1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ماضی سے نکلیں مستقبل کی بات کریں ....خاور گھمن

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 جنوری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ماضی سے نکلیں مستقبل کی بات کریں ....خاور گھمن

    گذشتہ ہفتے کے حا لات و واقعات پر اگر نظر دوڑائیں تو ایسا لگتا ہے حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کیخلاف نہیں بلکہ خود کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔ دونوں اطراف کو خطرہ ایک دوسرے سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ہی ہے۔
    پی ڈی ایم کی بات کریں تو ہر دوسرے دن حیران کن بیانات اور اعلانات سننے کو ملتے ہیں، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہہ دیا ہے کہ پی ڈی ایم کیلئے بہتر ہے وہ حکومت کا پارلیمان میں بیٹھ کر مقابلہ کرے۔ وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا بہتر ین راستہ تحریک عدم اعتماد ہی ہے اور اس پر پی ڈی ایم قیادت کو بھی راضی کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ مولانا ہوں، (ن) لیگ کی قیادت ہو، یا پھر پی ڈی ایم قیادت میں شامل دیگر جماعتیں، سبھی عدم اعتماد کیخلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نمبرز پورے ہونے کے باوجود اگر وہ چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرنے میں ناکام ہوئے ہیں تو قومی اسمبلی میں وہ یہ معرکہ کیسے ا نجام دیں گے؟ ملکی تاریخ کو سامنے رکھیں توآج تک کسی بھی وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی۔ اس سب کیساتھ تمام پی ڈی ایم جماعتیں اپنے اپنے صوبے میں ہونیوالے ضمنی انتخابات میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔

    اب (ن) لیگ نے بھی سینیٹ انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا ا علان کر دیاہے جبکہ ہمارے ذرائع بتا رہے ہیں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے سینیٹ انتخابات کیلئے خیبر پختونخوااور بلوچستان میں اپنے قریبی ساتھیوں کو اہم ذمہ داریاں سونپ دی ہیں۔ حکومت کی خواہش کے بر عکس امکان ہے کہ سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہی ہوں گے، یوں ماضی کے طریقۂ کار کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کورام کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح ماضی میں صوبائی اسمبلی کے ارکان اپنی جماعتوں کیخلاف ووٹ دیتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس کام کیلئے پیسہ استعمال ہوتا ہے اور ترقیاتی فنڈز دئیے جاتے ہیں،اس لیے چند ووٹ اِدھر اُدھر کرنے میں پیپلز پارٹی کو کوئی زیادہ مشکلات نہیں ہوں گی۔

    اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو پی ڈی ایم کا بنیادی مقصد فوت ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمن کی نظر میں یہ سار انظام ہی جعلی ہے اور 2018 ء کے انتخابات میں شدید دھاندلی ہوئی۔ اس کے ساتھ (ن) لیگ جو تحریک کے آغاز میں مقتدرہ کیخلاف کافی سخت رویہ رکھے ہوئے تھی اب آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہی ہے،الیکشن کمیشن کے سامنے تقریر میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح مریم نواز نے زیادہ تر ہدفِ تنقید وزیراعظم کو بنایا جبکہ اس سے پہلے نواز شریف سمیت زیادہ تر پارٹی رہنماکہتے رہے ہیں کہ ان کی لڑائی عمران خان سے نہیں بلکہ ان کو لانے والوں سے ہے اور مقتدرہ کا نام لے لے کر تنقید کی گئی۔ انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کے روئیے کو دیکھتے ہوئے (ن) لیگ کے اندر اب یہ بحث بڑے زور شور سے ہو رہی ہے کہ ان کو بھی مقتدرہ مخالف روئیے پر نظرثانی کرنا پڑے گی ایسا نہ ہو کہ کہیں دیرہو جائے اور اس حوالے سے کچھ رابطے کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔

    مولانا فضل الرحمن کا ذکر کریں تو ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کیخلاف ان کی اپنی ہی جماعت سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ اسلام آباد ہو یا پھر کراچی ہر گزرتے جلسے کے ساتھ مولانا کے جلسوں میں آنے والوں کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔پی ڈی ایم میں جان ڈالنے کیلئے مولانا نے اسرائیل نامنظور کا’’ تڑکا‘‘ لگانے کی کوشش کی لیکن اس سے بھی بات نہیں بنی۔ ان تضادات کا ذکر کرتے ہوئے جب (ن) لیگ کے ایک رہنماسے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا ’’اگر یہی حالات رہے تو ہو سکتا آنیوالے دنوں میں پی ڈی ایم کی دراڑیں مزید واضح ہو جائیں۔ اب تو ایسا لگتا ہے پی ڈی ایم برائے نام ہی چل رہی ہے اور تمام جماعتیں اپنا اپنا بیانیہ اور مقاصد لیکر آگے بڑھ رہی ہیں۔‘‘

    دوسری طرف جب ہم حکومت کی طرف دیکھتے ہیں تو وزیر اعظم کو عنانِ حکومت سنبھالے اڑھائی برس ہو چکے ہیں لیکن معاملہ لاہور کی صفائی کا ہو ،بجلی کی بڑھتی قیمتوں کا ، پی آئی اے میں جاری بد انتظامی کایا پھر چینی کی قیمت کا، وزیر اعظم اور ان کے وزراء ہر چیز کا ملبہ سابقہ حکمرانوں کی مبینہ کرپشن پر ڈال دیتے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں کے اچھے بُرے کام اپنی جگہ لیکن اب اتنا وقت گزرنے کے بعد عوام یہ بہانے سننے کیلئے ہر گز ہر گز تیار نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ماضی سے نکل کر مستقبل کی بات کی جائے۔ اب تحریک انصاف کی حکومت کو بتانا پڑے گا کہ پچھلے اڑھائی برسوں میں اس نے کیا کیا اور باقی اڑھائی سال میں کیا کیا جائے گا؟ ۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ اب وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت حکومتی کارکردگی بہتر کرنے پر لگائیں۔ ایک حکومتی وزیر سے جب اس تناظر میں بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا ’’ہر گزرتے دن کیساتھ ساتھ اب دبائو محسوس کر رہے ہیں۔ ‘‘شہر اقتدار میں موجود تجزیہ کاروں کا بھی خیال ہے کہ اب فیصلہ کن سیاسی لڑائی سینیٹ انتخابات کے بعد ہی ہوگی اور یقیناً اس وقت ایجنڈا بھی نیا ہو گا۔ کیوں کہ جب حکومت کو سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل ہو جائے گی تو پھر کسی بھی دبائو کے ذریعے وزیر اعظم کو گھر بھیجنا مشکل ہو جائے گا۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں