1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فیض احمد فیض کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏16 فروری 2007۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب۔
    اور
    واہ ۔ کیا آفاقیت ہے شاعر کے قلم میں۔ بہت خوب
    ساگراج بھائی ۔ آپکا شکریہ کہ اتنا معیاری کلام ہم تک پہنچاتے رہتے ہیں۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    فیض کی آزاد نظم پیش نظر ہے ۔

    میرے درد کو جو زباں ملے

    میرا درد نغمہء بے صدا
    میری ذات ذرہء بے نشاں
    میرے درد کو جو زباں ملے
    مجھے اپنا نام و نشاں ملے
    میری ذات کا جو نشاں ملے

    مجھے رازِ نظمِ جہاں ملے
    جو مجھے یہ رازِ نہاں ملے
    مری خامشی کو زباں ملے
    مجھے کائنات کی سروری
    مجھے دولتِ دو جہاں ملے
     
  3. علی کاظمی
    آف لائن

    علی کاظمی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 نومبر 2008
    پیغامات:
    796
    موصول پسندیدگیاں:
    0
  4. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بہت خوب بہت اچھے اچھی شئیرنگ ھے ساگراج جی ہمیشہ کی طرح
     
  5. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    خوشی بہت شکریہ پسندیدگی کا
     
  6. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    شرح بے دردری حالات نہ ہونے پائی
    اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی

    پھر وہی وعدہ جو اقرار نہ بننے پایا!
    پھر وہی بات جو اثبات نہ ہونے پائی

    پھر وہ پروانے جنہیں اذن شہادت نہ ملا
    پھر وہ شمعیں کہ جنہیں رات نہ ہونے پائی

    پھر وہی جاں بلبی لذت مے سے پہلے
    پھر وہی محفل جو خرابات نہ ہونے پائی

    پھر دم دید رہے چشم و نظر دید طلب
    پھر شب وصل ملاقات نہ ہونے پائی

    پھر وہاں باب اثر جانئے کب بند ہوا
    پھر یہاں ختم مناجات نہ ہونے پائی

    فیض سر پر جو ہر اک روز قیامت گزری
    ایک بھی روز مکافات نہ ہونے پائی
     
  7. علی کاظمی
    آف لائن

    علی کاظمی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 نومبر 2008
    پیغامات:
    796
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بھائی صاحب کہیں اوپر میں نے بھی تعریف کی تھی :hathora: :hathora:
     
  8. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    بھائی صاحب کہیں اوپر میں نے بھی تعریف کی تھی :hathora: :hathora:[/quote:dzkryqjj]
    بھائی جان غلطی ہوگئی ہے۔ معذرت خواہ ہوں۔
    دراصل بیچ میں نعیم بھائی کی نظم آ گئی تھی۔ تو تعریف کا تسلسل ٹوٹ گیا۔

    نوید بھائی آپ کا بھی بہت شکریہ۔
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کیا کہنے فیض کی روانیء خیالات اور تسلسلِ بیان کے۔
    واہ ۔۔ پوری کی پوری غزل کو " پھر " کے احاطے میں مقید کردیا ۔
    واہ بہت خوب۔
     
  10. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    تم جو چاہو تو سنو، اور جو نہ چاہو نہ سنو
    فیض احمد فیض
    گلشن یاد میں‌ گر آج دم باد صبا
    پھر سے چاہے کہ گل افشاں‌ ہو تو ہو جانے دو
    عمر رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد
    پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو تو ہو جانے دو
    جیسے بیگانے سے اب ملتے ہو ویسے ہی سہی
    آؤ‌ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو
    گرچہ مل بیٹھیں گے ہم تم تو ملاقات کے بعد
    اپنا احساس زیاں اور زیادہ ہو گا
    ہم سخن ہوں گے جو ہم دونوں تو ہر بات کے بیچ
    ان کہی بات کا موہوم سا پردہ ہو گا
    کوئ اقرار نہ میں یاد دلاؤں‌ گا نہ تم
    کوئ مضمون وفا کا نہ جفا کا ہو گا
    گرد ایام کی تحریر کو دھونے کے لیئے
    تم سے گویا ہوں دم دید جو میری پلکیں
    تم جو چاہو تو سنو، اور جو نہ چاہو نہ سنو
    اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
    تم جو چاہو تو کہو، اور جو نہ چاہو نہ کہو
     
  11. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    قمر بھائی ہمیشہ کی طرح لاجواب کولیکشن۔
    بہت ہی خوبصورت۔
    :a180: :a180:
    بہت شکریہ شیئر کرنے پر
    :flor: :flor: :flor:
     
  12. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    واہ بہت خوب بہت اچھے :a180:
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ ۔ بہت ہییییییییییییییییی خوب ۔
    بےمثال کلام ہے
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مرے فگار بدن میں لہو ہی کتنا ہے

    سجے تو کیسے سجے قتل عام کا میلہ
    کسے لبھائے گا میرے لہو کا واویلا
    مرے نزار بدن میں لہو ھی کتنا ھے
    چراغ ھو کوئی روشن نہ کوئی جام بھرے
    نہ اس سے آگ ھی بھڑکے نہ اس سے پیاس بجھے
    مرے فگار بدن میں لہو ھی کتنا ھے
    مگر وہ زہر ہلاہل بھرا ھے نس نس میں
    جسے بھی چھیدو ھر اک بوند قہر افعی ھے
    ھر اک کشید ھے صدیوں کے درد وحسرت کی
    ھر اک میں مہر بلب غیض و غم کی گرمی ھے
    حذر کرو مرے تن سے یہ سم کا دریا ھے
    حذر کرو کہ مرا تن وہ چوب صحرا ھے
    جسے جلاؤ تو صحن چمن میں دہکیں گے
    بجائے سرو و سمن میری ہڈیوں کے ببول
    اسے بکھیرا تو دشت و دمن میں بکھرے گی
    بجائے مشک صبا میری جان زار کی دھول
    حذر کرو کہ مرا دل لہو کا پیاسا ھے


    فیض احمد فیض
     
  15. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    فیض کا کلام ہمیشہ ہی خوب ہوتا ہے۔ قاری کے دل و دماغ میں اپنی جگہ بناتا چلا جاتا ہے۔
    یہ نظم بھی ایسی ہی ہے۔
    نعیم صاحب عمدہ انتخاب ہے۔
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ وسیم بھائی ۔ آپ کی ذوقِ نظر ہے۔
     
  17. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    :mashallah: اچھا کلام ھے
     
  18. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    واہ نعیم بھائی بہت خوبصورت نظم ہے۔ :mashallah:

    بہت شکریہ شیئر کرنے پر
    :flor: :flor: :flor: :flor:
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ساگراج بھائی ۔ بہت شکریہ ۔
    آپ جیسے صاحبانِ ذوق کی صحبت کا فیض ہے ۔
    :a191:
     
  20. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہوگی
    سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہوگی

    کب جان لہو ہوگی، کب اشک گہر ہوگا
    کس دن تری شنوائی اے دیدہ تر ہوگی

    کب مہکے گی فصل گل، کب بہکے گا میخانہ
    کب صبح سخن ہوگی، کب شام نظر ہوگی

    واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے
    اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہوگی

    کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامت جانانہ
    کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہوگی
     
  21. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:


    واہ واہ واہ ۔۔ کیا کہنے فیض کے۔
    مقطع دیکھ کے تو منہ سے بےاختیار " واہ واہ " ‌نکل گئی

    ساگراج بھائی ۔ بہت شکریہ ارسال کرنے کا ۔
     
  22. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بے بسی کا کوئی درماں نہیں کرنے دیتے
    اب تو ویرانہ بھی ویراں نہیں کرنے دیتے

    دل کو صد لخت کیا سینے کو صد پارہ کیا
    اور ہمیں چاک گریباں نہیں کرنے دیتے

    ان کو اسلام کے لٹ جانے کا ڈر اتنا ھے
    اب وہ کافر کو مسلماں نہیں کرنے دیتے

    دل میں وہ آگ فروزاں ھےعدو جس کا بیاں
    کوئی مضموں کوئی عنواں نہیں‌کرنےدیتے

    جان باقی ھے تو کرنے کو بہت باقی ھے
    اب وہ جو کچھ کہ مری جاں نہیں کرنے دیتے
     
  23. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    واہ، بہت خوب ساگراج بھائی۔
     
  24. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    واہ۔
     
  25. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
  26. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    واہ خوشی بہت خوبصورت غزل ہے۔
    بہت شکریہ شیئر کرنے پر۔

    :flor: :flor: :flor: :flor:
     
  27. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
    ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے

    رنگ و خوشبو کے، حسن و خوبی کے
    تم سے تھے جتنے استعارے تھے

    تیرے قول و قرار سے پہلے
    اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے

    میرے دامن میں آ گرے سارے
    جتنے طشت فلک میں تارے تھے

    عمر جاوید کی دعا کرتے
    فیض اتنے وہ کب ہمارے تھے
     
  28. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اچھا کلام ہے۔
    ساگراج بھائی ۔ بہت خوب۔
     
  29. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ساگراج جی ۔ آپکا عمدہ انتخاب ہمیشہ قابلِ ستائش ہوتا ہے۔
     
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مرثیہ امامِ کربلا :rda:
    فیض احمد فیض کا کلام

    اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم

    رات آئی ہے شبیر پہ یلغارِ بلا ہے
    ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
    مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
    مشفق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
    تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
    یہ خانہء شبیر کی ویرانی کی شب ہے

    دشمن کی سپاہ خواب میں‌مدہوش پڑی تھی
    پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
    ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
    یہ رات بہت آلِ محمد پہ کڑی تھی
    رہ رہ کے بکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے
    تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

    اک گوشہ میں‌اِن سوختہ سامانوں‌کے سردار
    اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌کے سردار
    تِشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار
    اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار
    مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّٰام کھڑے تھے
    ہاں‌تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

    کچھ خوف تھا چہرہ پہ نہ تشویش ذرا تھی
    ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
    ہر ایک نگِہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی
    ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی
    پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
    پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا
    لحمد قریب آیا غمِ عِشق کا ساحل
    الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل
    بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطِل
    وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں‌کامل
    بازی ہوئی انجام مبارک ہو عزیزو
    باطِل ہؤا ناکام مبارک ہو عزیزو

    پھر صبح کی لو آئی رخِ پاک پہ چمکی
    اور ایک کرن مقتلِ خوں ناک پہ چمکی
    نیزہ کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی
    شمشیر پرہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی
    دم بھر کےلئیے آئینہ رو ہو گیا صحرا
    خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

    پر باندھے ہوئے حملہ کو آئی صفِ‌اعدا
    تھا سامنے اک بندہء حق یکا و تنہا
    ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا
    یہ رعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا
    کی آنے میں‌تاخیر جو لیلائے قضا نے
    خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

    ٕٕٕٕٕٕٔٔٔٔفرمایا کہ کیوں درپہء‌آزار ہو لوگو
    حق والوں‌سے کیوں‌برسرِ پیکار ہو لوگو
    واللہ کہ مجرم ہو گنہگار ہو لوگو
    معلوم ہے کچھ کِس کے طلبگار ہو لوگو
    کیوں‌آپ کے آقاؤں‌میں‌اور ہم میں‌ٹھنی ہے
    معلوم ہے کس واسطہ اِس جاں پہ بنی ہے

    سطوَت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو
    اورنگ نہ افسر نہ علَم چاہیئے ہم کو
    زر چاہیئے نہ مال و درہم چاہیئے ہم کو
    جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو
    سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
    اک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ہمیں‌بس ہے

    طالب ہیں‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
    باطل کے مقابل میں‌صداقت کے پرستار
    انصاف کے نیکی کے مروّت کے طرفدار
    ظالم کے مخالف ہیں‌تو بیکس کے مددگار
    جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
    جو جبر کا منکر نہیں‌وہ منکرِ‌دیں‌ہے

    تا حشر زمانہ تمہیں مکار کہے گا
    تم عہد شکن ہو تمہیں غدار کہے گا
    جو صاحبِ دل ہے ہمیں‌ابرار کہے گا
    جو بندہء‌حُر ہے ہمیں‌احرار کہے گا
    نام اونچا زمانہ میں‌ہر انداز رہے گا
    نیزہ پہ بھی سر اپنا سر افراز رہے گا


    کر ختم سخن مہوِ‌دعا ہو گئے شبیر
    پھر نعرہ زناں مہوِ وِغا ہو گئے شبیر
    قربان رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر
    خیموں میں‌تھا کہرام جدا ہو گئے شبیر
    مَرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا
    اس خاک تلے جنتِ‌فردوس کا در تھا


    اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم

    فیض احمد فیض
     

اس صفحے کو مشتہر کریں