1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فاروق قیصر (انکل سرگم ) از صہیب مرغوب

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏16 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    فاروق قیصر (انکل سرگم ) از صہیب مرغوب

    پاکستان ، رومانیہ اور انڈیا میں پپٹ شوز کے ماہر مسکراہٹیںبکھیرنے والے ’’انکل سرگم ‘‘ اداس کر گئے انہوں نے ’’پپٹس ‘‘ سے وہ باتیں کہلوا ئیں جو کوئی فرد حکمرانوں کے سامنے کرہی نہیں سکتا تھا
    کرپشن ،نا اہلی اور انسانی تربیت ان کے خاص موضوعات تھےاین سی اے میں کلاس فیلوز اور اساتذہ پر نظمیں لکھا کرتے تھے، پروفیسرشاکر نے اپنی ’’شان‘‘ میں نظم پڑھ کر حوصلہ افزائی کردی
    عید کے دوسرے روز ہم نے ایک او ربڑا نام کھو دیا،یہ ہیں فاروق قیصر..... پاکستان میں کٹھ پتلی تماشا کے بانی۔انہیں14مئی کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا، اور یوں وہ موت کی آغوش میں چلے گئے۔آپ نے 31اکتوبر 1945ء کوسیالکوٹ میں جنم لیا اور 14مئی 2021کو اسلام آباد میں آخری سانس لی، 75 برس کی عمر پائی۔
    بڑھاپے کے سوا کوئی بیماری نہ تھی، آخری وقت تک متحرک رہے اور خوب زندگی گزاری۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ’’ چہرہ ہشاش بشاش تھا، مسکراہٹ ہونٹوں پر کھیل رہی تھی، بلکہ ہمیں تویوں لگ رہا تھا جیسے ابھی اٹھیں گے اور کہیں گے ’’ہو جائے پھر ایک پپٹ شو‘‘!بے شمار پابندیوں کے دور میں ان کے طنزاور مزاح بھی ، مشتاق یوسفی کی طرح کچھ الگ ہی تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہر بات کہی جا سکتی ہے بس سلیقہ ہونا چاہئے ۔ان کا نام تین مرتبہ پرائیڈآف پرفارمنس کے لئے بھیجا گیا، دو مرتبہ ٹی وی والوں نے روک لیا مگر تیسری مرتبہ 1993میں مل گیا۔اسی لئے انکل سرگم کی ایک کردار بشریٰ انصاری نے از راہ مذاق کہا تھا کہ ’’ میں آپ کے بعد آئی اور انعام پہلے لے لیا‘‘۔
    وہ کیا تھے،میں کیا کہوں؟ فاروق قیصر اپنی ذات میں انجمن تھے۔ شاعر، کارٹونسٹ، مصنف، ٹی وی کالم نویس، صدرکار (انکل سرگم میں پس پردہ آواز بھی ان کی اپنی تھی)،ڈائریکٹر، پپیٹئیراور استادتھے۔ پشاور اور کوہاٹ میں بچپن گزرا۔ 1971ء میں این سی اے سے بی اے کیا۔رومانیہ میں گرافک آرٹس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔جبکہ ’’ یونیورسٹی آف سائوتھ کیلی فورنیا ‘‘سے 1999ء میں ماس کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کی ۔
    وہ وژنری آدمی تھے، بیس سال پہلے جو کچھ کہہ دیا تھا وہی حالات آج بھی ویسے ہی ہیں۔ان کی زندگی کا ایک ایک ورق انہونی باتوں سے پر ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کئی ایسے کام کئے جن کا کبھی سوچا بھی نہ تھا اور جن کاموں کو کرنا چاہتے تھے وہ کبھی نہ کر سکے ۔ وہ پائلٹ بن کر ہوا میں اڑنے کے شوقین تھے لیکن انہیں اونچائی سے ڈر لگتا تھا۔وہ کہتے تھے ’’ہمارے گھر کی وزیر داخلہ میری امی جان اور ابو نے مجھے ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہا،ان دنوں دو ہی تو پیشے تھے ، لیکن میں نیشنل کالج آف آرٹس سے ٹیکسٹائل ڈیزائنر بن کر نکلا۔ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ سیکھی لیکن ایک دن بھی نوکری نہ کر سکے۔این سی اے کی فیسیں ادا کرنے کے لئے ڈرائنگز بنا کر بیچیں، گھر والے ڈاکٹر بناناچاہتے تھے ،لیکن یہ بتانے کی ہمت نہیں ہوئی کہ بیٹا ڈیزائننگ سیکھ رہا ہے ۔ ایک سال بعد جب سکالر شپ ملا تو گھر والوں کو بتایا ۔وہ بھی خوش ہوئے۔
    نوکری نہ ملی تو کالج میں ٹیبل ٹینس کھیل کر گھر چلاتے اور کہتے ، ’’امی جان! انٹرویو دے دیا ہے آپ بھی دعا کیجئے‘‘۔وہ پپٹ شوز کے اتنے بڑے ماہر بنے کہ یہ علم دو سال یونیسکو کی جانب سے انڈیا میں اور کچھ رومانیہ اور فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی ،راولپنڈی میں بھی سکھایا۔لوک ورثہ سے بھی منسلک رہے۔ انہیںلکھنے کا بچپن سے شوق تھا، کالج میںبھی شاعری فرمایا کرتے تھے۔ 3500 گانے آن ایئر گئے، ہر بات کہی لیکن سلیقے سے۔
    میری ان سے بہت ملاقاتیں رہیں،میرا نیشنل کالج آف آرٹس میںآنا جاتا تھا اورٹی وی سٹیشن میں بھی ۔ ان کی باتیں اور قصے ان کی زبانی بھی سنے اور دوسروں سے بھی پہنچتے رہتے تھے ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’ہر فرد کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں،ایک اچھا ،دوسرا برا۔ اور لوگ بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جنہیں دیکھ کر سکون ملے اور دوسرے وہ جو سکون غارت کر دیں۔ لیکن ہم دوسری قسم کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں ۔ ہمیں برے پہلو کو چھپا کر اچھے پہلوئوں کی پرورش کرنا چاہئے ‘‘۔ بلکہ وہ خوش ہو کر کہتے تھے کہ ’’جو بات میں خود نہیں کہہ پاتا وہ انکل سرگم بڑے آرام سے ، پیار سے کہہ جاتے ہیں۔اس پر تو میں بھی انکل سرگم کا شکر گزار ہوں‘‘۔
    ویسے ہم انہیں کھو تو پہلے ہی چکے تھے کیونکہ دور حاضر میں میٹھا طنز کسی کے من کو نہیں بھاتا، آج کل تو بچوں کوبھی آڑے ترچھے بالوں والے، ہوا ئوں میںاڑتے کارٹونز چاہیئں جو انہیں ایک تصوراتی دنیا میں لے جائیں جس کاان سے کبھی واسطہ پڑنے والا نہیں۔اب ہمارے ہاں کوئی بھی حقیقت کی دنیا میں نہیں رہنا چاہتا، ایک خیالی دنیا اپنے سامنے رکھتا ہے اور اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔
    ان کی زندگی کو پپٹ شوز کے رخ پر ڈالنے میں سلیمہ ہاشمی، شعیب ہاشمی اور منزہ ہاشمی کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ایک روز سلیمہ ہاشمی نے کہا تھا کہ ’’تمہاری ڈرائنگ بہت اچھی ہے تم اس جانب چلے جائو ‘‘ ۔ پھروہ ڈرائنگ کی جانب چلے گئے۔
     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کی کلاس بھی ان کے میٹھے مزاح سے بچی ہوئی نہ تھی، وہ بلیک بورڈ پر ہم جماعتوں اور بعض شاکر صاحب سمیت اساتذہ کرام کی ’’شان‘‘ میں نظمیں لکھا کرتے تھے ،ایک دن ’’بلاوا ‘‘ آ گیا ۔ معروف آرٹسٹ پروفیسر شاکر صاحب کا ۔وہ اور ان کے کلاس فیلوز سمجھے کہ اب نکلنے کا وقت جدائی آن پہنچا ہے ۔ کچھ طالبعلموں نے قانونی کارروائی میں مددد ینے کا یقین دلایا۔وہ بتایا کرتے تھے کہ ’’ میں جب شاکر صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو انہوںنے آمد کی وجہ پوچھی ۔ میں نے کہا کہ آپ نے ہی تو بلایا ہے۔ پھر انہیں اچانک یاد آ گیا کہ کیوں بلایا ہے ،وہ کہنے لگے..... ’نوجوان! شاعری سے کبھی نہ جی چرانا ، لکھتے رہنا‘۔ میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔جب کمرے سے باہر آیا تو پہلے سے ہی نعرے بازی کی تیاری ہو رہی تھی۔ لیکن الٹ بات سن کر سبھی کی گرمی ختم ہو گئی‘‘۔ وہ مانتے تھے کہ اگر شاکر صاحب حوصلہ افزائی نہ کرتے تو شائد ان کی شاعری کب کی مر چکی ہوتی، پھر کہتے....’’اسی لئے میں کہتا ہوں کہ نوجوانوں اور بچوں کو حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے جس قدر ممکن ہو سکے ، آگے بڑھنے کی امنگ کو بڑھاتے رہنا چاہئے ۔آج معاشرے کو شاکر صاحب ، شعیب ہاشمی ،منزہ ہاشمی اور سلیمہ ہاشمی جیسے افراد کی ضرورت ہے۔شعیب ہاشمی نے بچوں کو اس قدر پروان چڑھایا کہ ان کے 11طالب علم صدارتی پرائیڈ آف پرفارمنس کے حقدار ٹھہرائے گئے۔ہر انسان میں کئی خوبیاں اور فنون چھپے ہوتے ہیں جنہیں باہر لانے اور نکھارنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ کام استاد اور والدین مل کرکر سکتے ہیں۔ یہ ہر انسان کے اندر ہوتا ہے لیکن باہر نہیں نکلتا۔ٹیچر کاکام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اسے قدر دے کہ وہ جو فن بھی اپنائے اس میں بادشاہ بن جائے، میرے فن کو نکھارنے میں شاکر صاحب کا بھی بہت کردار ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اپنے اپنے کاموں میں الجھ چکے ہیں، گھر کو وقت دینے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ہمیں اپنی اولاد کے لئے وقت نہیں مل رہاجس کے باعث وہ اپنی شناخت کھو رہے ہیں۔ نئی نسل اپنی ثقافت ،اپنے مرکز سے ہٹ رہی ہے ، ان کے پاس کوئی رول ماڈل نہیں تھے۔وہ اپنے رول ماڈل مغرب سے لے رہے ہیں‘‘۔ان کا اپنا حال بھی یہ تھا کہ سب سے بڑی خواہش بیوی کے ساتھ ناشتہ کرنے کی تھی جو صبح صبح کالج کے لئے نکل جاتی تھیں‘‘۔ لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد خوب ناشتے کئے ۔
    وہ تواتر کے ساتھ اپنے خطابات میں تین ’’ب‘‘ کا ذکر کیا کرتے تھے،باپ، باس اور بادشاہ۔اولین طور پر گھر میں باپ اچھی تربیت کرتا ہے پھر باس کا نمبر آتا ہے جس میںاساتذہ کرام بھی شامل ہیں۔ اگر ملک کاحکمران اچھاہو گا تو قوم بھی اچھی ہو جائے گی ۔لیکن وہ کہتے تھے ’’اب حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ کسی ایک حاکم کے بس میں نہیں، دس ہزار اچھے حکمران کوئی تبدیلی لا سکیں گے ۔
    سلیمہ ہاشمی اور شعیب ہاشمی ان کو ٹی وی میں لائے۔ملی نغمہ لکھوایا، فیض صاحب کے دفتر گئے انہوں نے کہا کہ اس نے ایک ملی نغمہ لکھا ہے انہوں نے کہا کہ ہے تو اچھا مگر یہ چلے گانہیں، اور پھر وہ نغمہ سنسر ہو گیا۔
    جب پائلٹ بننے گئے توایک افسر نے کہا کہ ’’ہمارے پاس آپ کے مطلب کا جہاز ہی نہیں ہے‘‘ ۔ چنانچہ وہیں سے سائیکل این سی اے کی جانب موڑ لی،کچھ ہی دیر بعد ٹیسٹ ہونے والا تھا جناب بھی بیٹھ گئے اور پاس بھی ہو گئے۔ ایک دن سلیمہ ہاشمی نے بے کار دیکھا تو انہیں ٹی وی سٹیشن بھجوا دیا جہاں سے منزہ ہاشمی نے انہیں اکڑ بکڑ پروگرام میں کاسٹ کر لیا۔جس کے بعد ٹی وی دروازے کھلتے چلے گئے۔
    انکل سرگم کی تخلیق بجائے خود سوچ بچار کا نتیجہ ہے۔وہ کہا کرتے تھے کہ ’’ہمارے ہاں لوگ کرداروں کو اپنا لیتے ہیں اور پھر ان میں کوئی تبدیلی برداشت نہیں کرتے ، ایک پیٹرن بن جاتا ہے جس سے نکلنا رائٹر کے بس میں بھی نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ ہم نے اپنے ایک کردار کی شادی کرا دی۔لوگ بہت ناراض ہوئے کہ یہ کیا کر دیا ، لوگ کردار کو ایک ہی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں ،اس پر مصنف کا کنٹرول کم رہ جاتا ہے۔ لہٰذا اگلے دن ہم پھر پرانی ڈگر پر واپس آ گئے اور کہہ دیا کہ انکل سرگم نے خواب دیکھا تھا‘‘۔
    انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انکل سرگم کا کردار تخلیق کریں گے لیکن کیا۔ یوں ان کے تمام ہنر اتفاقیہ طور پر نکھر کر سامنے آئے،وہ خود نہیں جانتے تھے کہ ان میں کون کون سے ہنر موجود ہیں۔انکل سرگم کے سارے کردار اپنے ارد گرد کے ہی تھے ۔انکل سرگم کا حلیہ رومانیہ کے ایک سابق استاد کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا ، پہلے نام پروفیسر سرگم رکھا ، پھرسوچا کہ پروفیسر کا لفظ نامناسب ہے اس لئے انکل لگا دیا۔ 1976ء میں پہلا پروگرام نشر ہوا۔گھر میں ایک خاتون کا آناجانا تھا، انہیں امی جان ماسی مصیبتے کہا کرتی تھیں ،وہ محلے بھر کی خبریں چٹخارے لے لے کر سنایاکرتی تھیں ۔یہ کردار وہاں سے لیا۔
    فاروق قیصر علم و ادب کی دنیا کا ایک ایسا نام ہیں، جنہوںنے ’’کٹھ پتلیوں ‘‘ سے وہ باتیں کہلوا دیں جو انسان حکمرانوں اور اداروں کے سامنے بیان کرنے کی جسارت کر ہی نہیں سکتا تھا،سیاسی طنز و مزاح شگفتہ شگفتہ انداز میں کہہ جاتے تھے۔ انہوں نے سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں سرکاری ٹیلی وژن کے ذریعے سے محکمانہ خرابیوں ، بدعنوانیوں اور نااہلیوں کو اس خوبصورتی سے بے نقاب کیا کہ سبھی عش عش کر اٹھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’’فرد ہر بات کہہ سکتا ہے مگر کہنے کا ڈھنگ آنا چاہئے‘‘۔ پپٹ شوز کے ذریعے انہوں نے طنز کے نشتر ہی نہیں برسائے بلکہ بچوں اور بڑوں کو ہنسنا سکھایا اور بھلائی کا ناقابل فراموش پیغام دیا۔ ان کے پتلی تماشا میں عام سے لفظوں میں بھاری بھرکم پیغام چھپا ہوتا تھا، لفظوں میں تلوار جیسی کاٹ تھی۔ کچھ لوگ کوشش کرکے اچھا انسان بھی بن جاتے تھے۔
    کیا آپ نہیں جانتے ؟ ایک وقت آیاتھا جب پولیو کی خوراکیں پلانے والی ٹیموں پر حملے ہو رہے تھے ، اس کڑے وقت میں فاروق قیصر ہی کام آئے ۔ ایک عالمی ادارے نے سروے کے بعد فاروق قیصر کو بتایا کہ ’’عوام ان کے پپٹ شو کی زبان سمجھتے ہیں ، ان پر اعتماد کرتے ہیں،وہ جانتے ہیں کہ فاروق قیصر کا پتلی تماشا جھوٹ نہیں بولے گا اس لئے آپ ہماری مدد کریں‘‘۔یہ سننا تھا کہ فاروق قیصر پولیو مہم کے حق میں اٹھ کھڑے ہوئے ، یوں انہوں نے بے شمار بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے میں مدد دی۔
    ’’ہور پوچھو‘‘،’’کالم گلوچ‘‘،’’میٹھے کریلے‘‘ اور ’’میرے پیارے اللہ میاں‘‘ ان کی کتابوں کے ٹائٹلز ہیں ۔ ان کے پروگرامز ’’کلیاں‘‘ 1976ء میں،’’ڈاک ٹائم‘‘ 1993ء میں، ’’سرگم سرگم‘‘ 1995ء میں ،’’سیاسی کلیاں‘‘ 2010ء میں اور ’’سرگم بیک ہوم‘‘2016ء میںنشر ہوئے۔دو بیٹیاں اور ایک بیٹا پسماندگان میں چھوڑے ہیں۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں