1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لانگ مارچ آپشن ہے یا نہیں ؟ ۔۔۔۔ سلمان غنی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏5 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    لانگ مارچ آپشن ہے یا نہیں ؟ ۔۔۔۔ سلمان غنی

    پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس کیا نتیجہ خیز ہو سکے گا؟ کیا اپوزیشن اتحاد اپنے آئندہ اقدام کے حوالے سے یکسو ہوگا؟ کیا اپوزیشن اپنی احتجاجی تحریک میں حکومت پر دبائو بڑھا پائے گی؟ اس حوالے سے مذکورہ اجلاس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ نئی پیدا شدہ صورتحال میں کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کیلئے اپنے آئندہ اقدام کے حوالے سے فیصلہ بہت مشکل ہوگا،
    اجلاس کے ایجنڈے میں سینیٹ انتخابات میں مشترکہ امیدواروں کا تعین اِن ہائوس تبدیلی کا آپشن، لانگ مارچ اور ایوانوں سے استعفوں سمیت متعدد امور زیر غور آئیں گے ۔ اب تک کی حکمت عملی پر غور کیا جائے تو جس صورتحال میں پی ڈی ایم کا قیام عمل میں آیا اور بعد ازاں احتجاجی جلسوں کا عمل شروع ہوا تو حکومت کو دفاعی محاذ پر آنا پڑا، بظاہر اپوزیشن قیادت مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور حکومتی2 سالہ کارکردگی کو ٹارگٹ کرتی نظر آئی، اس حوالے سے حکومت کو اقدامات بھی کرنا پڑے، لیکن جوں جوں جلسوں کا سلسلہ آگے بڑھا توں توں خود پی ڈی ایم کے اندر کنفیوژن بڑھتی چلی گئی ۔ لاہور کے جلسے کے بعد استعفوں کے آپشن خصوصاً سینیٹ اور ضمنی انتخابات کے حوالے سے اپوزیشن اتحاد نے اپنے طے شدہ ایجنڈے سے انحراف کیا۔ پیپلز پارٹی شروع سے ہی ایسے کسی اقدام کے حق میں نہیں تھی جسکے نتیجے میں اسے سندھ حکومت سے ہاتھ دھونا پڑیں، بظاہر وہ اپوزیشن کے ساتھ کھڑی نظر آئی، حکومت کو ٹارگٹ کرتی دکھائی دی لیکن مقتدرہ کے حوالے سے فاصلے پر کھڑی دکھائی دی۔ یہی وجہ تھی کہ لاہور کے جلسے کے بعد ان کی جانب سے اعلان کر دیا گیا کہ وہ ضمنی انتخابات میں حصہ لے گی اور سینیٹ کا محاذ بھی خالی نہیں چھوڑا جائیگا ۔ یہی وہ مرحلہ تھا جو مسلم لیگ (ن )کیلئے بڑا امتحان تھا کیونکہ ایک جانب وہ مولانا فضل الرحمن کی ہم خیال بن کر مقتدرہ کو ٹارگٹ کرتے ہوئے حکومت سے جان چھڑانا چاہتی تھی تو دوسری جانب ضمنی انتخابات خصوصاً سینیٹ کے انتخابات کا بائیکاٹ بھی اسکے فائدے میں نہیں تھا، لہٰذا بوجوہ اسے بھی بڑی سیاسی قوت کے طور پر وہی کچھ کرنا پڑا جو پیپلز پارٹی نے کیا۔دونوں بڑی جماعتوں کے اس اقدام کے اثرات بحیثیت مجموعی پی ڈی ایم اور احتجاجی عمل پر اثر انداز ہوئے اور ایسی خبریں آئیں کہ مولانا فضل الرحمن بھی دونوں بڑی جماعتوں کی اس پالیسی سے نالاں ہیں اور یہ کہ وہ پی ڈی ایم کی سربراہی چھوڑ سکتے ہیں۔ لیکن انہوں نے پی ڈی ایم کی سربراہی تو نہ چھوڑی البتہ حالات کے رخ کے اثرات خود ان کے احساسات اور جذبات پر بھی غالب نظر آئے اور ان کی جانب سے اس بیان نے کہ’’ مقتدرہ نہیں حکومت کیخلاف ہیں‘‘ ان کی طے شدہ حکمت عملی اور ان کے واضح مؤقف سے انحراف نظر آیا لہٰذا ایک بات جو اب تک کی پی ڈی ایم کی حکمت عملی سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ اب ان کا ٹارگٹ مقتدرہ نہیں حکومت ہے۔ بعض لوگ تو مولانا فضل الرحمن اور پی ڈی ایم کے نقطۂ نظر میں تبدیلی کے اس عمل کو مستقبل میں کسی سیاسی اپ سیٹ کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں جس کا پتہ آج پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے فیصلوں سے چلے گا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے اِن ہائوس تبدیلی کے آپشن کو بروئے کار لانے کی بات بھی ایک خاص مائنڈ سیٹ کا حصہ سمجھی جا رہی ہے تا کہ لانگ مارچ کے اقدام سے بچا جائے۔

    جہاں تک اِن ہائوس تبدیلی کی بات ہے تو آج کے حالات میں یہ ممکن نہیں خصوصاً مسلم لیگ( ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اراکین تو اسے خارج از امکان سمجھتے ہیں، ویسے بھی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کی روایت تو ہے مگر یہ کامیاب نہیں ہو گی۔ حقیقت یہی ہے کہ ایسی کوئی تحریک اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی جب تک اس کے پیچھے کچھ اور قوتوں کی تائید و حمایت نہ ہو اور اب جب پیپلز پارٹی اِن ہائوس تبدیلی کی بات کرتی ہے تو اس کا بڑا مقصد لانگ مارچ سے پہلو تہی ہے، لہٰذا آج کے اجلاس میں مسلم لیگ( ن) سمیت دیگر ان سے ضرور استفسار کرتے نظر آئیں گے کہ کیا اِن ہائوس تبدیلی کیلئے ہمارے پاس مطلوبہ نمبرز ہیں؟ اور اگر پی ڈی ایم کی جماعتوں کے علاوہ کسی کی تائیدو حمایت ایسی کسی تحریک کیلئے ہو سکتی ہے تو کیا وہ ثابت قدم رہ پائیں گے؟

    واقفانِ حال تو یہاں تک کہتے نظر آ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے اِن ہائوس تبدیلی کا آپشن بروئے کار لانے کی بات ہی اس لیے ہے کہ اگر یہ پیش ہوتی ہے اور اس کے بعد کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی تو پھر آئندہ 2سال کیلئے حکومت کو ٹف ٹائم دینا مشکل ہو گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کیلئے5 سالہ مدت پوری کرنے کی حکمت عملی اسی کا شاخسانہ ہے، جس سے مسلم لیگ( ن) اور خصوصاً جمعیت علماء اسلام(ف) اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اتفاق نہیں کریں گے اور اگر پیپلز پارٹی اس آپشن کو بروئے کار لانے پر مصر نظر آتی ہے تو اسے پی ڈی ایم کی قیادت کو مطمئن کرنا ہوگا اور بتانا پڑے گا کہ یہ کیسے نتیجہ خیز ہو سکتا ہے؟

    جہاں تک حکومت کیخلاف اپوزیشن کے لانگ مارچ کا تعلق ہے تو باوجود اس امر کے کہ مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ( ن) اس پر مصر ہیں، لیکن یہ کب اور کیسے ہوگا؟ اس حوالے سے وہ ابھی یکسو نہیں۔ پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت مخالف تحریک اور احتجاج میں ان کا ٹارگٹ سینیٹ انتخابات تھے اور ہیں اور اب جب وہ خود سینیٹ انتخابات کا حصہ بن رہے ہیں اور مشترکہ امیدواروں کیلئے کوشش کی جاری ہے تو پھر وہ کیسے اس حکومت کو ہٹانے اور ہلانے کی پوزیشن میں ہوں گے؟

    سیاسی تحریکوں کے حوالے سے ایک بات طے ہے کہ اس میں حکومت کیخلاف آپشنز اس طرح سے بروئے کار لائے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں حکومتیں دبائو کا شکار ہوتی ہیں، دفاعی محاذ پر آتی ہیں اور پھر اپوزیشن سے مذاکراتی عمل شروع ہو تا ہے۔ لیکن اگر طے شدہ حکمت عملی پر عملدرآمد میں ایک دفعہ رکاوٹ پیدا ہو جائے اور احتجاجی غبار اترنا شروع ہو تو پھر ایسی تحریک نتیجہ خیز نہیں ہوتی، لہٰذا حکومت کیخلاف اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کی ناکامی کو بڑی ناکامی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ا ٓج کے پی ڈی ایم اجلاس کے حوالے سے یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ اجلاس کسی آئندہ اقدام کے حوالے سے نتیجہ خیز ہو گا، البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ اتحادکے مستقبل کے حوالے سے اہم ہوگا۔



     

اس صفحے کو مشتہر کریں