1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لیڈر وہ ہے جو وعدے کوپورا کرے !

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از احتشام محمود صدیقی, ‏15 اکتوبر 2013۔

  1. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    لیڈر وہ ہے جو وعدے کوپورا کرے !
    [​IMG]
    کیا انتخابی وعدے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے ہوتے ہیں ؟ سیاسی منشور لوگوں کو خواب دکھاکر صرف ووٹ بٹورنے کے لئے ہوتے ہیں؟ کیا ملک میں انتخابات محض ایک دھوکہ ہوتے ہیں؟انتخابی مہم میں خوشحالی کے خواب دکھانے اور روشن پاکستان بنانے کی دعویدارجماعت نے ا قتدار میں آتے ہی بجائے اس کے وعدے پورے کرتی الٹا اپنے وعدوں سے یوٹرن لیتے ہوئے ایسے عوام دشمن اقدامات کرنے اور پالیسیاں بنانی شروع کردیں جس سے پورے ملک میں کہرام برپا ہو گیا۔ لوگوں نے مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافے کے خلاف چیخ و پکار شروع کر دی ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کے جو لوگ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد بجلی، گیس، پیٹرول، ڈیزل اور دوسری چیزوں کی قیمتوں میں کمی اور ان کے نتیجے میں آٹا، چاول، دودھ، دالوں، تیل، مرچ، پیاز، لہسن، سبزیوں اور دوسری اشیاء کے سستا ہونے کی امید کررہے تھے، وہ مایوسی اور ناامیدی کی گہری دلدل میں ڈوب رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے پہلے تین ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح 10 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ غربت کی ماری عوام پہلے ہی کمر توڑمہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی اس افتاد نے بے کس عوام کو خود کشی اور اپنے جگر گوشوں تک کو بیچنے پر مجبور کردیا ہے۔حکومت کی طرف سے پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ نہ صرف عوام پر بجلی بن کر گرا ہے بلکہ اس سے صنعتوں اورکمرشل اداروں کی پیداواری لاگت بھی کئی گنا بڑھ جانے کا اندیشہ ہے جس سے مہنگائی کا بے کراں سیلاب آنے والا ہے۔ روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتیں آسمان پر پہنچادی گئی ہیں جس سے غریب عوام شدید مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے نصف سے زائد آبادی کے گھریلو بجٹ کنٹرول سے باہر ہوچکے ہیں اور انہیں گزارا کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے کی جانے والی بچتیں اب بلوں کی ادائیگیوں میں ہی صرف ہو رہی ہیں۔ اس وقت ملک کی صورتحال ایسی ہے کہ ہر شخص ابترحالات کا رونا رو رہا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومتی ایوانوں میں ایماندار انسان بہت ہی کم اور ایسے خاندانی حکمرانی کے خوگر، بدعنوانی و اقربا پروری کی گندگی میں لتھڑے نااہل و نالائق فراڈیے زیادہ ہیں جواپنی عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے کے عادی ہیں۔ ہر کاروبار میں اب مافیا کا راج نظر آ رہا ہے۔ ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ ساتھ دودھ ،گوشت اور انڈے جیسی اشیاء کے کاروبار پر بھی ایسے بااثر افراد اور خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے جو حکومت اور اپوزیشن دونوں میں فیصلہ کن طاقت رکھتے ہیں چنانچہ اشیاء کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار پر ان بااثر عناصر سے باز پرس کرنے کی کون ہمت کر سکتا ہے؟ عوام سے کمایا ہوا ناجائز منافع ڈالروں کی شکل میں ملک سے باہر بھیجا جارہا ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی، بدامنی، دہشت گردی اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے ہیں، اب کیا حکومت ان سے دو وقت کی روٹی کا حق بھی چھین لینا چاہتی ہے؟۔ صورت حال ایسی ہوگئی ہے کہ مذکورہ نرخوں کو جواز بناکر ایک جانب کئی ضروری اشیاء کی قیمتیں دکانوں پر سابق نرخوں سے زیادہ وصول کی جارہی ہیں تو دوسری جانب ذخیرہ اندوزوں نے مزید منافع کی خاطر کئی چیزیں مارکیٹ سے غائب کرنا شروع کردی ہیں۔ ٹرانسپورٹرز نے کرائے بڑھانے کے اشارے دینے شروع کردیئے ہیں اور فلور مل مالکان بھی آٹے کے دام بڑھانے کے لئے پرتول رہے ہیں۔بے حس حکمرانوں نے ظلم کی انتہا کردی ہے ۔ لوڈ شیڈنگ شدہ بجلی کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیں کررہی ہیں ان میں یک بارگی اتنا بڑا اضافہ سنگین نتائج برآمد کرے گا۔ یہ اضافہ تنخواہ دارعوام اور خصوصاً نجی اداروں کے ملازمین کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے جن کی اپنی تنخواہوں میں اضافے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔ اگر چہ عدالت عالیہ کے ازخود نوٹس کے بعد حکومت نے بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا نوٹیفکیشن فی الحال تو واپس لے لیا ہے لیکن اندیشہ ہے کہ بکرا قسطوں کی مانند حکومت کسی نہ کسی طرح دوبارہ لاگو کرانے کی کوئی صورت ضرورتلاش کرے گی کیونکہ قرضہ لینے کے لئے ان کا آئی ایم ایف سے یہی تومعاہدہ ہواہے۔ اس وقت موجودہ صورتحال میں عوام سخت کنفیوژن کا شکار ہے کہ آخر اس ملک کا کیا ہونے والا ہے؟۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ نئی حکومت سے انہیں جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں اور وہ بھی سابق حکومت کی طرح حکومتی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کو ہی آسان ذریعہ سمجھتی ہے۔ ایک طرف تو عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں تو دوسری جانب ملک میں ان کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے تمام طبقات بلا امتیاز متاثر ہورہے ہیں۔ یہ باتیں ہم جیسے عوام الناس ہی نہیں کہہ رہے بلکہ ملک کے معاشی ماہرین بھی یہی کہہ رہے ہیں جیسے اسٹیٹ بینک کے گورنر کا کہنا ہے کہ ” رواں سال مالی خسارہ 6.3 فیصد رہے گا۔ پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں پر دباوٴ بڑھ رہا ہے۔ ڈھائی ماہ میں حکومت نے 547 ارب روپے قرض لیا تاہم لگتا ہے کہ نئی حکومت معاشی اصلاحات کر نا چاہ رہی ہے لیکن بامعنی ٹیکس اصلاحات کا اب بھی فقدان ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا گرانی کی صورتحال پر اثر معمولی نہیں ہوگا۔ اس سے نہ صرف گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت پر براہ راست اثر پڑے گا بلکہ خاصے بالواسطہ اثرات کا بھی بہت امکان ہے۔ اسی طرح جی ایس ٹی میں اضافے کے ساتھ بعض استثنیٰ کے خاتمے سے آئندہ مہینوں میں گرانی پر مزید دباوٴ پڑ سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے پیش نظر تیل کی قیمتوں کی صورتحال بھی بگڑ سکتی ہے۔“
    عوام اور معاشی ماہرین حکومت سے کیا چاہتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔ عوام چاہتے ہیں کہ حکمراں ٹیکس نہ بڑھائیں بلکہ ریونیو بڑھائیں ۔صرف بجلی اور گیس کی چوری روکنے سے غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ بجلی اور گیس کا ٹیرف بڑھنے سے چوری کا رجحان مزید بڑھے گا۔ قومی اداروں کی نجکاری اور بھارت کو(MFN) انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کے فیصلے محض سیاسی مقاصد کے تحت نہ کیے جائیں۔ اکنامک مینجمنٹ کا نظام ترجیحی بنیادوں پر بہتر بنایا جائے۔ حکومت کو سخت شرائط پر قرض لینے کی بجائے بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات بڑھانی اور افراط زر کم کرنے کے حوالے سے بامعنی اور مئوثرپالیسیاں بنانی چاہئیں۔ بڑے اداروں کی نجکاری کی نہیں، تنظیم نو اور بدعنوانیوں کے خاتمے کی ضرورت ہے ۔حکومت اسٹیٹ بینک سے مزید قرض نہ لے۔ ٹیکس محصولات کم ہونے کی وجہ سے تعلیم اور صحت کے منصوبوں کیلئے بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ مہنگائی کی صورت میں سامنے آتا ہے لہٰذا ٹیکس وصولی کے قابل عمل اور شفاف نظام کو رائج کیا جائے۔ سرکاری اداروں میں بدعنوانیوں کے خاتمے کے لئے احتساب اور شفافیت کا چلن عام کیا جائے، سیاسی تقرریوں سے گریزاور چوروں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔ بجلی اور گیس کے بڑے بڑے بااثر نادہندگان سے بلوں کے پیسے وصول کئے جائیں اور بینکوں سے قرضے معاف کرا کے قوم کے اربوں کھربوں روپے ڈکارنے والے سیاستدانوں کے حلق سے یہ رقوم واپس نکالی جائیں نہ کہ اس خسارے کو عوام کا خون چوس کر ان سے وصول کیا جائے۔کیا موجودہ حکومت یہ سب کرنے کی ہمت و صلاحیت رکھتی ہے؟ ایک نیب کے سربراہ کی تقرری کے لئے کیا کیا تماشے دیکھنے کو مل رہے ہیں تو قوم احتساب کی کیا امیدیں لگا کر بیٹھے؟کیا ستم ظریفی ہے کہ جس قوم نے اپنے آزادی ووٹ کی طاقت سے حاصل کی آج اس کے ووٹ کی یہ توقیر ہو گئی ہے کہ ہر الیکشن میں اسے بدترین لوگوں میں سے کم برے کا انتخاب کرنا پڑے۔ جب ایوانوں میں بیٹھے سیاست دانوں کی اکثریت بیرون ملک کاروبار کر رہی ہو تو اسے ملک کی عوام کی حالت زار کی کیا پرواہ ہوگی؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ ایسے افراد کو ہر سطح کے الیکشن کے لئے نا اہل قرار دیا جائے جو ملک سے باہر کاروبار رکھتے ہوں اور الیکشن سے قبل وہ کم از کم تین سال سے ملک میں مقیم نہ ہوں۔۔۔۔ انتخابی مہم میں میاں نواز شریف نے بھاری مینڈیٹ کی فرمائش کی تاکہ وہ کسی کی بلیک میلنگ میں آئے بغیر اپنے حکومت کو آزادی کے ساتھ چلا سکیں اور اپنے منشور کی روشنی میں پاکستان کی تعمیر نو کریں۔۔ اب جبکہ انہیں مطلوبہ مینڈیٹ حاصل ہے تو جوانمردی دکھائیں۔۔اپنے وعدے وفا کر کے دکھائیں۔۔ کیونکہ لیڈر وہی ہے جو وعدے کوپورا کرے ۔۔!!! ۔
    سید شہزاد عالم…جیو
     
    نعیم اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کرپٹ نظام کا شاخسانہ یہی ہے کہ اس میں نااہل افراد جو شاید اپنے گلی محلے کے معاملات بھی سلجھانے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں وہ کرپشن کی سیڑھی پر قدم جماتے ہوئے ملکی اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔

    کرپٹ نظامِ " جمہوریت " کا شاخسانہ ۔۔۔ الیکشن 2013

    ٹوٹل آبادی : 18،5 کروڑ
    ٹوٹل رجسٹرڈ ووٹر: 8،5 کروڑ تقریبا
    کاسٹ کیے گئے ووٹ : 54 فیصد = 4،58 کروڑ تقریبا
    ن لیگ کے حاصل کردہ ووٹ : 1،5 کروڑ (حقیقی و جعلی سب ملا کر)

    اب اندازہ کرلیں کہ یہ کیا جمہوریت ہے؟ جس میں جمہور یعنی اکثریتی عوام میاں نواز شریف کو بطور لیڈر پسند ہی نہیں کرتی۔ 18 کروڑ عوام میں سے 16،5 کروڑ ایک شخص کو لیڈر ہی تسلیم نہیں کرتے۔
    یا یوں کہہ لیں کہ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے بھی 7 کروڑ عوام خلاف ہیں۔ اور بوگس و صحیح ووٹ ملا کر محض ڈیڑھ کروڑ عوام کی حمایت سے ایک شخص پورے ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا ہے۔

    ڈاکٹر طاہرالقادری کے دیے گئے مجوزہ " نئے نظام " کے تحت صدر یا وزیراعظم کا (بطور سربراہ ریاست) براہ راست انتخاب عوام کے ووٹ سے ہوگا ۔ اور اسکے لیے کوئی گلی محلے میں انتخابی دفتر کھول کر ، دیگیں پکا کر، بجلی کے کھمبے اور گلیوں کی اینٹیں لگوا کر الیکشن مہم نہیں چلائے جائے گی۔ بلکہ 4-6 مہینہ پہلے ٹی وی چینل پر امیدواروں کے درمیان بحث مباحثات اور ڈیبیٹس ہوں گی۔ ملک کو درپیش مختلف ایشوز پر سوال و جواب ہوں گے۔ عوام کو بھی براہ راست کال کرکے سوال پوچھنے کا حق ہو ۔۔ اور رہنما اپنی صلاحیت کے مطابق اسکا جواب دے۔ ایسے ٹاک شوز کے ذریعے عوام کو بھی معلوم ہو کہ کون کتنے پانی میں ہے ؟
    پھر منصفانہ جدید تکنیکی نظام کے تحت شفاف و منصفانہ انتخابات کروائے جائیں۔ اور جو سربراہ منتخب ہو اسے اپنی کیبنٹ بنانے میں اور اپنے پروگرام پر عمل درآمد کرنے میں آزادی ہو۔ کیبنٹ اور پارلیمنٹ کی سیٹ کے لیے تعلیم و اخلاقیات کا معیار ہو اور اس پر سختی سے عمل درآمد ہو۔

    اگر ایک ہی الیکشن ایسے نظام کے تحت ہوجائے تو موجودہ کرپٹ و نااہل و بےغیرت " لیڈران " کی فہرست میں سے 80۔90 فیصد ویسے ہی چھانٹی ہوجائے گی ۔ اور اہل، باصلاحیت، محب وطن اور متوسط طبقے سے قیادت باآسانی سامنے آسکتی ہے۔

    لیکن ایسے نئے نظام کے لیے پہلے سے اس فرسودہ نظام اور اسکے رکھوالوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ان کے خلاف سینہ سپر ہونا ہوگا۔ وگرنہ اسی فرسودہ و کرپٹ نظام کے اندر رہ کر تبدیلی کا خواب ایک خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ الیکشن 2013 میں تحریک انصاف اور عمران خان کا حشر سب کے سامنے ہے۔ جو اب قدم قدم پر ہر انٹرویو میں یہی کہتے پھر رہے ہیں کہ

    "ڈاکٹر طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے "
     
    Last edited: ‏25 اکتوبر 2013
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    یہ داستان تو پرانے پاکستان کی ہے نئے پاکستان میں یوٹرن لینا یعنی اپنی کہی بات سے مکر جانا عظیم لیڈر کے ہونے کی نشانی ہے
     
  4. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ازلی رنڈی رونا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں