1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قاضی حسین احمد مرحوم کی ایک تحریر

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نذر حافی, ‏1 جولائی 2013۔

  1. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    تحریر: قاضی حسین احمد مرحوم
    جماران چناروں میں گھری ہوئی تہران کی ایک مضافاتی دیہاتی بستی ہے۔ آیت اللہ امام جمارانی جماران کی ایک ہر دلعزیز دلچسپ علمی شخصیت ہیں۔ خمینی ان کا نام ہے جب کہ امام خمینی ان کا لقب ہے۔ ان کی دوسری امتیازی خوبیوں کے علاوہ انہیں یہ افتخار بھی حاصل ہے کہ امام خمینی جب امام خمینی کی بجائے ابھی آیت اللہ روح اللہ خمینی تھے تو انہوں نے انہیں جماران میں اپنا دیہاتی مکان رہائش کے لئے دیا تھا، جس میں اس وقت امام خمینی کے پوتے سید حسن خمینی رہائش پذیر ہیں۔ اس چھوٹے مگر صاف ستھرے اور سادہ مکان میں حسن خمینی سے ایک ملاقات ہوئی، جس میں میں نے انہیں جماعت اسلامی کے چار نکاتی طریقہ کار کے بارے میں بتایا اور انہیں یہ بھی بتایا کہ یہ پروگرام قرآن و سنت کی تعلیمات سے اخذ کیا گیا ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہماری دعوت کسی لیڈر یا کسی جماعت کی طرف نہیں بلکہ اللہ کی بندگی کی طرف ہے، جو لوگ ہماری اس دعوت کو قبول کریں ہم ان کی تربیت کرتے ہیں، انہیں حرام و حلال سمجھاتے ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنی زندگی سے دو رنگی اور ہر طرح کی منافقت نکال کر یک رنگی اختیار کرلیں اور اللہ جس رنگ میں ایک موٴمن کو رنگنا چاہتا ہے وہی رنگ اختیار کریں۔ اس تربیت یافتہ اور یک رنگ گروہ کو ہم اللہ کے بندوں کی خدمت میں لگا دیتے ہیں اور اللہ کے بندوں کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انہیں اللہ کی بندگی کی طرف بلایا جائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم ان کی تعلیم اور ان کی دوسری انسانی ضروریات کی طرف بھی توجہ دیتے ہیں۔ چوتھا اور آخری نکتہ یہ ہے کہ اس طرح جو رائے عامہ تیار ہوتی ہے ہم انہیں ایک اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ قائم کرنے کے کام پر لگاتے ہیں، تاکہ اللہ کے بندے بندوں کی غلامی سے نکل کر بندوں کے رب کی غلامی میں آجائیں۔ میں نے حسن خمینی کو بتایا کہ یہ سارا کام ہم اس لئے کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ص) نے دین کی سربلندی، جسے قرآن کریم میں اقامت دین کی اصطلاح سے تعبیر کیا گیا ہے، کیلئے یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔ اسے قرآن کریم میں اعلائے کلمتہ اللہ، اظہار دین اور نظام عدل و انصاف اور نظام قسط کے قیام سے بھی تعبیر کیا ہے اور قرآن کریم کی متعدد آیات میں صاف طور پر بیان ہوا ہے کہ اللہ کے نبی (ص) اس کام کے لئے مبعوث ہوئے تھے، بلکہ ایک آیت تو اس پہ شاہد ہے کہ سارے نبی اور ساری کتابیں اس لئے بھیجی گئی ہیں کہ لوگ "قسط" یعنی عدل و انصاف پر کھڑے ہو جائیں اور اللہ کے حقوق بھی ٹھیک ٹھیک ادا کریں اور بندوں کے حقوق بھی ٹھیک ٹھیک ادا کر دیں۔ حسن خمینی نے میرے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے ایران کے ایک مشہور مصلح ملا صدرا کا حوالہ دیا جو پچھلی صدی میں گزرے ہیں اور جنہوں نے تقریباً اس سے ملتا جلتا طریق کار ذرا مختلف انداز میں بیان کیا ہے اور وہ بھی سیرت رسول (ص) کی روشنی میں بیان فرمایا۔ پہلا نکتہ ہے "با خود" یعنی اپنی ذات کی طرف متوجہ ہونا۔ دوسرا نکتہ ہے "با خدا" اللہ کے ساتھ لو لگانا اور اللہ کے ساتھ جڑ جانا۔ تیسرا نکتہ ہے "از خدا بہ خلق" یعنی اللہ کا پیغام لے کر مخلوق کی طرف آنا۔ چوتھا نکتہ ہے"باخلق بہ خدا" لوگوں کو اللہ کے پاس لے جانا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلک کے اختلاف کے باوجود جو لوگ اخلاص کے ساتھ اللہ کا کام کرتے ہیں ان کی فکر اور طریق کار میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ سارے اختلافات اس وقت جنم لیتے ہیں جب ہم اللہ کے ساتھ رشتہ توڑ کر اپنے تعصبات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مجھے پنجاب کے قلب میں ایک دیہاتی علاقے میں ایک مرتبہ اہل تشیع کے ایک اجتماع میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ میں نے قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں جماعت اسلامی کے چار نکاتی پروگرام کی تشریح جماعت کا نام لئے بغیر ان کے سامنے رکھی۔ (1) تطہیر و تعمیر افکار۔ (2) تعمیر سیرت اور تنظیم۔ (3) اصلاح معاشرہ۔ (4) اصلاح حکومت۔ ایک گھنٹہ کی تقریر سنانے کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ کیا میں نے ان کے مسلک کے خلاف کوئی بات ان سے کہی ہے، سب نے بالاتفاق کہا کہ تمہاری باتوں میں ایسی کوئی بات نہیں تھی، جو ہمارے مسلک سے ٹکراتی ہو۔ علامہ محمد اقبال نے اپنی مایہٴ ناز کتاب اسرار خودی میں فرمایا اند کے اندر حرائے دل نشین ترک خود کن سوئے حق ہجرت گزین محکم از حق شو سوئے خود گامزن لات و عزیٰ ہوس را سر شکن لشکرے پیدا کن از سلطان عشق جلوہ گر شو برسر فاران عشق تا خدائے کعبہ بنوازد ترا شرح انی جاعل سازد ترا ان اشعار میں علامہ محمد اقبال نے بڑے دل نشین انداز میں اس طریق کار کو اجاگر کیا ہے جو حضور نبی کریم (ص) نے ایک اسلامی معاشرہ اور اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے اختیار کیا تھا اور اس دور کے مسلمان کو تلقین کی ہے کہ خلافت قائم کرنے کے لئے اس طریق کار کو اختیار کرے۔ فرماتے ہے کہ: کچھ مدت کے لئے دل کے "حرا" میں سکونت اختیار کرو، پھر اپنے آپ کو ترک کرکے "ذات حق" کی طرف ہجرت کر لو۔ ذات حق کے ساتھ محکم اور قوی رشتہ باندھ کر اپنی طرف متوجہ ہو جاؤ اور ہوس کے لات و عزی کو توڑ کر اپنی خودی کو مضبوط کر لو اور عشق کی قوت سے ایک لشکر جمع کرکے کوہ فاران کی طرح عشق کی ایک چوٹی پر جلوہ گر ہو جاؤ، تاکہ رب کعبہ تمہیں زمین میں اپنا خلیفہ بنا دے۔ مولانا مودودی، ملا صدرا اور علامہ اقبال کی فکر میں جو یک رنگی پائی جاتی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ یہ فکر قرآن کے نور سے اور حبیب مصطفٰی (ص) کی سیرت سے اخذ کی گئی ہے۔ سید قطب سے جب مصری عدالت میں پوچھا گیا کہ کیا اپنی کتاب جادہ و منزل (معالم فی الطریق) میں جو خیالات اس نے پیش کئے ہیں، یہ مولانا مودودی سے ماخوذ ہیں تو اس نے جواب دیا کہ"ہمارا دل و دماغ ایک ہی نور سے منور ہے اور یہ نور قرآن و سنت کا نور ہے۔" اس نور کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا، در دل مسلم مقام مصطفٰی است آبروئے ماز نام مصطفٰی است مسلمانوں کے دل میں مصطفٰی (ص) کامقام ہے۔ ہماری آبرو مصطفٰی (ص) کے نام سے قائم ہے۔ درشبستان حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید انہوں نے حرا کی تاریکیوں میں تنہائی اختیار کی۔ وہاں سے نکل کر قوم و آئین اور حکومت بنائی۔ ماند شبہا چشم او محروم نوم تابہ تخت خسروی خوابید قوم طویل راتوں تک ان کی آنکھیں نیند سے محروم رہیں۔ تاکہ ان کی قوم خسرو کے تخت پر بیٹھ جائے۔ از کلید دین در دنیا کشاد ہمچو او بطن ام گیتی نہ زاد انہوں نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا، ان کی طرح اس کائنات میں کوئی پیدا نہیں ہوا۔ در نگاہ او یکے بالاو پست با غلام خویش بر یک خوان نشست ان کی نظر میں سب انسان آپس میں برابر ہیں، اپنے غلام کے ساتھ ایک دستر خوان پر بیٹھ گئے۔ ان اشعار میں علامہ محمد اقبال مسلمانوں کو حضور بنی کریم (ص) کے ساتھ عشق و محبت کی تلقین کرکے ان کی کامل تقلید کرنے کی نصیحت کرتے ہیں اور ان کے اسوہٴ حسنہٴ اور سنت کی یہ بنیادی تعلیم دیتے ہیں کہ ان کی طرح دل کی حرا کی تنہائیوں میں اپنی طرف متوجہ ہو کر اپنے آپ کو پہچانیں، اس طرح وہ اپنے رب کی معرفت پیدا کر لیں گے۔ اپنے رب کے ساتھ کامل جوڑ پیدا کرکے اپنی خودی کو مستحکم کر لیں اور اپنی قوم کو حق کا پیغام دیں اور اپنی قوم کو ایک خدائی لشکر میں تبدیل کرکے اللہ کی زمین پر اللہ کی نیابت اور خلافت کے مستحق قرار پائیں۔ یہ وہ بنیادی تعلیم اور بنیادی سنت ہے جس کے بارے میں حضور بنی کریم (ص) نے فرمایا کہ من احیاء سنتی عند فساد امتی فلہ اجر ماتہ شہید جس نے میری امت کے فساد کے وقت میری سنت کو زندہ کیا تو اس کے لئے سو شہیدوں کا ثواب ہے۔ جو مصلح بھی قرآن و سنت کا مطالعہ تعصبات سے بالا تر ہو کر کرے گا، وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اللہ نے اپنے نبی (ص) کو دین حق کے غلبے کے لئے بھیجا تھا۔ انہوں نے اس کے لئے لوگوں کو دعوت دی، ان کی تربیت کی اور ایک زبردست جہاد کبیر کے ذریعے اللہ کے دین کو سربلند کیا اور یہی اللہ کی رضا حاصل کرنے کا راستہ ہے۔
    بشکریہ نوائے ملت نیٹ فورم
     

اس صفحے کو مشتہر کریں