1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فن و ہنر و ذرائع ابلاغ

Discussion in 'تعلیماتِ قرآن و حدیث' started by سید جہانزیب عابدی, Oct 25, 2011.

  1. سید جہانزیب عابدی
    Offline

    سید جہانزیب عابدی ممبر

    Joined:
    Oct 24, 2011
    Messages:
    20
    Likes Received:
    8
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

    انسان کواک پے درپے آزمائشات کے میدان میں دھکیل کر خدواند کریم نے انسان کے صبر اور ہمت کا امتحان لیا ہے اور اسلام کی تعلیمات و روشن چہرہ شخصیات کے ذریعے ہر زمانے میں اس زمانے کے حالات کے تقاضوں کے ساتھ ان رہبران الہی (علیہم السلام) کے ذریعے عام و مستضعف کو اس کے حقوق سے آشنا کیا! وہ حقوق جو خود اس کے اپنے اوپر لاگو ہیں جس کو خود اسے ادا کرنا ہے اور اِن شخصیات کے ذریعے ارتقا کی منزلوں کو طے کرنے کا خوگر بنایا۔ اس ارتقائی سفر میں صبر و استقامت، مثبت اندیشی و تخلیقی و تعمیری سوچ و عمل کے ذریعے راہ سفر طے کرنے کی سہولت عطافرمائی۔ خواہ تقویٰ و پرھیزگاری کی بات ہو خواہ طلب ِ رزق و مصرفِ معاشی کا ذکر ہو، خواہ دشمن ِ اصول ھائے فطرت کے خلاف اعلان جنگ ہو یا صبر استقامت کا بیان، قوم کی فلاح و بہبود کی بات ہو یا اپنے خاندان کی کفالت کی، علم و فکر و عرفان کے میدان ہوں یا سیاسی سازشوں سے مقابلے ! ان رہبران الہی (علیہم السلام) نے ہر شعبہ زندگی میں اپنے وجودِ مادی و روحانی کے توازن کو قائم رکھتے ہوئے ان شعبہ جاتِ زندگی میں حصہ لیا۔
    ایک عام انسان پر بھی ان شعبہ جات میں حصہ لینا اور صالح اقدامت کرنا اپنے ذہنی و جسمانی استطاعت کے مطابق فرض ِعین ہے۔
    فن و ہنر میکینکل بھی ہوسکتے ہیں اور الیکٹرانک بھی ویسے تو مثبت سوچ و فکر کے ساتھ تعمیری و تخلیقی زندگی گذارنا بھی ایک ہنر ہے ، ایک فن ہے۔ مگر ہم فنون ِ لطیفہ کے فنون و ہنر کی بات کررہے ہیں۔ جس کو ذرائع ابلاغ سے بہت وابستگی ہے۔
    انسان کی جسمانی و روحانی ساخت و بافت میں جیسے دل و دماغ کو بہت اہمیت حاصل ہے اسی طرح معاشرہ انسانی میں ظاہری طور پر علم و سائنس، فلسفہ و منطق اور فنون ِ لطیفہ سے پیدا ہونے والے احساسات کی بہت اہمیت ہے۔
    دماغی محنتیں اور زحمتیں اگر علم و فکر و سائنس و فلسفہ و منطق میں ہوتی ہیں تو فنون لطیفہ دل کے نازک تاروں کو
    چھولینے والے سمعی و بصری و لمسی احساسات پر مشتمل ہوتا ہے۔
    قلبی جذبات یا احساسات وہ عمل ہے جو اگر دماغ کی ہدایات کے بغیر ہو تو نہ صرف فرد میں اخلاقی روحانی فساد پھیل جاتا ہے اور اس سے نہ صرف اس کا ظاہری جسم بلکہ معاشرہ کی روح بھی مسموم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر دماغی حرکات دل سے مشورہ لئے بغیر انجام دی جائیں یعنی ایسے اصول و قاعدے و احکام وضع کئے جائیں جن میں قلبی مشورہ شامل نہ ہو تو وہ ایک الگ طرح کی انتہاپسندی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور یہ بات بھی فرد سے لیکر معاشرے کو خون آلود کریتی ہے۔۔
    ثقافت یا کلچر ان مثبت لہروں کو کہتے ہیں جومنطق و فنون لطیفہ کے میزان قائم ہونے کے بعداس فن سے خارج ہوں ۔
    ذرائع ابلاغ علمی و ثقافتی مرکز ہوتے ہیں ان مراکز کو علم و عرفان و آگہیٔ فطرت پر بات کرنی چاہیے۔ یعنی اس سسٹم کا حصہ بنیں جو نظامِ فطرت کے تحت ارتقاء کی منزلوں پر لیجائے، اس تحریک کو قدم بقدم آگے انفرادی و اجتماعی طور پر بڑھنا چاہیے۔
    اصول ھائے فطرت کو معاشرے کی فکری اساس بنانے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے اور فطری اصولوں پر مبنی روشوں اور طور طریق کو اپنانے پر زور دینا چاہیے تاکہ معاشرے کے سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، اخلاقی ، اعتقادی، علمی ارتقاء کی کوششوں میں تیزی لائی جاسکی۔ اگر ذرائع ابلاغ احساسات و منطق کے درمیان توازن قائم کرنے میں کامیاب کوشش کرتے ہیں تو کہا جائے گا کہ فن و ہنر نے اپنا حق ادا کیا۔ اور خدا کی مخلوق ، دماغ و قلب کو صحیح غذا فراہم کی۔ جس طرف فوڈ انسپکٹر ہمارے پیٹ میں جانے والی اور جسم کو قوت دینے والی غذا کی جانچ پڑتال کرتا ہے اسی طرح ہمیں اپنی روحانی غذا کی جانچ پڑتا ل ایک فوڈ انسپکٹر کی طرح کرنی چاہیے۔ جس طرح زہریلا مواد جسم کو بیمار کردیتا ہے اسی طرح مسموم خیالات، زہریلے بداخلاق ذرائع ابلاغ انسانی روحوں و باطن کو سیاہ و تاریک کردیتے ہیں۔ ہمیں ہر اس احساس قلبی کو اپنے اندر جگہ دینی چاہیے جس سے مثبت سوچ و تعمیری و تخلیقی سوچ پروان چڑھے جس سے فرد کی تربیت کے ساتھ معاشرتی تربیت ہوسکے۔ اور اپنے قلب و دماغ کو ایسی غذا فراہم کرنی چاہیے جس سے نہ صرف فرد کو تسکین ہو بلکہ معاشرۂ انسانی کے بھی دماغ (علم ، سائنس، فلسفہ، منطق) کو قرار آجائے اور فنون لطیفہ کا شعبہ بھی حقیقتا راحت محسوس کرے۔ منطق و احساسات میں عدل و انصاف کا رشتہ قائم ہو اور اسی طرح پھر تخلیقی و تعمیری سوچ و عمل معاشرے کا وطیرہ بن جائے اور ہم آزمائش سے بھری اس دنیا میں اپنی محنتوں اور زحمتوں کو مثبت رنگ میں رنگ سکیں جس سے پیار و محبت ، عدل و انصاف کے پھول کھلتے ہوں، جس سے صبر و استقامت و عمل صالح کے میٹھے میٹھے پھل پیدا ہوتے ہوں۔ ہماری وہ زحمتیں جو ہمارے اس دنیا کے نظام کو ارتقا ء و مثبت میدانوں میں سرخرو کریں اور اس دنیا کے آخرت کے کھیتی ہونے کے طور پرہم یہاں وہ مثبت اندیشی کاشت کریں جو ہماری جنتوں کو میٹھے رس دار اور خوش رنگوں پھلوں کی شکل میں حاصل ہوں۔اس دنیا کی ایسی تعمیری کریں کہ ملائکہ بھی خدا کے آگے شرمندہ ہوجائیں اور جو بات انہوں نے خلقت انسان کے وقت خدا سے کہی تھی اس سے پہلو تہی کریں ! آمین یا رب العالمین
    تحریر: سید جہانزیب عابدی ، ۹ ذیقعد ۱۴۳۲ھ، کراچی۔
     
  2. صدیقی
    Offline

    صدیقی مدیر جریدہ Staff Member

    Joined:
    Jul 29, 2011
    Messages:
    3,476
    Likes Received:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: فن و ہنر و ذرائع ابلاغ

    ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔اچھا مضمون ہے۔۔۔
    شکریہ ہم سے بانٹنے کا
     

Share This Page