مغرب کی طرح ہمارا میڈیا بھی اس قدر مادر پدر آزاد ہوچکا ہے کہ جیسا چاہتا ہے فحش اشتہارات دکھاتا اور چھاپتا ہے، ابھی تو یہ آتش فشاں خاموشی سے اُبل رہا ہے، لیکن اُس دن کیا ہوگا جب یہ اک دم سے پھٹ پڑے گا اور عزت و ناموس ، غیرت و حمیت اور اخلاق و اقدار اس نوجوان نسل کے پاؤں کی ٹھوکر میں ہوں گے جن کو ہم خود یہ زہر دے کر پال رہے ہیں؟
    تاریخ شاہد ہے کہ جس ماحول اور معاشرے میں اسلام کی تعلیمات اور خدائی اصولوں کی مکمل پاس داری کی گئی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ خطوط و حدود کے اندر ہی رہ کر زندگی گذارنے کی کوشش کی گئی وہ ماحول اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنارہا، اس معاشرے کے ہر ہر فرد کو اطمینان قلب اور ذہنی سکون میسر رہا ہے،
    معاشرتی بگاڑ اور ماحولیاتی پراگندگی میں سب سے اہم چیز جو موثر ہوتی ہے وہ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح ہوتی ہے، جس معاشرے میں جرم پر ابھارنے والے محرکات موجود ہوں گے اورمجرم کھلے بندوں پھریں گے، انھیں کوئی ٹوکنے والا نہ ہوگا، ان کی سرزنش کرنے والا کوئی نہ ہوگا، اس ماحول اور معاشرے کا امن و سکون یقینا غارت ہوگا،
    نگاہ اٹھا کر دیکھا جائے تو آج پوری دنیا میں یہی نظر آئے گا کہ مسلمانوں کی عملی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر غیر اسلامی عناصر اسلام کی شبیہ کو ہر ممکن طریقے سے بگاڑنے میں کوشاں ہیں اور یہ سلسلہ عرصہ دراز سے ہی نہیں، بلکہ اسلامی تاریخ کے پہلے دورسے اس کی کڑیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں،
    البتہ حالات و زمانہ کے اعتبار سے اس میں کمی و زیادتی ہوتی رہی ہے ۔
    آج پھرضرورت اس بات کی ہے کہ ماحول اور معاشرے کو صالح بنایا جائے اور ان اسباب ومحرکات کا پوری ایمانی قوت کے ساتھ بائی کاٹ کیا جائے جو معاشرے میں گندگی پھیلا کر جرائم کو پنپنے کا موقع فراہم کرتے ہیں،موبائل فون آج کی زندگی کی ایک ضرورت بن چکا ہے ،لیکن اس کا استعمال بقدر ضرورت جائز حدود میں رہ کر ہی کیا جائے ،تاکہ معاشرے کی صالح اقدار برقرار رہیں اور کہیں سے کوئی بگاڑ اورمعاشرے کی صالحیت میں کوئی فرق نہ آئے ۔
    مسلمانوں کی روشن تاریخ گواہ ہے کہ مثالی اتحاد اور استقامت علی اللہ واخلاص و للہیت کی بدولت، امت محمدیہ نے دنیائے انسانیت میں تاریخ ساز ،حیرت انگیز انقلاب برپا کیا، سب سے پہلے جزیرہ نمائے عرب سے لاقانونیت، بدامنی، غارت گری، بدامنی، انارکی، درندگی کو ختم کرکے صحرائے عرب کو اسلامی وحدت کا مرکز بنادیا،
    اسلام نے اپنی آفاقی تعلیمات کے ذریعہ منتشر و متحارب گروپوں اور جنگ و جدال میں برباد ہوتے قبائل کو کلمہ توحید کی بنیاد پر ایسا مربوط و ثابت قدم کردیا کہ وہ ایک جسم و جان بن کر ابھرے اور ساری دنیا پر چھاگئے، ایک ایمانی فضا قائم کی، اللہ کی الوہیت وربوبیت ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و قیادت اور اسلام کی حقانیت و صداقت پر کامل یقین، امت محمدیہ کا تشخص وامتیازبن گیا تھا اور یہی جذبہ ان کو دنیائے فانی کی حرص ، اقتدار کی ہوس اور منصب و مرتبہ کی لالچ سے بے نیاز بنائے ہوئے تھا کہ کبھی بھی جاہ و منصب کے لیے محاذ آرائی اور اپنے کو نمایاں کرنے کی خواہش ان میں پیدا نہ ہوسکی،
    عہد اول و قرون ماضیہ کے مسلمانوں کی یہی صفت دشمنوں کے لیے سب سے خطرناک چیز تھی، وہ اپنی تمام تر سازشوں اور کوششوں سے بھی اسلامی وحدت کو نہیں توڑ سکے، نتیجہ ظاہر تھا کہ مسلمانوں کو ہر میدان میں فضیلت و برتری، فتح و غلبہ حاصل تھا، اس وحدت کی روح کلمہ توحید اور اسلامی نظام حیات تھا،
    کسی موقع پر بھی انھوں نے اپنی ذاتی آرا اور نفسانی خواہشات کے تحت کوئی قدم نہیں اٹھایا، بلکہ ملت کے مفاد میں اگراپنی ذاتی شخصیت وحیثیت کو قربان کرنے کی ضرورت پیش آئی تو بلا تردد قربانی دے دی،
    مثال میں ایک بہت ہی اہم واقعہ محض نمونہ کے طور پر اشارةً پیش ہے
    کہ مجاہدین اسلام کے سپہ سالار اعظم حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی فوجی بصیرت ، دفاعی لیاقت اور حربی حکمت عملی کی تعریف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور ان کو سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کا خطاب دیا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی دہشت سے قیصر و کسریٰ کے جرنیلوں کا پِتّہ پانی ہوتا تھا،
    وہ فی الواقع سیف اللہ تھے،فتح و کامرانی کی علامت ،مگر کچھ خاص مصلحتوں اور حکمتوں کے باعث امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کو سپہ سالار اعظم کے جلیل القدر منصب سے عین اس وقت معزول کردیا جب کہ وہ شام کے محاذ پر قیصر روم کی فوجوں سے لوہا لے رہے تھے اور ان کا ناطقہ بند کیے ہوئے تھے،
    جیسے ہی معزولی کا پروانہ پہنچا، خالد بن ولید نے اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفاد میں اپنی بلند ترین شخصیت کو ایک عام سپاہی کے درجہ تک بلا تکلف پست کرلیا، نہ کوئی شکوہ، نہ کوئی تبصرہ، بلکہ ایک جملہ زبان پر دل کی گہرائیوں سے نکل رہا تھا،
    کہ ابن ولید ہر حال میں امیر المومنین کے حکم کا تابع، صرف اللہ ورسول کے لیے سربکف میدان میں ہے، خواہ بحیثیت سپہ سالار ہو یا بحیثیت عام فوجی، مقصد اللہ کی خوش نودی اور اسلام کی سربلندی کے سوا کچھ نہیں۔
    ہر دور میں دین دشمن عناصر نے یہی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں دراڑ پیدا کرکے ان کو اختلاف و افتراق میں ڈال دیا جائے، اس کے علاوہ کوئی صورت ان پر غالب آنے اور قابو پانے کی نہیں، بغداد کی عباسی خلافت ہو یا عثمانی سلطنت ، قومی و علاقائی اور مذہبی منافرت و تعصب ہی زوال کا باعث بنا،
    ملک کے موجودہ حالات میں آج وحدت اور اتفاق واتحاد کی سخت ضرورت ہے ،اس اتحاد واتفاق کی عملی کوششیں ہونی چاہییں اور اس کے لیے دعاوٴں کا خصوصی اہتمام بھی ۔
     
  2. چیٹرcheater
    آف لائن

    چیٹرcheater ممبر

    شمولیت:
    ‏26 دسمبر 2007
    پیغامات:
    147
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں

    کیا بات ہے جناب :hpy:
     
  3. اذان
    آف لائن

    اذان ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جولائی 2011
    پیغامات:
    679
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں

    ماشائاللہ زوہا جی اپ نے بہت اچھی شیئرنگ کی ہے ویری نائس
    جزاک اللہ
     
  4. فیاض انصاری
    آف لائن

    فیاض انصاری ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جولائی 2011
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں

    بہت عمدہ اور ایک نئی سوچ دینے والی تحریر ۔ ۔ شکریہ
     
  5. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں

    مٹاتے ہیں جو وہ ہم کو تو اپنا کام کرتے ہیں
    مجھے حیرت تو ان پر ہے جو اس مٹنے پہ مرتے ہیں
     
  6. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں

    شکریہ زوہا جی

    ماشاءاللہ کافی اچھی اور معلوماتی شیئرنگ ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں