1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قِصہ فلسطینی مجاہدہ لیلیٰ خالدکا ۔۔۔ طیبہ بخاری

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏23 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    قِصہ فلسطینی مجاہدہ لیلیٰ خالدکا ۔۔۔ طیبہ بخاری

    ''جہاز کا رُخ دمشق کی طرف موڑ دو،دمشق جانے سے پہلے میں اپنی جائے پیدائش، وطن مالوف حیفہ کو دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘
    یہ حکم ایک نقاب پوش فلسطینی لڑکی لیلیٰ خالد کا تھا جو اس نے پائلٹ کو دوران پرواز دیا ۔ پائلٹ نے حکم کی تعمیل کی ،جہاز دمشق میں اتار لیا گیا۔ مسافروں کو یرغمال بناکرفلسطین کی آزادی کا مطالبہ کیا گیا۔یوں پوری دنیا کی توجہ فلسطینیوں پر صہیونی مظالم کی طرف مبذول ہوئی۔ پھر یہ ہوا کہ مذاکرات کے بعد اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور ہائی جیکرز کی بحفاظت واپسی کی شرائط پر تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا۔
    لیلیٰ خالدکا نام آتے ہی ذہن میں بہت سے سوال ابھرتے ہیں ، کون ہیں وہ ؟ ایک مجاہدہ۔۔۔ فلسطینی محبوبہ ۔۔۔جھانسی کی رانی ، رضیہ سلطانہ جیسا کردار یا دنیا کی پہلی خاتون ہائی جیکر ؟ اس کردار پر تحقیق اور بہت سوچ بچار کی ضرورت ہے لیکن اس سب سے پہلے یہ چند اشعار ذہن میں محفوظ رکھیے گا کہ
    اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
    جس دیس میں انساں کی حفاظت نہیں ہوتی
    مخلوقِ خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو
    سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی
    ہر شخص سر پہ کفن باندھ کے نکلے
    حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی
    9اپریل 1944ء کو حیفا میں پیدا ہونیوالی لیلیٰ خالد نے بھی حق کیلئے لڑنے کی ٹھانی کیونکہ وہ اپنے فلسطین کو آزاد اور محفوظ دیکھنا چاہتی تھی، اسی خواہش کو پورا کرنے کیلئے اور فلسطینیوں کو زندہ دیکھنے کیلئے لیلیٰ نے بچپن میں ہی فلسطین کی تحریک آزادی میں شمولیت اختیار کی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس تنظیم کی متحرک کارکن بن گئیں۔وہ سر پہ کفن باندھ کے نکلیں لیلیٰ اور ان کے ساتھیوں نے 1968ء اور1971ء کے درمیانی عرصے میں 4 جہازاغوا ء کئے۔ فلسطین لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد لیلیٰ نے پہلاجہاز 29اگست 1969ء کو ہائی جیک کیا یہ بوئنگ 707جہاز تھا۔ یہ جہاز اٹلی سے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب جا رہا تھا اطلاع یہ تھی کہ اسرائیل کے وزیر اعظم اضحاک رابن بھی اس فلائیٹ کے مسافروں میں شامل ہیں۔ جیسے ہی جہاز ایشیاء کی فضائی حدود میں داخل ہوا نقاب پوش لڑکی (لیلیٰ خالد ) نے جہاز کا کنڑول اپنے ہاتھ میں لے لیالیلیٰ اور اسکے ساتھی بموں سے مسلح تھے۔ پائلٹ کے پاس حکم کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہ تھا
    اس واقعے کے بعد لیلیٰ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئی ہر جگہ اس کی بہادری کے چرچے تھے، ٹی وی چینلز اور اخبارات نے اس کے انٹر ویو زنشر اور شائع کئے۔ اب وہ کوئی عام لڑکی نہیں ایک بہادر مجاہدہ اورعالم اسلام کی آنکھ کا تارا بن چکی تھی اُس کی تصویروں کو اتنی شہرت ملی جو پہلے کسی مسلمان خاتون کو نہیں ملی تھی۔ اسکی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا تھا کہ یورپ میں رہنے والی لڑکیوں نے اسکے ہر انداز کو کاپی کیا اس کے بالوں سے لیکر سکارف حتیٰ کہ لیلیٰ کی وہ انگوٹھی جس میں کوئی پتھرنہیں گولی جڑی ہوئی تھی اسے بھی کاپی کیا گیا ۔
    پہلی ہائی جیکنگ کے بعد لیلیٰ نے 6 بار پلاسٹک سرجری کروائی اور اپنی صورت مکمل طور پر تبدیل کر لی۔ 6 ستمبر 1970ء کو انہوں نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر ایمسٹرڈیم سے نیویارک جانے والی پرواز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی اس طیارے کو برطانیہ کے ایئرپرپورٹ پر اتار لیا گیا۔ لیلیٰ کے ساتھی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جبکہ انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ فلسطینی مجاہدین نے ایک اور طیارہ ہائی جیک کر لیا۔ مذاکرات ہوئے اور لیلیٰ خالد کی رہائی کا مطالبہ کیا گیایوں لیلیٰ کو قید سے رہائی ملی۔ لیلیٰ نے اپنی سوانح عمری ''My people shall live‘‘ میں اپنی کہانی کھل کر بیان کی ہے یہ دل کو دہلادینے والی کہانی ہے، یہ کتاب 1973ء میں شائع ہوئی۔ لیلیٰ کی زندگی پر 2005ء میں فلم'' Leila Khaled Hijacker‘‘ کے نام سے بنائی گئی اس فلم کو ایمسٹرڈم کے فلمی میلے میں خوب پذیرائی ملی۔
    یہ تو تھی طیارے ہائی جیک کرنے کی کہانی ۔۔۔ اب ہم آپ کو 2سال پہلے کا قصہ سناتے ہیں، لیلیٰ ابھی حیات ہیں انہیں آج بھی فلسطینی علاقوں میں ایک آئیکون کی حیثیت حاصل ہے۔ ستمبر 2020ء کا ذکر ہے کہ سان فرانسسکو سٹیٹ یونیورسٹی کی جانب سے منعقد کردہ ایک ویڈیو ٹاک کو زوم کی جانب سے اس لئے منسوخ کر دیا گیا کیونکہ اس میں لیلیٰ بطور مقرر مدعو تھیں۔لیلیٰ کو یونیورسٹی میں جس مباحثے کیلئے مدعو کیا گیا تھا اس کا عنوان'' کس کا بیانیہ؟ صنف، انصاف اور مزاحمت‘‘ تھا۔اس گفتگو میں ان کے ساتھ دیگر شرکا ء میں لارا وائٹ ہارن بھی مدعو تھیں جو 1983ء میں امریکی سینیٹ پر بم حملوں میں ملوث ہونے پر 14 برس کی جیل کاٹ چکی ہیں۔اس کے علاوہ سیکو اوڈینگا بھی مدعو کیے گئے افراد میں شامل تھے جنہیںامریکہ میں بلیک لبریشن آرمی کی اپنی رکنیت سے منسلک الزامات کی وجہ سے کئی دہائیوں تک قید میں رکھا گیا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف حلقوں بشمول اسرائیل سے منسلک گروہوں کی جانب سے اعتراض اس گفتگو میں صرف لیلیٰ خالد کی موجودگی کیخلاف اٹھایا گیا۔دی ورج نامی اشاعتی ادارے کو دئیے گئے ایک بیان میں زوم کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے یہ ویبینار منسوخ کیا ۔ ترجمان کے الفاظ تھے کہ ''چونکہ یہ مقرر بظاہر امریکہ کی جانب سے دہشتگرد قرار دی گئی تنظیم سے تعلق رکھتی ہیں اور یونیورسٹی نے اس کے برخلاف کوئی تصدیق نہیں کی ، اس لیے ہمارا فیصلہ ہے کہ یہ زوم کے استعمال کی شرائط و ضوابط کے خلاف ہے اور ہم نے یونیورسٹی کو بتا دیا ہے کہ وہ اس ایونٹ کیلئے زوم استعمال نہیں کر سکتے ۔‘‘ اس کے بعد یوٹیوب نے بھی اس ایونٹ کی لائیو سٹریم کو شروع ہونے کے چند منٹ بعد ہی ہٹا دیا ۔فیس بک نے بھی اس گفتگو کیلئے بنائے گئے ایونٹ کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا۔
    یہ قصہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ آخر کب تک دنیا تصویر کا ایک رخ دیکھتی رہے گی کب تک مسئلہ فلسطین پر صرف ایک ہی فریق یعنی اسرائیل کو سنا جائے گا دوسرے فریق فلسطینیوں کی آواز کو کب تک جبر اور ظلم سے دبایا جاتا رہے گا ۔۔۔کب تک آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہے گی یہ سلسلہ نہ رکا تو لیلیٰ خالد جیسے کردار جنم لیتے رہیں گے کیونکہ ''حق کیلئے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی ۔‘‘

     

اس صفحے کو مشتہر کریں