1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قائد اعظم کا تصورِ پاکستان

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از نور, ‏23 دسمبر 2008۔

  1. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    السلام علیکم ۔ یومِ قائد اعظم 25 دسمبر کی مناسبت سے کچھ مطالعہ کررہی تھی تو یہ مضمون اپنی ، جامعیت، خالصیت، اور پختگی کے باعث متاثر کن لگا۔ سوچا آپ سب سے شئیر کروں۔ امید ہے محبانِ وطن اور محبانِ قائد اعظم کو پسند آئے گا۔

    قائد اعظم رحمۃاللہ علیہ کا تصور پاکستان

    تحریر: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

    پاکستان کا قیام تاریخ انسانی کا ایک عظیم واقعہ ہے۔ مسلمانان ہند کی سال ہا سال کی قربانیوں اور قائد اعظم کی ولولہ انگیز اور بابصیرت قیادت کا ثمر تھا کہ انگریزوں کی سازشوں اور ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود مسلمانان برصغیر نے چند سال کی محنت کے نتیجے میں کرہ ارض پر دنیا کا سب سے بڑی اسلامی مملکت قائم کرنے کا معجزہ کر دکھایا۔ لیکن آج جب ہم تاریخ کے اوراق میں جھانکتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پاکستان قائم ہونے کے باوجود ان مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہوا جو قیام پاکستان کے وقت پیش نظر تھے۔ آج ہمیں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قائداعظم، علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے پیش نظر وہ کیا مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے اتنی طویل جدوجہد کی گئی، جس کے لئے ان گنت قربانیاں دی گئی اور ہجرت کا ایک ایسا عظیم عمل وجود میں آیا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

    آج جب کہ قوم بانی پاکستان کا یوم ولادت منا رہی ہے یہ امر قابلِ غور اور انتہائی اہم ہے کہ قائد اعظم کے پیش نظر پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھا اور ان کے تصور کے مطابق پاکستان کا نظام اور پاکستان کی قومی زندگی کی ہیئت کیا ہونی چاہیے تھی؟ قائد اعظم کے بیسیوں بیانات اور ان کی تحریریں اس امر کو واضح کرتی ہیں کہ ان کا تصورِ پاکستان کیا تھا۔ 22 مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ہونے والا قائداعظم کا خطاب اس امر کو بہت تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ آپ نے اس خطاب میں ہندو مسلم اختلافات کی اس تاریخی اور نظریاتی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

    ’’یہ سمجھنا بہت دشوار بات ہے کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو مت کی حقیقت نوعیت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں مذاہب نہیں ہیں۔ فی الحقیقت یہ مختلف اور نمایاں معاشرتی نظام ہیں اور یہ ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم کی سلک میں منسلک ہو سکیں گے۔ ایک ہندی قوم کا تصور حدود سے بہت زیادہ تجاوز کر گیا ہے اور آپ کے بہت سے مصائب کی جڑ ہے۔ اگر ہم بروقت اپنے تصورات پر نظرثانی نہ کرسکے تو یہ ہند کو تباہی سے ہمکنار کر دے گا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کا دو مختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رسم و رواج اور ادب سے تعلق ہے۔ نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں نہ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں۔ دراصل وہ دو مختلف تہذیبوں سے متعلق ہیں جن کی اساس متصادم خیالات اور تصورات پر استوار ہے۔ یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں۔ ان کی رزم مختلف ہے، ہیرو الگ ہیں اور داستانیں جدا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن ہوتا ہے اور اسی طرح ان کی کامرانیاں اور ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہیں۔ ایسی دو قوموں کو ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کا جن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اور دوسری اکثریت ہو، نتیجہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی ہوگا اور آخر کار وہ تانا بانا ہی تباہ ہو جائے گا جو اس طرح کی ریاست کے لئے بنایا جائے گا۔ ‘‘

    یہی وہ تصور و نظریہ تھا کہ قائد اعظم نے جب بھی قیام پاکستان کی بات تو اس حقیقت کو انہوں نے شرح صدر کے ساتھ جابجا بیان کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک الگ خطہ کا مطالبہ بنیادی طور پر ایک ایسی سرزمین کے حصول کے لئے کوشش ہے جہاں وہ ایک ایسی مملکت قائم کرسکیں جس میں ان کے اپنے نظریاتی روحانی اور مذہبی آدرش تکمیل پذیر ہوسکیں اور وہ اپنی خواہشات کے مطابق نظام کو قائم کرسکیں جس کے اندر ان کے ایمان و ایقان اورنظریات کی بقا ہے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کے قیام کے اس مقصد کو بیان کرتے ہوئے نئی دہلی میں یکم اپریل 1940ء کو ارشاد فرمایا:

    ’’اس امر کے احساس ہی کی وجہ سے ہندو انڈیا کی مسلمان اقلیتوں نے آمادگی کے ساتھ قرارداد لاہور کی تائید کی تھی۔ ہندو انڈیا میں مسلم اقلیتوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا نو کروڑ نفوس پر مشتمل پورے مسلم ہند پر ہندو اکثریت کا راج مسلط کر دیا جائے جہاں انہیں اپنی روحانی، اقتصادی اور سیاسی زندگی کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ترقی دینے اور اپنا مستقبل خود سنوارنے کا موقع حاصل ہو اور ہندوؤں اور دیگر لوگوں کو بھی یہی موقع حاصل ہو۔ مسلمانوں کے وطن میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کی یہی صورت حال ہوگی۔

    میری رائے میں ایک فرقے کی دوسرے پر حکمرانی کرنے اور باقی ماندہ لوگوں پراپنی برتری قائم کرنے کی خواہش کی وجہ سے جو کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اس کے ختم ہو جانے کے بعد ہمیں ماحول میں زیادہ مفاہمت اور خیرسگالی میسر آجائے گی۔ ہندوستان کی تقسیم کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں اکثریت پر یہ عظیم ذمہ داری عائد ہو جائے گی کہ وہ اپنی اقلیتوں میں تحفظ کاحقیقی احساس پیدا کریں اور ان کا مکمل اعتماد اور بھروسہ حاصل کریں۔ ‘‘


    یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ قائد اعظم نے جب بھی قیام پاکستان کے مقاصد کا ذکر کیا انہوں نے ان مقاصد میں نظام اسلام کے قیام کو مرکز و محور کے طور پر بیان کیا تو اس سے ان کی مراد بڑی واضح تھی یعنی وہ اسلام کو بطور ایک نظام زندگی کے نافذ کرنے کی بات کرتے تھے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں بھی اسلام کے نظام کی یا اسلام کے نفاذ کی یا اسلام کی دی ہوئی تعلیمات کے نظام کی تشکیل کی بات کی تو اس کا مرکز و محور اسلام کا معاشرتی عدل و انصاف قرار دیا۔ آپ نے 11 اکتوبر 1947ء کو کراچی میں مسلح افواج کے افسروں سے خطاب میں فرمایا :

    ’’قیام پاکستان، جس کے لئے ہم گذشتہ دس برس سے کوشاں تھے، اللہ کے فضل و کرم سے آج ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن اپنی مملکت کا قیام دراصل ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے بذات خود کوئی مقصد نہیں۔ تصور یہ تھا کہ ہماری ایک مملکت ہونی چاہیے جس میں ہم رہ سکیں اور آزاد افراد کی حیثیت سے سانس لے سکیں۔ جسے ہم اپنی صوابدید اور ثقافت کے مطابق ترقی دے سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔ وہ کار سخت جو ہمارا منتظر تھا اور راستہ کی وہ دشواریاں کہ جن سے ہمیں گزرنا تھا، مجھے ان کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں تھی تاہم میں اس بات سے تقویت پا رہا تھا کہ مجھے تمام مسلمانوں کی بے پناہ حمایت حاصل ہوگی، نیز اقلیتوں کا تعاون بھی جسے ہم منصفانہ بلکہ فیاضانہ سلوک سے جیت سکیں گے۔ ‘‘

    قائد اعظم ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں لوگوں کی جان اور مال محفوظ ہو، اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں، رشوت ستانی، بدعنوانی، اقربا پروی کا خاتمہ ہو اور نسلی، علاقائی، لسانی اور صوبائی تعصبات کا وجود نہ ہو۔ لیکن شومئی قسمت ہے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم ان مقاصد کے کوسوں دور کھڑے ہیں جو قائد اعظم اور تحریک پاکستان کی دیگر قائدین کے پیش نظر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں جب قائد اعظم کو اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا تو اس کے بعد جب آپ نے اسمبلی سے خطاب فرمایا۔ آپ نے اسمبلی کے فرائض بیان کرتے ہوئے فرمایا

    ’’اس مجلس کے پہلے فریضہ کے بارے میں، میں اس وقت کسی سوچی سمجھی بات کا تو اعلان نہیں کرسکتا لیکن ایک دو چیزیں جو میرے ذہن میں آئیں گی آپ کے سامنے پیش کر دوں گا۔ پہلی اور سب سے زیادہ اہم بات جو میں زور دے کر کہوں گا وہ یہ ہے، یاد رکھیئے کہ آپ خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو جملہ اختیارات حاصل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یعنی آپ فیصلے کس طرح کرتے ہیں؟ پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایک حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور انکے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے۔

    دوسری بات جو اس وقت میرے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کے دوسرے ممالک اس سے پاک ہے، لیکن میں یہ کہوں گا کہ ہماری حالت بہت ہی خراب ہے، وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ دراصل یہ ایک زہر ہے، ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کر دینا چاہیے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلہ میں مناسب اقدامات کریں گے جتنی جلد اس اسمبلی کے لئے ایسا کرنا ممکن ہو۔‘‘


    آپ نے مملکت کی ترقی میں حائل رکاوٹوں میں سے اقربا پروی کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ اقربا پروی کی لعنت سے نجات دلانے کے لئے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا کیا کردار ہونا چاہیے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے ارشاد فرمایا:

    ’’میں یہ واضح کر دوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربانوازی کو برداشت کروں گا اور نہ ہی کسی اثرو رسوخ کو جو مجھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی قبول کروں گا۔ جہاں کہیں مجھے معلوم ہوا کہ یہ طریقہ کار رائج ہے خواہ یہ اعلی سطح پر ہو یا ادنی پر، یقینی طور پر میں اس کو گوارا نہیں کروں گا۔ ‘‘

    قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم گروہ در گروہ علاقائی، لسانی، مذہبی اور صوبائی تفریق کے وبال میں جکڑے ہیں ۔ جس نے آج ہمارے جسدِ قومی کو لخت لخت کر دیا ہے۔ قائد اعظم نے ہمیشہ فرقہ واریت کی کڑی مذمت کی۔ قومی و ملی ہم آہنگی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

    ’’میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان، مسلمان، مذہبی اعتبار سے نہیں، کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔ پس حضرات میں آپ کا مزید وقت لینا نہیں چاہتا اور ایک بار پھر اس اعزاز کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے آپ نے مجھے نوازا۔ میں ہمیشہ عدل اور انصاف کو مشعل راہ بناؤں گا اور جیسا کہ سیاسی زبان میں کہا جاتا ہے تعصب یا بدنیتی دوسرے لفظوں میں جانبداری اور اقرباپروری کو راہ نہ پانے دوں گا۔ عدل اور مکمل غیر جانبداری میرے رہنما اصول ہوں گے اور میں یقیناً آپ کی حمایت اور تعاون سے دنیا کی عظیم قوموں کی صف میں پاکستان کو دیکھنے کی امید کرسکتا ہوں۔ ‘‘

    یہ بات بڑی قابل غور ہے کہ مصورِ پاکستان علامہ اقبال کی فکر کی اہمیت کا نہ صرف قائد اعظم کو احساس تھا بلکہ انہوں نے 25 مارچ 1940ء کو لاہور میں یوم اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تقریب میں اپنی صدارتی تقریر میں اس کا اظہار یوں کیا:

    ’’اگر میں اس وقت تک زندہ رہا کہ ہند میں مسلم ریاست کا حصول دیکھ سکوں اور اس وقت مجھے کلام اقبال اور مسلم ریاست کی فرمانروائی پیش کی گئی کہ دونوں میں سے ایک چن لوں تو میں بلا تامل اول الذکر (کلامِ اقبال) کا انتخاب کروں گا۔‘‘

    قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا تصور پاکستان اسلام کی عدل و انصاف پر مبنی تعلیمات کا حامل ہے جس کی منزل ایک ترقی یافتہ اسلامی فلاحی ریاست ہے نہ کہ پاپائی ریاست۔ قائدِ اعظم راہنمائی کے لیے سوئے گنبدِ خضریٰ دیکھتے۔ اسلام کے مکمل ضابطہ حیات کو بیان کرتے ہوئے قائد اعظم نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی میں عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

    ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم مدبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم فرمانروا تھے جنہوں نے حکمرانی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔

    اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہر مسلمان کے لئے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لئے عدل کے اعلی ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور یگانگت، اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔‘‘


    قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے یہی وہ بنیادی اور کلیدی تصورات ہیں جن کی طرف آج ہمیں پھر سے پورے خلوص نیت اور استقامت عمل کے ساتھ متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ قائد اعظم کے اس تصور پاکستان کو اختیار کرکے ہم بانیان پاکستان کی قربانیوں کا قرض بھی چکا سکتے ہیں، اپنے حال کو پروقار بھی بناسکتے ہیں اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک مضبوط، مستحکم، پائیدار اور ترقی یافتہ ملک کی تشکیل کرسکتے ہیں۔


    بشکریہ ۔خرم شہزاد خرم۔۔ پاک نیٹ
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ ، تفصیلی، جامع اور دافع اشکالات مضمون ہے۔ مضمون نگار نے یقیناً بہت محنت و تحقیق سے یہ کام کیا ہے۔
    بدقسمتی سے آج ہماری قوم میں ایسے مغرب زدہ مفکرین پیدا ہوگئے ہیں جو قیامِ پاکستان کے بنیادی مقاصد اور علامہ اقبال و قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیھما کے تصورِ پاکستان کے اسلامی نظریہ کو ہی غلط قرار دینے کی کوشش میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ یہ حقائق ، یہ نظریات اور یہ فکر خود بھی قبول کرنے اور آئندہ نسلوں کو منتقل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

    نور بہن ۔ اتنا عمدہ مضمون ارسال کرنے پر بہت شکریہ ۔ جزاکِ اللہ ۔
     
  3. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    اللہ رب العزت قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔۔۔آمین ثم آمین۔۔۔۔
     
  4. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
  5. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
  6. طارق راحیل
    آف لائن

    طارق راحیل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2007
    پیغامات:
    414
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    بہت ہی اچھی پوسٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  7. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    واہ نور آپی ۔ قائد اعظم اور تصور پاکستان کے موضوع پر اتنا تفصیلی اور ہمہ گیر مضمون بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
    آپ نے شئیر کرکے بہت عظیم خدمت کی ہے۔ جزاکِ اللہ
     
  8. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    نعیم صاحب، کاشفی جی ، عقرب جی ، طارق راحیل جی ۔
    آپ سب کا مضمون کو سراہنے کا شکریہ ۔ :flor:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں