1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فیصلہ ۔۔ ڈاکٹر صفدر محمود

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از برادر, ‏4 اگست 2009۔

  1. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    فیصلہ…؟؟....صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود


    ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ مصائب و مسائل کی چکی میں پسنے والے عوام کو تو سپریم کورٹ کے فیصلے کے اثرات کا کچھ علم نہیں البتہ سیاسی شعور رکھنے والے طبقے اور ان کے ساتھ سیاسی کارکن مل کر جشن منارہے ہیں۔ وکلاء حضرات سڑکوں پر دھمالیں ڈال رہے ہیں، وکلاء لیڈر اس فیصلے کو تاریخی اور سنگ میل کہہ کر اچھال رہے ہیں، سیاسی لیڈران خاص طور پرمسلم لیگ(ن) کی قیادت اور ان کے رفقاء قوم کو یقین دلانے کی کوششیں کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے ذریعے آئندہ آمروں کا راستہ بند کردیا ہے اور نظریہ ضرورت دفن کردیا ہے، چنانچہ سڑکوں پر مٹھائیاں بانٹی جارہی ہیں اور یوں مٹھائی کا کاروباراچانک چمک اٹھا ہے۔
    میں بنیادی طور پر خوش فہم انسان ہوں لیکن اس جشن اور دھوم دھڑاکے کے باوجود یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ آخر اس فیصلے نے ہمیں عملی طور پر کیا دیا ہے اور اس کا مبلغ نتیجہ (Net effect)کیا ہوگا؟مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ میں ہرگز آئینی ماہر نہیں ،البتہ میں سیاسیات کا طالبعلم ہونے کے ناطے اپنے آئین و قانون اور تاریخ کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں ضرور مبتلا رہتا ہوں اور اسی پس منظر میں جب میں سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے کے مجموعی اثر پر نظر ڈالتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کی تین نومبر 2007ء کی لگائی گئی سیاہ ایمرجنسی کو غیر آئینی قرار دے کر اس دوران مقرر کئے جانے والے ایک سو سے زیادہ ججوں کو گھر بھجوادیا ہے اور پرانے جج جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا ان کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے حوالے کردیا ہے اور یہ فیصلہ بھی دے دیا ہے کہ آگر آئندہ کوئی جج پی سی او کے تحت حلف اٹھائے گا تو وہ اس کی سزاپائے گا۔ چلئے یہ اچھا بلکہ بہت اچھا ہوا کہ سفارشوں ، جماعتی وفاداریوں اور ذاتی وفاداریوں کی بنا پر مقرر کئے جانے والے ججوں سے عدلیہ پاک ہوگئی، کیونکہ یہ ا یک ایسا ناسور تھا جس نے رستے ہی رہنا تھا۔ ان میں بہت سے وہ حضرات بھی شامل تھے جو جج ہونے کے ہرگز اہل نہیں تھے لیکن اس آٹے میں گھن کی مانند کچھ وہ بھی پس گئے،جن کو خود چیف جسٹس افتخار چوہدری نے منظور کیا تھا لیکن جنرل مشرف نے نامنظور کردیا۔ سیاسی طور پر پی سی او ججوں کے خلاف اقدام کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو ملا جس نے آغاز ہی سے انہیں جج تسلیم کرنے سے انکارکردیا تھا اور اس کا سب سے زیادہ نقصان پی پی پی کو پہنچا جس نے بہت سے جیالوں کو اس حکمت عملی کے تحت جج بنادیا تھا کہ وہ نہ صرف اپنوں کی سرپرستی کریں گے بلکہ بحال ہونے والے ججوں کے سامنے بھی بند باندھیں گے، چنانچہ یک قلم اس حکمت عملی کا محل دھڑام سے گر گیا ہے اور تین نومبر 2007ء سے قبل والی عدلیہ چھاگئی ہے۔ اس کے بھی کچھ مضمرات ہیں جن کا مظاہرہ مستقبل میں دیکھنے کو ملے گا۔
    البتہ یہ بات میرے لئے قابل فہم نہیں کہ اس فیصلے نے آمروں اور مہم جوؤں کے پاؤں میں کس طرح زنجیریں پہنائی ہیں اور نظریہ ضرورت کو کس طرح دفن کیا ہے؟رہا ایمرجنسی اورپی سی او کو غیر آئینی قرار دینا تو وہ اس سے قبل کئی بار ہوچکا اس کے باوجود ملک میں بار بار ماشل لاء لگتے رہے ۔ عاصمہ جیلانی کیس میں سپریم کورٹ نے یحییٰ خان کوUsurperاور آمر قرار دے کر آئین کے سیکشن چھ کے تحت سنگین غداری کا ملزم قرار دیا تھا کیا اس فیصلے نے 1977ء اور1999ء کے مارشل لاؤں کا راستہ روکا؟ایسا کیوں ہوا؟وہ اس لئے کہ محض کسی اقوام کو غیر آئینی قرار دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ عاصمہ جیلانی کیس میں سپریم کورٹ نے1972ء میں واضح سفارش کی تھی کہ اب جبکہ آمر ظالمانہ اقتدار سے محروم ہوچکا ہے اس پر سنگین غداری کا مقدمہ چلایا جائے اور مثالی سزادی جائے تاکہ آئندہ مہم جوؤں کا راستہ بند ہو۔ اس لئے یہ فرض کرلینا کہ محض تین نومبر کی ایمرجنسی کو غیر آئینی قرار دینے سے فوجی آمروں کا راستہ روک دیا گیا ہے ،محض ایک ہوائی مفروضہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کے تین نومبر کے اقدامات کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا تو پھر اسے غیر قانونی اقدامات کی سزا کیوں نہیں دی اور اگر یہ کہا جائے کہ آئین کو پامال کرنے کی سزا سپریم کورٹ نہیں بلکہ پارلیمنٹ دیتی ہے تو پھر سپریم کورٹ نے عاصمہ جیلانی کیس کے فیصلے کی مانند پارلیمنٹ کو جنرل مشرف پر مقدمہ چلانے کی سفارش کیوں نہیں کی؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جہاں تک بارہ اکتوبر1999ء کے فوجی ٹیک اوور کا تعلق ہے سپریم کورٹ کہہ چکی کہ ان مجرموں کو سزادینے کا فورم اور ہے اور وہ ہے پارلیمنٹ لیکن جہاں تک ایمرجنسی کے نفاذ کا تعلق ہے اس میں سپریم کورٹ جنرل مشرف کا ٹرائیل کرسکتی تھی اور عدالتوں سے ججوں کو فوجی بوٹوں کے ذریعے نکالنے اور انہیں گھروں میں قید کرنے پر سزا بھی دے سکتی تھی۔ کونسا دباؤ تھا اور کیا مصلحتیں تھیں، خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن وکلاء کے حلقے ایک ممتاز وکیل کی آرمی چیف سے ملاقات کو بہت اہمیت دے رہے ہیں اور بعض اپنے روحانی علم کی بنا پر اسے حکمرانی کی کرسی پر بٹھا رہے ہیں۔ اس سے قطع نظر قابل غور بات یہ بھی ہے کہ نظریہ ضرورت کی ماں(Mother)تو12اکتوبر 1999ء کی مہم جوئی ہے جس کو چھیڑا نہیں گیا۔ بلاشبہ ہماری یہ سپریم کورٹ اپنے 2000ء کے فیصلے میں12اکتوبر کی مداخلت کو جائز قرار دیتے ہوئے نواز شریف حکومت پر کرپشن اور دوسرے الزمات پر مہر تصدیق لگا چکی ہے لیکن جس طرح ٹکا اقبال کیس کے فیصلے پر نظر ثانی ہوئی ہے اسی طرح سپریم کورٹ کے ان مقدمات کے فیصلوں پر بھی نظر ثانی کی جاسکتی تھی جنہوں نے جنرل مشرف کے مارشل لاء پر نظریہ ضرورت کی مہر ثبت کی تھی۔ اس سے 2002ء میں معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کی آئینی حیثیت مشکوک ہوجاتی جس نے سترہویں ترمیم پاس کرکے جنرل مشرف کے دامن پر لگے ہوئے داغ دھو دئیے۔ اسی طرح این آر او کب کا مرچکا کیونکہ آرڈیننس کی معیاد 120 یوم ہوتی ہے۔این آر اوصریحاً اور واضح طور پر غیر آئینی اور شرمناک آرڈیننس ہے جس میں کوئی دو آراء موجو د نہیں۔ سپریم کورٹ نے اسے غیر آئینی قرار دینے کی بجائے پارلیمنٹ کو موقع دیا ہے کہ وہ اسے قانونی شکل دے۔ ظاہر ہے کہ پارلیمنٹ اس کی حمایت نہیں کرے گی۔90دن گزرنے کے بعد جب سپریم کورٹ این آر او کے خلاف پہلے سے فائل کردہ پٹیشن سنے گی تو یقینا اسے غیر آئینی قرار دے گی جس سے ایک نیا پنڈورہ باکس کھلے گا کیونکہ موجودہ نظام این آر او کے ریشمی دھاگوں میں بندھا ہوا ہے اور اس نے اربوں روپوں کی کرپشن پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ سپریم کورٹ موجودہ جمہوری نظام کو بچانے کے لئے درمیانہ راستہ نکالے گی لیکن سوال یہ ہے کہ جب کرپشن کے مقدمات سے پردہ اٹھے گا اور اس کی بدبو پھیلے گی تو ان بااثر حضرات کاکیا بنے گا جواربوں کھا کر این آراو کے امریکی پانی سے نہا کر صاف ستھرے ہوگئے اور بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ سیاسی جادو گر اسی عمل ا ور پیش رفت میں بڑی بڑی تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں اور پیشگوئی کررہے ہیں کہ چند ماہ بعد دمادم مست قلندر ہوگا۔
    جہاں تک نظریہ ضرورت کے دفن ہونے کا تعلق ہے تو یہ جاننے کے باوجود کہ نہ سپریم کورٹ اور نہ ہی پارلیمنٹ جنرل مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کی سزادے گی ، کیونکہ اس راہ میں بڑے بڑے گارنٹی دینے والے ممالک حائل ہیں ۔ میں یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ محض ایمرجنسی یا شب خون کو غیر آئینی قراردینے سے فوجی مداخلت کا راستہ نہیں رکے گا اور نہ ہی ماضی میں رکا ہے۔ مہم جوئی کے راستے میں دیوار کھڑی کرنے کے لئے آئین شکن کو سزادے کر مثال قائم کرنا ضروری ہے ۔ اس کے ساتھیوں کو جنہیں آئینAbbetorکہتا ہے کٹہرے میں کھڑا کرنا لازم ہے ورنہ فوجی بوٹ ماضی کی مانند جمہوریت کے دروازے توڑتے رہیں گے اور ان کے حمایتی مٹھائیاں بانٹتے رہیں گے، فی الحال تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں۔


    جنگ ادارتی صفحہ ۔
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    کسی کا اقتدار ختم ہونے کے بعد عدالت کوئی بھی فیصلہ کرتی ھے میرے خیال میں ، چہ معنی دارد

    عدل تو تب ھو کہ عدالت آج کے کسی حاکم کے خلاف فیصلہ دے
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ڈاکٹر صفدر محمود نے واقعی دیانتدارانہ تجزیہ کیا ہے۔
    کم از کم میرے دل کی ترجمانی ہے۔

    برادر بھائی ۔ بہت شکریہ
     
  4. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    اچھے نکات ہیں‌ڈاکٹر صفدر محمود کے

    سیاستدان بلندوبانگ یہ دعوٰی کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے مارشل لاء کا راستہ روک دیا لیکن جب تک پارٹیاں اپنے اندر سے آمریت کا خاتمہ نہیں‌کریں گی تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ مارشل لاء کا راستہ رک جائے

    ن لیگ شریف برادران کے قبضے میں ہے جاوید ہاشمی اس کا صدر نہیں بن سکتا
    پی پی بھٹو اور زرداری خاندان کے قبضے میں ہے اور ڈاکٹر مبشر حسن، ملک معراج خالد، مرحوم شیخ رشید جیسے مخلص سیاستدان بہت تھوڑا عرصہ اس پارٹی کے ساتھ رہے

    ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم انفرادی کارکردگی پر یقین رکھتے ہیں اجتماعیت پر نہیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں