1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

:::ماہِ رمضان اور ہم ::: 6 ::: قیام اللیل :::

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از عادل سہیل, ‏23 ستمبر 2008۔

  1. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    :::ماہِ رمضان اور ہم ::: 6 :::​

    ::: قیام اللیل::: فضیلت اور اہم مسائل :::​


    [align=justify:2nu8ea6u]قیام اللیل یعنی رات کی نماز رمضان میں ہو یا کِسی اور ماہ میں ، شبِ قدر کے حصول کے لئیے ہو یا اِسکے عِلاوہ بِلا شک و شبہہ اللہ کی عِبادت ہے اور عِبادت کی قبولیت کی اُمید کےلئیے عِبادت کو دو شرطیں کے مُطابق کیا جانا ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( وَ مَن کَانَ یَرجْو لَقاءَ رَبِّہِ فَلیَعمَل عَمَلاًصَالحاً وَ لایْشرِک بِعِبَادَۃِ رَبِہِ اَحَداً ::: اور جو اللہ سے مِلنے کا یقین رکھتا ہے اْسے چاہیے کہ وہ صالح ( نیک ) عمل کرے اور اپنے رب کی عِبادت میں کِسی کو شریک نہ کرے ) سْورت الکھف ، آیت / ١١٠،[/align:2nu8ea6u]

    [align=justify:2nu8ea6u]آئیے دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عِبادت کیا تھی ؟ کتنی تھی ؟ کیسی تھی ؟ رمضان اور رمضان کے عِلاوہ اِس عبادت میں کیا فرق تھا ؟[/align:2nu8ea6u]

    :::::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عِبادت کیا اور کتنی تھی ؟ :::::​

    [align=justify:2nu8ea6u]***اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ ( مَا کان رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ عَلیہ وَسلم یَزیدُ فی رمضان و لا فی غیرہِ علیٰ اَحدی عَشرۃ رَکعۃ، یُصلّی اَربعاً فلا تسئَل عَن حُسنِہنَّ و طُولِہنَّ ، ثُمَّ یُصلّی اَربعاً فلا تسئَل عَن حُسنِہن َ و طُولِہنَّ ، ثُمَّ یُصلّی ثلاثا ً ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا رمضان کے عِلاوہ کبھی بھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑہتے تھے ، چار رکعت پڑہتے اُن چار رکعتوں کی لمبائی اور حُسن کے بارے میں مت پوچھو ، پھر چار رکعت پڑہتے ، اُن چار رکعتوں کی لمبائی اور حُسن کے بارے میں مت پوچھو ، پھر تین رکعت پڑہتے ) صحیح البُخاری ، حدیث ١١٤٧، صحیح مُسلم حدیث ، ٧٣٨ ۔
    [align=justify]*** رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز ، جِسے قیام اللیل ، تہجد ، یا رمضان میں تراویح کہا جاتا ہے[/align:2nu8ea6u]
    :::::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عِبادت کیسی تھی ؟ :::::​

    [align=justify:2nu8ea6u]***اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ ( کان النبيُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذا دخل العِشرُ شدَّ مِئزرَہُ ، واَحیاءَ لیلہُ ، واَیقظَ اہلَہُ ::: جب آخری عشرہ ( یعنی رمضان کے آخری دس دِن اور راتیں ) داخل ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کمر بستہ ہو جاتے اور اپنی رات کو زندہ کرتے ، اور اپنے گھر والوں کو جگاتے ) صحیح البُخاری/حدیث ٢٠٢٤ / کتاب الصلاۃ التراویح / باب ٦ ۔
    یعنی اللہ تعالیٰ کی عِبادت کے لیے اپنے آپ کو خوب تیار کرتے ، اور اپنے معمول سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ کی عِبادت کر کے اپنی رات گُذارتے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کو عِبادت کے لیے جگاتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی عِبادت یعنی قیام اللیل کِس طرح کیا کرتے تھے مُلاحظہ فرمائیے ،
    اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ( کان رسولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم اِذا صلَّی قام حَتیٰ تَفطر رجلیہ ، قالت عائشہ : یا رسول اللَّہ ! اَ تَصنَعُ ھذا و قد غُفِرَ لکَ ما تقدَّمَ مِن ذِنبِکَ و ما تاَخَّرَ ؟ فقال صَلی اللَّہ عَلِیہ وَسلم ( یا عائشۃُ ! اَفلا اَکون ُ عَبداً شکُوراً ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑہتے تو اتنی دیر کھڑے رہتے کہ اُن کے پاؤں مُبارک سُوج جاتے ، عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) نے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہا اے اللہ کے رسول ، آپ یہ ( یعنی اتنی زیادہ مُشقت ) کرتے ہیں جبکہ آپ کے صدقے سے اگلے پچھلوں کے گناہ بھی معاف ہیں ( یعنی آپ کے ذمے تو کوئی بھی گُناہ نہیں پھر بھی آپ اتنی مُشقت کیوں کرتے ہیں ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اے عائشہ کیا میں شُکر گُزار بندہ نہ بنوں )صحیح البُخاری /حدیث ٤٨٣٧/کتاب التفسیر /سورت الفتح٤٨/باب ٢ ، صحیح مُسلم /حدیث ٢٨٢٠ /کتاب الصفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار ۔
    ***** یہ کیفیت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی ، جبکہ اُنکے ذمے کوئی گُناہ نہیں اور اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے بعد سب سے بُلند رُتبے والی ہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کوئی اور نہیں ، دیکھئیے ، یہ رُتبہ اور یہ محنت ، اِ س لیئے کہ اللہ کا شُکر ادا کیا جائے ، یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا ، جو اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ اور سب سے مُکمل ترین عِبادت کرنے والے تھے ، نہ کوئی پہلے ویسا ہوا اور نہ کوئی بعد میں ہو سکتا ہے ،
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بارے میں اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے ارشادات میں سے چند ارشادات مُلاحظہ فرمائیے (وَ مَا اتاکُم الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَ مَا نَھا کُم عَنہ ُ فَانتَھُوا ) ( جو کُچھ (حُکم) ر سول تُمہیں دیتا ہے وہ لے لو اور جِس( کام ) سے منع کرتا ہے اُس سے باز آ جاؤ ) سورت الحشر /آیت ٧،
    ( یٰۤاَ اَیّْھَا الذَّینَ اَمَنُوا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ وَ لَا تُبطِلُوا اَعمَالَکُم )( اے لوگوں جو اِیمان لائے ہو ، اللہ کی تابع فرمانی کرو اور رسول کی تابع فرمانی کرو اور اپنے اعمال تباہ نہ کرو ) یعنی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے کا نتیجہ اعمال کی تباہی ہے ۔ سورت محمد / آیت٣٣،
    ( فَلیَحذَر الَّذِینَ یُخالِفُونَ عَن اَمرِہِ اَن تُصِیبَھُم فَتنَۃٌ اَو یُصِیبَھُم عَذَابٌ اَلِیم ) ( وہ جو اُس ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حُکم کی مُخالفت کرتے ہیں ، اِس بات سے ڈریں کہ کہیں اُنہیں کوئی مُصیبت یا شدید عذاب نہ آن پکڑے ) سورت النْور / آیت ٦٣ ۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے ( کل اْمتی یَدخُلُ الجَنَّۃ اِلَّا مَن اَبیٰ ) ( میرا ہر اُمتی جنت میں داخل ہو گا سوائے انکار کرنے والوں کے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا :: کون انکار کرے گا اے اللہ کے رسول ، تو اُنہوں نے فرمایا ( من اَطاعنی دخل الجنۃ و من عصانی فقد اَبیٰ ) ( جو میری تابع فرمانی کرے گا جنت میں داخل ہو گا اور جو نا فرمانی گا یقیناً وہ انکار کرنے والا ہے ) صحیح البُخاری ، حدیث ، ٨٠
    اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن فرامین کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حُکم بھی سُنیے ( صَلُّوا کما راَیتموُنی اَّصلَّی) ( جِس طرح مُجھے نماز پڑہتے دیکھا ہے اُسطرح نماز پڑہو ) صحیح البُخاری ، ٧٢٤٧
    گو کہ مندرجہ بالا مواد موضوع کی اہمیت کے مُطابق کافی نہیں ہے لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے اِسی پر اِکتفاء کر رہا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ آپ میں سے کِسی کےلئیے یہ فیصلہ کرنا اِنشاءَ اللہ مُشکل نہ ہوگا کہ قیام اللیل کیسے کرنا چاہئیے ، اگر کِسی کے ذہن میں کوئی سوال کوئی شک کوئی شبہہ ہو تو بلا تکلف اُسکو سامنے لائے ، اِمام بُخاری نے اپنی صحیح میں اِمام مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ [[ دو قِسم کے آدمی سیکھ نہیں سکتے ہیں شرم کرنے والا اور تکبر کرنے والا ]] لہذا جو کوئی بھی واقعتا حق بات کو جاننا اور سیکھنا چاہتا ہے اُسے چاہئیے کہ اِن دو صفات سے اپنے آپ کو صاف رکھے ، اللہ تعالیٰ ہماری غلطیاں اور کوتاہیاں معاف فرمائے ، ہمارے دِلوں سے مُسلمانوں کے لیے غُصہ اور تعصب دور کرے ، اور ہمیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت کے مُطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اِسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے ۔[/align:2nu8ea6u]

    میری مندرجہ بالا گذارشات کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی فرامین کے دلائل کی روشنی میں ‌دیکھا جائے کسی تعصب یا فرقہ واریت کے زوایے سے نہیں ، اللہ تعالی ہر کلمہ گو کو اپنی اور اپنے رسول کی حقیقی اور عملی اطاعت کرنے والا بنائے ،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ::: ماہ رمضان اور ہم ::: کے سلسے کا آخری مضمون ان شا اللہ تعالی شب قدر کے بارے میں ہو گا ،
     

اس صفحے کو مشتہر کریں