1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مجھے ہے حکمِ اذان لا الٰہ الا اللہ

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از اقبال جہانگیر, ‏25 فروری 2011۔

  1. اقبال جہانگیر
    آف لائن

    اقبال جہانگیر ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جنوری 2011
    پیغامات:
    1,160
    موصول پسندیدگیاں:
    224
    اگرچہ پاکستان ایک ناکام ریاست نہ ہے مگرطالبان اور القائدہ کی مسلسل اور بے رحمانہ دہشتگردی اور پے در پے خودکش حملوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی امن و امان کی صورتحال اور ان حملوں سے ہونے والے اقتصادی نقصانات اور افغانستان مین جاری نو سالہ جنگ نےپاکستان کے وجود کو حقیقی خطرات سے دوچار کر دیا ہے اور ہم ناکام ریاست بھی ثابت ہو سکتے ہین۔پاکستان اس وقت تاریخ کے ایسے دوراہے پر کھڑا جہاں اک معمولی سی لغزش ،پاکستان کے وجود کو قصہ پارینہ اور تاریخ کا حصہ بنا سکتی ہے۔
    سالہا سال کی دہشت گردی اور حالیہ سیلابوں نے ملکی اقتصادی حالت کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے اور ہم اقتصادی ترقی کی دوڑ میں بیسو ں سال پیچھے لڑھک گئے ہیں۔ دہشت گردی اور خودکش حملوں اور سیلاب سے ہونے والے بے پناہ جانی و مالی نقصان نے پاکستانی عوام کو ایک صدمےاور بے یقینی کی حالت سے دوچار کر دیا ہے۔
    دہشت گردی،بمبوں کے دہماکے اور خودکش حملے روزانہ کے معمول بن کر رہ گئے ہین اور دہشت گردی کے ماہرین کے مطابق پاکستان دنیا بھر مین خودکش حملوں کادارالحکومت بن گیا ہے ۔ ۲۰۱۰ مین ۵۲خودکش دہماکوں/حملوں سے ۱۲۲۴ معصوم جانیں ضاءع ہوئیں اور ۲۱۵۷ زخمی ہوئے اور ۲۰۱۰ پاکستان کا خونی سال بن گیا۔ گذشتہ سالوں میں ہونے والے خودکش حملوں کے نقصانات کی تفصیل کچھ یوں ہے:
    Total Number of Suicide Attacks Civilians SFs Militants Total
    2007 58 552 177 58 787
    2008 59 712 140 65 917
    2009 80 735 196 87 1018

    ذرائع : SATP اعدادو شمار

    کب تک ہم اپنے ملک کے بے گناہ معصوم نوجوانوں، عوتوں ،بچوں اور بزرگون کو ان دہشت گردوں /خودکش حملہ آوروں کے ہاتھوں مرتا دیکھہ کربے بسی سے خون کے آ نسو بہاتے ر ہینگے؟یہی دین فروش اور انسانیت دشمن دہشت گرد ہین جنہوں نے مسلمانوں کی ایک اکثریت کو اپنی دہشت گردی سے یرغمال بنا رکھا ہے۔ اللہ تعالہ فرماتے ہین:
    اور جو کسی ایمان والے کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس قاتل کی جزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ ہی رہے گا اور اُس پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے اس پر لعنت کی ہے اور اللہ نے اُس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے)سورت النساء/ آیت 93,
    علاوہ ازین طالبان اور دیگر کالعدم جماعتوں کے فرقہ وارانہ تشدد کی عفریت سے اقلیتیں ،شیعہہ مسلمان ،مساجد اور صوفیاء اکرام کے مز ارات بھی محفوظ نہ ہین۔ ملک میں القاعدہ ، لشکر جھنگوی ، تحریک طالبان پاکستان اور سپاہ صحابہ مل کر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہیں اور ایٹمی پاکستان کو دشمن کی ایماء پرغیر مستحکم کرنے میں لگے ہوئے ہین۔ طالبان ملک دشمنی مین اس حد تک بڑہ گئے ہین کہ پاکستان کے دشمنوں سے مالی اور دوسری امداد لینے مین عار نہیں محسوس کرتے، یہ پاکستان دشمنی نہین تو اور کیا ہے؟
    علاوہ ازین طالبان آئے دن طلبہ و طالبات کے سکولوں کو صوبہ خیبر پختو نخواہ مین بڑے رحمانہ طریقے سے تباہ کرنے میں لگے ہوئے ہین اور وطن دشمنی اور ناعاقبت اندیشی میں اس کے عظیم نقصانات سے آگاہ نہ ہیں۔ ان کو کیا علم نہ ہے کہ قرآن کا پہلا لفظ اقرا تھا؟
    پاکستان جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے، گوناگوں پیچیدہ مسائل میں بری طرح گھرا ہوا ہے، جن کا حل مستبل قریب میں حل ہوتا نظر نہیں آتا۔
    دہشت گردی اور خودکش حملوں کا عذاب پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات قابو سے باہر ہو گئے ہین۔ گذشتہ سال کی ایک رپورٹ کے موجب ملک میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔دسمبر کے پہلے ہفتے تک ۱۱۹۰ افراد ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہوئے۔ کراچی میں فرقہ وارانہ وجوہات کے علاوہ لسانی اور سیاسی وجوہات پر بی لوگوں کا قتل ہو رہا ہے۔ کراچی میں ریاست کی عملداری، عملی طور پر ختم ہو چکی ہے۔ ملک میں پولیس کے زیر استعمال اسلحہ سے بہتر اسلحہ دہشت گردوں کے زیر استعمال ہے اور یہ اسلحہ ان کو بآسانی دستیاب ہے۔
    ملکی معاشی ترقی رک گئی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ قر ضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ ۲۰۱۰ مین غیر ملکی سرمایہ کاری مین 54.6 فیصد کی کمی واقع ہوئی ۔ افراط زر ۲۰۱۰ مین15.48 فیصد رہا اور بیروز گاری کی شرح مین اظافہ ہوا۔بے روز گاری کی شرح جو ۲۰۰۹ مین 11.2 فیصد تھی بڑہ کر ۲۰۱۰ مین 14.20 فیصد ہو گئی۔ پاکستا ن عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لئے اپنی معیشت کا نو ئے فیصد حصہ اپنےقرضوں کی ادائیگی اور اسلحے کی خریداری پر خرچ کرتا ہے۔ پاکستان کے قرضوں کا حجم ۶۴ ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اور پاکستانی معیشت دیوالیہ پن کی سر حدوں کو چھو رہی ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو اب تک۴۵ ارب ڈالر کو نقصان ہوا۔ اس پہ سونے پر سہاگہ بےجامہنگائی ،لا قانونیت ،غنڈہ گردی اور بڑہتے ہوءے افراط زر نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ معاشی حالت اس قدر ابتر ہو چکی ہے کی ملک کے استحکام اور سلامتی کو چدید خطرات لاحق ہو چکے ہین۔ گیلپ اور پیو سروے کے مطابق بے شمار معاشی مشکلات منہ کھولے کھڑی ہین اور عوام کی اکثریت معاشی حالات کے بارے مین نا امید ہے۔
    "ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات“
    کچھ دینی و سیاسی راہنما اور دینی وسیاسی جماعتیں کھلم کھلا طالبان کی حمایت اپنے وقتی مفادات و مقاصد کی تکمیل کے لئے کررہی ہین ،یہ جانتے اور بوجھتے ہوئے بھی کہ طالبان اور القائدہ کی دہشت گردانہ سرگرمیاں اور خودکش حملے،کھلم کھلا قران و حدیث اور اسلامی تعلیمات وملکی قوانین کے سراسر منافی ہین اور ملکی مفادات کے بالکل خلاف ہین۔ کچھ لوگوں میں اپنی جان کے خوف اور طالبان کے ڈر کی وجہ سے یہ ہمت نہ ہے کہ وہ طالبان کی مخالفت کریں۔حالانکہ پاکستان کے اندر جتنی بھی پرتشدد کارروائیاں ہورہی ہیں وہ جہاد نہیں بلکہ فتنہ ہیں۔جب تک علماء جہاد کا صحیح معنی و مفہوم لوگوں کے سامنےپیش نہیں کریں گے لوگوں کو جہاد کے بارے میں پتہ نہیں چلے گا۔
    جہاد وقتال فتنہ ختم کرنے کیلئے ہے ناکہ مسلمانوں میں فتنہ پیدا کرنے کیلئے۔طالبان قرآن کی زبان میں مسلسل فساد فی الارض کے مرتکب ہو رہے ہین۔معصوم شہری ، بے گناہ اور جنگ میں ملوث نہ ہونے والے تمام افراد ، نیز عورتیں اور بچوں کے خلاف حملہ "دہشت گردی ہے جہاد نہیں"۔۔۔۔۔ایسا کرنے والاجہنمی ہے اور ان کے اس عمل کو جہاد کا نام نہیں‌دیا جاسکتا ۔
    اسلام جبر کا نہیں امن محبت اور سلامتی کا مذہب ہے اور دہشت گردی مسلمانوں کا کبھی بھی شیوہ نہیں رہا۔ جو لوگ حالیہ دور میں اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر دہشت گردی کر رہے ہیں وہ تو بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے ہیں اور اسلام دشمن ہین ،ہمین ان کی چالوں مین نہ آنا چاہیے۔
    طالبان،سپاہ صحابہ،لشکر جھنگوی اور القائدہ سے ملکر پاکستان بھر مین دہشت گردی کی کاروائیاں کر ہے ہین۔یہ اسلام اور پاکستان کے دشمن ہین اور ان کو مسلمان تو کجا انسان کہنا بھی درست نہ ہے اور یہ لوگ جماعت سے باہر ہین۔ ہمیں ان سب کا مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ یہ بزدل قاتل اور ٹھگ ہیں اور بزدلوں کی طرح نہتے معصوم لوگوں پر اور مسجدوں میں نمازیوں پر آ گ اور بارود برساتے ہین اور مسجدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہین۔ اس طرح یہ پاکستان کے دشمنوں کی خدمت کر رہے ہین۔ ان کی مذموم کاروائیوں کی وجہ سے کئی عورتوں کا سہاگ لٹ گیا،کئی بچے یتیم ہو گئے اور کیئی بہنیں اپنے بھائیوں سے بچھڑ گئیں اور لوگ اپنے پیاروں سے جدا ہو گئے۔ آ دمی کے بغیر ایک خاندان کی کس طرح کفالت کی جاسکتی ہے؟
    امام ابن کثیر "لا اکراہ فی الدین" کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
    '' کسی شخص کو دین اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہ کرو کیونکہ وہ اس قدر بین و واضح ہے اور اس کے دلائل و براہین اس قدر روشن ہیں کہ کسی شخص کو اس میں داخل ہونے پر مجبور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اللہ نے جس شخص کو ہدایت دی ہو گی اور جس کا سینہ قبول حق کے لیے کھول دیا ہو اور جس کو بصیرت کا نور عطا کیا ہو وہ دلیل واضح کی بنا پر خود اسے اختیار کرے گا، اور جس کی سماعت و بینائی پراللہ نے مہر کر دی ہو اس کا مارے باندھے دین میں داخل ہونا بیکار ہے۔''
    اسلام دنیا میں حسن اخلاق ،نیکی اور اچھے کردار کی وجہ سے پھیلا ہے نہ کہ تلوار کے زور پر۔ تاہم اسلام کی تلوار ان لوگوں کی گردنیں کاٹنے میں ضرور تیز ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں یا اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بر صغیر پاک و ہند میں اسلام اولیاء کے حسنِ احوال اور حسنِ سلوک کے باعث پھیلا ہے۔۔ طالبان اور القائدہ موت کے فرشتے بن کر معصوم انسانوں کا ناحق خون بہانے میں دن رات مصروف ہین اور غیر مسلموں کو اسلام سے دور رکھنے میں خاصے کامیاب ہین۔اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے طالبان اسلام کا نام بدنام کر رہےہین۔یہ کیسا جہاد ہے جس مین مسلمانوں کا خون ارزاں ہوگیا ہے اور جس میں مسلمانوں اور پاکستان کے قیمتی وسائل اور اثاثہ جات کو بے رحمی سے تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔طالبان اور القائدہ پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا۔
    تمام پاکستانی اور مسلمانوں کو من حیث القوم اور انفرادی حثیت میں ان اسلام اور انسان دشمن قوتوں کے خلاف جو پاکستا ن کو غیر مستحکم کر رہے ہین، ڈٹ کر اور بے خوف ہو کر مقابلہ کرنا ہے۔ کیا ہم جنگ بدر اور کربلا کے عظیم مقاصد کو بھول گئے ہیں۔ مسلہ صرف یقین کا ہے اور حضرت علی کا قول ہے کہ یقین صرف اور صرف علم سے حاصل ہوتا ہے۔چونکہ ہم حق پہ ہین اور فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے۔ ہمیں حضرت ابو بکر کی طرے ان اسلام کے دشمنوں کے خالاف انتہائی اقدام کرنا ہوگا۔
    ہمیں اپنی ساری توانائیاں فتنہ اور فساد کے فروغ کی ببجائے ملک کی تعمیر اور ترقی کی طرف خرچ کرنی چایئے اور پیارے پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنانے مین کوئی کسر نہ اٹھا رکھنی چاہیئے۔
    ہم سب کو طالبان اور القائدہ کی بیخ کنی کے لئے حکومت کی مدد کرنی چاہیے تاکہ اس فتنہ کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے اور لوگوں کے مایوس اور مر جھائے ہوئے چہروں پر امید اور خوشی کی لالی کھل اٹھے۔ ہمیں اپنی میعشت کو پھر سے مضبوط خطوط پر استوار کرنا ہو گا تاکہ خوشحالی کو دور دورہ ہو۔
    مولانا ظفر علی خان نے کیا خوب کیا ہے۔
    ؎ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیا ل آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں